کشف الیقین فی فضائل امیر المؤمنین (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
دوسرے اسامی | کشف الیقین فی فضائل امیر المؤمنین |
مصنف | علامہ حلی (متوفای 726ھ) |
سنہ تصنیف | قرن ششم |
موضوع | فضائل علیؑ |
مذہب | شیعہ |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | وزارت ارشاد تہران |
سنہ اشاعت | 1411ھ |
اردو ترجمہ | |
ای بک | http://lib.ahlolbait.com/parvan/resource/42680/ |
کشْفُ الیقین فی فَضائل أمیرالمؤمنین علیہ السلامحضرت علیؑ کی ولادت سے شہادت تک کے فضائل پر مشتمل علامہ حلی (متوفی: 726ھ) کی ایک کتاب ہے جو اہل سنت کے مآخذ سے مستند ہے۔ علامہ حلی نے اس کتاب کو اولجایتو کی درخواست پر لکھا ہے۔ علامہ مجلسی نے بحارالانوار لکھنے کے لئے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔
مؤلف کے بارے میں
ابومنصور جمال الدین، حسن بن یوسف بن مطہّر حلّی (648-726ھ) آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین ہیں جو علامہ حلی کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے مناظروں اور تالیفات کی وجہ سے اولجایتو (سلطان محمد خدا بندہ) مذہب شیعہ کی طرف مائل ہوئے اور ایران کے صوبہ گیلان میں شیعیت پھیل گئی۔ علامہ حلی نے فقہ، اصول، عقاید، فلسفہ، منطق اور دیگر علوم میں مختلف کتابیں تالیف کی ہیں جن میں تبصرة المتعلمین فی احکام الدین، کشف المراد، نہج الحق و کشف الصدق، باب حادی عشر، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال اور الجوہر النضید سر فہرست ہیں۔
تالیف کی وجہ
علامہ حلی اپنی کتاب کشف الیقین کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ اولجایتو (مغل حکمران جو علامہ اور بعض دیگر شیعہ علما سے متاثر ہوکر شیعہ مذہب اختیار کر گئے۔) نے ان سے درخواست کی کہ امام علیؑ کے فضائل پر مشتمل کوئی کتاب تدوین کی جائے۔ علامہ نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے ایک مختصر کتاب لکھی۔[1] علامہ نے اسی کتاب کے مقدمہ اور آخری سطور دونوں میں اس بات کا اعادہ کیا کہ امیر المومنین کے تمام فضائل کا شمار ناممکن ہے۔[2][یادداشت 1]
مندرجات
مؤلف نے اس کتاب کو ایک دیباچہ اور 4 فصلوں پر تقسیم کیا ہے:
- پہلی فصل ولادت سے پہلے کے فضائل؛
- دوسری فصل خلقت اور ولادت کے دوران کے فضائل؛
- تیسری فصل دوران بلوغ کے فضائل؛ یہ فصل دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہے: الف-داخلی اور ذاتی صفات و فضائل، ب- بیرونی فضائل، جیسے، آپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات اور رسول اللہؐ کی روایات۔
- چوتھی فصل امیر المومنین کے مابعد الشہادت کے فضائل۔[3]
علامہ حلی نے ہر مختصر اور جزئی مطلب کے لئے بھی ایک مستقل عنوان دیا ہے یہاں تک کہ ایک روایت کے لیے بھی عنوان دیا ہے جس کی وجہ سے مطلب ڈھونڈنے میں آسانی ہوتی ہے۔
مؤلف کتاب کے مقدمے میں سلطان محمد خدابندہ کی تعریف و تمجید کرتے ہیں جنہوں نے امام علیؑ کی فضیلت میں ایک کتاب لکھنے کی درخواست کی اور یہ بھی تصریح کرتے ہیں کہ حضرت علیؑ کے تمام فضائل لکھنا بہت سخت اور ملال آور ہے۔ (کیونکہ تمام صفات کا احصاء ناممکن ہے) اپنے اس ادعا کو ثابت کرنے کے لئے مناقب خوارزمی کی ابن عباس سے منقول ایک حدیث نبوی نقل کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے: اگر تمام درخت قلم بن جائیں، تمام سمندر سیاہی، تمام جن گنتی کرنے والے اور تمام انسان لکھنے والے بن جائیں پھر بھی علی بن ابی طالبؑ کے فضائل کی گنتی نہیں کر سکیں گے۔[4] اسی مقدمے میں علامہ حلی اپنا مدعی ثابت کرنے کے لئے ایک شعر بیان کرتے ہیں کہ جس میں شاعر نے ان پر امام علیؑ کے فضائل ترک کرنے کا الزام لگانے والوں سے کہا ہے کہ مجھ پر امیر المومنین کے فضائل ترک کرنے کا الزام نہ لگائیں کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ تمام اہل آسمان اور اہل زمین قنبر (امیر المومنین کے خادم) کے فضائل کی گنتی سے بھی عاجز ہیں۔ انہوں نے مزید بعض علماء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں امام علیؑ کے فضائل کے بارے میں کہتا ہے کہ میں اس شخص کے بارے میں کیا کہوں جن کے فضائل کو ان کے دشمنوں نے حسد کی وجہ سے اور ان کے دوستوں نے خوف کی وجہ سے چھپایا ہو لیکن اس کے باوجود ان کے فضائل دنیا کے مشرق و مغرب میں بھرے پڑے ہیں۔[5]
اس کتاب میں مذکور فضائل میں سے پہلی فضیلت تورات سے نقل ہوئی ہے۔ اللہ تعالی حضرت ابراہیم سے کہتا ہے کہ میں نے اسماعیلؑ کے بارے میں تمہاری دعا قبول کی ہے، اس کی نسل کو زیادہ اور بابرکت قرار دیا ہے اور اسی نسل سے اس کے لئے 12 شریف پیدا ہونگے اور ان کو ایک بڑا گروہ قرار دونگا۔ علامہ حلی اس روایت کے بعد لکھتے ہیں کہ بلاشبہ امیر المومنینؑ ان بارہ افراد میں سے ایک ہیں اور اس فضیلت میں کوئی بھی ان کے شریک نہیں ہوسکتا ہے۔[6] اس کتاب میں مذکور آخری فضیلت احسان کے بارے میں ایک واقعہ ہے جو متوکل کی ماں نے اولادِ پیغمبرؐ (علوی سادات) میں سے کسی ایک کے ساتھ کیا ہے اور وہ خواب جو انہوں نے دیکھا تھا اور پیغمبر اکرمؐ نے ان کے بارے میں دعا کی تھی۔[7]
کتاب کے مآخذ
اس کتاب کے مآخذ سوائے چند ایک کتابوں کے باقی سب اہل سنت کے مصادر ہیں۔ جن میں مسند احمد، مناقب خوارزمی، خصائص طبری، الیواقیت، اسباب النزول واحدی، مناقب ابن مغازلی اور بشارة المصطفی شامل ہیں۔
مؤلف نے تمہید میں اختصار کا جو وعدہ دیا تھا اس وجہ سے روایت کے اسناد کو ذکر کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے صرف معصوم اور آخری راوی کا نام اور جس کتاب سے اخذ کیا ہے اس کا نام ذکر کیا ہے۔ علامہ مجلسی نے بحارالانوار کی تدوین میں اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔[8]
کتاب کے نسخے
- تہران یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود نسخہ جو 1796 نمبر سے درج ہے۔ یہ نسخہ شیخ بہائی کے جد اعلی محمد جبعی نے لکھا ہے۔ اس نسخہ کی کتابت 21 شعبان سنہ 852ھ کو مکمل ہوئی۔ اس نسخے کو علامہ کے نسخے سے موازنہ کیا گیا ہے۔[9]
- تہران یونیورسیٹی کی مرکزی لائبریری میں موجود نسخہ جس کے لکھنے والے کا نام معلوم نہیں ہے لیکن آخر میں یہ جملہ لکھا گیا ہے: «بلغ القبال بعون اللَّہ الملک المتعال و صلّی اللَّہ علی محمّد و آلہ خیر آل.»[10]
- تہران یونیورسیٹی کی مرکزی لائبریری میں موجود نسخہ جس کی کتابت ربیع الآخر سنہ 1232ھ کو مکمل ہوئی ہے۔[11]
- آیت اللہ مرعشی نجفی کی لائبریری میں موجود نسخہ جس کی تدوین 11 جمادی الثانی سنہ 1086ھ بروز پیر مکمل ہوئی ہے۔[12]
- نسخہ چاپ سنگی جو مکمل طور پر موازنہ ہوچکا ہے۔ جس کی تدوین ربیع الاول سنہ 1298ھ بروز منگل مکمل ہوئی ہے۔[13]
طباعت
اس کے بعد یہ کتاب متعدد بار زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔
ترجمے
اس کتاب کا علی اکبر عقیلی آشتیانی نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے[15] اور فارسی میں بھی متعدد ترجمے موجود ہیں جن میں محمد اسماعیل، حمید رضا آژیر اور سید مجتبی علوی تراکمہ ای کے ترجمے مشہور ہیں۔
بیرونی روابط
حوالہ جات
- ↑ حلی، کشف الیقین، 1411ھ، ص1 و 2۔
- ↑ حلی، کشف الیقین، 1411ھ، ص3و4 و492
- ↑ حلی، کشف الیقین، 1379 ہجری شمسی، ص26۔
- ↑ علامہ حلی، کشف الیقین فی فضائل امیرالمؤمنین، ج1، ص2۔
- ↑ علامہ حلی، کشف الیقین فی فضائل امیرالمؤمنین، ج1، ص3-4۔
- ↑ علامہ حلی، کشف الیقین فی فضائل امیرالمؤمنین، ج1، ص2۔
- ↑ علامہ حلی، کشف الیقین فی فضائل امیرالمؤمنین، ج1، ص490-492۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج1، ص17۔
- ↑ علامہ حلی، كشف اليقين، 1411هـ، ص27-28.
- ↑ علامہ حلی، كشف اليقين، 1411هـ، ص27-28.
- ↑ علامہ حلی، كشف اليقين، 1411هـ، ص27-28.
- ↑ علامہ حلی، كشف اليقين، 1411هـ، ص27-28.
- ↑ حلی، کشف الیقین، 1379 ہجری شمسی، ص27۔
- ↑ حلی، کشف الیقین، 1379 ہجری شمسی، ص26۔
- ↑ Certainty Uncovered
نوٹ
- ↑ و لنقتصر على ہذا القدر في ہذا المختصر فإن من رام إحصاء جميع الفضائل فقد طلب المحال لأن فضائلہ عليہ أفضل الصلاة و السلام لا تحصى كثرة
مآخذ
- حلی، حسن بن یوسف، کشف الیقین، تحقیق حسین درگاہی، 1411ھ۔
- حلی، حسن بن یوسف، کشف الیقین، ترجمہ حمیدرضا آژیر، تہران، وزارت ارشاد، 1379ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسة الوفاء، 1403ھ۔
- کتاب شناخت سیرہ معصومان، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نور۔