پیشوائے صادق (کتاب)

ویکی شیعہ سے
پیشوائے صادق
مشخصات
مصنفآیت اللہ خامنہ ای
سنہ تصنیف1358 ہجری شمسی
موضوعامام صادقؑ کی سیاسی اور سماجی سیرت
زبانفارسی
مذہبشیعہ
تعداد جلد1
ترجمہانگریزی، عربی اور سندھی زبان میں
طباعت اور اشاعت
ناشردفتر نشر فرہنگ اسلامی
مقام اشاعتتہران
سنہ اشاعت1383 ہجری شمسی
اردو ترجمہ
نام کتابپیشوای صادق


پیشوائے صادق ایران کے سپریم لیڈر آیت‌ اللہ خامنہ‌ ای کی ایک کتاب ہے جو امام صادقؑ کی سیاسی اور سماجی سیرت کے بارے میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے(سنہ 1345-1350ہجری شمسی) کی گئی ان کی تقریروں کا مجموعہ ہے۔ سنہ 1358ہجری شمسی میں ان مطالب کو جمہوری اسلامی نامی اخبار میں یادداشت کی صورت میں اور سنہ 1358 سے 1360ہجری شمسی کو کتاب کی شکل میں نشر کیا گیا۔ اس کتاب کی تحریر کا اصل مقصد امام صادقؑ کے بارے میں پیدا ہونے والے اس غلط تأثر کو ختم کرنا ہے جس میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ امام صادقؑ نے سیاسی جد و جہد سے پرہیز کرتے ہوئے حاکمان وقت کے ساتھ مصلحت اندیشی اختیار کی ہے۔ اس کتاب میں امامت کے مفہوم اور اس کے اہداف کو واضح کرتے ہوئے ڈھائی سو سالہ انسان کے نظریے کی بنیاد پر امام صادقؑ کے مقام و منصب اور امامت کے دوران آپ کے سیاسی اور سماجی اقدامات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

موضوع کتاب

پیشوائے صادق امام صادقؑ کی سیاسی اور سماجی سیرت پر تحریر کردہ ایک کتاب ہے جو ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ‌ ای کی تقریروں کا مجموعہ ہے جو اس وقت ایران میں پہلوی حکومت کے خلاف برسرپیکار سرگرم علماء میں سے تھے اور انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد اہم عہدوں پر فائز رہا ہے ان میں سب سے اہم عہدہ امام خمینی کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی رہبریت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسلامی انقلاب کے اوائل میں امام صادق علیہ السلام کی سیاسی اور سماجی سیرت سے یہ غلط تأثر لیا جا رہا تھا کہ امامؑ نے کوئی سیاسی جد و جہد نہیں کی بلکہ حاکمان وقت کے ساتھ سازش اور مصحلت اندیشی سے کام لیا ہے۔[1] اسی غلط تأثر کو ختم کرنے کے لئے اس کتاب کو تحریر کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ثابت کیا گیا ہے کہ امام صادقؑ نے حاکمان وقت کے ساتھ کوئی سازش نہیں کی اور نہ ہی مصلحت اندیشی سے کام لیا ہے بلکہ امام نے باقاعدہ سیاسی جد و جہد انجام ہے۔[2]

اس کتاب میں تاریخی قرائن و شواہد سے استناد کرتے ہوئے یہ کوشش کی گئی ہے کہ امام صادقؑ نے نہ سیاسی جد و جہد سے پرہیز کیا اور نہ ہی حاکمان وقت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا ہے۔ آپؑ نے کبھی بھی مصلحت اندیشی سے کام نہیں لیا ہے۔[3]

مصنف کا بنیادی نظریہ

کتاب پیشوائے صادق میں شیعہ ائمہؑ کی سیرت کو ڈھائی سو سالہ انسان کی زندگی سے تشبیہ دی گئی ہے اس کے مطابق ائمہ معصومینؑ میں سے ہر ایک نے تقاضائے حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام کی سربلندی کے لئے بہترین طریقہ اور سیاسی موقف اختیار کیا ہے۔[4] سکوت، تعاون،[5] جنگ بندی، جہاد،[6] خفیہ جد و جہد، ثقافتی اور قابل تبیین امور[7] کی انجام دہی منجملہ ائمہ معصومینؑ کے اهم اقدامات میں سے ہیں۔

ائمہ معصومین میں سے امام صادقؑ، اہل‌ بیتؑ کی سیاسی زندگی میں سب سے مؤثر کردار کے حامل رہے ہیں اور انہوں نے ائمہ معصومینؑ کے مورد نظر حکومت کے قیام کے لئے کوششیں کی ہیں۔[8] اس کتاب میں امامت کے اہداف کی وضاحت کرتے ہوئے 250 سالہ انسان کے نظریے کی بنیاد پر امام صادقؑ کے مقام و منصب اور ان کی سیاسی جد و جہد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔[9]

کتاب کے مندرجات

کتاب پیشوائے صادق کے پہلے نصف حصے میں امامت کے فلسفے کو 250 سالہ انسان کے نظریے کی بنیاد پر امام باقرؑ کی سوانح حیات تک بیان کیا ہے۔[10] مصنف نے کتاب کے اس حصے میں امام صادقؑ کے حوالے سے تین موقف پیش کیے ہیں؛[11] ان میں سے دو موقف کو جس کے بارے میں مصنف کا خیال ہے کہ یہ دو موقف امام صادقؑ کے حوالے سے لوگوں میں مشہور ہیں، رد کرتے ہوئے تیسرا موقف جو کہ خود مصنف کا نظریہ ہے؛ کو ثابت کیا ہے:

  • «جانبدارانہ موقف»: اس نظریے کے مطابق امام صادقؑ نے اپنے زمانے کی سیاسی حالات کو شیعوں کی تعلیم و تربیت کا بہترین وقت پا کر اسی میں اس حد تک مصروف ہوئے کہ سیاسی جد و جہد حتی امر بہ معروف و نہی از منکر جیسے دینی فریضے پر عمل کرنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ اس بنا پر آپ نا چار حاکمان وقت کے ظلم و جور کے مقابلے میں ان کی مدح سرائی پر مجبور ہوئے۔ یہ نظریہ ان لوگوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے جو خود کو امام کے پیروکار اور دوستدار مانتے ہیں۔[12]
  • «معترضانہ موقف»: اس نظریے کے مطابق امام صادقؑ نے جس وقت ظلم ہر جگہ پھیلا ہوا تھا، اپنی عافیت اور سلامتی کا سودا کیا اور ایک انسانی رہبر اور رہنما کی ذمہ داری سے غفلت برتتے ہوئے تعلیم و تربیت میں مشغول ہوئے؛ حالانکہ شیعوں کو گرفتار کر کے قید خانوں میں تشدد کا نشانہ بناتے یا انہیں قتل کرتے تھے۔[13]

ان دو موقفوں کا نقص

مصنف کے مطابق پہلا موقف بعض جعلی احادیث کی بنیاد پر اختیار کیا گیا ہے جن کے مضامین میں غور کرنے سے ان کے خودساختہ ہونے کا یقین ہوتا ہے؛ کیونکہ امامت کا منصب چاپلوسی اور آؤ بھگت جیسی بری صفات سے متصف ہونے سے بالاتر ہے؛ اور وہ بھی طاغوتوں اور ستمگروں کی۔[14] دوسرا موقف بھی انتہائی سست، جاہلانہ اور مشتشرقین کے نظریات سے مشابہت رکھنے والا موقف ہے جو اکثر اوقات بغض و دشمنی یا جہالت اور نادانی کی وجہ سے اختیار کیا جاتا ہے۔[15]

تیسرا موقف اور مصنف کا نظریہ

مصنف کی نظر میں امام صادقؑ اور دوسرے ائمہ معصومینؑ کے بارے میں صحیح موقف اور نظریہ یہ ہے کہ شیعہ ائمہؑ خود پیغمبر اکرمؐ کی طرح معاشرے میں اسلامی عادلانہ نظام کو انہی خصوصیت اور اہداف کے ساتھ جن کی طرف قرآن نے واضح طور پر اعلان کیا ہے، نافذ کرنے کے علاوہ کوئی اور ہدف اور مقصد کی طرف گئے ہی نہیں ہیں؛ کیونکہ امامت در حقیقت نبوت ہی کا تسلسل ہے۔[16]

مصنف آگے چل کر امام صادقؑ کی زندگی کا تجزیہ اور تحلیل کرتے ہوئے امام صادقؑ کی سیرت سے بہتر آگاہی کے لئے آپ کے حالات زندگی کو تین بنیادی حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:[17]

  1. مسئلہ امامت کی تبلیغ اور تشریح[18]
  2. شرعی احکام کی شیعہ فقہ کے مطابق توضیح اور تشریح نیز شیعہ نقطہ نظر کے تحت قرآن کی تفسیر[19]
  3. خفیہ طور پر سیاسی اور نظریاتی اشخاص کی تربیت[20]

اشاعت اور ترجمہ

کتاب پیشوائے صادق امام صادقؑ کی سیاسی اور سماجی سیرت کے بارے میں ایران کے سپریم لیڈر آیت‌ اللہ خامنہ‌ ای کی 1345ہجری شمسی سے 1350ہجری شمسی کے درمیان کی ہوئی تقریروں کا مجموع ہے۔[21] کتاب کے مندرجات کو سنہ 1358 ہجری شمسی میں خود مصنف نے اپنی یادداشت کے عنوان سے جمہوری اسلامی نامی اخبار میں نشر کیا اور سنہ 1358 سے 1360ہجری شمسی کے دوران کتاب کی شکل میں شایع ہوئے۔[22] کچھ عرصہ بعد بعض تحریری غلطیوں کی بنا پر کتاب کی اشاعت روک دی گئی۔[23] بعد میں مؤسسہ انقلاب اسلامی نے اصل یادداشتوں کی طرف مراجعہ کر کے ان غلطیوں کی اصلاح کی[24] اور سنہ 1383 ہجری شمسی کو دفتر نشر فرہنگ اسلامی نے اس کتاب کو 113 صفحوں میں شایع کیا۔

اہل‌ بیت عالمی اسمبلی نے اس کتاب کا انگریزی، عربی اور سندھی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔[25]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. کتاب پیشوای صادق برداشت‌ہای اشتباہ از سیرہ امام صادق(ع) را تصحیح کردہ است خبرگزاری رسمی حوزہ
  2. کتاب پیشوای صادق برداشت‌ہای اشتباہ از سیرہ امام صادق(ع) را تصحیح کردہ است خبرگزاری رسمی حوزہ۔
  3. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص69-113۔
  4. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص11۔
  5. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص16۔
  6. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص19۔
  7. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص19-113۔
  8. ملاحظہ کریں: خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص72-87۔
  9. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص67-113۔
  10. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص11-67۔
  11. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص1۔
  12. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص2۔
  13. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص5۔
  14. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص8۔
  15. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص10۔
  16. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص11-13۔
  17. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص67۔
  18. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص69۔
  19. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص88۔
  20. خامنہ‌ای، پیشوای صادق، 1383ہجری شمسی، ص96۔
  21. سیرہ فرہنگی و سیاسی «پیشوای صادق (ع)» از زبان امام خامنہ‌ای خبرگزاری آنا۔
  22. معرفی کتاب |کتاب پیشوای صادق تألیف امام خامنہ‌ای پایگاہ اطلاع‌رسانی ہیئت رزمندگان۔
  23. کتاب «پیشوای صادق» در قم معرفی شد خبرگزاری مہر۔
  24. کتاب «پیشوای صادق» در قم معرفی شد خبرگزاری مہر۔
  25. کرمانی و روزبہ، آینہ آثار: کارنامہ ترجمہ مجمع جہانی اہل‌بیت، 1401ہجری شمسی، ص19۔

مآخذ