250 سالہ انسان کا نظریہ

ویکی شیعہ سے
(نظریہ انسان 250 سالہ سے رجوع مکرر)

250 سالہ انسان کا نظریہ، اس نظریے کے مطابق بنی امیہ اور بنی عباس کے دور حکومت میں شیعہ ائمہ کی سیاسی زندگی اور جہد مسلسل میں پائی جانے والی یگانگت کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں 250 سالہ انسان کہا جا سکتا ہے۔ اس نظریے کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب سے پہلے پیش کیا تھا۔ اس سلسلے میں ان کا عقیدہ ہے کہ شیعہ ائمہ کی سیاسی زندگی اگرچہ بظاہر ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتی ہے لیکن مجموعی طور پر یہ ایک طولانی جہد مسلسل ہے جو 250 سالوں پر محیط ہے اور ان سب نے ایک معین مقصد کی تکمیل یعنی انسانیت کو کمال تک پہنچانے اور اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے حالات کے تقاضوں کے مطابق مختلف طریقوں سے اپنے دشمنوں کا مقابلہ کیا ہے۔

اس نظریے کے مطابق شیعہ ائمہ کی 250 سالہ زندگی کو 4 ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:‌ 1- صبر اور خاموشی کا 25 سالہ دور، 2- مختصر اقتدار کا دور، 3- 20 سالہ مخفی اور تنظیمی سرگرمیوں کا دور، اور 4- اسلام کے فکری مبانی کے احیاء کا دور جو امام سجادؑ کے دور امامت سے شروع ہوا۔

نظریہ کی وضاحت

250 سالہ انسان کے نظریہ کے مطابق حضرت محمدؐ کے بعد معصومینؑ کو ایک واحد انسان سمجھا جاتا ہے جو 11 سے 260 ہجری تک ہمیشہ جہاد کرتے رہے اور اس وقت کے ظالم حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف مسلسل سیاسی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔[1] اس نظریہ کے مطابق تمام اہل بیتؑ وہ انسان تھے جو اس مقصد کے حصول کے لئے 250 سال سے ایک مخصوص فکر اور ہدف کے ساتھ لڑ رہے تھے، اس شخص نے معاشرے کے تمام افراد کو اسلام کے حقیقی مکتب فکر تک پہنچانے کے لیے مختلف خصوصیات کا استعمال کیا ہے۔ جیسے عصمت، کتاب خدا اور رسول اللہؐ کے ارشادات سے الہام، سماجی صورتحال اور مکتب اسلام سے گہری آگاہی۔ لہذا وہ اس مقصد سے کسی بھی طرح سے ہٹے نہیں اور معاشرے کو حقیقی اسلام کی طرف لانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا۔[2] ان 250 سالوں میں[3] شیعہ اماموں کی زندگی کی سب سے اہم خصوصیت جو معصومین (ع) کے کردار کے اتحاد کو واضح کرتی ہے وہ ان حضرات کی سخت سیاسی جدوجہد ہے۔[4] اس نظریہ کے مطابق امام حسینؑ کے بعد کے تمام ائمہ درحقیقت ان کے ہی جیسے نبرد آزما تھے اور اسی دشمن سے لڑے جس سے امام حسین (ع) نے جنگ کی اور شہادت حاصل کی۔ لیکن ان کے جہاد کی شکل حالات کے مطابق بدل گئی۔[5]

دلایل

علی رضا اعرافی کا کہنا ہے کہ اس نظرئے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ شیعوں کی نظر میں ان کے ائمہ سب ایک ہی نور ہیں،جیسا کہزیارت جامعہمیں اس بات کی تصریح ہوئی ہےکہ ان کی طینت ایک ہے۔ اعرافی امام صادقؑ کی ایک روایت نقل کرتے ہوئے تمام ائمہ کے علم اور فضیلتوں کو ایک سمجھتے ہیں۔[6]

پس منظر اور اختراع

جمہوری اسلامی ایران کے رہبر سید علی خامنہ ای نے 250 سالہ انسان کے نظریہ کو انقلاب اسلامی سے پہلے سنہ 1350 ہجری شمسی کو پیش کیا تھا۔[7] ان کے مطابق ان 250 سالوں کے دوران اہل بیت (ع) کے فکر و عمل میں مختلف طریقوں سے ایک مسلسل خط سیاسی دیکھی جا سکتی ہے۔[8] اور اس تمام عرصے میں ان کی تحریک اور زندگی ایک خاص سمت رکھتی تھی اور ایک خاص جگہ سے یعنی قرآن و سنت سے متاثر تھی۔[9] اس کے باوجود بعض کا خیال ہے کہ ان سے پہلے سید محمد باقر صدر تمام شیعہ ائمہ (ع) کی زندگی کے بارے میں یکساں نظریہ رکھتے تھے، لیکن اس نظریہ کے مطابق سید علی خامنہ ای کا پیش کردہ نظریہ مطالب و مفاہیم کے اعتبار سے "زیادہ سیاسی" اور "زیادہ تخلیقی" ہے۔[10]

250 سالہ ادوار کی خصوصیات

شیعہ ائمہ کی تحریک کا نقشہ راہ

سارے ائمہ کی شخصیت ایک ہونے کے ناطے اور علی رضا اعرافی کے کہنے کے مطابق ائمہ علیہم السلام جس میدان میں کام کرتے تھے انہیں چار جہتوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

  • ملحد اور خدا کو نہ ماننے والوں کے ساتھ علمی، فکری اور معاشرتی طور پر مقابلہ[11]
  • دشمن کے مقابلے میں مسلمانوں کا باہمی اتحاد قائم رکھتے ہوئے اور شیعہ عقائد کی پاسداری کرتے ہوئے دیگر اسلامی مذاہب کے فقہی اور کلامی نظریات کے ساتھ مقابلہ[12]
  • تشیع کے داخلی انحرافات اور بےراہ روی کا مقابلہ[13]
  • بنی امیہ اور بنی عباس کے خلفاء کے ساتھ سیاسی اور معاشرتی مقابلہ[14]

250 سالہ دور چار مرحلوں میں تقسیم

250 سالہ انسان کے نظریہ کے مطابق ائمہؑ کی سیاسی زندگی کو ان کے ظاہری اختلافات کے ساتھ چار مختلف ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔[15]

  1. پہلا دور: 25 سالہ سکوت، زمانہ خلافت کا آغاز، تینوں خلفا کے زمانہ میں امام علیؑ کا دور کہ جسے دور صبر کے عنوان سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔[16]
  2. دوسرا دور: حکومت ائمہؑ کے آغاز کا دور کہ جو امام علیؑ کی خلافت اور امام حسنؑ کے مختصر دور خلافت سے شروع ہوتا ہے۔ اس دور کی سب سے اہم خصوصیت حقدار کو حق کا حصول اور رسول خداؐ کی حکومت جیسی انقلابی حکومت کا قیام ہے۔[17]
  3. تیسرا دور: ائمہ معصومین علیہم السلام کی خفیہ اور تنظیمی سرگرمیوں کا دورانیہ سنہ 41 ہجری قمری سے سنہ 61 ہجری قمری تک ہے۔ اس دور کی سب سے اہم خصوصیت مجاہدین سپاہیوں کے ذریعہ معاشرے میں فکری پس منظر کی تشکیل اور ایسے لوگوں کی تربیت ہے جو امام حسینؑ کی مدد کر سکیں اور مقصد کے حصول کے لیے اپنے کام کو منظم کر سکیں۔[18]
  4. چوتھا دور: یہ دور امام سجادؑ کی امامت کے آغاز سے شروع ہوتا ہوا سنہ 250 ہجری قمری تک جاری رہتا ہے۔ اس دورہ میں دو اہم کام انجام دیئے گئے:[19]
  • احیائے اسلام: اس دور میں اسلامی معاشرہ بدل چکا تھا اور خالص اسلام محمدیؐ کی نظریاتی بنیادیں، بنی امیہ کی طویل مدتی حکومت میں فراموش کر دی گئی تھیں۔ اسی وجہ سے ائمہ معصومین (ع) نے اسلام کی فکری بنیادوں کو زندہ کیا اور ان سالوں میں بنائے گئے اسلام مخالف اصولوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔[20]
  • ایک مذہبی اور خفیہ سیاسی جماعت کی تشکیل جس کا مقصد «خالص اسلام کی اصل فکر کو محفوظ رکھنا»، «ایک باقاعدہ سیاسی تحریک کی تشکیل» اور «اس باقاعدہ سیاسی تحریک کے ساتھ اسلامی طرز فکر سے وابستہ افراد کے درمیان رابطہ قائم کرنا» ہے۔ اس دور کے اہم کاموں میں سے ہیں کیونکہ امام (ع) کا ارادہ تھا کہ جب ضرورت پڑنے پر حکومت سے ٹکرانے کا ارادہ کیا جائے تو انہیں کچھ ایسے مجاہدین کی ضرورت ہوگی جو اس مقصد کے لئے پہلے سے تربیت یافتہ ہوں۔[21]

250 سالہ دور آٹھ مرحلوں میں تقسیم

اعرافی اپنی کتاب کے مقدمے میں خلاف کو امامت سے موازنہ کرتے ہوئے اسے آٹھ مرحلوں میں بیان کرتے ہیں؛

  1. حضرت علیؑ کی امامت کا دور[22]
  2. حضرت امام حسنؑ کی امامت کا دور[23]
  3. امام حسینؑ کے قیام عاشورا کا دور[24]
  4. امام سجادؑ کی امامت کا دور[25]
  5. حضرت امام باقرؑ اور امام صادقؑ کی امامت کا دور[26]
  6. حضرت امام موسی کاظمؑ کی امامت کا دور[27]
  7. حضرت امام رضاؑ کی امامت کا دور[28]
  8. حق کو باطل پر کامیابی کی نا امیدی کا دور جو نویں امام حضرت امام محمد تقیؑ کے دور سے شروع ہوتا ہے اور امام مہدیؑ کی غیبت پر ختم ہوجاتا ہے۔[29]

کتاب 250 سالہ انسان

کتاب 250 سالہ انسان، آیت اللہ خامنہ ای کی تقاریر سے 250 سالہ انسان کے نظریہ سے اخذ شدہ ہے۔ یہ کتاب سنہ 1390 ہجری شمسی میں انتشارات مرکز صہبا میں 375 صفحات میں طبع ہوئی۔[30] یہ کتاب اب تک تیرہ مرتبہ طبع ہو چکی ہے۔[31] مجمع جہانی اہل بیت اس کتاب کو مختلف زبانوں جیسے «ہوسا»، «فرینچ» اور «انگریزی» میں ترجمہ کر چکا ہے۔[32]

حوالہ جات

  1. خامنہ‌ای، ہمرزمان حسین، 1397ش، ص6۔
  2. خامنہ‌ای، دو امام مجاہد، 1396ش، ص61۔
  3. سیاہ پوش، سیاست، 1398ش، ص483۔
  4. جبرائیلی، روایت رہبری، 1398ش، ص319۔
  5. خامنہ‌ای، ہمرزمان حسین، 1397ش، ص5، 99، 100، 236۔
  6. اعرافی، خورشید عاشورا، 1396 ہجری شمسی، ص 24-25.
  7. غفاری، از نیمہ خرداد، 1398ش، ص74؛ خامنہ‌ای، انسان 250 سالہ، 1391ش، ص15۔
  8. غفاری، از نیمہ خرداد، 1398ش، ص75۔
  9. خامنہ‌ای، ہمرزمان حسین، 1397ش، ص61۔
  10. نجفی، مولفہ‌ہای تمدن‌ساز در مکتب سیاسی امام رضا(ع)، 1396ش، ص29۔
  11. اعرافی، خورشید عاشورا، 1396ش، ص31.
  12. اعرافی، خورشید عاشورا، 1396ش، ص31.
  13. اعرافی، خورشید عاشورا، 1396ش، ص32.
  14. اعرافی، خورشید عاشورا، 1396ش، ص33.
  15. خامنہ‌ای، ہمرزمان حسین، 1397ش، ص61۔
  16. خامنہ‌ای، ہمرزمان حسین، 1397ش، ص118۔
  17. خامنہ‌ای، ہمرزمان حسین، 1397ش، ص124۔
  18. خامنہ‌ای، ہمرزمان حسین، 1397ش، ص124، 148۔
  19. خامنہ‌ای، ہمرزمان حسین، 1397ش، ص124، 150۔
  20. خامنہ‌ای، ہمرزمان حسین، 1397ش، ص150، 151۔
  21. خامنہ‌ای، ہمرزمان حسین، 1397ش، ص154۔
  22. اعرافی، خورشید عاشورا، 1396ش، ص34.
  23. اعرافی، خورشید عاشورا، 1396ش، ص35.
  24. اعرافی، خورشید عاشورا، 1396ش، ص35-36.
  25. اعرافی، خورشید عاشورا، 1396ش، ص36.
  26. اعرافی، خورشید عاشورا، 1396ش، ص36-37.
  27. اعرافی، خورشید عاشورا، 1396ش، ص38.
  28. اعرافی، خورشید عاشورا، 1396ش، ص38.
  29. اعرافی، خورشید عاشورا، 1396ش، ص39.
  30. خامنہ‌ای، انسان 250 سالہ، 1391ش، ص5٬4۔
  31. خامنہ‌ای، انسان 250 سالہ، 1391ش، ص4۔
  32. «انسان 250 سالہ حلقۀ دوم»، سایت صہبا۔

مآخذ

  • «انسان 250 سالہ: حلقۀ دوم»، سایت صہبا، تاریخ بازدید: 29 شہریور 1400ھ۔
  • جبرائیلی، یاسر، روایت رہبری، مؤسسہ پژوہشی فرہنگی انقلاب اسلامی، 1398ھ۔
  • خامنہ‌ای، سید علی، انسان 250 سالہ، مرکز صہبا، 1391ھ۔
  • خامنہ‌ای، سید علی، دو امام مجاہد، مؤسسہ پژوہشی فرہنگی انقلاب اسلامی، 1396ھ۔
  • خامنہ‌ای، سید علی، ہمرزمان حسین، مؤسسہ پژوہشی فرہنگی انقلاب اسلامی، 1397ھ۔
  • سیاہ پوش، امیر، سیاست، مؤسسہ پژوہشی فرہنگی انقلاب اسلامی، 1398ھ۔
  • غفاری، مصطفی، از نیمہ خرداد، مؤسسہ پژوہشی فرہنگی انقلاب اسلامی، 1398ھ۔
  • نجفی، موسی، مؤلفہ‌ہای تمدن‌ ساز در مکتب سیاسی امام رضا(ع)، آرما، 1396ھ۔