شیخ اجازہ
شیخ اجازہ یا مشائخ اجازه و یا مشیخہ اجازه وہ استاد یا اساتذہ ہیں کہ جو دوسروں کو روایات نقل کرنے یا کتب احادیث سے حدیث نقل کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ محدثین میں شیخ اجازه ایک ایسا مقام ہے کہ تمام راویان حدیث کو حاصل نہیں تھا اور جنہیں یہ حاصل تھا وہ علم رجال کے بعض ماہرین کے نزدیک موثق ہیں اور ایسے افراد کی روایات قبول کی جاتی ہیں۔
نام رکھنے کا سبب
عربی زبان میں شیخ کا معنا سن رسیدہ اور بزرگ ہے۔ اس کی جمع مشائخ، مشیخہ اور شیوخ آتی ہے۔[1][یادداشت 1]
استاد اور عالم کو اسکے شاگردوں کی نسبت بڑے سن اور تحصیل علم میں زیادہ مدت صرف کرنے کی وجہ سے شیخ کہا جاتا ہے ۔علم حدیث کی اصطلاح میں ایسے راویوں کو شیخ کہا جاتا ہے جن سے دوسرے افراد نے روایت سنی یا نقل کی ہو۔[2]
اجازۂ حدیث
استاد اپنے مورد اطمینان شاگردوں یا دیگر افراد کو روایت اور کتبِ احادیث سے حدیث نقل کرنے کی اجازت دیتے تھے اسے اجازۂ روایت کہتے ہیں۔ جو استاد یہ اجازہ دیتا تھا اسے شیخِ اجازه کہتے تھے۔ [3]
علم رجال میں اہمیت
شیعہ علم رجال کے ماہرین شیخوخیت اجازہ کی مدح، وثاقت یا کسی ایک پر بھی دلالت نہ ہونے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں:
- بعض علما اس اجازے کو توثیقات عام میں سے سمجھتے ہیں ۔[4]؛ مثال کے طور پر کہا گیا ہے کہ محدث بحرانی مشائخ اجازه کو وثاقت کے بالاترین مراتب میں سے سمجھتے ہیں۔ [5] ابو علی حائری اسے راوی کی مدح، ستائش اور قبول روایت کا معیار قرار دیتے ہیں ۔[6] علامہ بحرالعلوم سہل بن زیاد سے روایت کرنے کو اسی وجہ سے صحیح سمجھتے ہیں چونکہ اس کے پاس مشائخ سے اجازہ موجود تھا۔[7] شہید ثانی، انکے بیٹے حسن، شیخ بہائی، علامہ مجلسی کی نسبت کہا گیا کہ وہ مشائخ اجازہ کو وثاقت پر [8] اور کہا گیا کہ مامقانی اور وحید بہبہانی اسے مدح کی علامت سمجھتے ہیں۔[9]
- مرزا ابو القاسم نراقی جیسے علما شیخ اجازه کی دلالت کو اس شرط کے ساتھ قبول کرتے ہیں کہ جب اجازہ حاصل کرنے والا ثقہ کے علاوہ کسی اور سے روایت نہ کرے۔ البتہ نراقی وثاقت پر شیخ اجازه کی دلالت کو وثاقت پر شیخ الطائفہ کی دلالت سے کم تر سمجھتے ہیں۔[10] سید محمد مجاہد کی نظر میں اثبات عدالت میں ظن کا ہونا ہی کافی ہے اس بنا پر انکے نزدیک شیخوخیتِ اجازہ وثاقت پر دلالت کرتا ہے۔[11]
- آیت اللہ خوئی نے کہا ہے کہ شیخوخیتِ اجازه راوی کی توثیق اور مدح پر دلالت نہیں کرتا ہے۔ انہوں نے اسکی دلیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ شیخ نجاشی نے حسن بن محمد بن یحیی اور حسین بن حمدان خضینی کے پاس مشائخ کے اجازے ہونے کے باوجود انکی تضعیف کی ہے۔[12]
کہا گیا ہے کہ شیخ اجازہ کی وثاقت کو پہلی مرتبہ شہید ثانی کی کلام سے اخذ کیا گیا ہے نیز محمد تقی مجلسی نے اسے پہلی مرتبہ روضۃ المتقین میں استعمال کیا ہے ۔
مرزائے قمی نے رسالة فی معرفة مشایخ الاجازة من الرواة کے نام سے اس اصطلاح کے متعلق ایک رسالہ تحریر کیا ۔[13]
نوٹ
- ↑ البتہ بعض لغات میں مشیخہ اسم جمع اور مشایخ اسکی جمع کے طور پر مذکور ہے۔(فیومی، مصباح المنیر، منشورات دارالرضی، ج۲، ص۳۲۹.)
حوالہ جات
- ↑ فراہیدی، العین، ۱۴۱۰ق، ج۴، ص۲۸۴.
- ↑ ر.ک: فضلی، اصول علم الرجال، ۱۴۲۰ق، ص۱۴۷.
- ↑ مدیر شانہ چی، علم الحدیث، ۱۳۸۱ش، ص۱۹۸؛ ر.ک: فضلی، اصول علم الرجال، ۱۴۲۰ق، ص۱۴۷.
- ↑ ر.ک. فضلی، اصول علم الرجال، ۱۴۲۰ق، ص۱۴۷؛ حسینی صدر، الفوائد الرجالیہ، ۱۴۲۰ق، ص۵۰.
- ↑ فلاح زاده ابرقوئی، مشایخ اجازه، ۱۳۸۳ش، ص۸۷.
- ↑ حائری، منتہی المقال، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۸۵.
- ↑ بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، ۱۳۶۳ش، ج۳، ص۲۵.
- ↑ علامہ مجلسی، الوجیزة فی الرجال، ۱۴۲۰ق، ص۴.
- ↑ فلاح زاده ابرقویی، مشایخ اجازه، ۱۳۸۳ش، ص۸۷.
- ↑ نراقی، شعب المقال، ۱۴۲۲ق، ص۳۱.
- ↑ مجاہد، مفاتیح الاصول، آل البیت، ص۳۷۳.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۷۶-۷۷.
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۸ق، ج۲۱، ص۲۶۱.
مآخذ
- آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، قم و تہران، اسماعیلیان و کتابخانہ اسلامیہ تہران، ۱۴۰۸ق.
- بحرالعلوم، سید مہدی، الفوائد الرجالیہ، تحقیق: محمدصادق و حسین بحرالعلوم، تہران، مکتبہ الصادق، ۱۳۶۳ش.
- حائری، محمد بن اسماعیل، منتہی المقال فی احوال الرجال، قم، مؤسسہ آل البیت، ۱۴۱۶ق.
- حسینی صدر، سید علی، الفوائد الرجالیہ؛ دراسات جامعہ و قواعد نافعۃ فی علم الرجال، قم، دارالغدیر، ۱۴۲۰ق.
- خوئی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، قم، مرکز نشر آثار شیعہ، ۱۴۱۰ق-۱۳۶۹ش.
- طباطبائی، سید محمد، آل بیت، نسخہ نرم افزار کتابخانہ اہل بیت.
- فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، تصحیح: مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم، نشر ہجرت، ۱۴۱۰ق.
- فضلی، عبدالہادی، اصول علم الرجال، بیروت، مؤسسہ ام القری للتحقیق و النشر، ۱۴۲۰ق.
- فلاح زاده ابرقویی، سید حسین، مشایخ اجازه، فصلنامہ حدیث و اندیشہ، شماره ۱۱ و ۱۲، پاییز و زمستان ۱۳۸۳ش.
- فیومی، احمد بن محمد، المصباح المنیر، قم، منشورات دارالرضی، بیتا.
- مجلسی، محمد باقر، الوجیزة فی الرجال، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۲۰ق.
- مدیر شانهچی، کاظم، علم الحدیث، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۸۱ش.
- نراقی، مرزا ابوالقاسم، شعب المقال فی درجات الرجال، تحقیق: شیخ محسن احمدی، مؤتمر المحقق النراقی، ۱۴۲۲ق.