مسجد النقطہ یا مشہد النقطہ و یا مشہد الحسین، شام کے شہر حلب میں شیعوں کا ایک زیارتی مقام ہے۔ یہ زیارتگاہ اس جگہ بنائی گئی کہ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ حضرت امام حسین کے سر کو کربلا سے دمشق لے جاتے ہوئے جب اس جگہ ایک پتھر پر رکھا گیا تو سر اقدس سے خون کے چند قطرے یہاں ٹپکے تھے۔

واقعہ اور تعمیر عمارت کے اسباب

جب اسرا اور شہدائے کربلا کے سر عراق سے حلب میں پہنچے تو اس کاروان نے اس شہر کے پاس کوہ جوشن اور معبد «مارت مروثا» پر پڑاو ڈالا۔ سپاہیوں نے امام حسین (ع) کے سر مبارک کو ایک پتھریلی چٹان پر رکھا۔ جب انہوں نے اسے اٹھایا تو سر اقدس سے چند قطرے اس مقام پر جاری ہوئے۔[1] اس کے بعد اہل حلب نے اس جگہ زیارتی عمارت بنائی۔[2]

بعض مصادر میں اس عمارت کے بنائے جانے کے دیگر اسباب ذکر ہوئے ہیں۔[3] ابن عدیم اس جگہ عمارت بنائے جانے کا سبب خواب میں امام حسین (ع) [4] یا امام علی[5] کے دیکھنے کو سمجھتا ہے۔ بعض دیگر متاخر محققین اس راہب عیسائی کا دیر (نصارا کا عبادت خانہ) سمجھتے ہیں کہ جس میں اس عیسائی راہب نے امام علیہ السلام کے سر کو ایک رات اپنے پاس رکھا تھا۔ لیکن ابن عدیم دیر اور زیارتگاہ کے درمیان تمایز کا قائل ہوا ہے وہ دیر کا مقام اس زیارتگاہ کے شمال میں ذکر کرتا ہے۔[6]

تاریخچہ

سیف الدولہ حمدانی نے سال ۳۵۰ ق میں خون جاری ہونے والے پتھر کے مقام پر ایک کمرہ اور مسجد بنوائی اور اس کا نام مسجدالنقطہ نام رکھا۔[7] لیکن بعض محققین اس عمارت کی تعمیر پہلی صدی ہجری قمری (دوران عبدالعزیز اموی) کے زمانے کی طرف لوٹاتے ہیں اور وہ سیف الدولہ حمدانی کے زمانے یعنی چوتھی صدی ہجری میں تعمیر سے مربوط واقعات اور ملک صالح اسماعیل کے زمانے یعنی چھٹی صدی ہجری کے زمانے کی تعمیرات کو توسعہ اور تعمیر و مرمت سے مربوط سمجھتے ہیں۔[8]

صلاح الدین ایوبی (۵۶۵-۵۸۹) نے اس مقام کی زیارت کی اور کچھ رقم کو اس عمارت کی توسیع کیلئے مخصوص کیا۔ اس کے بعد اس کے بیٹے ملک الظاہر غازی نے اس عمارت کیلئے ایک پن چکی وقف کی اور اسی طرح شمس الدین ابو علی حسین بن زہرہ جو اس زمانے میں حلب کے سادات کا نقیب تھا کو اس عمارت کا متولی بنایا۔ اس زمانے میں زیارت گاہ کے شمال میں چار کمرے بنائے گئے۔

۶۵۸ ق میں مغلوں اس عمارت پر حملہ اور اس کے وقفی اموال لوٹ کر ساتھ لے گئے۔ اس واقعہ کے بعد سلطان ملک الظاہر بیبرس مملوکی نے اس عمارت کی دوبارہ تعمیر کروائی اور ایک امام جماعت، مؤذن اور متولی مقرر کیا۔[9]

عثمانی دور میں ایک مدت تک اس پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ لیکن تیرھویں صدی ہجری قمری کے آخری پچاس سالوں سے حلب والوں نے اس جگہ عزاداری محرم کے مراسم یہیں برپا کرنا شروع کر دیئے۔ ان پروگراموں میں داستان ولادت پیامبر اکرم پڑھی جاتی اور نیاز تقسیم کی جاتی۔ سلطان عبد الحمید عثمانی نے اسکے کچھ حصوں کی دوبارہ تعمیر کروائی اور اس پر خرچ ہونے والی رقم املاک سلطان عبد الحمید کے خزانے سے ادا کی گئی۔ پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۴-۱۹۱۸م) کے دوران یہ جگہ جنگی ساز و سامان اور اسلحے کے ڈپو میں تبدیل ہو گئی۔[10] ۱۳۳۷ہ ق میں بم دھماکے کی وجہ سے یہ عمارت خرابے میں تبدیل ہو گئی لیکن وہ پتھر جس پر امام حسین علیہ کے خون کے قطرے جاری ہوئے تھے وہ اسی طرح محفوظ رہا اور پھر یہ پتھر مشہد الحسین میں منتقل کر دیا گیا۔[11]

۱۹۶۰ عیسوی میں اس کی دوبارہ تعمیرات و مرمت کیلئے احسان اسلامی جعفری کے نام سے مؤسسہ کی مشہدالنقطہ میں تأسیس ہوئی۔ اس مؤسسہ ۱۹۶۱ ع تا ۱۹۶۷ ع کے دوران زیارتگاہ کی تعمیرات انجام دی گئیں اور ۱۹۷۹ عیسوی میں باہر کے صحن میں دس کمرے بنائے گئے اور ۱۹۹۰ عیسوی بمطابق ۱۴۱۰ہ ق میں جس پتھر پر امام حسین ع کا خون جاری ہوا تھا اسے واپس اپنی اصلی جگہ لایا گیا۔[12]

محل وقوع

زیارتگاہ حلب کے غرب میں کوہ جوشن کے دامن میں واقع ہے۔[13] اس کے نزدیک مشہد السقط اور چند بزرگ شیعہ علما جیسے ابن زہرہ (۵۸۵ق)، ابن شہرآشوب اور احمد بن منیر طرابلسی (۵۴۸ق) کی قبور موجود ہیں۔[14] بعض محققین اس پہاڑ کے کوہ جوشن نام رکھنے کی وجہ یہاں شمر بن ذی الجوشن کا اسیران کربلا اور شہدائے کربلا کے سروں کے ہمراہ ٹھہرنا ذکر کرتے ہیں۔[15]

موجودہ صورتحال

مسجدالنقطہ کا علاقہ حلب میں بنام «حی الانصاری» مشہور ہے۔ یہ جگہ مشہد السقط کے نزدیک واقع ہے اور اس عمارت کے داخل ہونے والے دروازے پر چہاردہ معصوم کے نام کندہ ہیں۔[16]

یہ عمارت ہال پر مشتمل ہے جس کے آخر میں ایوان موجود ہے اور اس کے ایک طرف چھوٹی سی ضریح موجود ہے جس میں میں وہ پتھر نصب ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس پر امام حسین ع کا سر اقدس رکھا گیا اور اس پر خون کے قطرات جاری ہوئے تھے۔[17]

حوالہ جات

  1. حسینی جلالی، مزارات اہل البیت و تاریخہا، ۱۴۱۵ق، ص۲۳۶.
  2. غزی، نہرالذہب، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۲۱۲.
  3. غزی، نہرالذہب، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۴۱۱.
  4. ابن عدیم، بغیہ الطلب، بیروت، ج۱، ص۴۱۲.
  5. ابن عدیم، بغیہ الطلب، بیروت، ج۱، ص۲۸۴.
  6. ابن عدیم، بغیہ الطلب، بیروت، ج۱، ص۴۱۲-۴۱۳.
  7. حسینی جلالی، مزارات اہل البیت و تاریخہا، ۱۴۱۵ق، ص۲۳۶-۲۳۷.
  8. ن. ک: خامہ یار، آثار پيامبر و زيارتگاہ‌ہای اہل بيت در سوريہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۴۲-۱۴۵.
  9. خامہ یار، آثار پيامبر و زيارتگاہ‌ہای اہل بيت در سوريہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۴۲-۱۴۹.
  10. غزی، نہر الذہب، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۲۱۳.
  11. حسینی جلالی، مزارات اہل البیت و تاریخہا، ۱۴۱۵ق، ص۲۳۷-۲۳۸.
  12. خامہ یار، آثار پيامبر و زيارتگاہ‌ہای اہل بيت در سوريہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۴۲-۱۴۹.
  13. حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۲، ص۱۸۶.
  14. حسینی جلالی، مزارات اہل البیت و تاریخہا، ۱۴۱۵ق، ص۲۳۴-۲۳۵.
  15. حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۲، ص۱۸۶.
  16. حسینی جلالی، مزارات اہل البیت و تاریخہا، ۱۴۱۵ق، ص۲۳۴-۲۳۷.
  17. خامہ یار، آثار پيامبر و زيارتگاہ‌ہای اہل بيت در سوريہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۴۹-۱۵۵.

مآخذ

  • ابن عدیم، عمر بن احمد بن ابی‌جرادہ، بغیۃ الطلب فی تاریخ حلب، دارالفکر، بیروت، بی‌تا.
  • حسینی جلالی، محمدحسین، مزارات اہل البیت و تاریخہا، مؤسسہ اعلمی، بیروت،الطبعۃ الثالثہ، ۱۴۱۵ق؛۱۹۹۵م.
  • حموی بغدادی، یاقوت، معجم البلدان، دارصادر، بیروت، ۱۹۹۵م.
  • خامہ یار، احمد، آثار پيامبر و زيارتگاہ‌ہای اہل بيت در سوريہ، نشر مشعر، ۱۳۹۳ش.
  • غزی، کامل بالی حلبی، نہرالذہب فی تاریخ حلب، دارالقلم، حلب، ۱۴۱۹ق.