مندرجات کا رخ کریں

مسودہ:وعدہ خلافی

ویکی شیعہ سے
مقالہ وعدہ خلافی جیسے مقالوں کے ساتھ مربوط ہے۔

وعدہ خلافی یا بد عہدی کا مطلب وعدہ پورا نہ کرنا ہے۔ قرآن اور احادیث میں اس کی بہت مذمت کی گئی ہے۔ وعدہ خلافی ایفائے عہد کا متضاد ہے اور معاہداتی عہد و پیمان کی خلاف ورزی سے مختلف ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا اور اہل بیتؑ بھی وعدہ پورا کرنے کو ضروری سمجھتے تھے۔ احادیث نبوی میں وعدہ خلافی کو منافق کی نشانیوں میں سے ایک شمار کیا گیا ہے۔

اگرچہ اخلاقی حوالے سے وعدہ خلافی کی بہت مذمت کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود شیعہ فقہا کا مشہور نظریہ یہ ہے کہ وعدہ خلافی فقہی لحاظ سے حرام نہیں بلکہ مکروہ ہے۔ اس سلسلے میں فقہاء سیرت متشرعہ (شریعت کے پابند افراد کی روزمرہ زندگی کے طور طریقے) کا حوالہ دیتے ہیں۔ کیونکہ شریعت کے پابند افراد حتیٰ کہ معصومینؑ کے دور میں بھی، کبھی کبھار وعدہ خلافی کے مرتکب ہوتے تھے اور اسے گناہ نہیں سمجھتے تھے۔ تاہم، فقہا اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ اگر شروع سے ہی وعدہ پورا نہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، تو یہ عمل جھوٹ کے مصادیق میں شمار ہوگا اور حرام ہوگا۔

اہمیت

شیعہ محققین فقہ اور اخلاق میں وعدہ خلافی کو موضوع بحث قرار دیتے ہیں۔[1] قرآنی آیات اور اہل بیتؑ کی احادیث میں ایفائے عہد اور وعدہ خلافی سے پرہیز کرنے کو حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔[2] شیعہ محدث کلینی نے اپنی کتاب الکافی میں ایک باب وعدہ خلافی کے موضوع سے مختص کیا ہے۔[3] پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک روایت میں خدا اور آخرت پر ایمان رکھنے کو ایفائے عہد کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے[4] وعدہ خلافی کو منافق کی نشانی شمار کیا گیا ہے۔ مہدی نراقی اس روایت کو اس شخص پر حمل کرتے ہیں جو شروع سے وعدہ پورا کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو یا بغیر عذر کے اپنے وعدے پر عمل نہ کرے۔[5]

امام صادقؑ سے منقول ایک روایت میں مؤمن کا مؤمن کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو نذر کی مانند واجب قرار دیا گیا ہے جس کی خلاف ورزی پر اگرچہ کوئی کفارہ نہیں ہے لیکن اس کام کو اللہ کی نافرمانی اور غضب کا سبب اور سورہ صف کی دوسری آیت کا مصداق قرار دیا گیا ہے۔[6] اسی طرح امام علیؑ نے مالک اشتر کے نام ایک خط میں سورہ صف کی تیسری آیت سے استناد کرتے ہوئے انہیں وعدہ خلافی سے خبردار کیا ہے اور اسے اللہ اور لوگوں کے غضب اور ناراضگی کا باعث قرار دیا ہے۔[7]

مفہوم شناسی

وعدہ خلافی سے مراد اس تعہد کی خلاف ورزی ہے جو ایک شخص اپنی مرضی سے کسی دوسرے شخص کے مقابلے میں یک طرفہ طور پر اپنے ذمہ لیتا ہے اور اسے پورا کرنے سے گریز کرتا ہے۔[8] اس عمل کو بدعہدی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔[9] وعدہ خلافی ایفائے عہد کا متضاد ہے۔[10]

وعدہ خلافی اور عہد شکنی میں فرق

وعدہ خلافی کا مفہوم عہد شکنی سے مختلف ہے۔ محققین عہد شکنی کو گناہان کبیرہ میں شمار کرتے ہیں۔[11] فقہی نقطہ نظر سے عہد اس میثاق کو کہا جاتا ہے جو کوئی شخص اللہ کے ساتھ کسی عمل کے انجام دینے یا ترک کرنے کا عہد کرتا ہے۔[12] محققین کے نزدیک عہد شکنی معاہداتی عہد و پیمان کی خلاف ورزی کو کہا جاتا ہے، جبکہ وعدہ خلافی غیر معاہداتی تعہد کی خلاف ورزی کو کہا جاتا ہے۔[13]

الہی وعدے کی خلاف ورزی کا محال ہونا

شہید مطہری کے مطابق تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق اور اجماع ہے کہ اللہ کبھی بھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے۔ مذہب معتزلہ کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی جس طرح اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے اسی طرح اپنے وعیدوں (دھمکیوں) کو بھی عملی جامہ پہناتا ہے۔ معتزلہ اللہ کے وعدوں اور وعیدوں کی خلاف ورزی کو محال اور قبیح سمجھتے ہیں۔[14] اللہ کے وعدے کا مطلب ثواب کی خوشخبری اور وعید کا مطلب سزا کی دھمکی ہے۔

قرآن سورہ رعد کی آیت نمبر 31 اور سورہ روم کی آیت نمبر 6 میں اللہ تعالی کے وعدوں کے ناقابل تخلف ہونے کی خبر دیتا ہے۔ علامہ طباطبائی وعدہ خلافی کو ارادہ، علم یا قدرت میں کمی یا مجبوری کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور چونکہ اللہ ہر نقص اور مجبوری سے پاک اور مبرا ہے، اس بنا پر اللہ کے بارے میں وعدہ خلافی کا تصور محال ہے۔[15] سورہ ابراہیم آیت نمبر 22 میں قیامت کے دن کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے جس میں شیطان دنیا میں اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کا اعتراف کرتا ہے اور اللہ کے وعدے کو حق اور تخلف ناپذیر قرار دیتا ہے۔[16] امام رضاؑ سے منقول ایک حدیث کے مطابق اہل بیتؑ اپنے وعدوں کو قرضوں کی طرح لازم الوفا سمجھتے تھے، چنانچہ رسول اللہؐ کی سیرت بھی یہی تھی۔[17]

وعدہ خلافی کا فقہی حکم

مشہور شیعہ فقہا کے نزدیک وعدہ خلافی حرام نہیں ہے،[18] لیکن اس کی کراہت بہت زیادہ ہے۔[19] تاہم، اگر کوئی شخص شروع سے وعدہ دیتے وقت اسے پورا کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو، تو اکثر فقہا اس عمل کو جھوٹ اور دھوکہ دہی کا مصداق قرار دیتے ہوئے[20] حرام سمجھتے ہیں۔[21]

شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ مظاہری وعدہ خلافی کو پانچ قسموں میں تقسیم کرتے ہیں اور ان میں سے صرف ایک قسم کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق لازم الاجرا عقود و شرائط اور ایسے وعدوں کی خلاف ورزی جو مالی نقصان، عزت کی پایمالی یا دوسروں کے وقت کے ضیاع کا سبب بنتے ہوں حرام ہیں۔ صرف ایسے وعدوں کی خلاف ورزی جو کسی بھی قسم کے مالی نقصان، عزت و آبرو میں خلل یا وقت کے ضیاع کا باعث نہ بنتے ہوں جائز ہے۔[22] اسی طرح اگر وعدہ کسی شرط سے مشروط ہو جو ابھی پوری نہ ہوئی یا وعدہ خلافی کسی شرعی عذر کی وجہ سے ہو جیسے بھول جانا یا طرف مقابل وعدہ خلافی پر راضی ہو تو اس صورت میں وعدہ خلافی جائز ہے۔[23]

اگر کسی حرام کام کی انجام دہی کا وعدہ دیا جائے جیسے سود ادا کرنا یا جوا کھیلنا، تو اس وعدے پر عمل کرنا حرام ہے۔[24] بیوی بچوں کو جھوٹا وعدہ دینے کے بارے میں امامیہ فقہا اختلاف رائے رکھتے ہیں، بعض اسے حرام اور بعض جائز سمجھتے ہیں۔[25]

وعدہ خلافی کے جائز ہونے پر دلیل

بعض فقہا آیات و روایات کے ظاہر کو مد نظر رکھتے ہوئے وعدہ خلافی کو حرام نہیں سمجھتے ہیں،[26] تاہم وعدہ خلافی کی کراہت کا فتویٰ دیتے ہیں۔ شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ خوئی سیرہ متشرعہ کا حوالہ دیتے ہوئے وعدہ خلافی کو مکروہ قرار دیتے ہیں، کیونکہ متشرعہ کبھی کبھار وعدہ خلافی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اسے گناہ نہیں سمجھتے ہیں۔[27]

وعدہ خلافی اخلاقی نقطہ نگاہ سے

اخلاقی اور سماجی نقطہ نظر سے وعدہ خلافی کو ناپسندیدہ عمل سمجھا جاتا ہے[28] اور جو شخص اپنے وعدے پر عمل نہیں کرتا اسے ملامت کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔[29] جامع السعادات میں سفارش کی گئی ہے کہ وعدہ خلافی کے منفی اثرات سے بچنے کے لئے وعدہ دیتے وقت قطعی وعدہ کرنے سے گریز کیا جائے اور اسے خدا کی مرضی یا دوسری شرائط سے مشروط کر دیا جائے۔[30]

حوالہ جات

  1. محمدیان، «وعدہ خلافی کا جائز ہونا فقہ اور اخلاق کے ترازو میں»، ص26۔
  2. مظاہری، توضیح المسائل، 1389شمسی، ص408۔
  3. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص363۔
  4. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص363۔
  5. نراقی، جامع السعادات، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ج2، ص342۔
  6. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص363۔
  7. سید رضی، نہج‌البلاغہ (صبحی صالح)، 1414ھ، ص444۔
  8. انصاری، الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرہ، 1415ھ، ج13، ص584 ـ 585؛ مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1377شمسی، ج3، ص262۔
  9. «وعدہ خلافی یا بد عہدی»، سائٹ آیت اللہ سیستانی۔
  10. مظاہری، توضیح المسائل، 1389شمسی، ص408۔
  11. دستغیب، گناہان کبیرہ، 1375شمسی، ص327 و 331۔
  12. خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، 1377شمسی، ج2، ص1499۔
  13. غضنفری، اخلاق در قرآن و سنت حاوی یکصد نکتہ اخلاقی، 1392شمسی، ج2، ص193۔
  14. مطہری، مجموعہ آثار، 1376شمسی، ج3، ص75۔
  15. طباطبایی، المیزان، 1352شمسی، ج16، ص156۔
  16. مطہری، مجموعہ آثار، 1376شمسی، ج4، ص276۔
  17. ابن‌شعبہ حرانی، تحف العقول، 1404ھ، ص446۔
  18. شیخ انصاری، المکاسب، 1415ھ، ج2، ص15۔
  19. خویی، منہاج الصالحين، 1410ھ، بخش 1،ص10؛ محمدیان، «وعدہ خلافی کا جائز ہونا فقہ اور اخلاق کے ترازو میں»، ص30۔
  20. محمدیان، «وعدہ خلافی کا جائز ہونا فقہ اور اخلاق کے ترازو میں»، ص31۔
  21. زنجانی، کتاب نکاح، 1419ھ، ج18، ص5916۔
  22. مظاہری، توضیح المسائل، 1389شمسی، ص408 ـ 409۔
  23. «وعدہ خلافی یا بد عہدی»، سائٹ آیت اللہ سیستانی۔
  24. «وعدہ خلافی یا بد عہدی»، سائٹ آیت اللہ سیستانی۔
  25. ہمدانی، «جھوٹ بولنا حرام ہونے کی دلیل میں خاندان اور رشتے دار بھی شامل ہیں »، ص106 ـ 107۔
  26. خویی، مصباح الفقاہہ، 1413ھ، ج1، ص393؛ مجلسی، لوامع صاحبقرانی، 1414ھ، ج6، ص489۔
  27. خویی، مصباح الفقاہہ، 1413ھ، ج1، ص393۔
  28. شبیری، کتاب نکاح، 1383شمسی، ج4، ص1124۔
  29. محمدیان، «وعدہ خلافی کا جائز ہونا فقہ اور اخلاق کے ترازو میں»، ص36۔
  30. نراقی، جامع السعادات، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ج2، ص342۔

مآخذ

  • ابن‌شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، قم، جامعہ مدرسین، دوسری اشاعت، 1404ھ۔
  • انصاری، محمد‌علی، الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرہ، قم، مجمع الفکر الاسلامی، پہلی اشاعت، 1415ھ۔
  • خرمشاہی، بہاءالدین، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، تہران، نشر ناہید و دوستان، 1377ہجری شمسی۔
  • «وعدہ خلافی یا بد عہدی»، سائٹ آیت اللہ سیستانی، تاریخ اخذ: 19 اکتوبر 2025ء۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، مصباح الفقاہہ، مقرر: محمدعلی توحیدی، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، منہاج الصالحين، قم، مدینۃ العلم، 1410ھ۔
  • دستغیب، سید عبدالحسین، گناہان کبیرہ، جامعہ مدرسین سے وابستہ اسلامی پبلیشرز کا دفتر، نویں اشاعت، 1375ہجری شمسی۔
  • سید رضی، محمد بن حسین، نہج‌البلاغہ (صبحی صالح)، قم، ہجرت، پہلی اشاعت، 1414ھ۔
  • شبیری زنجانی، سید موسی، کتاب نکاح، قم، مؤسسہ پژوہشی رای‌پرداز، پہلی اشاعت، 1419ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، المکاسب، قم، شیخِ اعظم انصاری کی عالمی یادگاری کانفرنس، پہلی اشاعت، 1415ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1352ہجری شمسی۔
  • غضنفری، علی، اخلاق در قرآن و سنت حاوی یکصد بحث قرآنی(ج2)، تہران، دانشکدہ علوم قرآنی، 1392ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چوتھی اشاعت، 1407ھ۔
  • مجلسی، محمدتقی، لوامع صاحبقرانی، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، دوسری اشاعت، 1414ھ۔
  • محمدیان، علی، «وعدہ خلافی کا جائز ہونا فقہ اور اخلاق کے ترازو میں»، اخلاق کے تحقیقی جریدے میں، شمارہ 50، 2021ء۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، صدرا، 1376ہجری شمسی۔
  • مظاہری، حسین، توضیح المسائل، اصفہان، مؤسسہ فرہنگی الزہراء، 1389ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق در قرآن، قم، مدرسہ امام على بن ابى طالب(ع)، 1377ہجری شمسی۔
  • میرلوحی، سیدعلی، قرآن کریم میں ترادف، قم، اسلامی علوم و ثقافت کا تحقیقاتی مرکز، پہلی اشاعت، 1392ہجری شمسی۔
  • نراقی، محمد‌مہدی، جامع السعادات، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، بی‌تا۔
  • ہمدانی، مصطفی، «جھوٹ بولنا حرام ہونے کی دلیل میں خاندان اور رشتے دار بھی شامل ہیں »، فصلنامہ فقہ میں، سال 22، شمارہ 2، تابستان 2015ء۔