جھوٹی گواہی

ویکی شیعہ سے
(غلط گواہی سے رجوع مکرر)

جھوٹی گواہی گناہان کبیرہ میں سے ایک گناہ ہے جس کے معنی حقیقت کے برخلاف گواہی دینا ہے۔ فقہا نے آیات اور روایات سے استناد کرتے ہوئے جھوٹی گواہی دینے کو حرام قرار دیا ہے۔ فقہا کے فتوے کے مطابق اگر اقرار، گواہی یا علم قاضی کے ذریعے گواہی، جھوٹی ہونا ثابت ہوجائے تو جھوٹے گواہ پر تعزیر ہوگی۔ اگر جھوٹی گواہی کے مطابق کوئی حکم جاری کرنے سے پہلے جھوٹی ہونا ثابت ہوجائے تو قاضی کا حکم اور فیصلہ کالعدم ہوگا اور اگر حکم جاری کرنے کے بعد جھوٹی ہونا ثابت ہوجائے تو گواہ، محکوم علیہ پر واجب الادا دیت، قصاص اور دیگر مالی نقصانات کا ازالہ کرے گا۔

اہمیت

شیخ طوسی (متوفی 460ھ) اپنی کتاب مبسوط میں لکھتے ہیں: جھوٹی گواہی کو گناہان کبیرہ میں سے شمار کیا گیا ہے؛[1] اور کہا گیا ہے کہ شرک کے بعد کوئی اور گناہ اس سے بڑا نہیں ہے۔[2] فقہ امامیہ میں الشہادات کے عنوان سے ایک باب ہے جس میں جھوٹی گواہی کے احکام بیان ہوئے ہیں۔[3]

شیعہ عالم دین محمد محمدی اشتہاردی کا کہنا ہے کہ جھوٹی گواہی کا قرآن میں بت پرستی کے ساتھ ذکر ہونا[4] اس کی پلیدی اور برائی کی نشانی ہے۔[5] اسی طرح قرآن میں اللہ کے نیک بندوں کی خصوصیات میں سے ایک جھوٹی گواہی سے اجتناب ہے۔[6]

تعریف

جھوٹی گواہی یعنی کوئی شخص جان بوجھ کر ایسی چیز کی گواہی دے جسے وہ نہیں جانتا ہے یا جس چیز کی گواہی دیتا ہے وہ حقیقت کے برخلاف ہو۔[7] بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جھوٹی گواہی عدالت کے اندر ہو تو یہ جرم ہے۔[8]

جھوٹی گواہی حرام ہونے کی دلیل

شیعہ فقہ میں جھوٹی گواہی دینا حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کے حرام ہونے پر «وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ‌ الزُّور»[9] کی آیت سے استناد کیا گیا ہے؛[10] امام خمینی اور سید علی خامنہ ای کا کہنا ہے کہ یہ آیت باطل بات حرام ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے جو جھوٹ، جھوٹی گواہی اور غناء کو شامل کرتی ہے۔[11]

بعض مفسرین نے آیت «وَالَّذِينَ لَا يَشْہَدُونَ الزُّورَ»[12] سے بھی جھوٹی گواہی حرام ہونے کو ثابت کیا ہے۔[13] اس سلسلے میں امام صادقؑ کی ایک روایت منقول ہے جس میں کہا گیا ہے کہ: «جھوٹی گواہی دینے والا اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے دوزخ کی آگ اس پر واجب ہوجاتی ہے»،[14] اس حدیث سے شیعہ مرجع تقلید سید حسین بروجردی نے جھوٹی گواہی حرام ہونے پر استدلال کیا ہے۔[15] علامہ حلی نے امام باقرؑ کی ایک حدیث سے استناد کیا ہے[16] جس کہا گیا ہے کہ: «جو بھی مرد کسی مسلمان کا مال لینے کے لئے جھوٹی گواہی دے تو اللہ تعالی اس کے جہنمی ہونے کی سند لکھ دیتا ہے۔»[17]

احکام

جھوٹی گواہی ان گناہوں میں سے ہے جس کے لئے شریعت میں شرعی حد متعین نہیں ہوئی ہے لیکن اس کے لئے تعزیر (تأديب، مجرم کو شرعی حد سے کم کوڑے مارنا)[18] رکھی گئی ہے۔ اس میں شیعہ اور اہل سنت فقہا سب متفق ہیں، لیکن اس کی تفصیلات میں باہم اختلاف رائے رکھتے ہیں: شیعہ فقہا جھوٹے گواہ کی تعزیر کے ساتھ اسکی تشہیر، (سر عام اس شخص کو دکھانا اور پہچنوانا)[19] کرنے میں بھی سب متفق القول ہیں؛ شیخ طوسی نے اس بات کی تصریح کی ہے۔[20] لیکن اس سلسلے میں اہل سنت فقہا سب متفق نہیں ہیں۔[21]

ثابت کرنے کے طریقے

جھوٹی گواہی کئی طریقوں سے ثابت ہوتی ہے:

  • اقرار: گواہی دینے والا اقرار کے ذریعے اپنی گواہی کو واپس لے لے۔[22]
  • دوسروں کی گواہی: گواہوں کی گواہی حقیقت کے برخلاف ہونے پر کچھ لوگ گواہی دیں۔[23]
  • علم قاضی: کبھی قاضی خود کو کسی بھی طرح سے اس بات کا علم ہوجاتا ہے کہ دی جانے والی گواہی جھوٹ پر مبنی ہے۔[24] مصطفی محقق داماد (پیدائش 1324شمسی) کے مطابق اس بحث میں علم قاضی کو دیگر ادلہ پر مقدم سمجھا جائے گا۔[25]

فقہی اور حقوقی آثار

جھوٹی گواہی کے بعض آثار قابل ذکر ہیں:

جاری شدہ فیصلہ کالعدم ہونا

شہید اول (شہادت 786ھ) اپنی کتاب الدروس الشرعیہ میں کہتے ہیں کہ اگر فیصلہ سنانے سے پہلے گواہی کا جھوٹی ہونا ثابت ہوجائے تو قاضی کا جاری کردہ فیصلہ کالعدم ہوجاتا ہے۔[26]

نقصان اور قصاص کا ازالہ

اگر حکم جاری کرنے کے بعد گواہی کا جھوٹی ہونا ثابت ہوجائے تو گواہ اس مال کے ضامن ہوگا جو محکومٌ علیہ(جس کے خلاف حکم سنایا گیا ہے) نے ادا کردیا ہے[27] اور اگر (محکومٌ علیہ) کے خلاف قصاص یا دیت کا حکم جاری ہوچکا ہو تو گواہوں کے خلاف قصاص یا دیت کا حکم جاری ہوگا۔[28] کیونکہ پھانسی یا دیت کی ادائیگی ان کی گواہی کی وجہ سے ہوئی ہے۔[29]

قید اور جرمانہ

بعض فقہا نے امام علیؑ کی سیرت سے استناد کرتے ہوئے جھوٹے گواہ کو گرفتار کرنے کا فتوا دیا ہے کیونکہ امیرالمومنین اپنی حکومت کے دوران جھوٹے گواہوں کو گرفتار کیا کرتے تھے۔[30]

بعد کی گواہی قبول نہ ہونا

فقہا کا کہنا ہے کہ جس گواہ نے عدالت میں جھوٹی گواہی دی ہے اس کی بعد کی کوئی بھی گواہی قبول نہیں ہوگی، مگر یہ کہ وہ توبہ کرے اور اس کا عادل ہونا ثابت ہوجائے۔[31]

حوالہ جات

  1. شیخ طوسى، المبسوط، 1387ھ، ج‌8، ص164.
  2. مازندرانی، شرح الکافی، 1382ھ، ج9، ص264؛ ابن‌براج، المہذب، 1406ھ، ج2، 562.
  3. نجفی، جواہر الكلام، 1404ھ، ج41، ص252.
  4. سورہ حج، آیہ 30.
  5. محمدی اشتہاردی، «ویژگی‌ہای عبادالرحمن پرہیز شدید از گواہی دروغ و شرکت در مجالس گناہ»، ص19.
  6. محمدی اشتہاردی، «ویژگی‌ہای عبادالرحمن پرہیز شدید از گواہی دروغ و شرکت در مجالس گناہ»، ص19.
  7. مازندرانی، شرح الکافی، 1382ھ، ج9، ص264؛ مرتاضی و دیگران، «بررسی معناشناختی شہادت زور و ضرورت معرفی عمومی آن در فقہ مذاہب خمسہ»، 1393شمسی، ص125.
  8. شاملواحمدی، فرہنگ اصطلاحات و عناوین جزایی، 1380شمسی، ص287؛ معاونت حقوقی ریاست جمہوری، قانون مجازات اسلامی، 1392شمسی، ص161، مادہ 650.
  9. سورہ حج، آیہ 30.
  10. شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج8، ص164.
  11. امام خمینی، المكاسب المحرمۃ، 1434ھ، ج1، ص344؛ خامنہ‌ای، غناء و موسیقی، 1398، ص38.
  12. سورہ فرقان، آیہ 72.
  13. طبرسی، مجمع البيان، 1415ھ، ج7، ص315.
  14. کلینی، الكافی، 1407ھ، ج7، ص383، ح2.
  15. بروجردی، جامع أحاديث الشيعۃ، 1386شمسی، ج30، ص328.
  16. علامہ حلی، تحریر الأحکام، 1420ھ، ج5، ص297 و 298.
  17. شیخ صدوق، من لا يحضرہ الفقيہ، 1413ھ، ج3، ص61، ح 3338.
  18. ابن‌منظور، لسان العرب، 1414ھ، ج4، ص562.
  19. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1382شمسی، ج1، ص508.
  20. طوسى، الخلاف، 1407ھ، ج6، ص240.
  21. سرخسی، المبسوط، 1414ھ، ج16، ص145.
  22. حر عاملی، ہدایۃ الأمۃ إلی أحکام الأئمۃ(ع)، 1412ھ، ج8، ص426؛ حلبى، الكافی فی الفقہ، 1403ھ، ص440؛ معاونت حقوقی ریاست جمہوری، قانون مجازات اسلامی، 1392شمسی، ص56، مادہ 198.
  23. موسوی گلپايگانى، كتاب الشہادات، 1405ھ، ص448-449؛ حلبى، الكافی فی الفقہ، 1403ھ، ص440؛ معاونت حقوقی ریاست جمہوری، قانون مجازات اسلامی، 1392شمسی، ص55، مادہ 191، 195، 196.
  24. حلبى، الكافی فی الفقہ، 1403ھ، ص440؛ دیّانی، قانون مجازات اسلامی مُعرَب، 1399شمسی، ص88، مادہ 160 و 211.
  25. محقق داماد، قواعد فقہ (بخش قضایی)، 1381شمسی، ص48.
  26. شہید اول، الدروس الشرعيۃ، 1417ھ، ج2، ص143.
  27. مرعشی شوشترى، ديدگاہ‌ہاى نو در حقوق، 1427ھ، ج1، ص122.
  28. بجنوردى، قواعد فقہیہ، 1401ھ، ج1، ص18؛ خویی، مبانی تکملۃ المنہاج، 1422ھ، ج41، ص191.
  29. مرعشی شوشترى، ديدگاہ‌ہاى نو در حقوق، 1427ھ، ج1، ص122.
  30. ہاشمی شاہرودی، موسوعۃ الفقہ الإسلامی المقارن، 1432ھ، ج5، ص295.
  31. ف‍اض‍ل‌ ل‍ن‍ک‍ران‍ی‌، تفصیل الشریعۃ (القضاء و الشہادات)، 1427ھ، ص598 و 612.

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • ابن‌منظور، محمد بن مكرم، لسان العرب، بیروت، دار صادر، 1414ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، المكاسب المحرمۃ (موسوعۃ الإمام الخمينی 13 و 14)، تہران، موسسۃ تنظيم و نشر آثار الإمام الخمينى، 1434ھ۔
  • انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن، تہران، انتشارات سخن، 1390ہجری شمسی۔
  • بجنوردى، سيد محمد، قواعد فقہیہ، تہران، مؤسسہ عروج، 1401ھ۔
  • بروجردی، حسین، جامع أحاديث الشيعۃ، تہران، انتشارات فرہنگ سبز، 1386ہجری شمسی۔
  • بہبودی، بہرام و مجید دادخواہ، «واکاوی فقہی حقوقی مسئولیت کیفری شہادت کذب»، مجلہ علمی - تخصصی «آراء»، دورہ3، شمارہ4، 1399ہجری شمسی۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، ہدایۃ الأمۃ إلی أحکام الأئمۃ(ع)، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، 1412ھ۔
  • حلبى، ابوالصلاح، الكافی فی الفقہ، اصفہان، كتابخانہ عمومى امام اميرالمؤمنين(ع)، 1403ھ۔
  • خامنہ‌ای، سید علی، غناء و موسیقی، تہران، انتشارات انقلاب اسلامی (نشر فقہ روز)، 1398ہجری شمسی۔
  • خویی، سيد ابوالقاسم، مبانی تكملۃ المنہاج (موسوعۃ)، قم، مؤسسۃ إحیاء آثار الإمام الخویی، 1422ھ۔
  • سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دار المعرفۃ، 1414ھ۔
  • شاملواحمدی، محمدحسین، فرہنگ اصطلاحات و عناوین جزایی، اصفہان، انتشارات دادیار، 1380ہجری شمسی۔
  • شہید اول، محمد بن مكى، الدروس الشرعيۃ فی فقہ الإماميۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامى، 1417ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن على، من لا يحضرہ الفقيہ، قم، دفتر انتشارات اسلامى، 1413ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، تحقيق وتعليق : لجنۃ من العلماء والمحققين الأخصائيين، بیروت، اعلمی، چاپ اول، 1415ھ۔
  • طرابلسی، قاضی ابن براج، المہذب، قم، انتشارات اسلامی، 1406ھ۔
  • طوسى، محمد بن حسن، الخلاف، قم، دفتر انتشارات اسلامى، 1407ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الإمامیۃ، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الآثار الجعفریۃ، 1387ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیۃ علی مذہب الإمامیۃ، قم، مؤسسۃ الإمام الصادق(ع)، 1420ھ۔
  • ف‍اض‍ل‌ ل‍ن‍ک‍ران‍ی‌، محمد، تفصیل الشریعۃ (القضاء و الشہادات)، قم، مرکز فقہ الأئمۃ الأطہار(ع)، 1427ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الكافی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
  • کمالان، سیدمہدی، ہندبوک کاربردی قوانین و مقررا حقوقی، تہران، انتشارات کمالان، 1391ہجری شمسی۔
  • مازندرانى، محمدصالح بن احمد، شرح الكافی - الأصول و الروضۃ، تحقیق ابوالحسن‏ شعرانى، تہران، المكتبۃ الإسلاميۃ، 1382ق‏.
  • محقق داماد، مصطفی، قواعد فقہ (بخش قضایی)، تہران، مرکز نشر علوم اسلامی، 1381ہجری شمسی۔
  • محمدی اشتہاردی، محمد، «ویژگی‌ہای عبادالرحمن پرہیز شدید از گواہی دروغ و شرکت در مجالس گناہ»، مجلہ پاسدار اسلام، ش229، دی 1379ہجری شمسی۔
  • مرتاضی، احمد، علی‌اصغر موسوی رکنی و دیگران، «بررسی معناشناختی (شہادت زور) و ضرورت معرفی عمومی آن در فقہ مذاہب خمسہ» فصلنامہ پژوہش‌ہای فقہ و حقوق اسلامی، شمارہ35، بہار 1393ہجری شمسی۔
  • مرعشى شوشترى، سيد محمدحسن، ديدگاہ‌ہاى نو در حقوق، تہران، نشر میزان، 1427ھ۔
  • معاونت حقوقی ریاست جمہوری، قانون مجازات اسلامی، تہران، معاونت تدوین، تنقیح و انتشار قوانین و مقررات، 1392ہجری شمسی۔
  • موسوی گلپايگانى، سيد محمدرضا، كتاب الشہادات، قم، جناب مقرر كناب، 1405ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الكلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، دار إحياء التراث العربی، 1404ھ۔
  • ہاشمی شاہرودی، محمود، موسوعۃ الفقہ الإسلامی المقارن، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، 1432ھ۔
  • ہاشمی‌شاہرودی، محمود، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیت(ع)، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بيت(ع)، 1382ہجری شمسی۔