قتل عمد

ویکی شیعہ سے
(عمدا مار ڈالنا سے رجوع مکرر)

قتل عمد کسی ایسے انسان کو جان بوجھ کر مار دینے کو کہا جاتا ہے جس کو قتل کرنا شریعت میں جائز نہ ہو۔ قتل عمد گناہان کبیرہ میں سے ہے۔ قتل نفس کا حرام ہونا ایسے مسائل میں سے ہے جس پر تمام الہی ادیان اور مدنی قوانین کا اتفاق ہے۔ قرآنی آیات کے مطابق انسان کے خون کا احترام واجب اور اسے قتل کرنا حرام ہے۔

قرآن میں قتل نفس کے مرتکب شخص کے لئے قیامت کے دن سخت عذاب اور ہمیشہ جہنم کی آگ میں باقی رہنے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ قرآن کسی انسان کے ناحق قتل کو اس قدر عظیم گناہ شمار کرتا ہے کہ ایک انسان کے قتل کو تمام انسانوں کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے کہ قیامت کے دن خدا جس چیز کے بارے میں سب سے پہلے فیصلہ سنائے گا وہ انسان کا ناحق خون بہانا ہے۔

اسلامی فقہ میں کسی معزز شخص جیسے مسلمان یا کافر ذمی کو قتل کرنا حرام ہے۔ امامیہ مشہور فقہاء کے فتوا کے مطابق قتل عمد ثابت ہونے کے دو معیار ہیں: ایک قتل کرنے کا قصد ہو اور دوسرا قتل کا آلہ عموما مہلک ہو۔ اسلامی احکام میں قتل عمد کی سزا قصاص ہے۔ خودکشی اور اسقاط حمل کو بھی قتل عمد کے مصادیق میں شمار کیا جاتا ہے۔

اہمیت

قتل عمد ظلم اور گناہان کبیرہ میں سے ہے[1] اور اسلام میں قتل عمد کے مرتکب شخص کے لئے ابدی عذاب مقرّر کیا گیا ہے۔[2] اسلام کے علاوہ دیگر الہی ادیان میں بھی قتل عمد کو حرام اور بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔[3] قتل نفس کا حرام ہونا ایسے مسائلی میں سے ہے جس پر تمام مدنی قوانین متفق ہیں۔[4] جینے کا حق انسانی بنیادی حقوق میں سے ہے جو دیگر انسانی حقوق کی بنیاد اور اصل شمار ہوتا ہے[5] اور انسانی حقوق کے تمام مآخذ اور اَسناد میں اسے رسمیت اور مشروعیت دی گئی ہے۔[6] دینی اور اسلامی مآخذ میں اس مسئلے کی اہمیت کا اندازہ قتل نفس، خود کشی اور اسقاط حمل جیسے موضوعات کے حرام ہونے سے لگایا جا سکتا ہے۔[7]

اسلامی فقہ میں قتل نفس کے حرام ہونے کو خاص اہمیت دی گئی ہے[8] اور فقہ کے اکثر ابواب جیسے جہاد، امر بہ معروف و نہی از منکر، ارث، حدود، قصاص اور دیات میں قتل کے احکام پر بحث کی گئی ہے۔[9]

اسلام میں انسانی خون کا احترام صرف مسلمانوں سے متخص نہیں ہے؛ بلکہ وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی حالت میں نہ ہو اور معاشرے میں بقائے باہمی کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہوں کی جان بھی محفوظ ہے۔[10]

«کسی کا ناحق خون بہانے کے ذریعے اپنی حکومت کو تقویت دینے کی کوشش مت کرو؛ کیونکہ یہ کام من جملہ ان امور میں سے ہے جو تیری تسلط کو سست اور ضعیف کر دیتا ہے اور چہ‌ بسا اسے ختم اور نابود کر دیتا ہے، قتل عمد کے مقابلے میں تمہارا کوئی عذر خدا کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔»[11]

تعریف، شرایط اور احکام

قتل کو تین قسموں عمد، شبہ‌ عمد اور خطائے محض میں تقسیم کیا گیا ہے۔[12] قتل عمد یعنی کسی ایسے انسان کو مار ڈالنا جس نے نہ کسی انسان کو قتل کیا ہے اور نہ زمین میں فساد پھیلایا ہے۔[13] اسلامی فقہ میں قتل عمد کا ملاک اور معیار یہ ہے کہ قاتل بالغ اور عاقل ہو اور قتل کرنے کے قصد سے کسی مہلک یا عموما مہلک عمل کا ارتکاب کیا ہو۔[14]

قتل عمد کے بعض دیگر احکام درج ذیل ہیں:

  • کسی نابالغ بچے یا دیوانہ انسان کے ذریعے انجام پانے والا قتل عمد قتل خطا کے ساتھ ملحق ہوتا ہے۔[15]
  • فقہاء کے درمیان مشہور فتوا کے مطابق قتل عمد صرف دو عادل مرد کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے۔[16]
  • خودکشی[17] اور اسقاط حمل بھی قتل عمد کے مصادیق میں سے ہے۔[18]
  • اگر مقتول قاتل کا رشتہ دار ہو تو قتل عمد قاتل کی ارث سے محرومیت کا سبب بنتا ہے۔[19]
  • کسی معزز انسان جیسے مسلمان اور کافر ذمی کو قتل کرنا حرام ہے؛ مگر یہ کہ ایسے انسان کو قتل کرنا شرعی اعتبار سے جائز ہو؛ جیسے اپنی دفاع کے لئے حملہ آور کو قتل کرنا یا قصاص یا زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے والا مجرم کو قتل کرنا جس کی سزا مار ڈالنا ہو۔[20]
  • فقہاء کے درمیان مشہور فتوا کے مطابق تقیہ یا ایسی مجبوری کی حالت میں جہاں قتل نہ کرنے کی صورت میں اپنی جان خطرے میں ہو تب بھی کسی کو ناحق قتل کرنا حرام ہے اور مرتکب ہونے کی صورت میں اس سے قصاص لیا جائے گا۔[21]

قرآن میں قتل عمد کا گناہ

قرآنی آیات کے مطابق انسانی خون کا تحفظ واجب اور اسے قتل کرنا حرام ہے۔[22] قرآن میں قتل نفس اور کسی بے گناہ شخص کے قتل کو گناہاں کبیرہ میں سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔[23] شیعہ مفسر قرآن آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق قرآن میں قتل نفس کے مرتکب شخص کے لئے مقرر کی گئی سزاؤں میں سے ایک قیامت کے دن سخت ترین عذاب ہے۔[24] قرآن میں آیا ہے کہ: «جو شخص کسی با ایمان شخص کو عمدا قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے اور وہ اس میں ہمیشہ کے لئے رہے گا۔»[25]

قرآن میں قاتلوں کے لئے چار بہت سخت سزا مقرر کی گئی ہے:

ایک شخص کا قتل تمام انسانوں کے قتل کے برابر

قرآن میں ناحق اور بے گناہ قتل کو اس قدر عظیم اور بڑا گناه قرار دیا گیا ہے کہ ایک شخص کے قتل کو تمام انسانوں کے قتل کی مانند قرار دیا گیا ہے۔[27] سورہ مائدہ کی آیت نمبر 32 میں آیا ہے کہ: «جس نے کسی انسان کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو، یا زمین میں فساد برپا کیا ہو، تو وہ ایسا ہے جیسے کہ اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔»[28] علامہ طباطبائی اس آیت کے ذیل میں توضیح دیتے ہیں کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل حقیقت میں خدا کی خلقت کی تباہی اور خدا کے مقصد کا فوت ہونا ہے جو کہ انسانیت کا نسل در نسل باقی رہنا ہے۔[29]

قتل عمد کے بارے میں احادیث

قتل کے گناہ کی عظمت اور بزرگی کے بارے میں بہت ساری احادیث میں تصریح کی گئی ہے۔[30] پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن خدا جس چیز کے بارے میں سب سے پہلے فیصلہ کرے گا وہ کسی کا ناحق خون بہانا ہے۔[31] ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہے پوری دنیا کا ویران ہو جانا خدا کے یہاں کسی کا ناحق خون بہانے سے زیادہ آسان ہے۔[32] مالک اشتر کے نام امام علیؑ کے ایک خط میں آیا ہے کہ "ناحق خون ہہانے سے پرہیز کرو؛ کیونکہ کوئی چیز اس سے زیادہ بدبختی کا باعث نہیں ہے اور کوئی چیز اس سے زیادہ نقصان کا باعث نہیں ہے اور کوئی چیز اس سے زیادہ خدا کی نعمتوں کو پایمال نہیں کر سکتی ہے۔[33]

مدنی قوانین میں قتل عمد کی سزائیں

مختلف ممالک کے مدنی قوانین میں قتل عمد کے لئے مختلف سزائیں مقرر کی گئی ہیں؛ جیسے پھانسی، عمر قید یا طویل قید وغیرہ۔[34] اسلامی احکام میں قتل عمد کی سزا قصاص ہے۔[35] مقتول کے ورثا کو یہ حق حاصل ہے کہ قاتل کے ساتھ ان تین احکام میں سے کوئی ایک اجراء کر سکتا ہے: قصاص، دیت لئے بغیر معاف کرنا، دیت لے کر معاف کرنا۔[36]

بعض ممالک جیسے کینڈا اور انگلستان وغیرہ میں قتل عمل کی سزا عمر قید ہے۔[37] عراق میں قتل عمد کی اصل سزا قلیل یا دائمی قید مقرر کی گئی ہے لیکن خاص موارد میں اس کی سزا پھانسی ہے۔[38]

اسلامی تعزیرات ایران کی آرٹیکل 381 جو کہ 1392ہجری شمسی کو منظور ہوا، کے مطابق قتل عمد کی سزا قصاص ہے۔ اس قانون کے مطابق مقتول کے ورثاء کی رضامندی کی صورت میں اس کی جگہ دیت لیا جائے گا۔[39]

موجودہ ترکی کے اسلامی تعزیرات کوڈ کے آرٹیکل 295 کے مطابق کسی شخص کی جان بچانے والے کسی کام کو ترک کرنا بھی بعض اوقات قتل عمد شمار کیا جاتا ہے۔ مثلا جب کوئی ماں یا نرس جو کسی بچے کو دودھ پلاتی ہے بچے کو اس وقت تک دودھ نہیں پلاتی جب تک کہ اس کی موت نہ ہو جائے، یا ڈاکٹر یا نرس اپنی قانونی ذمہ داری ترک کر دے اور وہ شخص مر جائے۔[40]

حوالہ جات

  1. نجفی، جواہر الکلام، 1362ھ، ج42، ص9؛ مدرسی، احکام شریعت پیرامون حیات طیبہ، 1386ہجری شمسی، ص176۔
  2. قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج2، ص133؛ شہابی، ادوار فقہ، 1387ہجری شمسی، ج1، ص134۔
  3. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج13، ص90؛ حسینی، «قتل نفس و مجازات آن در ادیان ابراہیمی»، ص3 و4۔
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج12، ص105۔
  5. مصباح یزدی، نظریہ حقوقی اسلام، 1391ہجری شمسی، ج1، ص257۔
  6. موحدی ساوجی، «بررسی تطبیقی حق حیات از دیدگاہ قرآن کریم و اسناد حقوق بشر»، ص86۔
  7. موحدی ساوجی، «بررسی تطبیقی حق حیات از دیدگاہ قرآن کریم و اسناد حقوق بشر»، ص83۔
  8. احمدی‌نژاد، «بزہ قتل عمد در حقوق ایران و فقہ امامیہ»، ص101۔
  9. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1395ہجری شمسی، ج6، ص491۔
  10. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج12، ص107؛ قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج5، ص55۔
  11. مكارم شيرازى، پيام امام اميرالمومنينؑ، 1386ہجری شمسی، ج11، ص121؛ نہج‌البلاغہ، صبحی صالح، نامہ 53، ص443۔
  12. «مادہ 289 قانون مجازات اسلامی»، مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی؛ احمدی‌نژاد، «بزہ قتل عمد در حقوق ایران و فقہ امامیہ»، ص101 و 102۔
  13. احمدی‌نژاد، «بزہ قتل عمد در حقوق ایران و فقہ امامیہ»، ص102۔
  14. راوندی، فقہ القرآن، منشورات مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، ج2، ص394؛ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1395ہجری شمسی، ج6، ص491؛ احمدی‌نژاد، «بزہ قتل عمد در حقوق ایران و فقہ امامیہ»، ص103؛ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، 1392ہجری شمسی، ج2، ص543۔
  15. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1395ہجری شمسی، ج6، ص492۔
  16. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1395ہجری شمسی، ج6، ص493۔
  17. موحدی ساوجی، «بررسی تطبیقی حق حیات از دیدگاہ قرآن کریم و اسناد حقوق بشر»، ص95؛ قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج5، ص55۔
  18. موحدی ساوجی، «بررسی تطبیقی حق حیات از دیدگاہ قرآن کریم و اسناد حقوق بشر»، ص97۔
  19. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ فارسی، ج6، ص496۔
  20. مدرسی، تفسیر ہدایت، 1377ہجری شمسی، ج2، ص313؛ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، 1395ہجری شمسی، ج6، ص491؛ مدرسی، احکام شریعت پیرامون حیات طیبہ، 1386ہجری شمسی، ص176۔
  21. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ فارسی، ج6، ص496۔
  22. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج12، ص105۔
  23. مکارم شیرازی، آیین ما (اصل الشیعۃ)، 1388ہجری شمسی، ص289؛ قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج5، ص55؛ معینی، «قتل»، ص1625۔
  24. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج4، ص68۔
  25. مکارم شیرازی، آیین ما (اصل الشیعۃ)، 1388ہجری شمسی، ص289۔
  26. مکارم شیرازی، والاترین بندگان، 1383ہجری شمسی، ص181۔
  27. شہابی، ادوار فقہ، 1387ہجری شمسی، ج1، ص133؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج4، ص67۔
  28. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج4، ص355؛ قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج5، ص55۔
  29. طباطبایی، المیزان‏، 1390ھ، ج5، ص315۔
  30. قرائتی، تفسیر نور، 1388ہجری شمسی، ج2، ص143؛ شیخ صدوھ، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، 1406ھ، ص278؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج7، ص274؛ ابن‌ابی‌جمہور، عوالی اللئالی، 1403ھ، ج1، ص236۔
  31. شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج4، ص96؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، بیروت، ج19، ص4۔
  32. منذری، الترغیب و الترہیب، 1417ھ، ج3، ص201۔
  33. مكارم شيرازى، پيام امام اميرالمومنينؑ، 1386ہجری شمسی، ج11، ص121؛ نہج‌البلاغہ، صبحی صالح، نامہ 53، ص443۔
  34. احمدی‌نژاد، «بزہ قتل عمد در حقوق ایران و فقہ امامیہ»، ص104۔
  35. نجفی، جواہر الکلام، 1362ھ، ج42، ص7؛ موحدی ساوجی، «بررسی تطبیقی حق حیات از دیدگاہ قرآن کریم و اسناد حقوق بشر»، ص93۔
  36. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371ہجری شمسی، ج1، ص607۔
  37. سلیمانی میمندی، «بررسی تطبیقی قتل عمد در حقوق ایران و کانادا»، ص42؛ پیردادہ بیرانوند، «بررسی مبانی فقہی مجازات قتل عمد»، ص83۔
  38. اندک، «مطالعہ تطبیقی کیفر قتل عمد در قانون مجازات ایران و عراق»، ص35۔
  39. «قتل عمد و مجازات آن در قانون مجازات اسلامی»، روزنامہ اعتماد، 29 آذر 1401ہجری شمسی، ص10۔
  40. «قانون مجازات اسلامی»، مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی۔

مآخذ

  • ابن‌‌ابی‌‌جمہور، محمد بن زین‌الدین، عوالی اللئالی، قم، مؤسسہ سید الشہداءؑ، 1403ھ۔
  • ابوالفتوح رازى، حسين بن على‏، روض الجنان و روح الجنان فی تفسير القرآن، مشہد، آستان قدس رضوى، بنياد پژوہش‌ہاى اسلامى‏، 1408ھ۔
  • احمدی‌نژاد، نیما، «بزہ قتل عمد در حقوق ایران و فقہ امامیہ»، پژوہش ملل، شمارہ 58، آبان 1399ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح اللہ، تحریر الوسیلہ، بی‌جا، مؤسسہ تنظيم ونشر آثار امام خمينی، 1392ہجری شمسی۔
  • اندک، سیدہ پریسا، و سیدعلی ربانی موسویان، «مطالعہ تطبیقی کیفر قتل عمد در قانون مجازات ایران و عراق»، پژوہشنامہ حقوق فارس، شمارہ 4، 1398ہجری شمسی۔
  • پیردادہ بیرانوند، احسان‌اللہ، «بررسی مبانی فقہی مجازات قتل عمد»، کانون، شمارہ 104، سال پنجاہ و دوم، اردیبہشت 1389ہجری شمسی۔
  • حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • حسینی، سیدہ رؤیا، «قتل نفس ومجازات آن در ادیان ابراہیمی»، فقہ، حقوق و علوم جزا، شمارہ 16، تابستان 1399ہجری شمسی۔
  • راوندی، قطب‌الدین، فقہ القرآن، محقق: سید احمد حسینی، بی‌جا، منشورات مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، بی‌تا۔
  • سلیمانی میمندی، نجمہ، «بررسی تطبیقی قتل عمد در حقوق ایران و کانادا»، پژوہش ملل، شمارہ 49، دی 1398ہجری شمسی۔
  • شہابی، محمود، ادوار فقہ، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، مصحح: علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1413ھ۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، قم، دار الشریف الرضی، 1406ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات‏، 1390ھ۔
  • «قانون مجازات اسلامی»، مرکز پژوہش‌ہای مجلس شورای اسلامی، بازدید: 12 تیر 1403ہجری شمسی۔
  • قرائتی، محسن‏، تفسیر نور، تہران، مرکز فرہنگی درس‌ہایی از قرآن‏، 1388ہجری شمسی۔
  • «قتل عمد و مجازات آن در قانون مجازات اسلامی»، روزنامہ اعتماد، 29 آذر 1401ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمدبن یعقوب، الکافی، مصحح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، 1407ھ۔
  • مدرسی، سید محمد تقی، احکام شریعت پیرامون حیات طیبہ، قم، انتشارات محبان الحسینؑ، 1386ہجری شمسی۔
  • مدرسی، سید محمد تقی، تفسیر ہدایت، مشہد، آستان قدس رضوی، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمد تقی، نظریہ حقوقی اسلام، تحقیق و نگارش: محمدمہدی نادری قمی، محمد مہدی کریمی‌نیا، قم، انتشارات مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، 1391ہجری شمسی۔
  • معینی، محسن، «قتل»، دانشنامہ قرآن و قران پژوہی، ج2، بہ کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران، دوستان ناہید، 1377ہجری شمسی۔
  • مكارم شيرازى، ناصر، پيام امام امير المومنينؑ، تہران، دار الكتب الاسلاميہ‌، 1386ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، آیین ما (اصل الشیعۃ)، قم، امام علی بن ابی طالب علیہ السلام، 1388ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، والاترین بندگان، تہیہ و تنظیم: ج فرازمند، قم، نسل جوان، 1383ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، 1371ہجری شمسی۔
  • منذری، عبدالعظیم، الترغیب و الترہیب، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1417ھ۔
  • نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1362ھ۔
  • نہج البلاغہ، صبحی صالح، قم، مرکز البحوث الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔
  • موحدی ساوجی، محمدحسن، «بررسی تطبیقی حق حیات از دیدگاہ قرآن کریم و اسناد حقوق بشر»، دین و دنیای معاصر، شمارہ 10، 1398ہجری شمسی۔
  • ہاشمی شاہرودی، سیدمحمود، فرہنگ فقہ، قم، مؤسسہ دائرہ المعارف فقہ اسلامی، 1395ہجری شمسی۔