قم
عمومی معلومات | |
---|---|
ملک | ایران |
صوبہ | قم |
آبادی | ۱،۲۹۲،۲۸۳ (۱۳۹۵ش) |
زبان | فارسی |
ادیان | اسلام |
مذہب | شیعہ |
مسلم آبادی | سو فیصد |
شیعہ آبادی | 99 فیصد |
تاریخی خصوصیات | |
تاریخ | دورہ باستان |
تاریخ اسلام | پہلی صدی ہجری |
تاریخ تشیع | پہلی صدی ہجری |
اہم واقعات | مدرسہ فیضیہ کا واقعہ • 19 دی کا قیام |
تاریخی مقامات | مدرسه فیضیہ • جہل اختران |
اماکن | |
زیارتگاہیں | حرم حضرت معصومہ |
حوزہ علمیہ | حوزہ علمیہ قم |
مساجد | مسجد امام حسن عسکری • مسجد اعظم • مسجد جمکران • مسجد سلماسی |
مشاہیر | |
مذہبی | مراجع تقلید مقیم قم |
قم ایران کا دوسرا مذہبی شہر اور اہلِ تشیع کا مرکز ہے۔ اگرچہ قم کا شمار اسلام سے پہلے کے قدیمی شہروں میں ہوتا ہے، لیکن اس شہر کی اصل رونق سنہ 93-83 ہجری کے بعد سے شروع ہوا ہے۔ اشعری خاندان کے یہاں سکونت اختیار کرنے کے بعد قم کی تعمیر و ترقی کا آغاز ہوا، چونکہ یہ خاندان اہل بیتِ اطہارؑ سے محبت رکھتے تھے۔ اسی بنیاد پر قم شروع سے ہی شیعہ فکر کا مرکز رہا ہے۔
حضرت معصومہ(س) کی قم کی طرف ہجرت اور یہاں ان کے وصال نیز ائمہ معصومینؑ کی اولاد اور سادات کی طرف سے قم کو اپنا مسکن بنائے جانے کے بعد یہ شہر تشیع کا مرکز بن گیا۔ بعد ازاں، قم میں حوزۂ علمیہ کے قیام نے اسے علمی اور دینی مرکز کے طور پر بھی دنیا کے سامنے روشناس کرایا۔ آج یہ شہر شیعہ معارف کا سب سے بڑا مرکز ہے اور یہاں سے دنیا بھر میں اہلِ تشیع کے علمی و فکری پیغامات نشر کیے جاتے ہیں۔
وجہ تسمیہ
روایی
پیغمبر اسلامؐ کی حدیث کے مطابق اس شہر کا نام قم رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے رہنے والے قائم آل محمد(عج) کا ساتھ دیں گے اور آپ کے قیام میں مدد کریں گے۔[1] دوسری روایت کے مطابق اس شہر کا نام قم رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے شیطان کو اس شہر سے اٹھ کھڑے ہونے یعنی نکلنے کا حکم دیا تھا۔ کیونکہ قم کا معنی یہی ہے یعنی اٹھ کھڑا ہو۔[2]
تاریخی
"تاریخ قم" کے مصنف اس شہر کو قم کہنے کی وجہ یوں ذکر کرتے ہیں:
احتمال اول: قم، اصل میں ایک فارسی لفظ "کم" تھا جو لفظ "کومہ" کا مخفف ہے، [3] اس شہر کو اس لئے "کومہ" کہا جاتا تھا کہ یہ شہر پراکندہ گاؤں اور باغات پر مشتمل تھا، فارسی میں ایسی جگہ کو جو پراکندہ مکانات اور باغات پر مشتمل ہو "کومہ" کہا جاتا ہے۔ بعد میں "کومہ" کو مخفف کرکے "کم" کہا جانے لگا اور جب یہ لفظ عربی میں تبدیل ہوا تو "قم" کہلانے لگا۔[4]
احتمال دوم: ابتدا میں شہر پراکندہ باغات اور محلوں پر مشتمل تھا لیکن "اشعریوں" کے اس شہر میں داخل ہونے کے بعد تقریبا سات محلوں ممجان، قردان (قزوان)، مالون، جمر (کمر)، سکن اور جلنبادان کو ملا کر ایک گاؤں بنایا گیا۔ [5] اس نو مولد گاؤں کا نام "کمیدان" رکھا گیا جو بعد میں تخفیف کی خاطر "کم" اور پھر عربی میں تبدیل ہو کر "قم" کہلانے لگا۔[6]
دوسرے اسماء
دوسری روایات اور تاریخی کتابوں میں قم کو ان ناموں سے بھی یاد کیا گیا۔
تاریخی پس منظر
کچھ مورخین کے مطابق اس شہر کی تاریخ اسلام سے پہلے سے شروع ہوتی ہے، رومن گیر اور لویی واندنبرگ کا عقیدہ ہے کہ قم ایران کے رہنے والوں کے لئے ایک پرانی قیام گاہ ہے۔[27] [28] مستوفی شہر قم کے بنیاد گزار کو "طہمورث" قرار دیتے ہیں۔[29] قم کا مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونا اس نظریہ کی تقویت کا باعث بنتا ہے۔[30] یعقوبی کی نظر میں بھی اس شہر کا شمار اسلام سے پہلے والے شہروں میں ہوتا ہے۔[31] جبکہ "تاریخ قم" کے مصنف نے بھی "سورین نامی" شخص جو کہ بہرام کے زمانے میں زندگی کرتا تھا، کا نام لیا ہے۔[32] مجموعی طور پر بلاذری، [33] یعقوبی، [34] ثعالبی، [35] ابن اعثم کوفی، [36] ابوحنیفہ دینوری، [37] ابن فقیہ ہمدانی، [38] حمزہ اصفہانی، [39]حسن بن محمدقمی، [40] فردوسی، [41] سیدظہیرالدین مرعشی [42] قم کو قدیمی ترین شہروں میں سے یاد کرتے ہیں۔
لیکن اس کے برعکس کچھ مورخین جیسے ابودلف خزرجی، [43]، سمعانی، [44]ابوالفداء [45]و یاقوت حموی [46] کی نظر میں اس شہر کی ابتداء ایران میں اسلام داخل ہونے کے ساتھ ہوئی، البتہ بعض سنہ85 [47] جبکہ بعض نے اسے 93 ہجری ذکر کیا ہے۔[48]
ان دو اقوال کو جمع کریں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں: نئے شہر کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں نے ایک قدیمی شہر اور قلعہ کی جگہ ایک نیا شہر تعمیر کیا ہے۔[49]
اسلام کے بعد
مسلمانوں کے ہاتھوں ساسانیوں کو شکست ہونے کے بعد قم ساسانیوں سے خالی ہوا، اکثر مورخین کی نظر میں قم سنہ23 ہجری میں عربوں کے ایران پر حملہ کے دوران ابو موسی اشعری کے ہاتھوں آزاد ہوا۔[50] کچھ روایات کے مطابق قم کو فتح کرنے والا مالک بن عامر اشعری تھا۔[51] جبکہ بعض کے مطابق احنف بن قیس نے قم کو فتح کیا۔[52] سنہ 67 میں خطاب بن اسدی کے قم آنے کے بعد اس نے جمکران میں ایک مسجد بنائی۔[53]
تشیع کا داخلہ
قم والوں کا مذہب اشعریوں کی قم میں ہجرت سے پہلے زرتشت تھا۔[54] اگرچہ قم فتح ہونے کے بعد سے مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہی تھا لیکن لوگوں نے اپنے پرانے دین پر باقی رہنے کو ہی ترجیح دی۔ اشعریوں کے قم آنے اور ان کی طرف سے دین مبین اسلام کی تبلیغ سے قم کے باسیوں نے بغیر کسی اجبار کے دین اسلام قبول اور اشعریوں کے مذہب کو اختیار کر لیا۔ اگرچہ اس بارے میں دقیق معلومات تاریخی منابع میں ثبت نہیں ہیں کہ قم میں ہجرت کرنے والے اشعریوں کا مذہب ابتداء میں کیا تھا اور یہ لوگ کس مذہب کے پیروکار تھے لیکن سائب بن مالک اشعری کے قیام مختار میں اس کا ساتھ دینے، اس کے بیٹے محمد بن سائب کی حجاج کی مخالفت اور ان کی بعد والی نسلوں کے ائمہ معصومینؑ کے ساتھ ارتباط سے ان کے اہل بیت کی طرف مائل ہونے کے احتمال کو تقویت ملتی ہے۔
قم ایران کا پہلا شہر ہے جس نے باقاعدہ طور پر اپنا مذہب تشیع ہونے کا علنی طور پر اعلان کیا اور قم کے باسیوں میں سے موسی بن عبد اللہ بن سعد اشعری وہ پہلا شخص ہے جس نے اپنا قبیلہ شیعہ ہونے کا اظہار اور اس مذہب کی ترویج کا اہتمام کیا۔[55]
قم میں تشیع کی جڑیں
اشعریوں کی ہجرت
اشعریوں کا تعلق اصل میں یمن سے ہے، جنہوں نے پیامبر اکرم(ص) کے زمانے میں اسلام قبول کیا اور خلفاء کے دور میں یہ لوگ کوفہ میں مستقر ہوئے، اور سنہ 85 کو قم کی طرف ہجرت کی۔
اشعریوں کی قم میں ہجرت قم کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ یہی ہجرت قم اور ایران کے دوسرے شہروں میں تشیع کی ترویج کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
قیام مختار کی شکست اور سائب بن مالک اشعری [56]اور محمد بن سائب کے حجاج بن یوسف کے ہاتھ قتل کے بعد، اشعری قبیلے کے افراد کوفہ سے ہجرت کر کے ایران کے مختلف شہروں میں وارد ہو گئے۔ انہی مہاجرین میں سے دو افراد بنام احوص اور عبد اللہ جو کہ سعد بہ مالک اشعری کے بیٹے ہیں قم کی طرف آ گئے جہاں اطراف قم کے سردار "یزدان فادار" نے ان کا پرتپاک انداز میں خیر مقدم کیا، یزدان فادار نے ان سے قم میں رہنے کی درخواست کی۔[57]
حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی بارگاہ
اشعریوں کی قم میں سکونت اور حکومت کے بعد قم، خاندان اہل بیت اور ان کے چاہنے والوں کے لئے سکون اور امن کا مقام بن گیا۔ تاریخ قم کے مصنف یوں لکھتے ہیں کہ علی بن ابی طالب کے فرزندان میں سے ایک گروہ جو کہ "طالبیہ" کے نام سے مشہور ہے قم اور اس کے اطراف میں مقیم ہوا۔ ناصر الشریعہ نے قم کی تاریخ میں ایک باب کو حضرت فاطمہ معصومہ(س) سمیت دوسرے امام زادوں کے ساتھ مختص کیا ہے۔ حضرت معصومہ(س) نے مدینہ سے اپنے بھائی امام رضاؑ کے دیدار کی خاطر مرو کی طرف ہجرت کی اور کچھ دلائل کی بناء پر ساوہ سے قم کی جانب سفر کرنے کا ارادہ کیا اور 17 روز قم میں رہنے کے بعد قم میں ہی رحلت فرما گئیں اور وہیں پر ہی دفن ہو گئیں۔
آپ کی قم میں آرامگاہ کی وجہ سے قم ایران کا دوسرا مذہبی شہر اور شیعوں کے مرکز میں تبدیل ہو گیا اور آپ کے بعد زیادہ تعداد میں امامزادوں اور سادات نے قم اور اس کے اطراف میں سکونت اختیار کی۔[58]
مختلف راویوں اور فقہاء کی موجودگی
قم میں مذہب تشیع کی گسترش کی ایک وجہ، ائمہ کے شاگردوں، ان کے اصحاب اور اس مکتب کے علماء کی قم میں موجودگی ہے۔ ذیل میں ان بعض اہم شخصیتوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
- ابو اسحاق قمی
ناصر الشریعہ نقل کرتے ہیں کہ ابو اسحاق قمی جو اصل میں کوفہ کے رہنے والے اور یونس بن عبد الرحمن کے شاگرد تھے، پہلے شخص ہیں جنہوں نے اہل کوفہ کی احادیث کو قم میں منتشر کیا۔
- زکریا بن آدم بن عبداللہ بن سعد الاشعری قمی
ناصر الشریعہ لکھتے ہیں کہ نجاشی نے اپنی رجال اور علامہ حلی نے کتاب "خلاصۃ الاقوال" میں زکریا بن آدم کے بارے میں یوں بیان کیا ہے: وہ جلیل القدر اور عظیم الشان شخصیت کے مالک تھے۔ امام رضاؑ کی نظر میں وہ ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ امام رضاؑ نے ان کے بارے میں یوں فرمایا: "خدا ان پر رحمت نازل کرے، جس دن وہ اس دنیا میں آیا اور جس دن اس دنیا سے چلا جائے اور جس دن اسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔"[59]
- احمد بن اسحاق
آپ کو "اہل قم کا قافلہ سالار" کہا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حضرت امام جوادؑ اور حضرت امام ہادیؑ سے روایت نقل کی ہے اور انکا شمار حضرت امام حسن عسکریؑ کے خاص اصحاب میں سے ہوتا تھا اور انہیں اہل قم کا شیخ بھی کہا جاتا تھا۔ نجاشی نے انہیں ان افراد میں شمار کیا ہے جن کی توصیف میں امام زمانہ کی جانب سے توقیع(خط) صادر ہوئی ہے۔ [60]
- شیخ صدوق
قم میں مقیم شیعہ علماء میں سے ایک علی بن بابویہ قمی بھی ہیں جو شیخ صدوق کے نام سے مشہور تھے۔ آپ اپنے زمانے کے بلند پایہ شیعہ علماء میں سے تھے۔
اہل قم اور ائمہؑ سے رابطہ
قم کے باسی خصوصاً اشعریوں کا قبیلہ وہ پہلے افراد تھے جنہوں نے اپنی سالانہ آمدنی سے خمس نکال کر اہل تشیع کے اماموں کو بھیجنا شروع کیا، اشعریوں کا اپنے ائمہ سے اس حد تک رابطہ تھا کہ حتی ان کی وفات کے بعد ائمہ ان کے لئے کفن بھیجتے تھے۔ مادلونگ کہتا ہے:
پہلا رابطہ
عبد اللہ بن سعد بن مالک جو قم کی طرف ہجرت کرنے والے پہلے مہاجرین میں سے تھے کے بعض فرزندان أئمہ معصومین کے اصحاب میں سے تھے۔ تاریخی اعتبار سے یہ سب سے پرانے شواہد ہیں جو ائمہ کے ساتھ قم کے اشعریوں کے رابطے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ موسی بن عبد اللہ بن سعد امام صادقؑ کے اصحاب میں سے تھے اور شیخ طوسی کے مطابق انہوں نے امام باقرؑ سے بھی روایت سنی تھی۔ شیعب بن عبد اللہ کا شمار بھی امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے اصحاب میں ہوتا ہے۔ آدم، ابو بکر، یسع، یعقوب اور اسحاق جو کہ عبد اللہ بن سعد کے فرزندان تھے ان کا شمار بھی امام صادقؑ کے اصحاب اور شاگردوں میں ہوتا ہے۔[62]
امام کاظمؑ سے اظہار وفاداری
امام کاظمؑ کی شہادت جو بہت سے شیعہ اور غیر شیعہ شخصیات کے لئے غیر قابل درک واقعہ تھا، لیکن اہل قم نے قطعی اور یقینی طور پر ہارون رشید کو اس واقعے کا ذمہ ذار ٹہرایا اور اسی تناظر میں اس کی طرف سے بھیجے گئے حاکموں کی باقاعدہ مخالفت شروع کی۔[63]
امام رضاؑ اور اہل قم
اہل قم کا امام رضاؑ کی طرف سے عطا کردہ پیراہن کو کئی گنا زیادہ قیمت دے کر تبرک کی خاطر دعبل خزاعی سے خریدنا ان لوگوں کی امام رضاؑ اور اہل بیت ؑ سے سچے محبت کی دلیل ہے۔
یونس بن عبد الرحمان اشعری جو امام رضاؑ کے وکیل تھے، اس قدر علوم آل محمد کے زیور سے آراستہ ہو جاتے ہیں کہ جب ابن المہتدی نے امام رضاؑ سے عرض کیا کہ آپ کی غیر موجودگی میں ہم اپنے سوالات کو کس سے دریافت کریں؟ تو اس موقع پر امام رضاؑ یونس بن عبدالرحمن کی نشاندہی فرماتے ہیں۔
امام رضاؑ نے زکریا بن آدم قمی سے یوں خطاب فرمایا: خداوند نے تمہاری وجہ سے بہت سے بلا و مصیبت کو اہل قم سے دور کیا جس طرح کہ امام کاظمؑ کی وجہ سے اہل بغداد سے بہت سے مصیبتوں کو دور فرمایا۔
زکریا بن ادریس قمی اشعری جو کہ امام رضاؑ کے نامدار اصحاب میں سے تھے جنہوں نے امام صادقؑ اور امام کاظمؑ سے بھی روایت نقل کی ہیں جب ان کی رحلت ہوئی تو امام رضاؑ نے رات کے شروع ہونے سے لے کر صبح کے طلوع ہونے تک اس کے لئے طلب رحمت فرمائی۔[64]
اہل قم کے لئے امام جوادؑ کی دعا
امام جوادؑ جب علی بن مہزیار کے خط کی وجہ سے قم کی بری حالت سے آگاہ ہوئے، تو قم کے لوگوں کے لئے خدا سے نجات اور رہائی کی دعا کی اور یوں فرمایا: قم کے لوگوں کی مصیبت اور گرفتاری سے آگاہ ہوا ہوں خدا وند ان کو اس مصیبت سے رہائی دے اور ان کو آسائش بخشے۔
امام ہادیؑ کے قمی شاگرد
اہل قم امام ہادیؑ کے حکومت کے تحت نظر ہونے کے باوجود امام سے رابطے میں تھے یہاں تک کہ متوکل اس چیز سے خوف محسوس کرتا تھا اور یہ گمان کرتا تھا کہ اہل قم سامرا کی طرف اسلحہ لے جا رہے ہیں۔ اس لئے متوکل کے کارندے مختلف راستوں پر گھات لگئے بیٹھتے تھے اور سامرا جانے والے کاروانوں کی جامہ تلاشی لے کر ان کے اموال کو ضبط کر کے انہیں متوکل تک پہنچاتے تھے۔[65] امام ہادیؑ کے بعض شاگرد جنہیں محدثین میں شامل کیا جاتا ہے کا تعلق قم سے تھا[66]۔ امام ہادیؑ کی نگاہ میں اہل قم نجات یافتہ ہیں کیونکہ یہ لوگ اس وقت بھی امام رضاؑ کی زیارت کیلئے جایا کرتے تھے۔[67][68]
اہل قم کے نام امام حسن عسکریؑ کے خطوط
امام حسن عسکریؑ کے اہل قم اور آوہ کے نام بھیجے گئے خطوط مشہور ہیں۔ امامؑ ان دو شہروں کے باسیوں کے نام اپنے ایک خط میں یوں فرماتے ہیں: :: خداوند متعال کے اپنے بندوں پر لطف و کرم اور عنایت کے باوجود پیامبر اسلام(ص) کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر مبعوث کرنے کے معاملے میں اپنے بندوں پر احسان کیا ہے اور تمہیں دین اسلام کے قبول کرنے کی توفیق عطا کی اور پیغمبر اکرم(ص) کی ہدایت اور رہنمائی کی وجہ سے تمہیں عزت عطا کی اور خاندان پیغمبر(ص) کے ساتھ محبت و دوستی کا بیج گذشتہ اور آنے والی نسلوں کے دلوں میں بویا، وہ جو تم سے رخصت ہو گئے ہیں وہ اسی بنا پر سعادت اور نجات یافتہ ہو گئے ہیں اور اپنے نیک کردار کا ثمرہ حاصل کر چکے ہیں اور اپنے نیک اعمال کا ثواب حاصل کر لئے ہیں۔
اے لوگو! ہماری نیت اور ارادہ ہمیشہ سچا اور پایدار ہے، اور ہمارا دل آپکے نیک افکار کی وجہ سے پرسکوں ہے، اور ہمارے اور آپ کے درمیان ایسا گہرا تعلق اور پیوند ہے جس کی سفارش ہمارے اور آپکے گذشتگان نے کی تھی۔ ہمارے جوانوں اور آپ کے عمر رسیدہ افراد کے درمیان جو عہد و پیمان برقرار ہے وہ ہمیشہ ایک واحد مرتبط اعتقاد کے ذریعے مستحکم اور پایدار ہے۔ کیونکہ خدا وند عالم نے ہمارے درمیان یہ محکم رابطہ قرار دیا ہے، جیسا "عالم" (امام صادق یا امام باقرؑ کی طرف اشارہ ہے) فرماتے ہیں:
- "اَلْمْؤمِنْ اَخُو الْمْؤمِنِ لِاُمِهِ وُ اَبِیهِ: (ترجمہ: مؤمن، مؤمن کے سگے بھائی ہیں۔)"[69]
قم اور تاریخی نشیب و فراز
قم کی فتح، اور اشعریوں اور حضرت معصومہ(ص) کے حرم کی وجہ سے قم شیعوں کے بہت بڑے مرکز میں تبدیل ہو گیا، قم کے لوگ شروع ہی سے غیر شیعہ حکومت کو قبول نہیں کرتے اور ان کے خلاف قیام کرتے تھے اور یہ سلسلہ عباسیوں کے زمانے سے ہی شروع ہوا۔
اہل قم کا عباسی خلفاء کے خلاف قیام
مامون کے زمانے میں دو قیام
- پہلا قیام:امام رضاؑ کی شہادت کے بعد مامون نے بغداد کی طرف ہجرت کی، سنہ 210 میں قم کے لوگوں نے عباسی خلیفہ کے کارندوں کو مالیات دینے سے انکار کرتے ہوئے ان کے خلاف قیام کیا۔ مامون نے بھی علی بن ہشام مروزی کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا جس نے کافی تباہی پھیلانے اور بے شمار قتل و غارت کے بعد باغیوں کو سرکوب کیا۔[70]
- دوسرا قیام: سنہ 215 میں قم کے لوگوں نے دوبارہ قیام کیا اور عباسی حاکم کو شہر سے نکال باہر کیا۔ مامون نے دوبارہ فوج بھیج کر بعض کو قتل اور بعض کو قید میں ڈالنے کے ذریعے قیام کو ختم کر دیا۔[71] حسن بن محمد قمی کی نظر میں یہ واقعہ سنہ 217 ق میں پیش آیا۔[72]
دوسرے خلفاء کے دور کے قیام
- معتصم کی حکومت کے اوائل میں قم کے لوگوں نے دوبارہ قیام کیا اور عباسی حاکم کو شہر سے نکال باہر کیا، معتصم نے اپنا بڑا لشکر قم کی جانب روانہ کیا، اور بہت سے باغات اور گھروں کو آگ لگا دی اور شہر کو بہت نقصان پہنچایا۔[73]
- معتز کے زمانے میں قم کے لوگوں نے دو قیام کئے، ایک بار مفلح ترک نے قیام کو سرکوب کیا اور دوسری بار موسی بن بغاء نے،[74] موسی بن بغا نے قم کے لوگوں پر اسقدر ظلم کیا کہ اس کی شکایت امام حسن عسکریؑ تک پہنچا دی اور آپ سے اس مسئلے کا راہ حل دریافت کیا۔ آںحضرت نے اہل قم کے نام ایک مفصل دعا ارسال فرمائی تاکہ لوگ ان گرفتاریوں سے نجات کیلئے اسے نماز کی قنوت میں پڑھا کریں۔[75]
- مقتدرعباسی خلفاء میں سے "مقتدر" نے عاقلانہ اقدام کیا، اس نے حسین بن حمدان جو خود بھی شیعہ تھے، کو بھیج کر قم کے لوگوں کے دیرینہ مطالبات کو پورا کیا،[76] جب حسین بن حمدان قم میں داخل ہوا تو قم کے لوگوں نے اس کا استقبال کیا، اور کہا: کہ ہم اس سے جنگ کرتے ہیں جو ہمارے مذہب کی مخالفت کرتا ہے اور چونکہ تم ہمارے ہم مذہب ہو ہماری تمہارے ساتھ کوئی جنگ نہیں ہے۔
- معتضد نے دوسرے خلفاء کی طرح غیر شیعہ حکمران قم کی طرف بھیجے، اہل قم نے اس کام کی مخالفت کی، اور اس کے حکمرانوں کو شہر سے باہر نکال دیا، اس نے ابراہیم بن کلیخ کو شورش ختم کرنے کے لئے قم کی طرف بھیجا، اس نے کچھ لوگوں کو قتل کیا لیکن قیام کو ختم نہ کر سکا، خلیفہ نے اس کام کی امیر اسماعیل سامانی سے درخواست کی، امیر اسماعیل نے اپنی خاص مہارت کی وجہ سے قتل و خون ریزی کے بغیر اس مسئلہ کو حل کر دیا، اور شیعہ مذہب کے پیرو یحیی بن اسحاق کو حکومت سونپ دی۔
اہم مساجد
- مسجد جمکران ، یہ مسجد قم کے جنوب مشرق میں چھ کلو میٹر کے فاصلے پر (کاشان اور قم کے پرانے راستے) میں واقع ہے۔ یہ مسجد امام زمانہ سے منسوب ہے اسی لئے ایران اور دنیا کے مختلف ملکوں سے لوگ یہاں آکر کر عقیدت و احترام کا اظہار کرتے ہیں خاص طور پر ہر بدھ کی رات یہاں دعائے توسل کیلئے لوگ کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں اور بعض تا طلوع فجر یہیں پر عبادت اور راز و نیاز میں بسر کرتے ہیں۔ [77]
- مسجد امام حسن عسکریؑ مسجد امام حسن عسکریؑ پل علیخانی کے نزدیک ہے، اس کا پرانا نام مسجد جامع عتیق تھا،[78] روایت کے مطابق اس کی پہلی تعمیر تیسری صدی میں امام حسن عسکریؑ کے وکیل احمد بن اسحاق اشعری کے ہاتھوں ہوئی تھی،[79] یہ مسجد اب آیت اللہ گلپایگانی کی کوشش سے 2500 میٹر کی مساحت پر پھیلی ہوئی ہے۔[80]
- جامع مسجد اس مسجد کی قدمت تقریباً چھ صدی پہلے کی طرف پلٹتی ہے، مسجد امام حسن عسکری کے بعد قدیمی ترین مسجد میں اس کا شمار ہوتا ہے۔[81] صاحب النقض کے مطابق اس مسجد کی تعمیر سلجوقی پادشاہ طغرل کے دور میں ہوئی۔ [82]
- مسجد اعظم حرم حضرت معصومہ(س) کے مغربی حصے میں واقع ہے جو آیت اللہ بروجردی کی کوشش سے سنہ 1374ھ، میں تعمیر ہوئی۔[83]
مدفون شخصیات
قم کی سرزمین میں اپنے اموات کو دفن کرنا، شیعوں کے درمیان پہلے سے چلا آ رہا ہے اسی وجہ سے بہت سارے علماء اور سلاطین اور بزرگوں کی قبریں یہاں ہیں لیکن اس رسم میں صفویوں کے دور حکومت سے شدت آگئی اور شاردن نے اپنے سفر نامہ میں ایران کے مختلف علاقوں سے اموات کو یہاں منتقل کرنے اور حرم حضرت معصومہؑ کے دائیں طرف موجود قبرستان میں انہیں دفن کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔
شیعوں کے بلند پایہ کئی علماء جیسے زکریا بن آدم، علی بن بابویہ، محمد بن قولویہ، علی بن ابراہیم، قطب راوندی وغیرہ کے قم میں دفن ہونے کی علاوہ ایران کے متعدد پادشاہوں اور سلاطین کے جسد خاکی بھی یہاں مدفون ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ یوں ہے: [84]
- شاہ عباس دوم صفوی
- شاہ صفی
- شاہ سلیمان صفوی
- شاہ سلطان حسین صفوی
- فتحعلی شاہ قاجار
- محمد شاہ قاجار
- مہد علیا مادر ناصر الدین شاہ
حوالہ جات
- ↑ بحار، ج۶۰، ص۲۱۶
- ↑ بحار، ج۶۰، ص۲۱۶
- ↑ تاریخ، قم ص۲۲
- ↑ دہخدا، ج۱۲، ص۱۸۷۵۰
- ↑ تاریخ قم ص۲۳
- ↑ تقویم البلدان ص۴۱۰ ابی الفدا، بیروت، لیدن، ۱۸۴۰
- ↑ معجم البلدان، ج۴، ص۳۷۹
- ↑ بحار، ج۶۰ص۲۱۲
- ↑ بحار، ج۶۰ص۲۱۷
- ↑ بحار، ج۶۰ص۲۱۲
- ↑ بحار، ج۶۰ص۲۱۴
- ↑ بحار، ج۶۰ص۲۱۲
- ↑ بحار، ج۶۰ص۲۱۵
- ↑ بحار، ج۶۰ص۲۱۵
- ↑ بحار، ج۶۰ص۲۲۸
- ↑ بحار، ج۶ص۲۲۸
- ↑ بحار، ج۶۰ص۲۱۶
- ↑ بحار، ج۶۰ص۲۱۳
- ↑ تاریخ قم، ص۲۲-۲۵
- ↑ تاریخ قم، ص۲۲-۲۵
- ↑ تاریخ قم، ص۲۲-۲۵
- ↑ تاریخ قم، ص۲۲-۲۵
- ↑ تاریخ قم، ص۲۲-۲۵
- ↑ تاریخ قم، ص۲۲-۲۵
- ↑ تاریخ قم، ص۲۲-۲۵
- ↑ تاریخ قم، ص۲۲-۲۵
- ↑ ایران از آغاز تا انجام، ص۷
- ↑ باستان شناسی ایران باستان، ص۱۲۴
- ↑ نزہۃ القلوب، ص۶۷
- ↑ فتوح البلدان، ص۳۱۹
- ↑ تاریخ یعقوبی، ج۱ص۱۴۴
- ↑ تاریخ قم، ص۸۲-۸۹
- ↑ فتوح البدان، ص۴۳۶
- ↑ تاریخ یعقوبی، ج۱ص۱۴۴
- ↑ غرراخبارملک الفرس، ص۷۰۹
- ↑ الفتوح، ج۱ص۲۸۶-۲۸۸
- ↑ اخبار الطوال، ص۶۷
- ↑ مختصر البلدان، ص۲۰۹
- ↑ سنی ملوک الارض والانبیاء، ص۳۵
- ↑ تاریخ قم، ص۹۱
- ↑ شاہنامہ جلد۴ص۱۲۸
- ↑ تاریخ طبرستان و رویان، ص۴
- ↑ سفرنامہ ابودلف، ص۷۱
- ↑ الانساب، ص۴۶۱
- ↑ تقویم البدان، ص۴۰۹
- ↑ معجم البدان، ج۴ص۴۵۱
- ↑ معجم البلدان، ج۴ص۳۹۷
- ↑ تاریخ قم ص۲۵۳الی ۲۵۶
- ↑ جغرافیای تاریخ قم، ۷۸؛ادیب کرمانی، ص۷۳
- ↑ حسن بن محمد قمی، تاریخ قم، ص۲۵؛ فتوح البلدان، ص۴۳۹
- ↑ تاریخ قم، ۲۶۱
- ↑ تاریخ قم، ۵۶
- ↑ تاریخ قم، ص۳۸
- ↑ شعبانی ۱۳۶
- ↑ تاریخ قم ص۲۷۸
- ↑ تاریخ قم ص۲۸۴-۲۹۰
- ↑ تاریخ قم، ص۲۴۶
- ↑ تاریخ قم، ص۲۱۵
- ↑ ناصر الشریعہ، ص۱۹۵
- ↑ ناصر الشریعہ، ص۱۶۸
- ↑ کیہان اندیشہ، ش۱۵۲ص۱۵۳؛ دایرہ المعارف تشیع، ج۱۳ص ۲۷۲
- ↑ پیروزفر و آجیلیان، ص۳۵-۳۶
- ↑ دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱
- ↑ دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱
- ↑ دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱
- ↑ دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱
- ↑ دایرۃ المعارف تشیع، ج۱۳ص۲۷۱
- ↑ تاریخ، قم، ناصرالشریعہ، ۱۴۶
- ↑ اعیان الشیعہ، ج۲: ۴۱
- ↑ تاریخ قم، ص۳۵
- ↑ طبری، ج۱۳ص ۵۷۴۲
- ↑ تاریخ قم، ص۳۵
- ↑ کامل، ج۱۲ص ۵۴
- ↑ فتوح البلدان، ص:۳۰۷
- ↑ نقدالرجال ص۳۳۱
- ↑ الکامل، ج۸، ص:۱۹
- ↑ مجموعہ مقالات، جدوم، ص۲۵۳
- ↑ تاریخ قم، ۳۷
- ↑ آثار تاریخی و فرہنگی قم، ۱۶۸
- ↑ آثار تاریخی و فرہنگی قم، ۱۶۸
- ↑ مجموعہ مقالات، ج۲ص ۲۵۴
- ↑ النقض، ص۱۶۳
- ↑ مجموعہ مقالات، ج۲ص ۲۵۴
- ↑ فقیہی، تاریخ مذہبی قم، صص۱۸۲-۱۸۶.
مآخذ
- ابن فقیہ ہمدانی، مختصر البلدان، تصحیح مخیائیل یا دخویہ، لیدن، ۱۳۲۰ق
- ابو الفدا اسماعیل بن محمد، تقویم البلدان، بیروت، دار صادر، افست از چاپ پاریس، ۱۸۴۰ ء
- ابو دلف مسعر بن مہلہل خزرجی، سفرنامہ ابی دلف در ایران، تصحیح ولادیمیر مینورسکی، ترجمہ سید ابو الفضل طباطبایی، تہران، زوار، ۱۳۵۴.
- ادیب کرمانی، غلام حسین، افضل الملک، ۱۳۶۹، تصحیح مدرسی طباطبایی، وحید، بیتا، بیجا
- اصفہانی حمزہ بن حسن، سنی ملوک الارض و الانبیا، بیروت، ۱۹۶۱ ء
- بلاذری احمد بن یحیی، فتوح البلدان، ترجمہ محمد توکل، تہران، نقرہ، ۱۳۳۷، چاپ اوّل
- پیروزفر، سہیلا و آجیلیان مافوق، محمد مہدی، خاندان اشعری و تاثیر آن بر سیر تحول مکتب حدیثی قم؛ فصلنامہ حدیث پژوہی، شمارہ۵، بہار و تابستان ۱۳۹۰
- ثعالبی، غرر الاخبار نلئم الفرس، تصحیح اچ.زوتمبرگ، بیروت (افست از چاپ پاریس) ۱۹۸۲ء
- حسن بن محمد قمی، تاریخ قم، ترجمہ حسن بن علی بن حسن عبدالملک قمی، تہران، توس، ۱۳۶۱
- دینوری ابو حنیفہ، تحقیق عبد المنعم عامر، قاہرہ، وزارہ الثقافہ والارشاد القومی، ۱۹۶۰ء
- رومن گیرشمن، ایران از آغاز تا اسلام، ترجمہ محمد معین، تہران، علمی وفرہنگی، ۱۳۶۸
- شہیدی رضا، گزیدہ تاریخ ایران، تہران، سازمان فرہنگ وارتباطات اسلامی، ۱۳۸۱
- عرب زادہ ابو الفضل، جغرافیای تاریخی قم، انتشارات زائر، ۱۳۸۳
- فردوسی ابو القاسم، شاہنامہ، تصحیح ژول مول، تہران، انتشارات کتب جیبی، ۱۳۶۸
- لویی واندنبرگ، باستان شناسی ایران باستان، ترجمہ عیسی بہنام، تہران، دانشگاہ تہران، ۱۳۴۸
- مرعشی ظہیر الدین، تاریخ طبرستان و رویان و مازندران، تصحیح عبد الحسین نوایی، تہران، امیرکبیر، ۱۳۳۹
- مستوفی حمداللہ، نزہہ القلوب، تحقیق گی لسترنج، تہران، دنیای کتاب، ۱۳۶۲
- ناصر الشریعہ محمد حسین، تاریخ قم، مقدمہ و تعلیق علی دوانی، قم دارالفکر، ۱۳۵۰
- یعقوبی احمد بن واضح، تاریخ یعقوبی، بیروت دار الصادر