محمد بن جعفر الصادق

ویکی شیعہ سے
(سید محمد دیباج سے رجوع مکرر)
محمد بن جعفر الصادق
ناممحمد بن جعفر
وجہ شہرتامام صادق کے فرزند
لقبمحمد دیباج
وفات203 ھ
مدفنگرگان (ایران)
والدامام جعفر صادق (ع)
والدہحمیدہ
شریک حیاتخدیجہ بنت عبد اللہ بن حسین
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


محمد بن جعفر، (متوفی: 203ھ، گرگان) محمد دیباج کے نام سے معروف امام جعفر صادق (ع) کے بیٹے ہیں جنہوں نے سن 199 ھ میں مامون کے دور حکومت میں مکہ میں بنی عباس کے خلاف قیام کیا۔ لیکن خلیفہ نے انہیں گرفتار کرکے اپنے پاس طلب کر لیا۔ خراسان میں ان کی وفات ہوئی اور مامون نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔

تعارف

محمد، امام جعفر صادق (ع) کے فرزند ہیں اور ان کا شمار علماء اور اپنے والد سے نقل احادیث کے روات میں ہے۔[1] ان کی زوجہ خدیجہ عبد اللہ بن حسین کی بیٹی تھیں۔ انہیں ان کی خوب صورتی کی وجہ سے دیباج کا لقب دیا گیا تھا۔[2] بعض شیعہ مصنفین نے انہیں شجاع، کریم اور پرہیز گار انسان ذکر کیا ہے۔ البتہ حدیث کے سلسلہ میں انہیں ضعیف اور غیر قابل اعتبار قرار دیا ہے اور ان کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ وہ مسلحانہ قیام کے سلسلہ میں زیدیہ کے ہم مسلک تھے۔[3]

بنی عباس کے خلاف قیام

انہوں نے سن 199 ھ میں اور بعض روایات کے مطابق 200 ھ میں مکہ میں مامون کی حکومت کے خلاف قیام کیا۔ نقل ہوا ہے کہ وہ ابتداء میں اس بات سے موافقت نہیں رکھتے تھے لیکن بعد میں اپنے ساتھیوں اور گھر والوں کے شوق دلانے پر اس کی طرف مائل ہوئے۔[4] ان کے قیام کا زمانہ مامون کی خلافت کے ابتدائی دنوں کے آشوب اور علویوں اور دیگر حکومت مخالفین کی طرف سے اسلامی ممالک میں متعدد مقامات پر کی جانے والی بغاوتوں کا زمانہ تھا۔ منجملہ انہی میں سے ایک ابن طباطبا کا قیام ہے جس نے عراق میں بہت کامیابی حاصل کی۔

ایک دوسرے علوی حسین بن حسن افطس نے مکہ میں زمام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ بعض نقل کے مطابق حسین بن حسن افطس عوام کی مرضی حاصل نہ کر پانے اور دوسری تحریکوں کی شکست کے پیش نظر محمد دیباج کے پاس آئے اور انہیں خلافت کی پیشکش کی تا کہ ان کی محبوبیت سے فائدہ اٹھا سکیں۔ محمد دیباج نے شروع میں اس بات کو قبول نہیں کیا لیکن بعد میں اپنے بیٹے اور حسین بن افطس کے اسرار پر راضی ہو گئے۔[5] مسعودی کے بقول محمد دیباج ابتداء میں ابن طباطبا کے پیروکار تھے اور ان کی طرف لوگوں کو دعوت دے رہے تھے اور ابن طباطبا کی موت کے بعد انہوں نے خلافت کا دعوی کیا اور امیر المومنین کہلانے لگے۔[6]

مامون کے دربار میں

عیسی جلودی اس لشکر کا سردار تھا جسے محمد دیباج کے ساتھ جنگ پر مقرر کیا گیا تھا، حجاز اور اطراف مکہ میں کئی چھڑپوں کے بعد اس نے محمد کے ساتھوں کو شکست دے کر انہیں گرفتار کر لیا۔ اسارت کے بعد انہوں نے مکہ میں عوام کے درمیان تقریر کی اور اپنے عمل سے ندامت کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے خبر دی گئی کہ مامون مر چکا ہے اس وجہ سے میں نے اس خلافت کو قبول کر لیا۔[7]

عیسی جلودی نے محمد کو خراسان بھیج دیا۔ خراسان میں مامون نے ان کا اکرام کیا، اپنے پاس بٹھایا اور انعام و صلہ سے نوازا۔ وہ وہیں مامون کے پاس خراسان میں رک گئے۔ بعض نقل کے مطابق امام علی رضا (ع) کی شہادت کے وقت وہ وہیں خراسان میں تھے۔ شہادت کے ایک روز بعد مامون نے محمد بن جعفر اور دیگر سادات کو بلایا اور اس خبر سے آگاہ کیا۔[8]

وفات اور محل دفن

محمد دیباج نے سن 203 ھ میں گرگان، خراسان میں وفات پائی۔[9] مامون نے ان کی تشییع جنازہ میں شرکت کی اور ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔[10]

ایران میں کئی مقبرے ان سے منسوب اور ان کے نام سے معروف ہیں جن میں سے ایک دامغان کے شہر دیباج،[11] درگز کے دیہات شلیگان،[12]آزاد شہر کے امام زادہ امام آق[13] اور قزوین میں ان سے منسوب ہے۔[14]

حوالہ جات

  1. ابن الطقطقی، الفخری،ص۲۱۷
  2. مسعودی، مروج الذہب، ج۳، ص۴۳۹.
  3. شبستری، الفائق فی رواة و أصحاب الإمام الصادق، ج۳، ص۴۴.
  4. ابن الطقطقی، الفخری،ص۲۱۷
  5. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۸، ص۵۳۷-۵۳۹؛ ابن خلدون، تاریخ، ج۳، ص۳۰۶.
  6. مسعودی، مروج الذہب، ج۳،ص۴۳۹
  7. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۸، ص۵۴۰؛ ابن خلدون، ج۳، ص۳۰۶.
  8. مفید، الارشاد، ج۲، ص۲۷۱.
  9. ابن الاثیر، الکامل فی التاریخ، ج۶،ص۳۵۶
  10. مفید، الارشاد، ص۵۵۵-۵۵۶.
  11. امامزاده محمّد دیباج دامغان
  12. محمّد دیباج شیلگان درگزادشهر
  13. امام زاده آق امام آزاد شہر
  14. نقش امام زادگان سلطان سید محمد و سید اسماعیل در گسترش فرہنگ گردشگری قزوین

مآخذ

  • ابن الاثیر، عز الدین ، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵ھ/۱۹۶۵ء۔
  • الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، ۱۹۶۷ء۔
  • شبستری، عبد الحسین، الفائق فی رواة و أصحاب الإمام الصادق علیہ السلام، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۸ھ۔
  • محمد بن علی بن طباطبا، ابن الطقطقی، الفخری فی آداب السلطانیہ، تحقیق عبد القادر محمد مایو، بیروت، دار القلم العربی، ۱۴۱۸ھ/۱۹۹۷ء۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الہجره، ۱۴۰۹ھ۔
  • مفید، الارشاد، ترجمہ و شرح فارسی: محمد باقر ساعدی، تصحیح: محمد باقر بہبودی، بی‌ جا، انتشارات اسلامیه، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔