رہبانیت

ویکی شیعہ سے
(رهبانیت سے رجوع مکرر)

رَہبانیت، دنیا اور اس کے لذات من جملہ شادی اور لذیذ کھانوں کو ترک کرنے کو کہا جاتا ہے۔ اسی طرح معاشرہ اور لوگوں سے کنارہ گیری اختیار کر کے خانقاہوں میں عبادت میں مصروف رہنا کو بھی رہبانیت کہا جاتا ہے جو اسلام میں زہد کی خلاف ہے اور جس کی ممانعت کی گئی ہے۔ حضرت محمدؐ نے رہبانیت سے منع کرتے ہوئے مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دی ہیں اور اس کو اپنی امت کی رہبانیت سے تعبیر کی ہیں۔

پیغمبر اسلامؐ سے منقول ایک حدیث میں عیسائی مؤمنین کا ظالمین کے خلاف کئی بار شکست کو ان میں رہبانیت کی طرف رجحان پیدا ہونے کی علت قرار دی گئی ہے۔ تاریخی منابع کے مطابق تیسری صدی عیسوی میں عیسائیوں میں رہبانیت کا ظہور ہوا۔ بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ عیسائیوں میں موجود رہبانیت اسلام میں تصوف کے منابع میں سے ہیں۔

تعریف

رہبانیت، یعنی دنیوی لذتوں جیسے شادی بیاہ اور گوشت وغیرہ کے کھانے سے پرہیز کرنا۔ اسی طرح خانقاہوں میں عبادت کی خاطر لوگوں اور معاشرے کنارہ گیری اختیار کرنے کو بھی رہبانیت کہا جاتا ہے جس کی اسلام میں ممانعت کی گئی ہے۔[1] رہبانیت زہد کے مقابلے میں معاشرے سے کنارہ گیری اختیار کرنے کو کہا ہے جبکہ زہد سے مراد مادیات سے قطع تعلق کو کہا جاتا ہے۔[2] محققین کے مطابق اسلام میں جس زہد کی تاکید کی گئی ہے اس کا نتیجہ معاشرے میں اچھی زندگی گزارنا ہے نہ کہ معاشرے سے قطع تعلق کرنا۔[3]پیغمبر اکرمؐ کی جانب سے عثمان بن مظعون کو اس کے بیٹے کی وفات پر گوشہ نشینی سے منع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں معاشرے سے کنارہ گیری اختیار کرنے کی مذمت ہوئی ہے۔[4]

بعض محققان پیغمبر اکرمؐ سے مروی ایک حدیث،[5] سے استناد کرتے ہوئے رہبانیت جس کی اسلام میں ممانعت کی گئی ہے اور زہد جس کی طرف اسلام نے دعوت دی ہے میں یہ فرق بیان کرتے ہیں کہ زہد صرف مضر لذتوں سے چشم پوشی کرنا اور ان کی طرف راغب نہ ہونا ہے جبکہ رہبانیت تمام دنیوی لذتوں سے کنارہ گیری اختیار کرنا ہے حتی مباح اور جائز لذتوں سے بھی۔[6]

منشأ پیدائش

چنانچہ بعض احادیث میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ نے عیسائی مؤمنین کی بار بار شکست کو رہبانیت کا منشاء پیدائش قرار دیا ہے جس کے بعد وہ بیابانوں میں فرار کر گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں عبادت کرنے لگے۔[7] بعض مفسرین سورہ مائدہ کی آیت نمبر 87 سے استناد کرتے ہوئے رہبانیت کو خدا کی نعمتوں کو اپنے اوپر حرام قرار دینا قرار دیتے ہیں جو حقیقت میں اسلام کے احکام اور قوانین کی مخالفت ہے۔[8] اسی طرح قرآن کریم میں رہبانیت کو عیسائیوں کی بدعت قرار دیتے ہوئے خدا کی طرف سے ایسی کسی چیز کی تشریع نہ ہونے کی تصریح کی گئی ہے۔[9] بعض محققین تیسری صدی عیسوی کو رہبانیت کا مبداء ظہور قرار دیتے ہیں۔[10]

عیسائی شروع میں رہبانیت کو حضرت عیسی کی تقلید سمجھتے تھے کیونکہ حضرت عیسی نے شادی نہیں کی ہے۔[11] اسی طرح یہ لوگ کتاب مقدس کی کچھ آیات سے استناد کرتے ہیں جس کے مطابق حضرت عیسی نے اپنے ماننے والوں سے کہا تھا کہ "ملکوت خدا" کی خاطر بعض لوگ بغیر شادی کے رہیں گے۔[12]

اسلام میں رہبانیت کی ممانعت

حضرت محمدؐ سے منقول ایک حدیث میں رہبانیت سے منع ہوئی ہے اور اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔[13] پیغمبر اکرمؐ نے مسلمانوں کو رہبانیت کی جگہ جہاد کی دعوت دی ہے اور جہاد کو اپنی امت کی رہبانیت قرار دیا ہے۔[14] امام علیؑ نے نہج البلاغہ میں عاصم بن زیاد جس نے عبا سر پر ڈال کر دنیا سے منہ موڑ لیا تھا، کو اپنے آپ سے دشمنی کرنے والا اور شیطان کی طرف سے گمراہ شدہ فرد قرار دیا ہے۔[15]

علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں أمالی اور خصال شیخ صدوق، تفسیر قمی اور دیگر شیعہ کتب سے 10 سے زائد احادیث نقل کی ہیں جن میں رہبانیت سے ممانعت کی گئی ہے۔[16]

ان تمام باتوں کے باوجود محمد جواد مغنیہ نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 82 [17] کو مسیحی راہبوں کی تجلیل قرار دیا ہے۔[18]

تصوف پر رہبانیت کا اثر

بعض مستشرقین اور مسلمان محققین کو من جملہ ان لوگوں میں سے قرار دیا جاتا ہے جو اس بات کے معتقد ہیں کہ عیسائیت میں موجود رہبانیت اسلام میں تصوف کے منابع میں سے ہے۔[19] انہی محققین میں سے مصر کے زکی مبارک جیسوں کا کہنا ہے کہ مسلمان حضرت عیسی کی تعلیمات کو معنوی امور میں اپنے لئے رہنما قرار دیتے تھے اور یہ لوگ انجیل سے آشنا تھے۔ اور مسیحی کتاب مقدس کے آثار اسلامی متون کی عیون الأخبار ابن قتیبہ اور الإحیاء غزالی جیسی بعض کتابوں میں بھی ملتی ہیں۔[20] انہوں نے ان مسیحیوں کو جو دعاؤں کی کتابوں کے ہمراہ کلیسا میں جاتے ہیں ان صوفیوں کی طرح قرار دیتے ہیں جو اذکار اور ادعیہ کی کتابوں کے ساتھ مسجد جایا کرتے ہیں۔[21]

حوالہ جات

  1. مجلسی،‌ عین الحیاۃ، ۱۳۸۲ش، ج۱، ص۳۷۶و۳۷۷؛ مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۲ش، ج۴، ص۱۹۹۔
  2. مکارم شیرازی، الأمثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۸، ص۸۵۔
  3. مکارم شیرازی، الأمثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۸، ص۸۵۔
  4. مکارم شیرازی، الأمثل، ۱۴۲۱ق، ج۱۸، ص۸۵۔
  5. لیسَ الزہدُ فی الدّنیا بإضاعۃ المال ولا بتحریم الحلال۔۔۔ (شیخ صدوق، معانی الأخبار،‌ دار المعرفۃ، ص۲۵۱و۲۵۲۔
  6. محمدی ریشہری، الدنیا والأخرۃ فی الکتاب والسنۃ، ص۲۶۹۔
  7. طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۶ق، ج۹، ص۳۶۶۔
  8. ہاشمی رفسنجانی و دیگران، فرہنگ قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۱۵، ص۲۰۸۔
  9. طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۶ق، ج۹، ص۳۶۶؛ ملاحظہ کریں: ثُمَّ قَفَّینَا عَلَیٰ آثَارِہِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّینَا بِعِیسَی ابْنِ مَرْیمَ وَآتَینَاہُ الْإِنجِیلَ وَجَعَلْنَا فِی قُلُوبِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ رَأْفَۃً وَرَحْمَۃً وَرَہْبَانِیۃً ابْتَدَعُوہَا مَا کتَبْنَاہَا عَلَیہِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّہِ فَمَا رَعَوْہَا حَقَّ رِعَایتِہَا ۖ فَآتَینَا الَّذِینَ آمَنُوا مِنْہُمْ أَجْرَہُمْ ۖ وَکثِیرٌ مِّنْہُمْ فَاسِقُونَ (سورہ حدید، آیہ ۲۷)؛ ترجمہ پھر ہم نے انہی کے نقشِ قدم پر اپنے اور رسول(ع) بھیجے اور انہی کے پیچھے عیسیٰ (ع) بن مریم (ع) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا کی اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی ہم نے ان کے دلوں میں شفقت اور رحمت رکھ دی اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کی ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا۔ ہاں البتہ انہوں نے اسے خدا کی خوشنودی کی خاطر اسے اختیار کیا تھا پھر انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی تو جو لوگ ان میں ایمان لائے ہم نے ان کو ان کا اجر عطا کیا اور ان میں سے اکثر لوگ فاسق (نافرمان) ہیں۔
  10. ہاشمی رفسنجانی و دیگران، فرہنگ قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۱۵، ص۲۰۸۔
  11. میشل، کلام مسیحی، ۱۳۸۱ش، ص۱۴۲۔
  12. میشل، کلام مسیحی، ۱۳۸۱ش، ص۱۴۲؛ کتاب مقدس، کتاب متی، باب ۱۲، آیہ ۱۹۔
  13. وَ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صأَنَّہُ نَہَی عَنِ التَّرَہُّبِ قَالَ لَا رَہْبَانِیۃَ فِی الْإِسْلَامِ تَزَوَّجُوا فَإِنِّی مُکاثِرٌ بِکمُ الْأُمَمَ وَ نَہَی عَنِ التَّبَتُّلِ وَ نَہَی النِّسَاءَ أَنْ یتَبَتَّلْنَ وَ یقْطَعْنَ أَنْفُسَہُنَّ مِنَ الْأَزْوَاجِ‌ (تمیمی مغربی، دعائم الاسلام، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۱۹۳)۔
  14. ابن اثیر، النہایۃ، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۲۸۱۔
  15. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ۱۳۸۷ق، ج۱۱، ص۳۲۔
  16. ملاحظہ کریں: مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۷، ص۱۱۳-۱۳۰۔
  17. لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الْیہُودَ وَالَّذِینَ أَشْرَکوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُم مَّوَدَّۃً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَیٰ ۚ ذَٰلِک بِأَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیسِینَ وَرُہْبَانًا وَأَنَّہُمْ لَا یسْتَکبِرُونَ؛ اے پیغمبر(ص)! آپ اہل ایمان سے دشمنی کرنے میں سب لوگوں سے زیادہ سخت ترین دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے اور اہل ایمان سے دوستی کرنے میں آپ سب سے زیادہ قریب ان لوگوں کو پائیں گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں یہ اس لئے ہے کہ ان میں پادری اور تارک الدنیا عابد پائے جاتے ہیں اور اس لیے کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔ (سورہ مائدہ، آیہ ۸۲؛ ترجمہ محمد حسین نجفی۔)
  18. مغنیۃ، معالم الفلسفۃ الاسلامیۃ، ۱۴۰۶ق، ص۱۸۴۔
  19. مغنیۃ، معالم الفلسفۃ الاسلامیۃ، ۱۴۰۶ق، ص۱۸۴۔
  20. مغنیۃ، معالم الفلسفۃ الاسلامیۃ، ۱۴۰۶ق، ص۱۸۴۔
  21. مغنیۃ، معالم الفلسفۃ الاسلامیۃ، ۱۴۰۶ق، ص۱۸۴۔

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، ج۱۱، قم، منشورات مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م۔‌
  • ابن اثیر، مبارک بن محمد، النہایۃ فی غریب الحدیث والأثر، تحقیق محمود محمد الطباخی و طاہر احمد الزاوی، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، ۱۳۶۷ش۔
  • تمیمی مغربی، نعمان بن محمد، دعائم الإسلام، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، ۱۳۸۵ق۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، بی‌جا،‌ دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر، بی‌تا۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تحقیق سید ہاشم رسولی محلاتی و سید فضل‌اللہ یزدی طباطبایی، ج۹، بیروت،‌دار المعرفۃ، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م۔
  • مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ: مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، زیرنظر سید محمود ہاشمی شاہرودی، ج۴، قم، موسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت علیہم السلام، ۱۳۸۹ش،
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار: الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، تحقیق عبدالزہراء علوی و تصحیح محمدباقر محمودی و دیگران، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م۔
  • مجلسی، محمدباقر، عین الحیات، تحقیق سید مہدی رجائی، قم، أنوار الہدی، ۱۳۸۲ش۔
  • مغنیۃ، محمدجواد، معالم الفلسفۃ الإسلامیۃ: نظرات فی التصوف والکرامات، بیروت،‌ دار و مکتبۃ الہلال و‌ دار الجواد، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، الأمثل فی تفسیر کتاب اللہ المنزل، قم، مدرسۃ الإمام علی بن أبی‌طالب، ۱۴۲۱ق/۱۳۷۹ش۔
  • میشل، توماس، کلام مسیحی، ترجمہ حسین توفیقی، قم، مرکز مطالعات و تحقیقات ادیان و مذاہب، ۱۳۸۱ش۔
  • ہاشمی رفسنجانی، اکبر و محققان مرکز فرہنگ و معارف قرآن، فرہنگ قرآن: کلید راہیابی بہ موضوعات و مفاہیم قرآن کریم، ج۱۵، قم، موسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۶ش۔