خاندان بنی فضال

ویکی شیعہ سے
خاندان بنی فضَّال
خاندان کا تعارف
خاندان کا نامبنی فَضّال
سلسلہ نسبفضال تیملی بن ربیعۃ بن بکر
سربراہ خاندانفضال تمیمی بن ربیعۃ بکر
نام کی وجہفضال تیملی سے نسبت
مقام سکونت
مقام آغازعراق
موجودہ علاقہکوفہ، خراسان
مشہور شخصیات
معروف شخصیتحسن بن علی بن فضال
علماحمد بن حسن بن علی بن فضال، علی بن حسن بن علی بن فضال، محمد بن حسن بن علی بن فضال
دیگر معلومات
اعزازنقل حدیث


بنی فضال، فضّال تَیملی کا خاندان ہے کہ جو اہل تشیع کے چار آئمہؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔ شیخ طوسی اور محمد بن عمر کشی نے بنی فضّال کے راویوں کو ثقہ اور امام کاظمؑ، امام رضاؑ، امام علی نقیؑ اور امام عسکریؑ کے اصحاب میں سے قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود، ابن ادریس حلی نے انہیں فطحی المذہب اور گمراہ کہا ہے۔

بنو فضال سے بہت سی کتب اور روایات نقل ہوئی ہیں۔ امام عسکریؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق شیعوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی روایات پر عمل کریں مگر ان کے نظریات اور عقائد سے صرف نظر کریں۔ سید ابو القاسم خوئی نے مذکورہ حدیث کی دلالت پر اعتراض کیا ہے اور شیخ انصاری کی رائے کے برخلاف وہ اس حدیث کو بنی فضال کے توسط سے منقول روایات کی صحت کے معنی میں قرار نہیں دیتے۔ رجالی کتب میں حسن بن علی بن فضال اور ان کے بیٹوں احمد، علی اور محمد کے نام بنی فضال کے مشاہیر میں سے شمار کئے گئے ہیں۔

خاندان کا تعارف

خاندان بنی فضال کا شمار ]]شیعہ]] راویوں میں سے ہوتا ہے۔ یہ فضال بن عمر بن ایمن[1] یا تیم اللہ بن ثعلبہ کے آزاد کردہ غلام فضال تیملی بن ربیعہ بن بکر سے منسوب ہیں۔[2] بعض کے نزدیک تیملی بنی فضال کا لقب ہے۔[3]

شیخ طوسی اور کشی نے اس خاندان کی مدح و تائید کی ہے اور ان کے نزدیک بنی فضال نے امام کاظمؑ، امام رضاؑ، امام علی نقیؑ اور امام عسکریؑ کو درک کیا ہے اور یہ ان کے اصحاب میں سے ہیں۔[4] اس کے باوجود ابن ادریس حلی نے خاندان بنو فضال کو کافر و ملعون اور گمراہ قرار دیا ہے۔[5] مامقانی نے شیخ طوسی، کشی، سید ابن طاؤس اور نجاشی کی مدح و تائید پر اعتماد کرتے ہوئے بنی فضال کی طرف گمراہی کی نسبت کو غلط قرار دیا ہے۔[6]

بعض کے نزدیک بنی فضال فطحی المذہب تھے مگر بعد میں امام رضاؑ، امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کی امامت کے قائل اور ان کے خاص اصحاب میں سے ہو گئے۔[7]

مشاہیر

شیعہ رجالی آثار میں حسن اور ان کے بیٹوں احمد، علی اور محمد کو بنی فضال کے خاندان میں سے قرار دیا گیا ہے۔[8] فضال تیملی، ان کے بیٹے علی اور اس خاندان کے دیگر افراد کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

حسن بن علی بن فضال

حسن بن علی بن فضال (متوفی 224 ھ امام رضاؑ کے خاص اصحاب[9] اور بعض شیعہ اہل رجال منجملہ سید ابو القاسم خوئی اور کشی کے نزدیک اصحاب اجماع میں سے تھے۔[10] کشی کی نقل کے مطابق حسن بن علی بن فضال فطحی المذہب تھے مگر انہوں نے مرتے وقت امام رضاؑ کی امامت کا اقرار کر لیا تھا۔[11]

احمد بن حسن بن علی بن فضال

احمد بن حسن بن علی بن فضال امام علی نقیؑ اور امام عسکریؑ کے اصحاب میں سے تھے اور انہوں نے سنہ 260 ھ میں وفات پائی۔[12]

علی بن حسن بن علی بن فضال

علی بن حسن بن علی بن فضال اہل کوفہ کے فقیہ اور امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کے صحابی تھے۔[13] ان کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کے بارے میں درست اطلاع نہیں ہے۔ تاہم مامقانی کے بقول باپ کی وفات کے وقت ان کی عمر 18 برس تھی۔[14]

آیت اللہ خوئی نے کشی سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ علی نے عراق اور خراسان کی طرف ہجرت کی اور وہاں پر ان سے بڑا فقیہ اور فاضل کوئی نہیں تھا۔ وہ آئمہؑ کی تمام روایات کو اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے اور ان میں سے زیادہ تر کے حافظ تھے۔[15]

محمد بن حسن بن علی بن فضال

محمد بن حسن بن علی بن فضال، امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کے اصحاب میں سے ہیں۔[16] آپ کی تاریخ ولادت، وفات اور تالیفات کے بارے میں درست معلومات دسیتاب نہیں ہیں۔[17] سید ابو القاسم خوئی نے ان کی وثاقت اور انہیں شیخ صدوق کا استاد قرار دینے سے اختلاف کیا ہے۔[18]

نقل روایت کا امتیاز

بنی فضال نے مختلف موضوعات پر بہت سی روایات اور کتب نقل کی ہیں۔[19] حسن بن علی بن فضال کا نام 297 سے زائد روایات میں آیا ہے۔[20] احمد بن حسن بن علی بن فضال سے بھی غسل، مسجد کی فضیلت، بیع، نکاح، خمس، نمازی کے لباس کی شرائط، ذبح اور نماز میت کے بارے میں روایات نقل ہوئی ہیں۔[21] البشارات، رد علی الغالیہ، الزیارات، النوادر اور الناسخ و المنسوخ جیسی کتابیں حسن بن علی سے منسوب ہیں۔[22] کتاب الوضوء، کتاب الصلاۃ، کتاب الزکاۃ، کتاب التنزیل من القرآن و التحریف، کتاب فرائض، کتاب المواعظ، کتاب التفسیر، کتاب اثبات امامۃ عبداللہ اور کتاب وفات النبیؐ؛ علی بن حسن کے آثار میں سے ہے۔[23] [یادداشت 1] ان سے کتاب اصفیاء المومنین منقول ہے۔ بعض نے اس کتاب کو امام علیؑ کے خلاف قرار دیا ہے۔[24] امام حسن عسکریؑ نے شیخ طوسی سے منقول ایک روایت میں شیعوں کے ایک گروہ کو جواب دیتے ہوئے صراحت فرمائی کہ بنی فضال کے توسط سے منقول روایات پر عمل کرو، تاہم ان کے افکار اور عقائد کو ایک طرف رکھ دو۔[25] اس لیے بعض محققین نے بنی فضال سے منقول روایات کی سند میں بنی فضال کے راوی کا نام مذکور ہونے کو توثیقات عامہ میں سے قرار دیا ہے۔[26] البتہ سید ابو القاسم خوئی نے شیخ انصاری کے برخلاف امام حسن عسکریؑ سے منقول روایت کو بنی فضال کے توسط سے منقول روایات کی صحت سے حاکی نہیں قرار دیا ہے۔[27]

نوٹ

  1. تمام کتب کا مشاہدہ کرنے کیلئے رجوع کریں:معجم رجال الحدیث، ۱۳۷۲ش، ج۱۲، ص۳۵۹ و ۳۶۰

حوالہ جات

  1. مامقانی، تنقیح المقال، 1381 شمسی، ج20، ص216۔
  2. ابن ندیم، الفھرست، 1366 شمسی، ص408؛ شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج1، ص428؛ خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372 شمسی، ج16، ص244۔
  3. کلباسی، الرسائل الرجالیۃ، 1380شمسی، ج3، ص95۔
  4. خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372 شمسی، ج2، ص437؛ شیخ طوسی، الفھرست، نشر المکتبۃ الرضویہ، ص47؛ کشی، اختیار معرفۃ الرجال، 1404ھ، ج2، ص836۔
  5. مامقانی، تنقیح المقال، 1381 شمسی، ج3، ص136۔
  6. مامقانی، تنقیح المقال، 1381شمسی، ج3، ص136۔
  7. شیخ طوسی، الفھرست، نشر المکتبۃ الرضویہ، ص47۔
  8. شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج1، ص428؛ خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372شمسی، ج16، ص244۔
  9. .
  10. خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372 شمسی، ج6، ص53؛ کشی، اختیار معرفۃ الرجال، 1404ھ، ج1، ص217۔
  11. کشی، اختیار معرفۃ الرجال، 1404ھ، ج2، ص837۔
  12. خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372 شمسی، ج16، ص245۔
  13. خوئی، معجم رجال، 1372 شمسی، ج12، ص359۔
  14. مامقانی، تنقیح المقال، 1381شمسی، ج6، ص290۔
  15. خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372 شمسی، ج12، ص361۔
  16. خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372 شمسی، ج16، ص244۔
  17. خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372 شمسی، ج16، ص244۔
  18. خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372 شمسی، ج16، ص244۔
  19. ابن ندیم، الفھرست، 1366شمسی، ص408؛ نجاشی، رجال، 1424ھ،‌ ص36؛ خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372شمسی، ج12، ص359۔
  20. خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372شمسی، ج6، ص54۔
  21. شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج1، ص429۔
  22. نجاشی، رجال، 1424ھ،‌ ص36۔
  23. خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372شمسی، ج12، ص359۔
  24. خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372شمسی، ج12، ص359۔
  25. «خذوا ما رووا و ذروا ما رأوا» (شیخ طوسی، الغیبۃ، 1411ھ،‌ ص390)۔
  26. ایروانی، دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ، 1431ھ، ص36-37۔
  27. خوئی، معجم رجال الحدیث، 1372شمسی، ج1، ص68۔

مآخذ

  • ابن ندیم، محمد بن اسحاق، الفھرست، محمد رضا تجدد، تہران، انتشارات امیر کبیر، 1366 شمسی۔
  • ایروانی، محمد باقر، دروس تمہیدیۃ فی القواعد الرجالیۃ، قم، انتشارات مدین، 1431 ھ۔
  • خوئی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، قم، مرکز نشر الثقافۃ الاسلامیۃ فی العالم، 1372 شمسی۔
  • شوشتری، محمد تقی، قاموس الرجال، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، 1410 ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الفھرست، تصحیح محمد صادق بحر العلوم، نجف، مکتبۃ الرضویۃ، بی‌تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، تحقیق عباد اللہ طہرانی و علی احمد ناصح، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، 1411 ھ۔
  • کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، تحقیق مہدی رجائی، تصحیح محمد باقر میر داماد، قم، موسسہ آل البیت الاحیاء التراث، 1404 ھ۔
  • کلباسی، محمد بن محمد ابراہیم، الرسائل الرجالیۃ، تصحیح محمد حسین درایتی، قم، دار الحدیث، 1380 شمسی۔
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، تحقیق محی الدین و محمد رضا مامقانی، قم، موسسۃ آل البیت لإحیاء التراث، 1381 شمسی۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1424ھ۔