جہاد کا حکم

ویکی شیعہ سے
(جہاد کا فتوا سے رجوع مکرر)

جہاد کا حکم یا جہاد کا فتوا، حاکم شرع کی طرف سے اسلام دشمن عناصر کے ساتھ جہاد کرنے کے لئے دئے جانے والے حکم یا فتوا اور اس کی خصوصیات کی تعیین کو کہا جاتا ہے۔ عصر غیبت میں اسلام دشمن عناصر کے مقابلے میں دین اسلام کی حفاظت کے لئے جہاد کا حکم دینا شیعہ مراجع تقلید کے فتوا کی طاقت اور اثرگزاری کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اسلامی فقہ کے مطابق جہاد کا حکم یا فتوا صادر ہونے کی صورت میں ہر صاحب استطاعت مسلمان پر اس کی استطاعت کے مطابق دشمن کے ساتھ جہاد کرنا واجب ہو جاتا ہے۔ جہاد کا حکم اسلام دشمن عناصر کے حملے کے مقابلے میں مسلماوں کی دفاع، دین اسلام کو لاحق خطرے نجات اور مسلمانوں کی عزت اور آزادی کی خاطر جامع الشرائط مجتہد کی طرف سے صادر ہوتا ہے۔

شیعہ فقہاء تاریخ کے مختلف ادوار میں جہاد کا فتوا دیتے آئے ہیں۔ سنہ 1241 سے 1243ھ کے شیعہ علماء جیسے جعفر کاشف‌الغطاء، سید علی طباطبائی، میرزائے قمی، ملا احمد نراقی اور سید محمد مجاہد وغیرہ نے سلسلہ قاجاریہ کی حمایت اور ایران کے مسلمانوں کے دفاع میں میں روسی افواج کے خلاف جہاد کا فتوا دیا۔ بعض اس فتوے کو فقہ امامیہ کی تاریخ میں جہاد کا پہلا فتوا قرار دیتے ہیں۔

عراق میں محمد تقی شیرازی کی طرف سے سنہ 1337ھ میں انقلاب 1920 عراق کے دوران استعمار اور انگلستان کے سپاہیوں کے خلاف جہاد کا فتوا دیا جس کا عراق کے شیعہ نشین علاقوں کے باسیوں نے خیر مقدم کیا۔ چودہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ عبد الکریم زنجانی نے سنہ 1948ء کو اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتوا دیا اسی طرح آیت اللہ سیستانی نے سنہ .... میں عراق میں داعش کے بڑھتے ہوئے قبضے کو روکنے کے لئے داعش کے خلاف جہاد کا فتوا دیا۔

محمدحسن رجبی کی کتاب «رسایل و فتاوائے جہادی» 95 مقالات اور فتوے پر مشتمل ہے جسے شیعہ فقہاء نے سنہ 1200 سے 1338ھ تک دئے ہیں۔

اہمیت و جایگاہ

جہاد کا حکم حاکم شرع کی طرف سے اسلام دشمن عناصر کے خلاف جد و جہد اور اس کی نوعیت کو تعیین کرنے کے دئے جانے والے حکم کو کہا جاتا ہے۔[1] عصر غیبت میں جہاد کا حکم شیعہ مراجع تقلید کے فتوا کی طاقت کی علامت اور اسلام دشمن عناصر کے مقابلے میں مسلمانوں کی جان و مال اور اسلامی سرزمین کی آزادی کی تحفظ کی اہمیت کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔[2] کہا جاتا ہے کہ عصر غیبت ایسا فتوا خود جہاد دفاعی کی طرح اسلام دشمن عناصر کے مقابلے میں دین اسلام کی حفاظت اور معاشرے میں امن و امان کے قیام کا سبب ہے۔[3]

شیعہ فقہاء نے مختلف ادوار میں اسلام دشمن عناصر کی طرف سے اسلامی سرزمینوں پر کئے جانے والی جارحیت یا دین اسلام اور مسلمانوں کی عزت اور آزادی کے لئے لاحق خطرات کے پیش نظر جہاد کا فتوا دے کر لوگوں کو دشمن کے مقابلے میں دفاع اور استقامت کی ترغیب دلائی ہیں۔[4] جس کی مثال محمد تقی شیرازی کی طرف سے سنہ 1337ھ میں انقلاب 1920 عراق کے دوران استعمار اور انگلستان کے سپاہیوں کے خلاف جہاد کا فتوا ہے جس کا پورے عراق میں بالعموم اور شیعہ نشین علاقوں میں میں بالخصوص خیر مقدم کیا گیا۔[5]

شیعہ فقہاء جہاد دفاعی کو امام معصوم یا ان کے نایب خاص کے حضور یا اجازت سے مشروط نہیں سمجھتے۔[6]

تاہم تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ مرجع تقلید جعفر کاشف‌ الغطاء غیبت کبریٰ کے دوران باقاعدہ لشکر کشی کے ذریعے دفاعی جہاد کے لئے بھی جامع الشرائط مجتہد کی اجازت ضروری سمجھتے ہیں۔[7] حسین علی منتظری جہاد دفاعی کی مشروعیت کے لئے ایسی کسی شرط کے قائل نہیں لیکن جہاد دفاعی متحقق ہونے کے لئے ولی فقیہ کی نظارت کو شرط قرار دیتے ہیں۔ منتظری کے مطابق جہاد دفاعی بغیر کسی شرط کے تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔[8]

جہاد کے مشہور فتوے

مختلف تاریخی ادوار میں شیعہ فقہاء اور مراجع تقلید کی طرف سے جہاد کے وجوب کے حوالے سے دئے گئے اہم ترین فتوؤں کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں:

شیعہ علماء کا اسرائیل کے خلاف جہاد کے فتوے
  • روسی فوجیوں کی طرف سے سنہ 1241 سے 1243ھ کے درمیان ایران پر حملہ اور اس کے مختلف علاقوں پر قبضے کے بعد شیعہ مراجع تقلید جیسے جعفر کاشف‌ الغطاء، سید علی طباطبائی، میرزائے قمی، ملا احمد نراقی اور سید محمد مجاہد نے سلسلہ قاجاریہ کی حمایت اور ایران کے مسلمانوں کے دفاع کے لئے روسی فوجیوں کے ساتھ جہاد کا فتوا دیا۔[9] ان فتوؤں کے ساتھ حہاد کے احکام سے متعلق ایک رسالے کو فتح علی شاہ قاجار کے فرزند اور ولی عہد عباس‌ میرزا اور میرزا عیسی قائم‌ مقام فراہانی نے احکام الجہاد و اسباب الرشاد کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا۔[10] کہا جاتا ہے کہ یہ فتوے شیعہ تاریخ میں پہلا جہادی فتوا شمار ہوتا ہے۔[11]
  • محمد تقی شیرازی کا فتوائے جہاد عراق پر انگلستان کے قبضے اور نفوذ کے خلاف مؤثر فتؤوں میں سے ہے جو 20 ربیع الاول سنہ 1337ھ کو دیا گیا۔[12] اس فتوے کا مضمون یہ ہے: «عراقیوں پر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا واجب ہے۔ اپنی درخواست کے ساتھ ساتھ ان پر امن و امان کی صورتحال کی رعایت کرنا بھی واجب ہے اور انگلستان کی طرف سے ان کی درخواست کا مثبت جواب نہ دینے کی صورت میں ان کے لئے ممکنہ دفاعی پوزیشن سنبھالنا جائز ہے۔»[13]
  • لیبیہ پر اٹلی کے حملہ کے خلاف جہاد کا فتوا؛ آخوند خراسانی نے سید اسماعیل صدر، شیخ عبداللہ مازندرانی اور شیخ الشریعہ اصفہانی کے ساتھ مل کر ایک بیانیہ صادر کیا اور مسلمانوں سے اسلامی ممالک کے دفاع کے لئے قیام کرنے کا حکم دیا۔[14] اس حکم کا مضمن یہ ہے: «روس کا ایران اور اٹلی کا طرابلس پر حملے کے وجہ سے اسلام اور قرآن کو خطرات لاحق ہے۔ اس بنا پر تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں پر روس اور اٹلی کے ناجائز جارحیت کو روکنے کے لئے دباؤ ڈالیں۔ اور جب تک یہ عظیم مسئلہ ختم نہیں ہوتا اپنے اوپر آرام و راحت کو حرام قرار دیں اور اس عظیم اسلامی اقدار کو غزوہ بدر اور حنین کے مجاہدین کی جہاد کی طرح مقدس سمجھیں۔»[15]
  • پہلی جنگ عظیم (1293-1297ش) کے وقت سید عبد الحسین موسوی لاری نے قشقایی قبائل اور صولت الدولہ کے نام ایک حکم جاری کیا اور انگلستان کے خلاف جہاد کی تأکید کی۔ اس پیغام میں آیا ہے کہ: «میں مجتہد اور پیغمبر اسلام کا جانشین ہوں اس بنا پر فتوا دیتا ہوں کہ کفار حربی یعنی انگلستان کے ساتھ جہاد کرنا واجب ہے۔»[16]
  • وہابیوں کی طرف سے عتبات عالیات پر حملے کے مقابلے میں جہاد کا فتوا: تاریخی شواہد کے مطابق شیخ جعفر کاشف‌الغطاء نے سنہ 1217ھ کو نجف اور کربلا پر وہابیوں کے حملے کے خلاف جہاد کا فتوا دے کر دو سو مجاہدین اور فقہا کے ساتھ مل کر وہابیوں کو ان مقدس مقامات سے دور کرنے میں کامیاب ہوئے۔[17]
«رسایل و فتاوائے جہادی، تحریر: محمدحسن رجبی

مونو گرافی

کتاب «رسایل و فتاوائے جہادی: جس میں اسلامی علماء کے وہ رسائل اور فتوے شامل ہیں جسے انہوں نے استعماری قتوں کے ساتھ جہاد کے لئے صادر کئے ہیں»، اس مجموعے میں 95 عناوین کے رسالے اور فتواے ہیں جسے 1200 سے 1338ھ کے درمیان صادر کئے گئے ہیں۔ اس مجموعے کو محمدحسن رجبی نے ایک جلد میں جمع کیا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت ثقافت و ارشاد نے سنہ 1378ہجری شمسی میں منتشر کیا ہے۔[24]

قاجار کے دور حکومت میں ایران اور روس کے درمیان جنگ کے دوران جہادیہ کے نام سے مختلف کتابیں منتشر ہوئیں جو روسی فوجیوں کے ساتھ جہاد کے واجب ہونے کے فتؤوں پر مشتمل تھیں۔[25] سید محمد مجاہد کی کتاب الجہاد العباسیہ اور میرزائے قمی کی کتاب جامع الشتات من جملہ ان جہادیوں میں سے تھیں۔[26]

متعقلہ مضامین

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص436۔
  2. «دو فتوای جہاد»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ۔
  3. ربانی و حسینی، «جایگاہ اذن ولی فقیہ در جہاد»، ص32۔
  4. سلیمی و دیگران، «بررسی اختیارات حاکم اسلامی در حکم جہاد دفاعی از منظر فقہ امامیہ»، ص113-115۔
  5. «یک قرن ہمراہی دو ملت ایران و عراق در مبارزہ با استکبار»، سایت مرکز اسناد انقلاب اسلامی۔
  6. علامہ حلی، تذکرۃ الفقہاء، 1414ھ، ج9، ص37؛ شہید ثانی، مسالک الافہام، 1413ھ، ج3، ص8؛ طباطبایی، ریاض المسائل، 1418ھ، ج8، ص14، ربانی و حسینی، «جایگاہ اذن ولی فقیہ در جہاد»، ص50۔
  7. ربانی و حسینی، «جایگاہ اذن ولی فقیہ در جہاد»، ص53۔
  8. منتظری، پاسخ بہ پرسش‌ہایی پیرامون مجازات‌ہای اسلامی و حقوق بشر، 1387ہجری شمسی، ص93۔
  9. زرگری‌نژاد، «بررسی احکام الجہاد و اسباب الرشاد (نخستین اثر در ادبیات تکوین ادبیات جہادی تاریخ معاصر ایران)»، ص383۔
  10. زرگری‌نژاد، «بررسی احکام الجہاد و اسباب الرشاد (نخستین اثر در ادبیات تکوین ادبیات جہادی تاریخ معاصر ایران)»، ص382-383۔
  11. «فتوای جہاد در سیمای تاریخ»، خبرگزاری ایمنا۔
  12. آقابزرگ تہرانی، طبقات أعلام الشیعۃ۔۔۔، 1404ھ، ج1، ص263۔
  13. آقابزرگ تہرانی، طبقات أعلام الشیعۃ۔۔۔، 1404ھ، ج1، ص263۔
  14. ترکمان، اسنادی دربارہ ہجوم انگلیس و روس بہ ایران، دفتر مطالعات سیاسی و بین‌المللی، ص486۔
  15. ترکمان، اسنادی دربارہ ہجوم انگلیس و روس بہ ایران، دفتر مطالعات سیاسی و بین‌المللی، ص486۔
  16. رنجبر، «سیری در زندگی، فعالیت‌ہا و اندیشہ سیاسی سید عبدالحسین موسوی لاری»، ص207۔
  17. آل‌محبوبہ، ماضی النجف و حاضرہا، 1406ھ، ج1، ص326۔
  18. «ضد صہیونیسم، مدافع فلسطین مختصری از علامہ کاشف الغطاء»، مجلہ الکترونیکی اخوت اسلامی۔
  19. اباذری، آیت‌اللہ بروجردی آیت اخلاص، 1383ہجری شمسی، ص117۔
  20. امام خمینی، صحیفہ امام، 1389ہجری شمسی، ج2، ص199۔
  21. سرحدی، «علمایی کہ نسبت بہ مسئلہ فلسطین واکنش نشان دادند»، پژوہشکدہ تاریخ معاصر۔
  22. حطاب، «توظیف الحشد الشعبی فی المدرک السیاسی العراقی»، ص107-108۔
  23. حطاب، «توظیف الحشد الشعبی فی المدرک السیاسی العراقی»، ص107-108۔
  24. رجبی، رسایل و فتاوای جہادی، 1378ہجری شمسی، ص13۔
  25. جعفریان، دین و سیاست در دورہ صفوی، 1370ہجری شمسی، ص331-333۔
  26. جعفریان، دین و سیاست در دورہ صفوی، 1370ہجری شمسی، ص331۔

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات أعلام الشیعۃ و ہو نقباء البشر فی القرن الرابع عشر، مشہد، دار المرتضی للنشر، 1404ھ۔
  • آل‌محبوبہ، جعفر بن باقر، ماضی النجف و حاضرہا، بیروت، دار الأضواء، 1406ھ۔
  • اباذری، عبدالرحیم، آیت‌اللہ بروجردی آیت اخلاص، تہران، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی، 1383ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ توزیع و نشر آثار امام خمینی، 1389ہجری شمسی۔
  • ترکمان، محمد، اسنادی دربارہ ہجوم انگلیس و روس بہ ایران، تہران، دفتر مطالعات سیاسی و بین‌المللی، بی‌تا۔
  • جعفریان، رسول، دین و سیاست در دورہ صفوی، قم، انصاریان، 1370ہجری شمسی۔
  • حطاب، جواد کاظم، «توظیف الحشد الشعبی فی المدرک السیاسی العراقی»، در مجلۃ حمورابی، سال ہفتم، شمارہ 29، زمستان 2019م۔
  • «دو فتوای جہاد»، وبگاہ پایگاہ اطلاع‌رسانی حوزہ، تاریخ درج مطلب: 25 اردیبہشت 1389ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 15 شہریور 1403ہجری شمسی۔
  • ربانی، مہدی و سید ابراہیم حسینی، «جایگاہ اذن ولی فقیہ در جہاد»، در مجلہ حکومت اسلامی، شمارہ 90، زمستان 1390ہجری شمسی۔
  • رجبی، محمدحسن، رسایل و فتاوای جہادی شامل رسالہ‌ہا و فتواہای علمای اسلامی در جہاد با قدرت‌ہای استعمار، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1378ہجری شمسی۔
  • رنجبر، محسن، «سیری در زندگی، فعالیت‌ہا و اندیشہ سیاسی سید عبدالحسین موسوی لاری»، در مجلہ آموزہ، شمارہ 3، تابستان 1382ہجری شمسی۔
  • سلیمی، علیرضا و دیگران، «بررسی اختیارات حاکم اسلامی در حکم جہاد دفاعی از منظر فقہ امامیہ»، در مجلہ مطالعات دفاع مقدس، شمارہ 26، تابستان 1400ہجری شمسی۔
  • زرگری‌نژاد، غلامحسین، «بررسی احکام الجہاد و اسباب الرشاد (نخستین اثر در ادبیات تکوین ادبیات جہادی تاریخ معاصر ایران)»، در مجلہ دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی، شمارہ 155، سال 1379ہجری شمسی۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
  • «ضد صہیونیسم، مدافع فلسطین مختصری از علامہ کاشف الغطاء»، در مجلہ الکترونیکی أخوت اسلامی، تاریخ درج مطلب: 3 خرداد 1397ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 18 شہریور 1403ہجری شمسی۔
  • طباطبایی کربلایی، سید علی، ریاض المسائل فی بیان الاحکام بالدلائل، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، 1418ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرۃ الفقہاء، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، 1414ھ۔
  • «غزہ مقاومت کن! بوی حکم جہاد می‌آید۔۔۔» سایت روزنامہ اقتصاد سرآمد، تاریخ درج مطلب: 27 مہر 1402ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 12 شہریور 1403ہجری شمسی۔
  • سرحدی، رضا، «علمایی کہ نسبت بہ مسئلہ فلسطین واکنش نشان دادند»، وبگاہ پژوہشکدہ تاریخ معاصر، تاریخ درج مطلب: 13 دی 1400ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 9 شہریور 1403ہجری شمسی۔
  • جعفری، علی‌اکبر، «فتوای جہاد در سیمای تاریخ»، وبگاہ خبرگزاری ایمنا، تاریخ انتشار: 5 اردیبہشت 1401ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 7 شہریور 1403ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، قم، مدرسہ الامام علی بن ابی طالب( ع)، چاپ اول، 1427ھ۔
  • منتظری، حسینعلی، پاسخ بہ پرسش‌ہایی پیرامون مجازات‌ہای اسلامی و حقوق بشر، بی‌جا، ارغوان دانہجری شمسی، 1387ہجری شمسی۔
  • «یک قرن ہمراہی دو ملت ایران و عراق در مبارزہ با استکبار»، وبگاہ مرکز اسناد انقلاب اسلامی، تاریخ درج مطلب: 5 بہمن 1398ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 10 شہریور 1403ہجری شمسی۔