دفاعی جہاد

ویکی شیعہ سے
(جہاد دفاعی سے رجوع مکرر)

دفاعی جہاد کا مطلب ان دشمنوں کے خلاف جہاد کرنا ہے جو دین اسلام کی نابودی یا اسلامی سرزمینوں کی حد شکنی کر کے یہاں جارحانہ کاروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دفاعی جہاد کا بنیادی مقصد دین کی حفاظت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی جان، مال اور عزت کو بھی تحفظ فراہم کرنا ہے۔

دفاعی جہاد کے مقابلے میں ابتدائی جہاد (اقدامی جہاد) ہے جس کی ابتداء مسلمانوں کی طرف سے ہوتی ہے اس میں سرزمین اسلام کے پھیلاؤ کے غرض سے کفار کے خلاف جنگ لڑی جاتی ہے۔ بعض شیعہ علماء نے دفاعی جہاد کو ابتدائی جہاد سے افضل قرار دیا ہے۔

فقہاء کے فتویٰ کے مطابق تمام مسلمانوں پر اُس سرزمین کا دفاع کرنا واجب ہے جس پر دشمن کی جانب سے حملہ کیا گیا ہے اور اس کی واحد شرط فرد میں دفاع اور مزاحمت کرنے کی طاقت اور صلاحیت پایا جانا ہے۔ دفاعی جہاد میں ابتدائی جہاد کے برخلاف امام معصومؑ کا حضور یا ان کی اجازت اسی طرح ان کے نائب کی اجازت شرط نہیں ہے۔

فقہاء کے مطابق اگر دفاعی جہاد دیگر واجبات اور محرمات الہی سے متصادم ہو؛ جیسے کہ حج کے موسم میں یہ جہاد کرنا پڑے یا مثلا حرام مہینوں میں جہاد کا موقع میسر آئے، تو ان صورتوں میں دفاعی جہاد باقی تمام امور پر مقدم ہے۔

دفاعی جہاد کی تعریف اور اہمیت

دفاعی جہاد سے مراد ایسا جہاد ہے جس میں ان دشمنوں کے خلاف جنگ کی جاتی ہے جو اسلامی سرزمین پر حملہ آور ہوتے ہیں۔[1] اس نوعیت کے جہاد کا بنیادی مقصد دین اسلام[2] اور اسلامی سرزمین‌[3] کی حفاظت کرنا ہے۔ دفاعی جہاد کے مقابلے میں جہاد ابتدائی ہے جس میں پہلے مرحلے میں کفار و مشرکین کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے؛ پھر قتال کا مرحلہ آتا ہے جس کا آغاز خود مسلمان کرتے ہیں۔[4]

تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ مجتہد جعفر کاشف‌ الغطاء دفاعی جہاد کو جہاد ابتدائی سے افضل و برتر سمجھتے ہیں۔[5] اکثر فقہاء کا عقیدہ ہے کہ دفاعی جہاد میں قتل ہونے والے، جہاد ابتدائی کے مقتولین کی طرح شہید کا درجہ رکھتے ہیں اورشہید کے باقی احکام بھی ان پر لاگو ہوتے ہیں۔[6]

دفاعی جہادواجب ہونے کی شرائط

مجتہدین کے فتوا کے مطابق مسلمانوں میں سے جو بھی (مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، صحت مند ہو یا بیمار، مقام جنگ سے نزدیک ہویا دور ) جنگ کرنے کی طاقت رکھتا ہے[7] ان پر دفاعی جہاد کرنا واجب کفائی ہے۔ پس دفاعی جہاد کی واحد شرط دفاع اور مزاحمت کرنے کی طاقت اور توانائی کاحامل ہونا ہے[8] اور جہاد ابتدائی کے برعکس اس کا وجوب[9] حضور امام اسی طرح امام یا ان کے نائب کی اجازت پر موقوف نہیں ہے۔[10]

دفاعی جہاد کے واجب ہونے کے دلائل کے سلسلے میں دلیل عقلی کے علاوہ،[11] اسلامی ممالک کو نابودی سے بچانا اور اسلام پر کفر و شرک کی فتح اور غلبہ سے نجات کا ضروری ہونا ہے۔[12] شیعہ فقیہ صاحبْ‌ جواہر نے دفاعی جہاد کے وجوب کے اثبات کے لیے قرآن کی بعض آیات،[یادداشت 1] روایات[13] نیز اجماع[14] سے استناد کیا ہے۔[15]

احکام

دفاعی جہاد کے کچھ شرعی احکام یہ ہیں:

  • فقہاء کے درمیان مشہور نظریہ ہے کہ دفاعی جہاد صرف دشمن کی طرف سے مورد حملہ قرار پانے والے مسلمانوں پر واجب نہیں؛ بلکہ تمام مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری ہے کہ مورد حملہ قرار پانے والی اسلامی سرزمین کا دفاع کریں[16] اور جب تک دفاع کے سلسلے میں کافی تعداد میں مسلمان قیام نہ کریں کسی مسلمان سے یہ وجوب ساقط نہیں ہوتا۔[17]
  • دفاعی جہاد اور دوسرے شرعی واجبات کے مابین تزاحم [یادداشت 2] کی صورت میں دفاعی جہاد باقی دیگر احکام پر ترجیح رکھتا ہے۔ جیسے موسم حج میں دفاعی جہاد کا موقع آئے تو حج کے بجائے جہاد کرنا ہوگا۔[18] اسی طرح اگر دفاعی جہاد میں اسلامی سرزمین کے دفاع کے سلسلے کسی حرام کام کا مرتکب ہونا پڑے جیسے سلطان جائر(ناحق حکمران) کے ساتھ تعاون کرنا پڑے،[19] یا حرام مہینوں مین جنگ کرنا پڑے،[20] یا کسی ایسے مسلمان کو قتل کرنا پڑے جسے دشمن نے انسانی ڈھال بنا رکھا ہے،[21] ان تمام صورتوں میں مذکورہ نوعیت کے حرام کاموں کو انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

دفاعی جہاد کے اقسام

جعفر کاشف‌ الغطاء کے نظریے کے مطابق جہاد کی پانچ قسمیں ہیں؛ ان میں سے چار قسمیں دفاعی جہاد کی قسمیں ہیں اور صرف ایک قسم ابتدائی جہاد کی ہے۔ دفاعی جہاد کی چار قسمیں یہ ہیں:

  1. مسلمانوں کی سرزمین پر کافروں کی طرف سے اسلام مٹانے اور کفر کی حکمرانی قائم کرنے کے لیے کیے گئے حملے کے خلاف جہاد جس کے ذریعے سے اسلام کی بنیاد کو محفوظ رکھنا مقصود ہوتا ہے۔
  2. مسلمانوں کی ناموس کی ہتک حرمت اور ان کی حد شکنی کرنے والوں کو پسپا کرنے کے لیے جہاد۔
  3. ان مسلمانوں کا دفاع کرنے کے لیے جہاد کرنا جن کی کافروں کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوچکی ہو؛ اور اس بات کا ڈر ہو کہ کفار ان پر غلبہ حاصل کر لیں گے۔
  4. مسلمانوں کی سرزمین پر غلبہ پانے والے کافروں کو نکال باہر کرنے کے لیے جہاد۔[22] یہ قسم دیگر اقسام سے افضل ہے۔[23]

دفاعی جہاد اور ابتدائی جہاد کے مابین فرق

فقہاء نے دفاعی جہاد اور ابتدائی جہاد کے مفہوم اور اس کی حدود کے تعین کے لیے ان کے درمیان چند قسم کے فرق بیان کیے ہیں؛ ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • دفاعی جہاد کا اصلی مقصد اسلام کو مٹ جانے سے روکنا، اسلامی معاشرے کو نابود ہونے سے بچانا اور مسلمانوں کی جان اور ناموس کی حفاظت کرنا ہے؛[24] لیکن جہاد ابتدائی میں اسلام کو پھیلانا اور اس کے دائرہ کار کو وسیع کرنا مقصود ہوتا ہے۔[25]
  • جو شرائط جہاد ابتدائی کے لیے درکار ہوتی ہیں دفاعی جہاد میں ان شرائط کا ہونا ضروری نہیں بلکہ دفاع کی صلاحیت کا حامل ہونا ہی اس کی واحد شرط ہے۔[26]
  • دفاعی جہاد میں فتح حاصل ہونے کا علم ہونا ضروری نہیں جبکہ یہ جہاد ابتدائی میں شرط ہے۔[27]
  • جہاد ابتدائی میں صرف کفار کے ساتھ جنگ ہوتی ہے لیکن دفاعی جہاد میں ہر قسم کے دشمن کے ساتھ جنگ ہوتی ہے دشمن چاہے کافر ہو یا مسلمان۔[28]
  • جہاد ابتدائی میں مسلمانوں اور اہل کتاب کے مابین مقررہ معاہدوں، امان ناموں اور صلح و پیمان کی مخالفت جائز نہیں لیکن دفاعی جہاد میں اگر دشمن کے غلبہ حاصل کرنے کا خدشہ ہو تو مذکورہ چیزوں کی مخالفت جائز ہوسکتی ہے۔[29]
  • دفاعی جہاد میں اگر بیت المال کا عمومی بجٹ ناکافی ہو تو حکمران عوام سے زبردستی دفاعی اخراجات وصول کر سکتا ہے جبکہ ابتدائی جہاد کی ایک بنیادی شرط مسلمانوں کی مالی استطاعت ہے۔[30]

مونوگرافی

فارسی زبان میں لکھی گئی کتاب «رسایل و فتاوای جهادی» جہاد کے بارے میں ہے جو کہ 95 مقالات اور فتاوای پر مشتمل ہے، اس کتاب میں سنہ 1200ھ سے سنہ 1338ھ کے دوران کے فقہا نے اپنے فتوے جاری کیے ہیں۔ فتاوا کا یہ مجموعہ محمد حسن رجبی نے ایک جلد میں مرتب کیا ہے اور ایران کی وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی نے سنہ 1378شمسی میں اسے شائع کیا ہے۔[31]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابوالصلاح حلبی، الکافی فی الفقة، 1403ھ، ص246؛ شهید ثانی، مسالک الافهام، 1313ھ، ج3، ص8؛ نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج21، ص15۔
  2. ملاحظہ کیجیے:شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج2، ص8۔
  3. شهید ثانی، الروضة البهیة، 1410ھ، ج2، ص379؛ نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج21، ص4۔
  4. صرامی و عدالت نژاد، «جهاد»، 1386شمسی، ج11، ص434۔
  5. کاشف‌الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج4، ص289۔
  6. ملاحظہ کیجیے: محقق حلی، المعتبر، 1364شمسی، ج1، ص311؛ ذکری الشیعة، 1419ھ، ج1، ص321؛ محقق ثانی، جامع المقاصد، 1414ھ، ج1، ص365؛ میرزای قمی، غنائم الایام، 1417ھ، ج3، ص396؛ خویی، التنقیح فی شرح العروّ الوثقی، 1421ھ، ج8، ص376. نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج21، ص16-15؛ یزدی، العروة الوثقی، 1419ھ، ج2، ص39؛ کاشف‌ الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج4، ص333۔
  7. شهید ثانی، مسالک الافهام، 1413ھ، ج3، ص8۔
  8. ملاحظہ کیجیے: محقق حلی، شرائع الاسلام، 1498ھ، ج1، ص287؛ علامه حلی، تذکرة الفقهاء، 1414ھ، ج9، ص37؛ کاشف‌الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج4، ص288؛ امام خمینی، تحریر الوسیلة، 1392شمسی، ج1، ص461۔
  9. عمید زنجانی، فقه سیاسی، 1377شمسی، ج3، ص139۔
  10. ملاحظہ کیجیے: علامه حلی، تذکرة الفقهاء، 1414ھ، ج9، ص37؛ طباطبایی کربلایی، ریاض المسائل، 1418ھ، ج8، ص14؛ نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج21، ص18؛ امام خمینی، تحریر الوسیلة، 1392شمسی، ج1، ص461۔
  11. سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج15، ص101۔
  12. مروارید، سلسلة الینابیع الفقهیه، 1413ھ، ج9، ص32۔
  13. حر عاملی، وسائل الشیعة، 1416ھ، ج15، ص30۔
  14. نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج21، ص47۔
  15. نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج21، ص18-19۔
  16. شهید ثانی، مسالک الافهام، 1413ھ، ج3، ص8.
  17. کاشف‌ الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج4، ص291۔
  18. میرزای قمی، جامع الشتات، 1377شمسی، ج1، ص394۔
  19. نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج13، ص310-312۔
  20. عراقی، شرح تبصرة المتعلمین، 1414ھ، ج4، ص320۔
  21. شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج2، ص283؛ علامه حلی، تلخیص المرام، 1421ھ، ص79۔
  22. کاشف‌ الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج4، ص287-289۔
  23. کاشف‌ الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج4، ص289۔
  24. نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج21، ص14۔
  25. منتظری، دراسات فی ولایة الفقیة، 1415ھ، ج1، ص115۔
  26. ملاحظہ کیجیے: شیخ مفید، المقنعۃ، 1410ھ، ص810؛ شهید ثانی، مسالک الافهام، 1413ھ، ج3، ص8؛ نجفی، جواهر الکلام، 1362شمسی، ج21، ص47۔
  27. کاشف‌ الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج4، ص291۔
  28. کاشف‌ الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج4، ص291۔
  29. کاشف‌ الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج4، ص291۔
  30. کاشف‌الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج4، ص333-334۔
  31. رجبی، رسایل و فتاوای جهادی، 1378شمسی، ص13۔

یادداشت

  1. آیات 190 و 191 سوره بقره؛ آیه 216 سوره بقره؛ آیه 123 سوره توبه؛ آیات 39 و 40 سوره حج؛ آیه 60 سوره انفال
  2. تزاحم ایک فقہی اور اصولی اصطلاح ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ مُکلَّف کے لیے ایک ہی وقت میں دو شرعی وظیفوں کو ادا ممکن نہ ہو۔(روحانی، منتقی الاصول، 1416ھ، ج7، ص305۔)

مآخذ

  • حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعة إلی تحصیل مسائل الشریعة، قم، مؤسسه آل‌البیت(ع) لإحیاء التراث، 1416ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، التنقیح فی شرح العروة الوثقی، مقرر: علی غروی تبریزی، قم، مؤسسه احیاء آثار امام خویی، 1421ھ۔
  • رجبی، محمدحسن، رسایل و فتاوای جهادی شامل رساله‌ها و فتواهای علمای اسلامی در جهاد با قدرت‌های استعمار، تهران، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامى، 1378ہجری شمسی۔
  • روحانی، سید محمد، منتقی الاصول، مقرر: سید عبدالصاحب حکیم، قم، نشر دفتر آیت‌الله سید محمد حسینی روحانی، 1416ھ۔
  • سبزواری، سید عبدالاعلی، مهذب الاحکام فی بیان حلال و الحرام، قم، دار التفسیر، بی‌تا۔
  • شهید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، قم، کتاب‌فروشی داوری، 1410ھ۔
  • شهید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الأفهام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسة المعارف الإسلامیة، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقه الامامیة، تهران، مکتبة المرتضویة، 1387ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعة، قم، مؤسسه نشر اسلامی، 1410ھ۔
  • صرامی، سیف‌الله و سعید عدالت‌نژاد، «جهاد»، در دانشنامه جهان اسلام، تهران، بنیاد دایرة المعارف اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
  • طباطبایی کربلایی، سید علی، ریاض المسائل فی بیان الاحکام بالدلائل، قم، مؤسسه آل‌البیت(ع)، 1418ھ۔
  • عراقی، ضیاء‌ الدین، شرح تبصرة المتعلمین، قم، مؤسسه نشر اسلامی، 1414ھ۔
  • علامه حلی، حسن بن یوسف، تلخیص المرام فی معرفة الاحکام، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، 1421ھ۔
  • علامه حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقهاء، قم، مؤسسه آل‌البیت(ع)، 1414ھ۔
  • علامه طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسه اسماعیلیان، 1412ھ۔
  • کاشف‌الغطاء، جعفر بن خضر، کشف الغطاء عن مبهمات شریعه الغراء، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، 1422ھ۔
  • محقق ثانی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسه آل‌البیت(ع)، 1414ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق: عبد الحسین محمدعلی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، قم، مؤسسه سید الشهداء، 1364ہجری شمسی۔
  • مروارید، علی‌ اصغر، سلسلة الینابیع الفقهیة، بیروت، مؤسسه فقه الشیعة، 1413ھ۔
  • منتظری، حسین‌ علی، دراسات فی ولایة الفقیه و فقه الدولة الاسلامیة، قم، نشر تفکر، 1415ھ۔
  • میرزای قمی، ابوالقاسم، جامع الشتات، نصحیح: مرتضی رضوی، تهران، مؤسسه کیهان، 1377ہجری شمسی۔
  • میرزای قمی، ابوالقاسم، غنائم الایام فی مسائل الحلال و الحرام، بی‌جا، مکتب الاعلام الاسلامی، 1417ھ۔
  • نجفی،‌ محمد حسن، جواهر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق: محمد قوچانی، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ هفتم، 1362ہجری شمسی۔