بہائیت

ویکی شیعہ سے
(بہائی مذہب سے رجوع مکرر)
بہائیت
«یا بہاء‌الابہی» اسم اعظم بہائیت، معروف بہائی مشکین قلم نے اسے ڈیزائن کیا ہے۔
«یا بہاء‌الابہی» اسم اعظم بہائیت، معروف بہائی مشکین قلم نے اسے ڈیزائن کیا ہے۔
عمومی معلومات
بانیمیرزا حسین علی نوری
اہم شہریںحیفا، عکّا، بغداد
زیارت گاہیںشیراز میں علی محمد باب کا گھر، بغداد میں بہاءاللہ کا گھر، کوہ کرمل میں مقبره باب و عبد البہاء، عکا میں مقبره میرزا حسین علی نوری، لندن میں مقبره شوقی افندی
دیگر اسامیآئین بہائی، دیانت بہائی
مذہبی معلومات
از فرقبابیہ
عقائدمقام الوہیت، نبوت و مَنْ یُظهره اللہی بہاءالله، بارہ تعالیمات
موجودہ رہبر/امامبیت‌العدل اعظم
رہبران/ائمہمیرزا حسین علی نوری، عبدالبہاء، شوقی افندی
فرقےبیت‌العدلی بہائی، آرتھوڈوکس بہائی،‌ موحد بہائی،‌ آزاد بہائی وغیرہ
حالتفعال


بہائیت ایک مذہبی فرقہ ہے جو مذہب بابیت سے نکلا ہے۔ مرزا حسین علی نوری المعروف بہاء اللہ نے تیرہویں صدی ہجری میں اس کی بنیاد رکھی۔ مرزا حسین علی، سید علی محمد باب کے پیروکاروں میں سے تھا جنہوں نے باب کی وفات کے بعد بہائی فرقہ کی بنیاد رکھی۔ بہاء اللہ کے بعد اس کے بیٹے عباس افندی المعروف عبد البہاء پھر اس کے بعد شوقی افندی(عبد البہاء کا نواسہ) نے یکے بعد دیگرے بہائیوں کی قیادت سنبھالی۔ شوقی افندی کے بعد اس کی جانشینی میں اختلاف پیدا ہوا اور بہائی مختلف گروہوں میں بٹ گئے جیسے بیت العدلی بہائی اور آرتھوڈوکس بہائی۔ عصر حاضر میں بہائیوں کی قیادت بیت العدل اعظم کے ہاتھ میں ہے۔

بہائی لوگ بہاء اللہ کو اس فرقے کا نبی اور بہائیت کو ایک نیا مذہب مانتے ہیں جس نے اسلام کو نسخ کیا ہے۔ بہاء اللہ کا خیال ہے کہ مسلمانوں کی قیامت باب کے آنے سے شروع ہوئی اور اس کی موت پر اس کا خاتمہ ہوا ہے۔ نیز، بابی قیامت کا آغاز بہاء اللہ کے ظہور سے ہوگا اور اس کی موت پر ختم ہوگی۔ بہائی، نماز، روزہ، حج اور شرعی حدود جیسی عبادات کو مسلمانوں سے مختلف انداز میں ادا کرتے ہیں۔

بیت‌العدل بہائیوں کا سب سے اہم مرکز ہے اور یہاں ان کے تمام امور انجام دیے جاتے ہیں۔ یہ مرکز حیفا شہر کی کَرمِل پہاڑی پر واقع ہے اور اس کے اراکین کا انتخاب بہائی قومی حلقے کرتے ہیں جو کہ ہر ملک کی بہائی برادری اور بیت العدل کے درمیان رابطہ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ شیراز میں علی محمد باب کا گھر، بغداد میں بہاء اللہ کا گھر، باغ رضوان (بہاء اللہ کے ظہور کی جگہ)، مقام اعلیٰ (کرمل پہاڑی پر باب کا مقبرہ) اور روضہ مبارکہ (عکّا میں حسین علی نوری کا مقبرہ) بہائیوں کے مقدس مقامات ہیں نیز نوروز، باب اور بہاء اللہ کی وفات اور پیدائش کی سالگرہ بہائی عیدیں شمار ہوتی ہے۔ بہاء اللہ کے قلمی آثار جیسے کتاب‌ اَقدس، ایقان، کلمات مکنونہ و الواح، عبد البہاء اور شوقی کے آثار، الفرائد نامی کتابیں اور گنجینہ حدود و احکام بہائیوں کی مقدس کتابیں شمار ہوتی ہیں۔

مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق بہائیت ایک گمراہ اور اسلام سے خارج ایک فرقہ ہے۔ شیعہ مراجع تقلید بہائیوں کے عقیدے کو کافرانہ عقیدہ، انہیں نجس، کافر اور محارب سمجھتے ہیں۔ 400 سے زیادہ کتابیں اور مقالہ جات بہائیت کے رد میں تحریر کیے جاچکے ہیں۔ ان میں سے بعض کتب کو ان لوگوں نے تحریر کیا ہے جنہوں نے بہائی فرقہ کو خیر باد کہا ہے جیسے عبدالحسین آیتی بافقی یزدی وغیرہ۔

بہائیوں کا دعوائے الوہیت،‌ نبوت اور بہاء اللہ کی موعودیت وغیرہ اسلامی عقائد سے متضاد عقیدے ہیں اور ایک قسم کی بت پرستی اور خودپرستی شمار ہوتے ہیں۔ فرقہ بہائیت کے عقائد میں بکثرت تناقضات، ان کے اپنے درمیان شدید اختلافات اور اپنے فرقے کی بڑی شخصیات کی ایک دوسرے کی تکفیر وغیرہ بہائیت پر وارد شدہ اعتراضات ہیں۔ اس فرقے پر نقد کرنے والوں کے مطابق بہائیت ایک سیاسی جماعت ہے۔ روس، برطانیہ، اسرائیل اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ جیسے ممالک اس کی حمایت کرتے ہیں۔

تاریخچہ

فرقہ بہائیت بابیہ فرقہ سے پیدا ہوا ہے؛[1] تیرہویں صدی ہجری (بیسویں صدی عیسوی) میں مرزا حسین علی نوری المعروف بہاء اللہ نے اس کی بنیاد رکھی۔[2] بیت العدل کے حکم سے مرزا حسین علی کی 100ویں برسی کے موقع پر شائع ہونے والے ایک مقالے کے مطابق بہاء اللہ کے مشن کا آغاز سنہ 1852ء کے ماہ اگست(1268ھ) سے ہوا جبکہ اس وقت وہ قید کی زندگی گزار رہا تھا۔[3]

کہا جاتاہے کہ لفظ «بہائی» تقریبا سنہ 1282-1284ھ میں بہائیت فرقہ کے لیے استعمال ہونا شروع ہوا۔[4] اس کے باوجود خود بہائی اپنے فرقے کو «آئین بہائی»،‌ «دیانت بہائی» اور «امر بہائی» (The Bahá’í Faith) جیسے ناموں سے پکارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔[5]

فرقہ بہائیت کی تشکیل کا پس منظر

سنہ 1266ھ کو فرقہ بابیت کے بانی سید محمد علی باب کی موت کے بعد[6] اس مذہب کے ماننے والے عراق جلا وطن ہوگئے۔ یہاں مرزا یحی نوری المعروف صبحِ‌اَزَل فرقہ بابیہ کا رہبر تھا؛ لیکن وہ خفیہ زندگی کررہا تھا اور اس کے بھائی مرزا حسین علی نوری نے مذہبی امور کی ذمہ داریاں سنبھال رکھی تھیں۔[7] سنہ 1280ھ کو اہل بابیت ان کے کچھ نامناسب کرداروں کی وجہ سے استنبول جلا وطن کیے گئے؛ اسی دوران مرزا حسین علی نوری نے مظہریت کا دعوا کیا، [یادداشت 1] یہ اقدام بابیت کے ماننے والوں میں اختلاف کا سبب بنا۔بہائی مذہب والے ان بارہ دنوں کو عید رضوان اور بعثت بہاء الله کے نام سے مناتے ہیں۔[8] اس کے بعد مرزا حیسن علی نوری نے بابیت کو پرانا مذہب قرار دے کر بہائیت کو قانونی حیثیت دے دی۔[9] ان دونوں کے مابین اختلافات جب شدت اختیار کر گئے تو سلطنت عثمانی نے سنہ 1385ھ میں مرزا حسین علی نوری کو فلسطین کے شہر عکّا میں جبکہ مرزا یحی کو بحیرہ روم کے ملک قِبْرِص بھیج دیا۔[10] بابیت کے ماننے والوں میں سے وہ گروہ جس نے صبح ازل کی جانشینی کو باقی رکھا اور حسین علی نوری کے مدعیٰ کو نہیں مانا وہ ازلیہ کہنے لگے اور مرزا حسین علی نوری کے پیروکاروں کو بہائی کہا جانے لگا۔[11]

آبادی اور موجودہ حالت

آج کل بہائی مذہب نے ایک بین الاقوامی تنظیم کی شکل اختیار کیا ہے۔ اس کا صدر دفتر اسرائیل میں ہے اور دنیا کے تمام ممالک بالخصوص ایشیائی اور افریقی ممالک میں اس کی متعدد شاخیں موجود ہیں۔[12] انسائیکلوپیڈیا آف ماڈرن ورلڈ آف اسلام کے مطابق بہائیوں کے پاس 165 قومی و مذہبی حلقے اور 20,000 مقامی روحانی حلقے ہیں۔ بہائی آثار اور ادبیات کا 802 مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ، دنیا میں سات "مشرق الاذکار" (بہائیوں کی عبادت گاہیں) ہیں اور اس مقصد کے لیے 1256 دیگر مقامات کو بہائیوں نے اپنی ملکیت میں لیا ہے۔[13]

بہائیوں کے مطابق آبادی کی تقسیم کے لحاظ سے عیسائیت کے بعد بہائی دوسرا مذہب شمار ہوتا ہے۔ تاہم، دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے مقابلے میں ان کی کوئی خاص آبادی نہیں ہے۔[14] کہا جاتا ہے کہ اگرچہ بہائی تنظیمی ادارے اپنے پیروکاروں کی تعداد سے آگاہ ہے، لیکن ابھی تک قانونی طور پر اپنے صحیح اعداد و شمار نہیں بتائے ہیں۔[15]

غیر رسمی اعداد و شمار کے مطابق بہائی پیروکاروں کی آبادی 5 سے 7 ملین افراد بتائے جاتے ہیں۔[16] بعض کے مطابق، بین الاقوامی بہائی کمیونٹی نے سنہ 2010ء میں بہائیوں کی آبادی پچاس لاکھ سے زیادہ بتائی ہے۔[17] اس تعداد کو مبالغہ آمیز قرار دیا گیا ہے؛ کیونکہ مثال کے طور پر ہندوستان کی بہائی آبادی 20 لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہے اور ایران کی تین لاکھ بتائی گئی ہے جو کہ ان دونوں ممالک کے سرکاری اعداد و شمار سے مطابقت نہیں رکھتی۔[18] ہندوستان کے سرکاری اعلان کے مطابق بہائی آبادی ایک لاکھ دس ہزار نفر[19]اور ایران کی بہائی آبادی زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ افراد کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔[20]

آج کل بہائیوں کی اکثریت امریکہ میں رہتی ہے۔[21] ایران میں بہائیوں کی سب سے زیادہ تعداد صوبہ تہران میں ہے، خاص طور پر فردیس کرج، اصفہان (شاہین شہر اور نجف آباد)، شیراز، ہمدان اور تبریز میں۔[22] بہائی مذہب میں، لوگ بہائی عقائد کو قبول کرتے ہی بہائی نہیں سمجھے جاتے؛ بلوغت کو پہنچنے، بہائیوں سے متعلق ادارہ جات میں رجسٹرڈ ہونے، با ضابطہ رکنیت حاصل کرنے اور انتظامی امور کی اطاعت کرنے کے بعد وہ بہائی کہلاتے ہیں۔[23]

عقائد و افکار

بہاء الله نے دین اسلام کو نسخ کر کے ایک الگ دین متعارف کرایا۔[24] بہائیت کے پیروکار اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ بہاء اللہ نے خدا کی طرف سے نئی تعلیمات اور نیا اور بے سابقہ پیغام حاصل کیا ہے۔ ان کے مطابق، بہاء اللہ کے زمانے میں انسانیت پختگی کی اس سطح پر پہنچ گئی تھی جو خدا کی طرف سے نئی تعلیمات حاصل کر سکتی تھی لہذا خدا نے حسین علی بہاء کو نئی تعلیمات نوع انسانی تک پہنچانے کے لیے مبعوث کیا ہے۔[25] بہائیوں کے مطابق، خدا نے پوری تاریخ میں بنی نوع انسان کے لیے مربیان اور پیغمبران الہی کا ایک سلسلہ شروع کیا، جن میں میں سے سب سے زیادہ جدید پیغام الہی پہنچانے والا بہاء اللہ ہے۔[26] بہائیوں کی کچھ تعلیمات اور عقائد یہ ہیں:

توحید

بہائی لوگ اس بات کے مدعی‌ ہیں کہ بہاء اللہ خدا نہیں ہے؛ بلکہ وہ مظہریت کے درجہ پر فائز ہوا ہے لہذا وہ زمین پر اللہ کا مظہر ہے؛[27] لیکن محققین اور بہائیت پر نقد کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بہاء اللہ کی باتوں سے استناد کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بہائی انہیں اس کائنات کا خدا مانتے ہیں۔[28] بہاء الله کی وہ عبارتیں جو اس کے ادعائے الوہیت پر دلالت کرتی ہیں؛[29] ان میں سے کچھ یہ ہیں: «لا اله اِلّا اَنا المَسجونُ الفَرید؛ کوئی خدا نہیں سوائے میرے جو کہ قید میں ہوں اور یکتا ہوں»، «جس نے اس کائنات کو اپنے لیے خلق کیا وہ ظالموں کے ہاتھوں قیدی بنا ہوا ہے۔»، «ایسا ہی تیرے پروردگار نے امر کیا ہے جس وقت بد ترین شہر میں قید میں تھا۔»،[30] «انَّهُ لا الهَ اِلّا اَنا الباقی الفردُ القدیم... لا الهَ اِلّا اَنا الباقی الغفورُ الکریم؛‌ میرے سوا کوئی خدا نہیں، میں یکتا اور قدیم ہوں، میرے سوا کوئی معاف کرنے والا اور کریم نہیں۔».[31] مرزا حسین علی نوری اپنی شب پیدائش کے سلسلے میں لکھتا ہے: «... وَ فیهِ وُلِدَ مَنْ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُولَدْ؛ اس صبح میں اس شخص کی پیدائش ہوئی ہے جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا»[32] فرقہ بہائیت کے امریکی مبلغ ڈاکٹر ( J. E. Esslemont) نے اپنی کتاب «بہائیت اور عصر جدید؛ "Bahá'í and the New Age"» میں لکھا ہے: بعض اوقات بہاء اللہ انسانی پہلو سے بات کرتا ہے اور اپنی حیثیت کو خالص عبودیت و بندگی سمجھتا ہے اور کبھی وہ الوہیت کی کیفیت میں بات کرتا ہے اور اس صورت میں اس کی عبارتوں میں انسانی شخصیت نظر نہیں آتی۔ ڈاکٹر اسلیمنٹ کے مطابق، اللہ مقام الوہیت میں بہاء اللہ کے ذریعے اپنی مخلوق سے بات کرتا ہے، اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے اور اپنی شریعت اور احکام کا اعلان کرتا ہے۔[33]

مرزا حسین علی نوری کا قصیده ورقائیہ

«کُلُّ الاُلوه من رَشح أمری تألّهتْ و کُلُّ الرُبوبِ من طَفح حُکمی تَربَّت؛ ترجمہ: میرے حکم سے سارے خدایان معبود ہو گئے اور میرے حکم کی فراوانی سے سب رب ہو گئے۔»

عبدالبہاء، مکاتیب، 1921ء، ج2، ص255

بہاء اللہ کی الوہیت کا عقیدہ عبد البہاء اور بہائی مبلغین کے آثار میں بھی پایا جاتا ہے۔[34]

بہائی متون، کلمات اور عبارات میں تاویل کی ممانعت ہے لہذا اس کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ متون کے صرف ظاہری اور لغوی معانی کو اخذ کیا جائے۔[35]

نبوت

مرزا حسین علی نوری نے اپنی کتابوں میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے آپ کو اللہ کا پیغمبر سمجھا ہے۔[36] مرزا حسین کے بیٹے اور بہائیوں کے دوسرے رہبر عباس افندی نے بھی علی محمد باب کو مشہور انبیائے الہی جیسے حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیؑ، حضرت عیسی اور حضرت محمدؐ کی فہرست میں قرار دیا ہے۔ وہ علی محمد باب کو بہاء اللہ کے ظہور کی خوشخبری دینے والا نبی سمجھتا ہے۔ اس کی خیال میں بہاء اللہ ان پیغمبران الہی کے زمرے میں ہے بلکہ وہ باقی انبیاء سے بہتر ہے۔[37]

ڈاکٹر جے، ای اسلیمنٹ(J. E. Esslemont) کے مطابق بہاء اللہ تمام پیغمبران الہی کا احترام کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ خود عصر جدید میں اللہ کا پیغام لانے والا نبی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ پوری دنیا کے انسانوں کا مربی و معلم ہے اور گذشتہ انبیاء کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچاننے کے لیے آیا ہے۔[38] اس عقیدے کے باوجود مرزا حسین علی نوری کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے خاتمیت پیغمبرؐ کو قبول کیا ہے۔[39]

بہائیت کےبارے میں تحقیق کرنے والا معاصر محقق علی رضا روزبہانی لکھتے ہیں کہ بطور واضح معلوم نہیں ہوسکا کہ بہاء اللہ خدا ہے یا پیغمبر یا کسی اور منصب کا حامل؟؛ کیونکہ عبد البہاء کی بعض عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔ دوسرے بعض افراد پیغمبر خدا حضرت محمدؐ کی خاتمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے موعود، اللہ کا مظہر اور سارے انبیائے الہی سے افضل سمجھتے ہیں۔[40]

معاد

روز بہانی کے مطابق فرقہ بہائیت میں مبہم انداز میں معاد کے سلسلے میں گفتگو ملتی ہے، اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ موت کے بعد ایک عالم کا وجود ہے۔[41] قرآن مجید نے قیامت کی جو خصوصیات بیان کی ہے بہائی ان کی تاویل کرتے ہیں۔[42] علی باب کا کہنا ہے کہ میری پیدائش کے ساتھ ہی مسلمانوں کی قیامت آچکی ہے اور جب تک میں زندہ ہوں قیامت بھی باقی رہے گی؛ جب میری موت آئے گی تب قیامت بھی اختتام پذیر ہوگی۔[43] حسین علی بہاء کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ بابیوں کی قیامت باب کی پیدائش سے شروع ہوئی ہے اور اس کی موت کے ساتھ ان کی قیامت کا اختتام ہوگا۔[44]

اِسلِمُنٹ کے نقل کے مطابق، پچھلی آسمانی مقدس کتب میں جنت اور جہنم کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے بہاء اللہ اور عبد البہاء اسے رمزیہ امور قرار دیتے ہوئے ان کے ظاہری معنی کو درست نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک جنت کمال کی کیفیت کا نام ہے اور جہنم نقص کا عالَم ہے۔ جنت خدا کی خوشنودی کا نام ہے اور باقی انسانوں کے ساتھ انسیت پیدا کرنے کی جگہ ہے اور جہنم ایسی انسیت کا نہ ہونا ہے۔ جنت میں خوشی ملنے کا مطلب روح کی خوشی اور فرحت ہے اور جہنم کی تکلیفیں اور رنج و الم ایسی خوشی اور لذتوں کی محرومی سے عبارت ہیں۔[45]

بارہ تعلیمات

بہائیوں کے دوسرے رہنما عباس افندی نے یورپ اور امریکہ کا سفر کیا، یہاں مختلف اجتماعات، گرجا گھروں اور عبادت گاہوں میں بہاء اللہ کے افکار و عقائد کو فروغ دینے کے لیے بارہ تعلیمات پر مشتمل اصول مرتب کیے جو بہائیت کی بارہ تعلیمات کے نام سے معروف ہیں۔[46] یہ اصول اور تعلیمات مندرجہ ذیل ہیں:

  1. «تَحَرّی حقیقت» (حقیقت کی تلاش)؛
  2. وحدت عالم انسانی؛
  3. دین اُلفت و محبت کا باعث ہونا چاہیے؛
  4. دین علم و عقل کے مطابق ہو؛
  5. دینی، مذہبی، قومی سیاسی اور جنسی تعصبات نہیں ہونا چاہیے جو انسان کی بنیاد کو نابود کرتے ہیں؛
  6. لوگوں کے معیشتی نظام میں عدل و انصاف ہو؛
  7. وحدت ادیان؛
  8. عمومی طور پر تعلیم و تربیت کا انتظام ہو؛
  9. پوری انسانیت کے لیے ایک زبان اور رسم الخط ہو؛
  10. مرد و عورت کا تمایز ختم ہو اور ان کے حقوق یکساں ہوں؛
  11. عمومی طور پر صلح و امن کی فضا قائم ہو اور بین الاقوامی عدالت کا قیام ہو؛
  12. پوری کائنات کو روح القدس کی پھونک کی ضرورت ہے،(یعنی انسانی دنیا فکری اور مادی طاقتوں سے ترقی نہیں کرتی بلکہ روحانی اور غیر معمولی انسانی سعادت کے لیے روح القدس کا الہام اور اس کا فیض ضروری ہے)[47]

بہائیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ ساری تعلیمات نئی ہیں اور اس سے پہلے ایسی تعلیمات انسانوں کے لیے نہیں لائی گئی ہیں؛[48]، لیکن بہائیت کے بارے میں تحقیق کرنے والے محققین کے مطابق ان تعلیمات میں سے کچھ کو مختلف ادیان بالاخص دین اسلام سے لیا ہے جبکہ کچھ کو مغربی افکار و ثقافت سے اخذ کیا ہے۔[49]

احکام

محققین کی نظر میں بہائیت کے احکام وہی احکام ہیں جو علی محمد باب کی کتاببیان میں ان کا ذکر ہوا ہے؛ البتہ ان دونوں کے مابین کچھ فرق پائے جاتے ہیں۔[50]‍ بہائیوں کے کچھ احکام یہ ہیں:

عکا شہر میں بہاء اللہ کا مزار (بہائیوں کا قبلہ)
  • نماز: بہاء اللہ کی کتاب اقدس کے مطابق نماز آغاز بلوغت [یادداشت 2] میں واجب ہوجاتی ہے۔[51] بہائیت میں نماز کی 3 اقسام ہیں: نماز صغرا، وُسطا اور کبیر.[52] نماز کبیر دن میں صرف ایک مرتبہ پڑھی جائے کافی ہے[53] اور جو شخص اس نماز کو پڑھے گا باقی دونوں قسم کی نمازیں اس سے معاف ہیں۔[54] نماز وُسطا کا وقت صبح، ظہر اور شام ہے جبکہ نماز صغیر ظہر‌ کت وقت پڑھی جاتی ہے۔[55] بہائیت کے دینی متون کے مطابق بہاء الله نے ایک نو رکعتی نماز بھی نازل کی ہے[56] اور اس کو پڑھنے کی کیفیت کو کسی اور صفحے میں بیان کیا تھا؛ لیکن عبد البہاء کے مطابق وہ صفحہ چوری ہوچکا ہے۔[57] اس نماز کو پڑھنے کا طریقہ آج تک معلوم نہیں ہوسکا ہے۔[58]

بہائیت کی کتاب اقدس کے مطابق نماز میت کےعلاوہ باقی تمام نمازوں میں نماز جماعت کی ممانعت ہے۔[59]

بہاء اللہ کے مطابق جب تک وہ خود زندہ ہے بہائیوں کا قبلہ اس کی اقامت گاہ ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کا روضہ مبارکہ یعنی اس کی قبر ان کا قبلہ ہے۔[60]

  • روزه: بہائیوں کے مطابق بلوغت کے ساتھ ہی روزہ رکھنا واجب ہے۔[61] بہائیوں کے ایام روزہ "العلاء"(بہائیوں کے اپنے بنائے ہوئے مہینوں میں سے ایک) مہینے میں شروع ہوتے ہیں اور عید نوروز پر ختم ہوجاتے ہیں۔[62] بہائیوں کے لیے عید نوروز عید فطر بھی ہے۔[63] مسافر، حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت، عورتوں کے مخصوص ایام، سخت اور بھاری کام انجام دینے والے افراد اور جن کی عمر 70 سال سے زیادہ ہوچکی ہو ان پر روزہ رکھنا واجب نہیں۔[64]
  • حج: بہائیت کے عقیدے کے مطابق حج صرف مردوں پر واجب ہے۔[65] بہائی لوگ حج ادا کرنے کے لیے ایران کے شہر شیراز میں علی‌ محمد باب کے گھر اور بغداد میں بہاء اللہ کے گھر جاتے ہیں۔[66]
  • حدود: بہائیوں کی کتاب اقدس کے مطابق کسی کو ناحق قتل کرنا، زنا کرنا، غیبت کرنا اور کسی پر جھوٹ باندھنا حرام ہے۔[67] اگر کوئی جان بوجھ کر دوسرے کو قتل کرے تو اسے قتل کر دیا جائے گا اور اسی طرح اگر کوئی جان بوجھ کر کسی کے گھر کو آگ لگا دے تو اسے جلا دیا جائے گا۔[68] ان کی کتاب اقدس میں آیا ہے کہ زنا کی شرعی حد یہ ہے کہ 9 مثقال سونا کی مقدار میں دیت دی جائے جسے بیت‌ العدل
  1. مظہریت (مَنْ یُظْهِرُه الله؛ یعنی وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے ظاہر کیا ہو) ایسا عنوان ہے جسے علی محمد باب نے اپنے بعد ظہور کرنے والے کو دیا ہے؛ وہ ظہور کر کے بابیت کے سارےاحکام کو نسخ کرے گا۔(صدری، «بهائیت»، ص736؛ لاوسون، «بهائی/بهائیت»، ص730)
  2. مذہب بہائیت میں لڑکی اور لڑکا دونوں کی حد بلوغت 15 سال ہے۔ عمر کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ (اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص14).

میں جمع کیا جائے گا۔[69] اگر کوئی کام کو دوبارہ انجام دے تو اس صورت میں دیہ دو برابر ہوگا۔[70]

بہائیت میں تمام چیزیں پاک ہیں اور ان کے ہاں نجاست کا کوئی تصور نہیں۔[71] بہاء الله کے مطابق بہائیوں پر واجب ہے کہ اگر ان کے اموال ایک سو مثقال سونا کی مقدار تک پہنچ جائیں تو اس میں سے 19 مثقال سونا حقوق اللہ کے عنوان سے ادا کرنا ہوگا۔[72] اس طرقیہ کار کو بہائیوں نے اپنے مالی استحکام کے لیے بنایا ہے اور اسے اسلامی تعلیمات سے لیا ہے۔[73] بہائی فرقے میں باپ کی بیوی کے علاوہ تمام محارم کے ساتھ شادی کرنا جائز ہے۔[74]

قائدین

بہائیت کے قائدین درج ذیل ہیں:

بہاء اللہ

مرزا حسین علی نوری المعروف بہاءاللہ، بانی بہائیت

مرزا حسین علی نوری (پیدائش: 1233ھ/1818ء) المعروف بہاء اللّه بہائیت کے بانی ہیں اور اس فرقے کا نام اس کے لقب سے ماخوذ ہے۔[75] اس نے اپنے والد مرزا عباس نوری سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔[76] مرزا حسین علی نوری نے سید علی‌ محمد شیرازی کی جانب سے بابیت کے اعلان کے بعد اس کی ترویج و تبلیغ شروع کی۔[77] اس نے سنہ 1863ء کو یعنی علی محمد باب کی موت کے 13 سال بعد اپنے آپ کو موعود قرار دیتے ہوئے مقام «من یظهره الله» پر فائز ہونے کا دعویٰ کیا اس طرحوہ بہائی کے نام سے مشہور ہوا۔[78]

سنہ 1868ء کو مرزا حسین اپنے پیروکاروں سمیت فلسطین کے شہر عکا جلا وطن کردیا گیا۔[79] اس نے سنہ 1309ھ (1892ء) کو 75 سال کی عمر میں وہیں وفات پائی[80] اور باغ بَہجی میں موجود اپنے گھر میں مدفون ہوا۔[81]

عبدالبهاء

عبد البہاء، بہاء اللہ کا بڑا بیٹا اور اس کا نائب.

مرزا حسین علی نوری کے بڑے بیٹے مرزا عباس نوری کا مشہور نام عباس افندی اور عبد البہاء (1260-1340ھ) تھا جو اپنے باپ کے بعد بہائیوں کا رہبر بنا۔ بہاء الله نے اپنی کتاب «کتابُ عَهْدی» (بہاء اللہ کا وصیت‌ نامہ) میں اپنے بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کیا اور اسے «غَصن اعظم» کا لقب دیا۔[82] بہائیت کے پیروکار اسے «مرکز میثاق» کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن وہ خود اپنے آپ کو عبد البہاء کہتا ہے۔[83]

یورپ اور امریکہ میں رہنے والے بہائیوں کی دعوت پر عبد البہاء نے سنہ 1328ھ کو فلسطین سے مصر پھر وہاں سے یورپ اور امریکہ سفر کیا؛ عبد البہاء نے کا یہ سفر 3 سال کی مدت میں طے پایا اس دوران اس نے بہائیت کی کچھ اصول اور تعلیمات پیش کیں جو آج کل "بہائیت کی بارہ تعلیمات" کے نام سے معروف ہیں۔[84] عبد البہا کو پہلی جنگ عظیم[85] میں انگریزوں کے لیے خوراک فراہم کرنے پر27 اپریل 1920ء میں برطانوی حکومت کی طرف سے "نائٹ ہوڈ" (Knighthood) اور سر(Sir) کا خطاب ملا تھا۔[86]

عبد البہاء نے سنہ 1340ھ (1921ء) کو وفات پائی۔ اس کی قبر محمد علی باب کی قبر کے جوار میں فلسطین کی کِرمِل پہاڑی میں واقع ہے۔[87]

شوقی افندی

شوقی افندی، عبد البہاء کا جانشین اور بہائیوں کا تیسرا رہبر.

شوقی افندی، عباس افندی کا نواسہ ہے اور اس کے بعد بہائیوں کا رہبر بنا۔ وہ مرزا ہادی افنان اور عبد البہاء کی بیٹی ضیائیہ کا بیٹا تھا۔ شوقی افندی یک مارچ 1889ء کو عکاّ میں پیدا ہوا اور اپنی عمر کے گیارہ سال یہیں گزارے۔[88] سنہ 1908ء میں عثمانی حکومت کے زوال کے ساتھ شوقی نے اپنے خاندان کے ساتھ حیفہ کا سفر کیا؛ پہلے بیروت یونیورسٹی اور پھر انگلینڈ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔[89] دنیا کے مختلف خطوں میں بہائیوں کی ہجرت کے منصوبے کا نفاذ، بہائی انتظامی ادارہ جات اور مذہبی تنظیم کی توسیع[90] اور بہائی بین الاقوامی ادارہ یا "جنین بیت العدل" کا قیام[91] شوقی افندی کے بنیادی اقدامات میں سے ہے۔ اس کے دور میں، بہائیت کے مبلغین عبد الحسین بافقی یزدی(آیتی) اور مرزا صالح اقتصاد مراغہ ای دوبارہ دین اسلام کی طرف واپس آئے۔[92]

اس نے 4 نومبر 1957ء کو لندن میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوا۔[93]

بہائیت کی قیادت شوقی افندی کے بعد

شوقی افندی کی موت کے بعد اس کی جانشینی کے سلسلے میں بہائیوں میں اختلاف پیدا ہوا؛ اس کے نتیجے میں وہ مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔ شوقی افندی کی بیوی روحیّه ماکْسوِل اور خود شوقی کے «ایادیان امرالله» کے نام سے منتخب کردہ ایک گروہ نے بہائیوں کی اکثریت کو اپنی جانب جلب کرتے ہوئے "بیت‌العدل اعظم" کی بنیاد رکھی اور بہائیت کی قیادت سنبھالی۔ یہ گروہ «بیت‌العدلی بہائی» کے نام سے مشہور ہے۔ انہوں نے "مقام ولی‌ِّامری" کو ہمیشہ کے لیے برطرف کردیا۔[94]

ان کے مقابلے میں چارْلز میسُن ریمی نے شوقی کی نیابت اور ولی امر اللہی کا دعوا کیا اور «ارتوڈوکس بہائی» یا «ریمی‌ بہائی» کے نام سے ایک گروہ تشکیل دی۔[95] ریمی بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ "ایادیان امرالله" یا "بیت‌العدل" نامی ادارہ جات "بہائیوں کی ولایت امر" کے ماتحت ہونا چاہیے وگرنہ ان کی مشروعیت ثابت نہیں ہوگی۔ اسی لیے وہ لوگ "ایادیان امرالله" اور "بیت‌العدلی" گروہ کو مشروع نہیں مانتے۔[96] میسن ریمی نے جوئل برای مارانجلا (Joel Bray Marangella) کو اپنا نائب اور بہائیوں کے تیسرے "ولی‌ِّامر" کے عنوان سے انتخاب کیا اور مارانجلا نے سنہ 2006ء میں نصرت‌الله بهره‌مند کو چوتھے "ولی‌امر" کے عنوان سے بہائیوں کا سربراہ مقرر کیا۔[97]

مختلف گروہیں

بہاء الله کی موت کے بعد بہائیت چندگروہوں میں بٹ گئی اور شوقی افندی کے دور میں یہ گروہ بندی اپنے عروج کو پہنچی۔[98] اس فرقے کے چند گروہ یہ ہیں:

  1. موحد بہائی: اس گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ بہاء اللہ کے بعد اس کا بیٹا مرزا محمد علی (غَصن اکبر) اس کا اصلی جانشین ہے۔
  2. آزاد بہائی: «زیمر ہِرمان» کے پیروکاروں کا روہ ہے ان کے عقیدے کے مطابق بہاء اللہ کی موت کے بعد بہائیوں کی چاقت کا دور ختم ہوچکا ہے پس ہمیں موعود بہاء کے ظہور کے لیے ہزار سال صبر کرنا چاہیے۔
  3. اصلاح‌ پسند بہائی: یہ گروہ روٹ وائٹ اور مرزا احمد سہراب کے عقائد و افکار سے متاثر ہے اور حیفایی بہائیت (بیت‌العدل کے پیروکار) کو منحرف سمجھتا ہے۔ ان افکار کے ماننے والوں کا موجودہ سربراہ فردریک گلیشر ہے۔
  4. میثاق کی سربراہی کے تحت بہائی: یہ گروہ شوقی افندی کو افنان کا ولی امر اور میسن ریمی کو قغصان کا ولی امر مانتا ہے۔ جوزف پیہ، اغصان کا دوسرا ولی‌امر اور نیل چیس اغصان کا تیسرا ولی‌امر اور موجودہ سربراہ ہے۔
  5. اترتوڈوکس بہائی: یہ گروه ہر عصر میں زندہ ولی امر کی موجودگی کو ضروری سمجھتا ہے۔ شوقی،‌ ریمی اور مارانجلا اس گروہ کے ولی امر ہیں۔
  6. بیت‌العدل‌ کے پیرو کار (حیفایی بہائی): بہائیت کی اکثریت کا تعلق اس گروہ سے ہے، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ شوقی کے بعد ولی امر کی ضرورت نہیں اور حیفا میں موجود بیت العدل اعظم تمام ادارہ جات، احکام کے صدور اور فیصلہ سازی کا مرکز ہے۔[99]

بہائیوں کے مزید گروہیں یہ ہیں:

  • آیین بہائی کا نچوڑ(جمشید معانی کے پیروکار جو خود کو باب اور بہاء کے بعد تیسرا «مَن یَظهَرُهُ الله» سمجھتا ہے)؛
  • بہائیوں کے تربیتی گروہ (بہائیوں کا وہ گروہ جو ریمی کو نائب کے عنوان سے مانتا ہے اور عقیدہ ہے کہ آیندہ بہاء اللہ کی نسل سے ایک ولی امر آئے گا)
  • گروہ تاریخ جدید (مرزا احمد سہراب کےپیروکار، امریکہ میں موجود سرگرم بہائی جو عبد البہاء کے منشی اور مترجم ہیں)؛
  • قلب آیین بہائی؛
  • پیران خمسہ کے پیروکار؛
  • دہشی‌ (ڈاکٹر دہش سلیم موسی الاوشی کے پیروکار).[100]

تنظیمیں

بہائیت سے متعلق تنظیموں کی دو شاخیں ہیں: انتخابی تنظیمیں اور انتصابی تنظیمیں۔ دونوں قسم کی تنظیمیں بیت العدل کے زیر نگرانی کام کرتی ہیں۔[101]

حیفا میں کرمل پہاڑی پر بہائیوں کا عالمی مرکز (بیت العدل اور اس سے متعلق ادارہ جات).
  • بیت‌العدل اعظم: بیت‌ العدل کی تشکیل کا حکم بہاء الله نے دیا تھا؛[102] لیکن سنہ 1963ء کو اس کا قیام عمل میں آیا[103] اور سب سے پہلا الیکشن منعقد ہوا۔[104] اس مرکز کے 9 اراکین ہیں اور اراکین کا مرد ہونا ضروری ہے[105] اور ہر پانچ سال میں پوری دنیا کے بہائی قومی حلقوں کے ذریعے 9 افراد کا انتخاب عمل میں لایا جاتا ہے۔[106] یہ مرکز حیفا شہر کی کَرمِل پہاڑی میں واقع ہے۔[107]

بیت‌العدل اعظم بہائیوں کے سارے امور انجام دینے کا مرکز ہے۔[108] اس مرکز کی چند ذمہ داریاں ہیں؛ کچھ اہم ذمہ داریاں یہ ہیں: بہائی قائدین کے آثار کی تفسیر، ہر زمانے سے ہماہنگ قانون سازی اور غیر منصوص موارد کے لیے احکام ترتیب دینا،[109] پوری دنیا کے بہائیوں کے سارے امور کو چلانا، بہائیت کی تبلیغ کے لیے تبلیغی مراکز کا قیام عمل میں لایا اور بہائی قوم کے مابین اختلافات کے حل کے لیے اقدامات کرنا۔[110]

بہائی محقق اور مصنف عبد الحمید اشراق خاوری کے مطابق جو قانون بیت العدل کی جانب سے منظور ہوتا ہے وہ حق ہے اور مراد باری تعالیٰ ہے لہذا اس کی مخالفت نفاق کے مترادف اور اس سے روگردانی درگاہ الہی سے روگردانی تصور کیا جائے گا۔[111] متون بہائیت کے مطابق بہائی انتظامات دو ستونوں پر استوار ہیں ایک ستون ولی امر اللہ اور دوسرا ستون بیت العدل ہے۔ ولیِ امرالله بیت‌العدل کا تا حیات صدر ہے اور عبد البہاء نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ ولی‌امر کے بغیر بیت العدل کی مشروعیت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے بعض بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ شوقی افندی کے بانجھ پن کے بموجب اس کی موت کے بعد سلسلهٔ ولایت‌امری اپنے اختتام کو پہنچا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بیت العدل مشروعیت نہیں رکھتا اور یہ بہائیت مختلف گروہوں میں بٹ جانے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔[112]

  • قومی اور مقامی حلقت: جس شہر یا قصبے میں 9 نفر بہائی موجود ہوں وہاں مقامی طور پر روحانی محفل کا انعقاد ضروری ہے۔ مقامی حلقے قومی حلقوں کے ماتحت کام کرتے ہیں اور یہی قومی حلقوں کے اراکین کو انتخاب کرنے کے ذمہ دار بھی ہیں۔ قومی حلقوں کا ایک کام یہ ہے کہ وہ دنیا کے مختلف مقامات پر موجود بہائیوں کو بیت العدل کے ساتھ مرتبط کرتے ہیں اور ان کے مقاصد و اہداف اور حکمت عملیوں سے آگاہ کرتے ہیں۔[113] بیت العدل کے اراکین کا انتخاب قومی حلقوں کے ذریعے عمل میں لایا جاتا ہے۔[114] قومی اور مقامی حلقے ہر دوسرے سال ایک بار منتخب ہوتے ہیں۔ ان کے تمام انتخابات مہمانی رضوان کے پہلے دن منعقد ہوتے ہیں۔[115]

بہائی حقے ہر مہینے میں (بہائیوں کا مہینہ 19 دنوں پر مشتمل ہے) ایک دفعہ اپنے مقامی دیگر بہائیوں سے ملاقات کرتے ہیں، اس نشست کو وہ لوگ «انیس روزہ ضیافت» کے نام سے یاد کرتے ہیں ان کے اپنے انتظامات ہوتے ہیں۔[116]

فرقہ بہائیت کے ہاں انتصابی عمل بھی پایا جاتا ہے جو بین الاقوامی دارالتبلیغ، اَیادی امرالله،[یادداشت 1] براعظموں کے تحت مشاورین کی تنظیم اور معاون تنظیموں پر مشتمل ہے اور بیت‌العدل کی جانب سے انہیں منصوب کیا جاتا ہے۔[117]

مقدس مقامات

مشرق‌الاَذکارِ عشق‌آباد، بہائیوں کا پہلا مشرق‌الاذکار.

بہائیت میں چند جگہوں کو تقدس حاصل ہے؛ بہائیت ان جگہوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

  • شیراز میں علی‌محمد باب کا گھر (بیت‌النقطہ)؛
  • بغداد میں بہاءالله کا گھر؛
  • ‌ بغداد میں باغ رضوان (باغ نجیب‌پاشا) جو اظہار بہاءالله کی جگہ بھی تھی؛
  • حیفا شہر کی کَرمِل پہاڑی میں موجود مزار جو مقام اعلیٰ کی حیثیت رکھتا ہے؛
  • شہر عکاّ میں مرزا حسین علی نوری کا مزار (روضہ مبارکہ)؛
  • عبد البہاء کا مزار جو باب کے مزار کے ساتھ ہے؛
  • لندن میں شوقی افندی کا مزار؛
  • مشرق‌ الاذکار[یادداشت 2] یا معابد بہائیون؛
  • تہران میں حظیرة القدس؛
  • بہائیوں کی قبرستانیں، جو کہ «گلستان جاوید» کے نام سے مشہور ہیں۔[118]

مشرق الاذکارِ عشق‌آباد بہائیوں کا پہلا مشرق الاذکار ہے جو سنہ 1902ء (1320ھ)میں تعمیر ہوا ہے۔[119] بہائیوں کی عبادتگاہیں یا مشرق الاذکار کی ظاہری شکل گول دائرہ میں ہیں جس میں 9 سڑکیں، 9 باغچہ، 9 حوض جس میں فوارہ لگا ہوتا ہے، اور مختلف اطراف میں 9 دروازے لگے ہوتے ہیں۔[120] امریکہ کے شہر شکاگو میں موجود مشرق الاذکار، اسٹریلیا کے سڈنی میں موجود مشرق‌الاذکار، جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں موجود مشرق الاذکار[121] اور سبز نیلوفر مشرق‌ الاذکار (معبد لوٹوس) ہندوستان[122] بہائیوں کی اہم عبادت گاہوں میں شامل ہیں۔

بہائی کیلنڈر

بہائیوں کے کیلنڈر جسے بدیع[123] یا دور بہائی[124] کہتے ہیں؛ کے مطابق بہائیوں کا سال 19 مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر مہینے میں 19 دن ہوتے ہیں۔[125] بہائیوں کے کیلنڈر کی ابتداء سنہ 1844ء (1260ھ) سے ہوئی ہے۔ ان کی اصطلاح کے مطابق یہ سال باب کے ظہور کا سال ہے،[126] ان کے سال کا پہلا مہینہ شَہرُالبہاء ہے جس کا آغاز 21 مارچ سے ہوتا ہے۔[127] سال بدیع کا آخری مہینہ شَہرُالعلا ہے جس کا آغاز 2 مارچ سے ہوتا ہے۔[128]

بہائیوں کی عیدیں

بہائیوں کی عید کے موقع پر عام تعطیل ہوتی ہے اور اس دن کسی قسم کا کام یا تجارت وغیرہ انجام دینا حرام ہے،[129] ان کی عیدیں یہ ہیں:

  1. عید نوروز: (بہائیوں کا نیا سال)، (21 مارچ)؛
  2. عید رضوان کا پہلا دن (اعلان دعوت بہاء الله)، (21 اپریل)؛
  3. عید رضوان کا نواں دن (30 اپریل)؛
  4. عید رضوان کا بارہواں دن (2مئی)؛
  5. اعلان دعوائے باب، (23 مئی)؛
  6. بہاء الله کی وفات کا دن، (29 مئی)؛
  7. باب کی وفات کا دن، (9 جنوری)؛
  8. باب کی پیدائش کا دن، (20 اکتوبر)؛
  9. بہاء الله کی پیدائش کا دن، (12 نومبر).[130]

بہائیوں کے یہاں 9 اور 5 کی عدد کو اہم اور مبارک گردانا جاتا ہے۔ 9 اور 5 پر والے ستارہ کو بہائیت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ حروف ابجدیہ کی رو سے باب کا نام 9 اور بہاء کا نام 5 کی عدد کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ ان کی عبادت گاہ مشرق الاذکار کی 9 ضلعی تعمیر بھی 9 کی عدد اور باب کے نام کو مد نظر رکھ کر کی ہے۔

شاهرخ، اصول دیانت بهائی، 1998ء، ص58

روز میثاق(26 نومبر) اور عبد البہاء کی وفات کے دن (28 نومبر) کو «مناسبات امریہ» کہتے ہیں؛[131] لیکن بعض منابع میں ان دو دنوں کو نویں اور بارہویں عید رضوان کے بجائے عید بہائیت شمار کیا گیا ہے۔[132]

اِسلِمُنٹ کے مطابق عید نوروز، عید رضوان، باب کی پیدائش کا دن، بہاء الله اور باب کے اظہار دعوا کا دن بہائیوں کی بڑی عیدیں اور خوشی کے دن شمار ہوتے ہیں۔[133]

کتب بہائیت

بہائی رہبران بالاخص مرزا حسین علی اور اس کے بیٹے عباس افندی کی تحریر کردہ کتابیں بہائیوں کے ہاں مقدس شمار کی جاتی ہیں اور ان کی محافل میں انہیں پڑھی جاتی ہیں۔[134] بہائیوں کے بعض مقدس آثار درج ذیل ہیں:

  • بہاء الله کے آثار: کتاب اَقدس، کتاب ایقان، ہفت‌وادی، کلمات مَکنونہ مبین، اِشراقات،‌ اِقتدارات، بَدیع اور الواح سلاطین[یادداشت 3] مرزا حسین علی نوری کے قلمی آثار شمار ہوتے ہیں۔[135] عبد البہاء کے مطابق کتاب اقدس «تمام کتب و صحف کا مُهیمِن و محافظ ہے، باقی تمام کتب کی ناسخ اور احکام، اوامر و نواہی کا مرجع ہے۔»[136] اور شوقی افندی کی نظر میں بہاء اللہ کی نہایت اہم کتاب اور بہائیت کی ام الکتاب(تمام کتابوں کی جڑ) ہے۔[137] اس کتاب میں بہائیت کی تعلیمات اور دیگر احکام موجود ہیں اور شہر عَکّا میں تحریر کی گئی ہے۔[138] بہائی حضرات کتاب بیان کو ناسخ قرآن اور کتاب اقدس کو ناسخ کتاب بیان سمجھتے ہیں۔[139]

بہاء اللہ کے تمام آثار کو ایک مجموعے میں جمع کیا گیا ہے جسے «آثار قلم اَعلیٰ» نام دیا گیا ہے اور اسے 6 جلدوں میں شائع کیا گیا ہے۔[140]

  • عبد البہاء کے آثار: مقالہ "ایک سیاح شخص"، رسالہ مَدَنیّہ، کتاب سیاسیہ، کتاب مُفاوِضات، کتاب مَکاتیب، تذکره الوفا، خطابات مبارکہ، الواح وصایائےمبارکہ (وصیت نامہ) عبد البہاء کی کتابیں ہیں۔[141]
  • شوقی افندی کےآثار: شوقی کے بعض آثٓر یہ ہیں: نظم بدیع، نظم اداری دیانت بہائی‌، ظہور عدل الہی، لوح قرن، قرن بدیع، نظامات بہائی، دور بہائی (کتاب تاریخ نبیل زرندی کا انگریزی میں ترجمہ) اور مَطالِع‌الاَنوار۔ اس کے کچھ آثار انگریزی میں اور کچھ فارسی میں ہیں۔[142]

کتاب «الفَرائد» بہائی مبلغ اور مصنف مرزا ابو الفضل گلپائگانی کی ہے، کتاب «گنجینہ حدود و احکام» بہائی مبلغ اور مصنف عبد الحمید اشراق خاوری کی تصنیف ہے، اور «کَواکِبُ الدُّرّیَّة فی مَآثر البَهائیّة» (تاریخ بابیت و بہائیت) کا مصنف عبد الحسین آیتی بافقی یزدی ہے جو پہلے بہائیوں کے مبلغ تھے بعد میں مسلمان ہوئے۔[143] الفرائد، بہائیوں کی استدلالی‌ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔[144] گنجینہ حدود و احکام، بہائیت کے احکام و حدود کا مجموعہ ہے اور اس میں بہائیوں کے احکام کا ایک اہم حصہ بیان ہوا ہے۔[145]

دُرَرُالبَهیّه، حُجَجُ‌البَهیّه، کشف‌الغِطاء اور برہان لامِع ابو الفضل گلپایگانی کے آثار ہیں، اور رحیق مختوم در شرح و تفسیر لوح قرن، تلخیص تاریخ نبیل زرندی، اَقداح‌الفلاح اور قاموس ایقان عبد الحمید اشراق خاوری کے آثار اور اصول نظم اداریِ بہائی علی‌ اکبر فروتن کا علمی اثر ہے، ظہورالحق (تاریخ بہائیت) اور اسرارالآثار اسد الله فاضل مازندرانی کی کتاب ہے۔[146]

شیعہ مراجع کے فتاویٰ

سید روح اللہ خمینی سے بہائیت سے متعلق استفتاء اور جواب

شیعہ مراجع عقیدہ بہائیت کو کفریات[147] اور بہائیوں کو نجس[148] مانتے ہیں۔ اسی طرح ان کے ساتھ نشست و برخاست کرنے کو سختی سے منع کرتے ہیں۔[149] شیعہ مراجع کی نظر میں بہائی دین و ایمان کے دشمن[150] اور کافر حربی[151] ہیں، ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا حرام اور باطل ہے،[152] ان کے اموال میں تصرف کرنا حرام نہیں[153] اور ہر وہ کام جس سے ان کی تقویت یا ان کے فرقے کی ترویج و تبلیغ ہوتی ہے اسے انجام دینا جائزنہیں ہے۔[154]

شیعہ مرجع تقلید آیت‌الله بروجردی (1292ھ-1380ھ) بہائیت کو شیعہ دشمن اور ایران کے استقلال کے مخالف سمجھتے تھے۔[155] انہوں نے بہائیت کے خطرے کو سنجیدگی سے بھانپ لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بہائیت کے خلاف جنگ انہوں نے شروع کی تھی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے بعض علماء مثلاً آیت اللہ منتظری، ابراہیم امینی اور احمدی شاہرودی کو دوسرے شہروں میں بھیجا کرتے تھے۔[156] سید حسین بروجردی کے اقدامات باعث بنے کہ سنہ1955ء کو تہران میں بہائیوں کے انتظامی امور کے مرکز "حظیرة‌القدس" کو شاہ کے حکم سے بند کر دیا گیا۔[157]

امام خمینیؒ بہائیوں کو اسرائیل کے کارندے[158] اور اسرائیل و امریکہ کے جاسوس سمجھتے تھے۔[159] ان کی نظر میں بہائیت کو شیعہ مذہب کی توڑ کے لیے وجود میں لایا گیا تھا۔[160] امام خمینی کے مطابق یہی صیہونی تھے جو ایران میں ایک بہائی پارٹی کی شکل میں نمودار ہوئے؛ وہ چاہتے تھے کہ ایران کے استقلال و آزادی کو سلب کر کے یہاں کی معیشت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔[161]

سنہ2003ء میں مصر کی الازہر یونیورسٹی کی اسلامی تحقیقاتی کونسل نے بہائیت کو بدعت اور ایک جدید فرقہ قرار دیا اور اعلان کیا کہ اس فرقے کا آسمانی ادیان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ الازہر کے چانسلر محمد سید طنطاوی بھی بہائیت کو اسلام سے مکمل متصادم سمجھتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ اسے ایک باقاعدہ دین کے طور پر تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ ان کی رائے میں، بہائی ایک جدید دین ہے جسے 19ویں صدی عیسوی کے اواخر میں برطانوی استعمار نے اسلام پر سوالیہ نشان لگانے اور مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لیے بنایا تھا۔[162]

تنقیدی جائزہ

کہا گیا ہے کہ اگرچہ بہائیوں کے رہنما شروع میں میں شیعہ تھے اور ان کی ابتدائی سرگرمیاں شیعہ تعلیمات پر مبنی تھیں، لیکن بعد میں انہوں نے ایک نئے مذہب اور شریعت کا دعوا کیا جس کے تحت پیغمبر اکرمؐ کی خاتمیت کا منکر ٹھہرے۔ لہذا اس مطلب کو مد نظر رکھتے ہوئے اس فرقے کو شیعہ مذہب کی نئی شکل قرار دینا درست نہیں۔ اسی وجہ سے شیعہ اور باقی مسلمان علماء بہائیت کو اسلام سے خارج سمجھتے ہیں[163] اور بہائی مذہب مسلمانوں میں منحرف مذہب اور گمراہ فرقہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔[164] تاہم، بی۔ ٹوڈ لاسن نے انسائیکلوپیڈیا آف دی ماڈرن ورلڈ آف اسلام کے لیے بہائیت پر لکھے ایک مضمون میں بہائیت کو اسلامی توحید اور شیعہ کی ایک نئی شکل کے طور پیش کیا ہے۔[165]

پندرہویں صدی ہجری کے شیعہ مفسر اور فقیہ حسن مصطفوی نے اپنی کتاب «محاکمہ و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بہاء» میں اسلام کے دس کلی اور بنیادی اصولوں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ان میں سے ہر بنیادی اصول بابیت اور بہائیت کو بے بنیاد اور جعلی قرار دینے میں کافی ہے۔مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج1، ص13۔</ref> اس دس بنیادی اصولوں میں سے کچھ یہ ہیں: خاتمیت، اسلام تا قیامت باقی رہنے کا ایمان، امام مہدی(عج) کو بارہواں امام ماننا، نبوت، توحید، عبادات کا توقیفی ماننا اور دین میں تضاد کے فقدان پر یقین کرنا۔ .[166] علامہ مصطفوی کے نزدیک اگر دین اسلام، قرآن اور اسلام کے احکام و آداب کا لفظی، ادبی اور معنوی غلطیوں سے بھری کتب؛ بہائیوں کی کتاب بیان اور کتاب اقدس اور ان دونوں کے مندرجات سے موازنہ کیا جائے تو ثابت ہو جائے گا کہ دین اسلام دائمی اور ابدی ہے۔[167]

بہائیت پر کی گئی بعض تنقیدات کی شرح اس طرح سے ہے:

  • دعوائے الوہیت: عبد البہاء کی اپنی کتاب مکاتیب میں بکثرت مقامات پر الوہیت کا دعوا کیا ہے، اس نے کئی بار کہا ہے: «إنی أنا الله» (میں خدا ہوں)۔[168] مرزا حسین علی نوری نے بھی مختلف مقامات پر دعوائے الوہیت کیا ہے۔[169]
  • دعوائے نبوت: مقام نبوت اور دعوائے نبوت دو مشکل مرحلے ہیں اس دعوا کی سچائی ثابت کرنے کے لیے پیغمبران الہی معجزہ کو بروئے کار لاتے تھے۔[170] اگرچہ مرزا حسین علی نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا، لیکن ان کا ماننا تھا کہ نبوت کے لیے صرف آیات کے نزول کی ضرورت ہے۔ اس لیے اس نے کتاب اقدس اور دیگر الواح کے مندرجات کو قرآن کی تقلید کرتے ہوئے خاص ترکیب کے ساتھ بیان کیا لیکن اس میں لفظی، معنوی اور ادبی غلطیاں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ مرزا حسین نے اسے آسمانی آیات اور ایک قسم کا معجزہ قرار دیا۔[171] بہائیت کی گھڑی ہوئی آیات کی تنقید میں کہا جاتا ہے کہ اس طرح کوئی بھی عربی جاننے والا شخص جو فصاحت و بلاغت کے ساتھ عربی میں بات کرتا ہے وہ بھی نبی ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ اسی سے مرزا یحییٰ صبح ازل جیسے لوگوں کی نبوت کا دعوا بھی باطل ثابت ہوتا ہے جس نے آیات بہاء اللہ جیسی آیات بناڈالیں اور نبوت کا دعویٰ کیا۔[172]
  • خاتمیت: بہائیت پر ایک اور اعتراض خاتمیت پیغمبر اکرمؐ کے حوالے سے ہے، مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ہر وہ دعوا جو خاتمیت کے ساتھ سازگار نہیں وہ باطل اور مردود ہے اور جو فرقہ یا مذہب خاتمیت کو نہیں مانتا وہ اسلام سے خارج ہے۔[173] مرزا حسین علی نے خود کو «مَن یَظهَرُهُ الله» کہا اور ایک مستقل شریعت کا بانی تصور کیا۔[174]
  • موعود ہونے کا دعوا: مرزا حسین علی نوری نے اپنی نبوت کے ادعا کے ساتھ خود کو موعود یعنی منتظَر ہونے کا دعوا بھی کیا، اور دوسری طرف وہ غیبت امام مہدی(عج)، ظہور امام(عج) اور امام منتظر سے متعلق روایات کو ضعیف یا موہوم سمجھتا تھا۔حالانکہ اگر یہ روایات ضعیف قرار دی جائیں تو موعود ہونے کے دعوے کے لیے کوئی راہ نہیں رہتی۔[175] علاوہ ازیں، روایات اور علماء و محدثین کے اقوال کے مطابق مرزا حسین علی کی خصوصیات، علامات، نام اور نسب حقیقی موعود کے نام و نسب اور خصوصیات کے ساتھ سازگار ہی نہیں۔[176] من یظہر اللہ اور موعود باب بھی حسین علی کے دعوے کے ساتھ سازگار نہیں؛ کیونکہ کتاب بیان میں باب کے بیان کے مطابق اس کا نام محمد ہے اور لقب قائم ہے اور ظہور کی جگہ مسجد الحرام ہے اور ان میں سے کوئی بھی شرط بہاء اللہ میں نہیں پائی جاتی۔[177] اسی طرح علی محمد باب کے اپنے بیان کے مطابق "من یظهره الله" کا ظہور باب کے 1511 یا 2001 سال بعد ہوگا۔[178]
  • تضاد: آسمانی ادیان اور کتب میں متضاد مطالب نہیں پائے جاتے ہیں؛[179] لیکن کتاب "بہائی" کے مصنف سید محمد باقر نجفی کے مطابق، بہائیوں اہم عقیدتی مسائل میں تضاد پائے جاتے ہیں کچھ کو قبول کرنے کے لیے بعض دیگر عقائد سے ہاتھ اٹھانا پڑے گا۔[180] حسن مصطفوی بھی مرزا حسین علی کی تحریروں اور الفاظ کو تضادات سے بھرا مانتے ہیں اور ان میں سے بعض کو بیان کرتے ہیں۔[181] مثال کے طور پر اہم بہائی منابع کے مطابق قرآن میں تحریف نہیں ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی ان کا عقیدہ ہے کہ قرآن میں تحریف کی وجہ سے کتاب بیان کے ذریعے منسوخ ہوچکا ہے۔[182]
  • بہائیت میں شدید اختلافات اور پھوٹ: حسن مصطفوی کے مطابق بہائیوں کی طرح کسی مذہب اور مسلک میں اس قدر اختلاف، انتشار اور ایک دوسرے کی تکفیر نہیں ہوئی ہے۔[183] باب کی وفات کے بعد مرزا بہا کا اپنے بھائی صبح ازل سے اختلاف ہو گیا، انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف کتاب لکھی۔ بہا کی وفات کے بعد غصن اعظم (عبدالبہا) اور غصن اکبر (محمد علی) کے درمیان شدید اختلاف پیدا ہوگیا۔[184] عبدالبہا نے مرزا محمد علی کو ناقض اکبر قرار دیا اور محمد علی نے عباس اور شوقی کے پیروکاروں کو مشرک گردانا۔[185] شوقی افندی کے بعد، اختلافات عروج پر پہنچ گئے اور اس فرقے میں شدید پھوٹ پڑ گئی۔[186]
  • بہائیت، ایک سیاسی جماعت:بہائیت کے ناقدین اس فرقے کو ایک سیاسی جماعت اور فرقہ سمجھتے ہیں[187] جو کہ ایک سیاسی تنظیم کی طرح اپنے تمام پیروکاروں کو کنٹرول کرتا ہے اور ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔[188] اور اسے روس،[189] انگلینڈ، اسرائیل اور امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔[190] کہا گیا ہے کہ بہائیت کے لیے ان ممالک کی حمایت اس لیے ہے کہ بہائی عقائد کی اشاعت اسلامی تحریکوں کا مقابلہ کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں۔[191] بہائیت پر تحقیق کرنے والے محقق علیرضا روزبہانیکے مطابق استعماری حکومتوں کے ساتھ بہائیوں کے قریبی تعلقات بہت واضح ہیں۔ ایران کے معاصر مورخین بہائیت کو اسلام کی فکری اور سماجی بنیادوں کو تبدیل کرنے کے لیے مغربی استعماری پالیسیوں کا کارنامہ سمجھتے ہیں۔[192] موجودہ دور میں بہائیت ایک بین الاقوامی تنظیم بن چکی ہے جس کا صدر دفتر اسرائیل میں ہے اور اس کے زیادہ تر پیروکار امریکہ میں رہتے ہیں۔[193]

سید سعید زاہد زاہدانی، ماہر عمرانیات اور کتاب "ایران میں بہائیت: کے مصنف، بہائیت کو ایران میں دینی طاقت اور اقتدار سبوتاژ کرنے کے لیے استعماری طاقتوں کا آلہ کار سمجھتے ہیں۔ کیونکہ جہاں بھی سیاست یا معاشرے سے دین کو حذف کرنے کا مسئلہ اٹھایا گیا ہے وہاں بہائیوں نے فعال کردار ادا کیا ہے۔ انقلاب مشروطہ کے دوران اور پہلوی دور میں، مذہب اور معنویت کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر ملکیوں اور بہائیوں کا تعاون واضح طور پر نظر آتا ہے۔ یہ تحریک، یہاں تک کہ اب مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بھی، اسلامی تحریکوں سے نمٹنے کے لیے دنیا کی بڑی طاقتوں کے اختیار میں ایک ثقافتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔[194]

روز بہائی کے مطابق کسی اسلامی حکومت نے بہائیت کو قانونی طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔[195]

کتابیات

کتاب کشف الحیل کی تصویر

بہائیت کے نقد میں متعدد کتابیں اور مقالات لکھے گئے ہیں۔ «به سوی حقیقت: رد فرقہ ضالہ بہائیت» حوزہ علمیہ سازمان اوقاف اصفہان کی طرف سے بنائےگئے سافٹ ویئر میں 313 کتب اور مقالہ جات اسی طرح موسسہ احرار اندیشہ کی جانب سے بنائے گئے سافٹ ویئر«بہاء بی‌بہا» میں 416 کتب اور مقالہ جات جمع کیے گئے ہیں۔[196]

بہائیت کے نقد میں لکھی جانے والی کتب میں سے بعض کتب کو بہائیت چھوڑ کر دین حق قبول کرنے والے مبلغین نے تحریر کیا ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • کشف‌الحیل، عبدالحسین آیتی بافقی یزدی|عبدالحسین آیتی (آواره)؛
  • فلسفه نیکو، میرزا حسن نیکو؛
  • ایقاظ یا بیداری در کشف خیانات دینی و وطنی بهائیان، صالح اقتصاد مراغه‌ای؛
  • خاطرات صبحی، فضل‌الله صبحی مهتدی (کاتب مخصوص عباس افندی)؛
  • راه راست؛ چرا از بهائیت برگشتم، مسیح‌الله رحمانی (بشرویہ کے بہائیوں کے سابق صدر)؛
  • نامه‌ای از سن‌پالو، تألیف امان‌الله شفا.[197]

بہائیت کے نقد میں لکھی گئی کچھ اور کتابیں:

  • محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء» (3 جلد)، حسن مصطفوی؛
  • بهائیان، سید محمدباقر نجفی،
  • تاریخ جامع بهائیت، بهرام افراسیابی؛
  • مِفتاحُ بابِ الابواب، محمدمهدی خان زعیم‌الدوله تبریزی؛
  • بابی‌گری و بهائی‌گری، محمدمهدی اشتهاردی؛
  • بهائیت در ایران، سید سعید زاهدزاهدانی؛
  • پشت پرده تشکیلات به روایت بهزاد جهانگیری، سعید سجادی؛
  • ماجرای باب و بهاء، سید مصطفی حسینی طباطبایی.[198]

نوٹ

  1. بہاء الله نے اپنی زندگی میں چند مشہور بہائیوں کو ایادی امر اللہ کے عنوان سے بہائیت کے تحفظ اور اس کی ترویج کے لیے انتخاب کیا(موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص282). سنہ 1957ء کو 27 نفر شوقی افندی کے ذریعے ایادی امر اللہ کے عنوان سے منتخب ہوئے۔(زاهدزاهدانی، بهائیت در ایران، 1388ہجری شمسی، ص263)؛ لیکن چونکہ ایادی امر اللہ صرف اور صرف ولی امر کے ذریعے سے منصوب ہوتے ہیں لہذا شوقی افندی اور ان کے سب سے آخری نفر کی موت کے بعد یہ ادارہ خود بخود ختم ہوگیا (لاوسون، «بهائی/بهائیت»،‌ ص736).
  2. بہائیوں کی عبادت گاہ، یہ ایک عربی اصطلاح ہے جس کا مطلب "خدا کا ذکر کرنے کی مشرقی جگہ" ہے۔
  3. مرزا حسین علی کے اپنے پیروکاروں یا بادشاہوں کے لکھے گئے خطوط ہیں، بہائیوں کے ہاں یہ لوح کے نام سے مشہور ہیں اور اس کی تعداد 16 ہزار بتائی جاتی ہے۔(روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389ہجری شمسی، ص81).

حوالہ جات

  1. صدری، «بهائیت»،‌ ص733۔
  2. بخش تاریخ، «بهائیت»، ص114؛ لاوسون، «بهائی/بهائیت»، ص729و730۔
  3. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌ 1389ہجری شمسی، ص72۔
  4. لاوسون، «بهائی/بهائیت»، ص730۔
  5. نگاه کنید به لاوسون، «بهائی/بهائیت»، ص730۔
  6. افنان، چهار رساله تاریخی درباره قرة العین، ‍1378 ہجری شمسی، ص42۔
  7. ملاحظہ کریں: افندی، مقاله شخصی سیاح، 2001ء، ص37۔
  8. ملاحظہ کریں: اعتضاد السلطنة، فتنه باب، 1351 ہجری شمسی، ص227و228، تعلیقات عبدالحسین نوائی؛ فاضل مازندرانی، اسرار الآثار، مؤسسه ملی مطبوعات، ج5، ص309 و 310۔
  9. لاوسون، «بهائی/بهائیت»، ص730۔
  10. ملاحظہ کریں: اعتضاد السلطنة، فتنه باب، 1351 ہجری شمسی، ص227و228، تعلیقات عبدالحسین نوائی؛ فاضل مازندرانی، اسرار الآثار، مؤسسه ملی مطبوعات، ج5، ص309 و 310۔
  11. صدری، «بهائیت»، ص737۔
  12. زاهدزاهدانی، بهائیت در ایران،‌1388 ہجری شمسی، ص286۔
  13. لاوسون، «بهائی/بهائیت»، ص737۔
  14. فتاح‌زاده، «جمعیت بهائی از ادعا تا واقعیت»، ص58۔
  15. فتاح‌زاده، «جمعیت بهائی از ادعا تا واقعیت»، ص53 و54۔
  16. لاوسون، «بهائی/بهائیت»، ص737؛ فتاح‌زاده، «جمعیت بهائی از ادعا تا واقعیت»، ص54۔
  17. «The Future of World Religions: Population Growth Projections,2010-2050»، ص124۔
  18. فتاح‌زاده، «جمعیت بهائی از ادعا تا واقعیت»، ص55۔
  19. فتاح‌زاده، «جمعیت بهائی از ادعا تا واقعیت»، ص60۔
  20. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389ہجری شمسی، ص175۔
  21. زاهدزاهدانی، بهائیت در ایران،‌1388 ہجری شمسی، ص286۔
  22. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389 ہجری شمسی، ص175۔
  23. فتاح‌زاده، «جمعیت بهائی از ادعا تا واقعیت»، ص54۔
  24. زاهد زاهدانی، بهائیت در ایران،‌1388 ہجری شمسی، ص109۔
  25. نیازی، گذرگاه تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص312۔
  26. نگاه کنید به صفحه نخست وبسایت جامعه جهانی بهائی؛ صفحه نخست وبسایت بهائیان ایران.
  27. موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص76؛ اسلمنت، بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص86و87۔
  28. موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص76۔
  29. ملاحظہ کریں: نجفی، بهائیان، 1383 ہجری شمسی، ص402-417؛ موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص76-81؛ روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص93-98۔
  30. نجفی، بهائیان، 1383 ہجری شمسی، ص402۔
  31. نوری، کتاب اقدس، ص84-87۔
  32. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص94 و 95۔
  33. اسلمنت، بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص53-55۔
  34. ملاحظہ کریں: نجفی، بهائیان، 1383 ہجری شمسی، ص411-417؛ موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص81-85۔
  35. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص340 و 341۔
  36. نوری،‌ اقتدارات، ص213 و 214؛ موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393ہجری شمسی، ص86۔
  37. موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص86 به نقل از عبدالبهاء، مفاوضات، ص124۔
  38. اسلمنت، بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص87۔
  39. ملاحظہ کریں: نجفی،‌ بهائیان،‌1383ہجری شمسی، ص418-420۔
  40. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389ہجری شمسی، ص98-101۔
  41. روزبهانی، تحلیل و نقد بهاییت، 1389 ہجری شمسی، ص102۔
  42. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص103 و 104۔
  43. موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص106 به نقل از: علی‌محمد شیرازی، بیان، باب سابع از واحد ثانی۔
  44. موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص109۔
  45. اسلمنت، بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص213 و 214۔
  46. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص107۔
  47. مختصر تبدیلی کے ساتھ، ملاحظہ کیجیے: نیازی، گذرگاه تاریکی، 1393ہجری شمسی، ص315؛ روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389ہجری شمسی، ص107-124؛ موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393ہجری شمسی، ص113-114۔
  48. موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393ہجری شمسی، ص114۔
  49. نیازی، گذرگاه تاریکی، 1393ہجری شمسی، ص314۔
  50. زاهدزاهدانی، بهائیت در ایران، ‌1388ہجری شمسی، ص110؛ موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393ہجری شمسی، ص197۔
  51. نوری، کتاب اقدس، ص10، بند10۔
  52. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص22 و23۔
  53. نوری، لوح اشراقات، اشراق هشتم، ص32۔
  54. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص23۔
  55. نوری، لوح اشراقات، اشراق هشتم، ص38 و 40۔
  56. نوری، کتاب اقدس، ص6، بند 6۔
  57. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص30-32۔
  58. موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393ہجری شمسی، ص205۔
  59. نوری، کتاب اقدس، ص12، بند12؛ اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص30۔
  60. نوری، کتاب اقدس، ص7، بند6 و بخش یادداشت‌ها و توضیحات، ص109 و110۔
  61. نوری، کتاب اقدس، ص10، بند 10 و ص16، بند16۔
  62. نوری، کتاب اقدس، بخش یادداشت‌ها و توضیحات،‌ ص121 و 122؛ جزوه تلخیص و تدوین حدود و احکام کتاب اقدس، ص81۔
  63. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص52۔
  64. ملاحظہ کریں: نوری،‌ کتاب اقدس، ص17، بند16؛ اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص46-48؛ جزوه تلخیص و تدوین حدود و احکام کتاب اقدس، ص82 و 83۔
  65. نوری،‌ کتاب اقدس، ص27 و 28، بند32۔
  66. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص67 و 68۔
  67. نوری، کتاب اقدس، ص19، بند20۔
  68. نوری، کتاب اقدس، ص56 و 57، بند62۔
  69. نوری، کتاب اقدس، ص47، بند49۔
  70. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص301۔
  71. مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج2، ص87-92؛ روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص125۔
  72. نوری، کتاب اقدس، ص94، بند 97۔
  73. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389ہجری شمسی، ص128۔
  74. زاهد زاهدانی، بهائیت در ایران،‌1388ہجری شمسی، ص112؛ موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393ہجری شمسی، ص209 و 210۔
  75. صدری، «بهائیت»، ص733۔
  76. روزبهانی، تحلیل و نقد بهاییت، 1389ہجری شمسی، ص73۔
  77. بالیوزی، بهاءالله شمس حقیقت، ص48 و 85۔
  78. اسلمنت، بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص41۔
  79. اسلمنت، بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص41۔
  80. اسلمنت، بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص50؛ روزبهانی، تحلیل و نقد بهاییت، 1389 ہجری شمسی، ص80۔
  81. روزبهانی، تحلیل و نقد بهاییت، 1389ہجری شمسی، ص80۔
  82. نوری، کتاب عهدی، مصر، ص399۔
  83. عبدالبهاء، مکاتیب، 1921ء، ج1، ص264۔
  84. مواژن مؤمن، جامعه بهائی عشق‌آباد، ص158۔
  85. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص85۔
  86. عبدالبهاء، مکاتیب، 1921ء، ج1،‌ ص299؛ اسلمنت، بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص77۔
  87. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص86 و 87۔
  88. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389ہجری شمسی، ص88۔
  89. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389ہجری شمسی، ص88۔
  90. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389ہجری شمسی، ص90۔
  91. نیازی، گذرگاه تاریکی، 1393ہجری شمسی، ص273۔
  92. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389 ہجری شمسی، ص90 و91۔
  93. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389 ہجری شمسی، ص91۔
  94. فلاحتی و فاطمی‌نیا،‌ «انشعابات و اختلافات در بابیت و بهائیت»، وبگاه راسخون.
  95. فلاحتی و فاطمی‌نیا،‌ «انشعابات و اختلافات در بابیت و بهائیت»، وبگاه راسخون.
  96. فلاحتی و فاطمی‌نیا،‌ «انشعابات و اختلافات در بابیت و بهائیت»، وبگاه راسخون.
  97. «ولی امر جدید بهائیان ارتدکس»، وبگاه بهائی پژوهی.
  98. نیازی، گذرگاه تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص273۔
  99. نیازی، گذرگاه تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص274-276۔
  100. نیازی، گذرگاه تاریکی، 1393ہجری شمسی، ص274-276۔
  101. موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص263۔
  102. نوری،‌ کتاب اقدس، ص26،‌ بند30؛ اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص213-216۔
  103. نوری،‌کتاب اقدس، مقدمه،‌ ص11۔
  104. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389 ہجری شمسی، ص171۔
  105. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص218 و219۔
  106. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389 ہجری شمسی، ص170؛ موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص264۔
  107. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389 ہجری شمسی، ص171۔
  108. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص216۔
  109. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص216؛ نوری،‌ کتاب اقدس، مقدمه،‌ ص12-14۔
  110. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389 ہجری شمسی، ص172 و 173؛ موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص264 و 265۔
  111. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص217۔
  112. نگاه کنید به موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص265-273۔
  113. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389 ہجری شمسی، ص173۔
  114. موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص278۔
  115. لاسون، «بهائی/بهائیت»، ص736۔
  116. موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص279۔
  117. نگاه کنید به موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص281-284۔
  118. نیازی، گذرگاه تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص283۔
  119. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص234۔
  120. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص182۔
  121. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، ص238-240۔
  122. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص135۔
  123. اسلمنت،‌ بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص200۔
  124. شاهرخ، اصول دیانت بهائی، 1998ء، ص58۔
  125. اسلمنت،‌ بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص200۔
  126. شاهرخ، اصول دیانت بهائی، 1998ء، ص58۔
  127. اسلمنت،‌ بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص200 و201۔
  128. اسلمنت،‌ بهاءالله و عصر جدید، 1988م، ص201۔
  129. اسلمنت،‌ بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص205۔
  130. اسلمنت،‌ بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص204۔
  131. اسلمنت،‌ بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص205۔
  132. لاوسون، «بهائی/بهائیت»، ص737۔
  133. اسلمنت،‌ بهاءالله و عصر جدید، 1988ء، ص206۔
  134. صدری، «بهائیت»، ص742۔
  135. زاهد زاهدانی، بهائیت در ایران،‌1388 ہجری شمسی، ص151؛ روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص80 و 81۔
  136. عبدالبهاء، مکاتیب، 1921م، ج1،‌ ص343؛ فاضل مازندرانی، اسرار الآثار، مؤسسه ملی مطبوعات، ج1، ص161۔
  137. نوری، کتاب اقدس، ص23 (بخش توصیف کتاب اقدس بقلم حضرت ولی امرالله)۔
  138. اشراق خاوری، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، مقدمه، ص3۔
  139. نجفی، بهائیان، 1383ہجری شمسی، ص424۔
  140. «آثار قلم اعلی»،‌ وبگاه بهائی پژوهی.
  141. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص87۔
  142. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389ہجری شمسی، ص92۔
  143. حاج قلی و دیگران، فرقه‌های انحرافی، 1395ہجری شمسی، ص390-393۔
  144. مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج2،‌ ص257؛ حاج قلی و دیگران، فرقه‌های انحرافی، 1395 ہجری شمسی، ص391۔
  145. حاج قلی و دیگران، فرقه‌های انحرافی، 1395ہجری شمسی، ص390 و 391۔
  146. حاج قلی و دیگران، فرقه‌های انحرافی، 1395ہجری شمسی، ص376-378۔
  147. ملاحظہ کریں: گلپایگانی،‌ مجمع المسائل، 1413ھ، ج3،‌ص215؛ تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج2، ص199؛ بهجت، استفتاءات، 1428ھ، ج1، ص110؛ مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، 1427ھ، ج2، ص503۔
  148. بهجت، استفتاءات، 1428ھ، ج1، ص110؛ خامنه‌ای، اجوبة الاستفتاءات، 1424ھ، ص65 و66۔
  149. تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج2، ص199 و327؛ خامنه‌ای، اجوبة الاستفتاءات، 1424ھ، ص66۔
  150. خامنه‌ای، اجوبة الاستفتاءات، 1424ھ، ص66۔
  151. مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، 1427ھ، ج1، ص349 وج2، ص503۔
  152. امام خمینی، توضیح المسائل (محشّی)، 1424ھ، ج2،‌ ص812 و872؛ تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج2، ص327 و348۔
  153. بهجت، استفتاءات، 1428ھ، ج4، ص315۔
  154. تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج2، ص199و200؛ بهجت، استفتاءات، 1428ھ، ج3، ص238۔
  155. ملاحظہ کریں: رجبی، «نگران از نفوذ؛ آیت الله بروجردی و بهائیان»، ص344۔
  156. رجبی، «نگران از نفوذ؛ آیت الله بروجردی و بهائیان»، ص341۔
  157. رجبی، «نگران از نفوذ؛ آیت الله بروجردی و بهائیان»، ص343 و344۔
  158. رفیعی، «خروش بر توطئه‌ها؛ امام خمینی و بهائیت»، ص351 و 352۔
  159. ملاحظہ کریں: امام خمینی، صحیفه امام، 1389ہجری شمسی، ج17، ص267 و 461؛ رفیعی، «خروش بر توطئه‌ها؛ امام خمینی و بهائیت»، ص352و355۔
  160. رفیعی، «خروش بر توطئه‌ها؛ امام خمینی و بهائیت»، ص352۔
  161. امام خمینی، صحیفه امام، 1389ہجری شمسی، ج1،‌ ص110 و216۔
  162. «شیخ الازهر: به رسمیت شناختن بهائیت، خروج از اسلام است»، خبرگزاری ابنا.
  163. لاوسون، «بهائی/بهائیت»، ج1، ص731(پاورقی مترجم)۔
  164. صدری، «بهائیت»، ص743۔
  165. لاوسون، «بهائی/بهائیت»، ص730۔
  166. ملاحظہ کریں: مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج1، ص14-205۔
  167. مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج1، ص32۔
  168. عبدالبهاء، مکاتیب، 1921ء، ج2، ص254۔
  169. ملاحظہ کریں: نجفی، بهائیان، 1383 ہجری شمسی، ص402-417۔
  170. مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج1، ص59۔
  171. مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج1، ص60-67۔
  172. مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج1، ص62-67۔
  173. صدری، «بهائیت»، ص743۔
  174. صدری، «بهائیت»، ص743۔
  175. مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج1، ص49 - 51۔
  176. مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج1، ص56۔
  177. زاهد زاهدانی، بهائیت در ایران، 1388ہجری شمسی، ص108 و 109۔
  178. نجفی، بهائیان، 1383 ہجری شمسی، ص218۔
  179. مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج1، ص205۔
  180. نجفی، بهائیان، 1383 ہجری شمسی، ص421۔
  181. مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج1، ص212-224۔
  182. نجفی، بهائیان، 1383 ہجری شمسی، ص424.
  183. مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج2، ص32۔
  184. مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج2، ص32۔
  185. زاهد زاهدانی، بهائیت در ایران،‌1388 ہجری شمسی، ص152۔
  186. نیازی، گذرگاه تاریکی، 1393ہجری شمسی، ص273۔
  187. مصطفوی، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، ج2، ص55؛ روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص169۔
  188. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص169۔
  189. موسوی‌زاده، منادیان تاریکی، 1393 ہجری شمسی، ص229-231؛ روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت، 1389 ہجری شمسی، ص137-139۔
  190. زاهد زاهدانی، بهائیت در ایران، ‌1388 ہجری شمسی، ص283-285۔
  191. زاهد زاهدانی، بهائیت در ایران، ‌1388 ہجری شمسی، ص294۔
  192. روزبهانی، تحلیل و نقد بهائیت،‌1389 ہجری شمسی، ص136۔
  193. زاهد زاهدانی، بهائیت در ایران، ‌1388 ہجری شمسی، ص286 و293۔
  194. زاهد زاهدانی، بهائیت در ایران، ‌1388ہجری شمسی، ص294۔
  195. روزبهانی، تحلیل و نقد بهاییت، 1389ہجری شمسی، ص174۔
  196. حاج‌قلی و دیگران، فرقه‌های انحرافی، 1395ہجری شمسی، ص395۔
  197. مظاهری، «بهائیت؛ ریزشها و بحرانهای مداوم»،‌ ص253 و255۔
  198. ملاحظہ کریں: حاج‌قلی و دیگران، فرقه‌های انحرافی، 1395 ہجری شمسی، ص396-400۔

مآخذ

  • «آثار قلم اعلی»،‌ وبگاه بهائی پژوهی، تاریخ بازدید:‌ 26 اردیبهشت 1400ہجری شمسی۔
  • ‌ اسلمنت، جی. ای. بهاءالله و عصر جدید، ترجمه ع. بشیر الهی، ه. رحیمی و ف. سلیمانی، برزیل، منشورات دار النشر البهائیة، 1988ء۔
  • ‌ اشراق خاوری، عبدالحمید، گنجینه حدود و احکام، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری، نشر سوم، سال 128 بدیع.
  • اعتضادالسلطنة، عليقلی ميرزا، فتنه باب، ترجمه و تعلیقات عبدالحسین نوایی، تهران، انتشارات بابک، 1351ہجری شمسی۔
  • افنان، ابوالقاسم، چهار رساله تاریخی درباره قره العین، مؤسسه عصر جدید آلمان، چاپ اول، ‍1378ش/156بدیع.
  • امام خمینی، سید روح‌الله، توضیح المسائل (محشّی)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ هشتم، 1424ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌الله، صحیفه امام، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ پنجم، 1389ہجری شمسی۔
  • بخش تاریخ، «بهائیت»، در دائرة‌المعارف بزرگ اسلامی، ج13، تهران، مرکز دائرة‌المعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
  • بهجت، محمدتقی، استفتاءات، قم، دفتر آیت‌الله بهجت، چاپ اول، 1428ھ۔
  • تبریزی، جواد، استفتاءات جدید، قم، بی‌نا، چاپ اول، بی‌تا.
  • ‌ جزوه تلخیص و تدوین حدود و احکام کتاب اقدس، در کتاب اقدس، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا.‌(از کتابخانه الکترونیکی مراجع و آثار بهائی)
  • حاج قلی، احمد و دیگران، فرقه‌های انحرافی: شیخیه،‌ بابیه و بهائیت، قم، حوزه علمیه؛‌ مرکز تخصصی مهدویت، چاپ دوم، 1395ہجری شمسی۔
  • خامنه‌ای، سید علی، اجوبة الاستفتاءات، قم، دفتر معظم له، چاپ اول، 1424ھ۔
  • رجبی، محمدحسن، «نگران از نفوذ؛ آیت الله بروجردی و بهائیان»، در بهائیت آنگونه که هست، تهران، مؤسسه جام جم، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
  • رفیعی، مریم، «خروش بر توطئه‌ها؛ امام خمینی و بهائیت»، در بهائیت آنگونه که هست، تهران، مؤسسه جام جم، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
  • روزبهانی، علیرضا، تحلیل و نقد بهاییت، قم، مرکز پژوهش‌های صدا و سیما، 1389ہجری شمسی۔
  • زاهدزاهدانی، سید سعید، بهائیت در ایران، تهران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، چاپ چهارم، 1388ہجری شمسی۔
  • شاهرخ، داریوش و گریس، اصول دیانت بهائی، ترجمه مینو ثابت، انتشارات ایمجز اینترنشنال، 1998ء۔
  • «شیخ الازهر: به رسمیت شناختن بهائیت، خروج از اسلام است»، خبرگزاری ابنا، تاریخ درج مطلب: 26 خرداد 1388 ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 25 اردیبشهت 1400ہجری شمسی۔
  • صدری، محمود، «بهائیت»، در دانشنامه جهان اسلام (ج4)، زیرنظر غلامعلی حدادعادل، تهران، بنیاد دایرة المعارف اسلامی، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
  • صفحه نخست وبسایت جامعه جهانی بهائی، تاریخ بازدید: 26 اردیبشهت 1400ہجری شمسی۔
  • صفحه نخست وبسایت بهائیان ایران، تاریخ بازدید: 26 اردیبشهت 1400ہجری شمسی۔
  • عبدالبهاء،‌ عباس افندی، مقاله شخصی سیاح، مؤسسه مطبوعات امری آلمان، 2001ء۔
  • ‌ عبدالبهاء، عباس افندی، مکاتیب، به اهتمام فرج الله ذکی الکردی،‌ چاپ مصر،‌1340ق-1921ء۔
  • فاضل مازندرانی، اسدالله، اسرار الآثار، مؤسسه ملی مطبوعات، (129 بدیع) 1346ہجری شمسی۔
  • فتاح‌زاده، محمد، «جمعیت بهائی از ادعا تا واقعیت»، فصلنامه بهائی‌شناسی، شماره 1،‌ تابستان 1395ہجری شمسی۔
  • فلاحتی، حمید و مهدی فاطمی‌نیا،‌ «انشعابات و اختلافات در بابیت و بهائیت»، وبگاه راسخون، تاریخ درج مطلب: 4 خرداد 1392 ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 2 اردیبهشت 1400ہجری شمسی۔
  • گلپایگانی،‌ سید محمدرضا، مجمع المسائل، قم،‌ دار القرآن الکریم، چاپ چهارم، 1413ق-1372ہجری شمسی۔
  • ‌ لاوسون، بی. تاد، «بهائی/بهائیت»، در دایرة المعارف جهان نوین اسلام‌ (ج1)، ترجمه و تحقیق و تعلیق زیر نظر حسن طارمی، محمد دشتی و مهدی دشتی، تهران، نشر کتاب مرجع-نشر کنگره، چاپ اول، 1388ہجری شمسی۔
  • مصطفوی، حسن، محاکمه و بررسی در عقاید و احکام و آداب و تاریخ باب و بهاء،‌ تهران، مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، بی‌تا.
  • ‌ مظاهری، ابوذر، «بهائیت؛ ریزشها و بحرانهای مداوم: آشنایی با برخی از بهائیان نادم و مستبصر»،‌ در مجله تاریخ معاصر ایران، شماره 47 و 48، پاییز و زمستان 1387ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتاءات جدید، تحقیق و تصحیح ابوالقاسم علیان‌نژادی، قم، مدرسه امام علی بن ابی‌طالب(ع)، چاپ دوم، 1427ھ۔
  • ‌ موسوی‌زاده، سید حسین‌علی با همکاری پژوهشکده باقرالعلوم،، منادیان تاریکی: افشای باورهای بهائیت، تهران، شرکت چاپ و نشر بین الملل، چاپ اول، 1393ہجری شمسی۔
  • نجفی،‌ سید محمدباقر، بهائیان،‌ تهران، نشر مشعر،‌ چاپ اول، ‌1383ہجری شمسی۔
  • نیازی، حامد، گذرگاه تاریکی: نقد و بررسی اسنادی و تصویری فرقه بهائیت، اصفهان، مرکز مدیریت حوزه علمیه اصفهان، چاپ اول، 1393ہجری شمسی۔
  • نوری، میرزا حسینعلی، آثار قلم اعلی،‌ تهران، نشر مؤسسه ملی مطبوعات امری.
  • ‌ نوری، لوح اشراقات، در کتاب اقدس، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا.‌(از کتابخانه الکترونیکی مراجع و آثار بهائی)
  • نوری، میرزا حسینعلی، کتاب اقدس، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا.‌ (این کتاب از انگلیسی ترجمه و با برخی الواح، ملحقات و توضیحات چاپ شده است.)
  • نوری، میرزا حسینعلی، اقتدارات و چند لوح دیگر، در مجموع الواح مبارکه حضرت بهاءالله، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا (از کتابخانه الکترونیکی مراجع و آثار بهائی).
  • نوری، مرزا حسینعلی، کتاب عهدی، در مجموع الواح بهاءالله، مصر، بی‌نا، ‌بی‌تا.
  • «ولی امر جدید بهائیان ارتدکس»، وبگاه بهائی پژوهی، تاریخ درج مطلب: 4 آبان 1386 ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 2 اردیبهشت 1400ہجری شمسی۔
  • Pew Research Center, “The Future of World Religions: Population Growth Projections, 2010-2050”, April 2, 2015.