امام رضا کا رأس الجالوت سے مناظرہ

ویکی شیعہ سے
امام رضا کا رأس الجالوت سے مناظرہ
عمومی معلومات
فریق اولامام رضا علیہ‌ السلام
فریق دومرأس الجالوت
موضوعاثبات نبوت حضرت محمدؐ
اصلی راویحسن بن محمد نوفلی
مکانمأمون عباسی کا دربار
شیعہ منابعتوحید، عیون اخبار الرضا
مشہور مناظرے
عیسائی اسقف سے امام محمد باقر کا مناظرہحسن بصری کے ساتھ امام باقر کا مناظرہابوقرۃ کے ساتھ امام رضا کا مناظرہامام رضا کا جاثلیق سے مناظرہامام رضا کا رأس الجالوت سے مناظرہسلیمان مروزی سے امام رضا کا مناظرہامام رضا کا عمران صابی سے مناظرهتوحید پر امام رضا کا مناظرہ


امام رضاؑ اور رأس الجالوت کا مناظرہ ایک کلامی بحث ہے کہ جس کا موضوع، پیغمبر اکرمؐ کی نبوّت کو ثابت کرنا ہے۔ اس مناظرہ میں امام رضاؑ، حضرت محمدؐ کی نبوت کے اثبات کے لئے توریت، زبور اور انجیل کی عبارتوں کو بطور شاہد پیش کرتے ہیں۔ یہ مناظرہ شیخ صدوق سے نقل شدہ حدیث کہ جس کی بنا پر مأمون خلیفۂ عباسی، یہودی، مسیحی، زرتشتی اور صابئی علما کو امام رضاؑ سے مناظرہ کی دعوت دیتا ہے۔

اس مناظرہ کو شیخ صدوق نے اپنی کتاب توحید اور عیون اخبار الرضا میں نقل کیا ہے۔ اس روایت کی بنیاد پر رأس الجالوت مناظرہ میں امام رضاؑ کے استدلال کا جواب دینے سے قاصر تھا۔

مناظرہ کے اسباب

امام رضاؑ کا رأس الجالوت سے مناظرہ، خلیفہ عباسی مامون کے حکم پر انجام دیا گیا تھا۔ شیخ صدوق کے مطابق جس وقت امام رضاؑ مدینہ سے مأمون کے دربار مرو میں پہنچے، تو وہ چاہتا تھا کہ علمائے مسیحی، یہودی، زرتشت اور صابئی امام رضاؑ سے مناظرہ کریں۔[1] رأس الجالوت یہودی عالم تھا اور اس جلسہ میں اس کے علاوہ مسیحیوں کے بزرگ عالم جاثلیق، صابئین کے بزرگان، زرتشتیوں کے بزرگ ہِربذ اور عمران صابئی بھی موجود تھے کہ جنہوں نے امامؑ سے مناظرہ کیا۔[2] حسن بن محمد نوفلی جو اس مناظرہ کے راوی ہیں ان کے مطابق اس مناظرہ کے پیچھے مامون کی یہ سازش تھی کہ امامؑ کا امتحان لیا جائے۔[3]

اس رپورٹ کے مطابق امام رضاؑ نے جب دیکھا کہ مناظرے سے نوفلی کو پریشانی لاحق ہورہی ہے تو آپ نے ان سے پوچھا کیا تمہیں اس بات کا خوف ہے کہ وہ لوگ مناظرے میں مجھ پر غالب آئیں گے۔۔۔ تمہیں نہیں پتہ کہ مأمون اس مناظرے سے اس وقت پشیمان ہوگا جب میں اہل تورات کو تورات سے اور اہل انجیل (عیسائی) کو انجیل سے اور اہل زبور کو زبور سے اور صائبی، رومی اور پارسیوں کو اسی کے تحت جواب دوں گا جو وہ مانتے ہیں۔[4]

مناظرہ کا موضوع اور اس کا نتیجہ

اس گفتگو کا محور نبوّتِ پیغمبر اکرمؐ تھا۔ رأس الجالوت امام سے چاہتا تھا وہ اس مسٗلہ کو ثابت کریں لیکن دلیل صرف توریت یا انجیل یا زبور یا صحف ابراہیم و موسی سے ہو۔ امام رضاؑ نے قبول کر لیا اور اثبات نبوّت پیغمبر اکرمؐ کے لئے انہیں کتابوں سے دلیل و شواہد لے کر آئے کہ جن کے بعض نمونے مندرجہ ذیل ہیں:

  • جناب موسی نے بنی اسرائیل سے کہا: «نبوّت تمہارے ہی بھائیوں کے درمیان آئے گی لہذا اس کی تصدیق و اطاعت کرنا» لہذا اس بنا پر تمام بنی اسرائیل، اسماعیل نبی کے فرزند ہیں اور اسماعیل کی اولاد کے درمیان صرف محمد بن عبداللہ ہی پیغمبر ہیں لہذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے نبی تھے۔[5]
  • توریت میں اس طرح آیا ہے کہ: «میں دو سوار کو دیکھ رہا ہوں کہ جن کے لئے زمین روشن ہے: ان میں سے ایک گدھے پر سوار ہے اور دوسرے اونٹ پر۔» جو گدھے پر سوار ہے وہ حضرت عیسیؑ اور جو اونٹ پر سوار ہے وہ حضرت محمدؐ ہیں۔[6]
  • زبور میں حضرت داود ؑ کا قول اس طرح سے ہے کہ: « ائے میرے پروردگار! مدّتوں بعد سنّت کو زندہ کرنے والے کو مبعوث فرما۔» مدّتوں بعد جو سنّت کو زندہ کر سکتا ہے وہ صرف پیغمبر اکرمؐ کی ذات ہے۔ اور یہ عیسی نبی نہیں ہو سکتے کیونکہ انہوں نے سنّت توریت کی مخالفت نہیں کی تھی۔[7]
  • انجیل میں وارد ہوا ہے کہ: «نیک خاتون کا بیٹا چلا جائے گا اور اس کے بعد فارقلیطا آئے گا اور وہ ایسا ہوگا جو سختیوں اور مشکلات کو آسان کر دیگا اور ہر چیز کی تفسیر بیان کرے گا۔ جس طرح میں اس کی گواہی دے رہا ہوں اسی طرح وہ بھی میری گواہی دیگا۔ میں تمہارے لئے مثال بیان کر رہا ہوں وہ اس کی تأویل بیان کرے گا۔»[8]

مآخذ حدیث

اس مناظرہ کا متن شیخ صدوق (305-381ھ) کی کتاب توحید[9] اور عیون اخبارالرضا[10] میں آیا ہے۔ احمد بن علی طَبرسی نے اپنی کتاب الاحتجاج علی اہل اللجاج میں اس مناظرہ کا خلاصہ نقل کیا ہے۔[11] اور اسی طرح علامہ مجلسی نے اس حدیث کو اپنی کتاب بحار الانوار میں شیخ صدوق کی دونوں کتابوں سے نقل کیا ہے۔[12]

حدیث کی سند کا اعتبار

رجالی حضرات بالخصوص اس حدیث کی سلسلہ سند میں اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ ایک گروہ نے تمام راویوں کو ثقہ اور دوسرے گروہ نے بعض راویوں کو غیر ثقہ جانا ہے۔[13] اس کے علاوہ اس حدیث کی سند مرسل ہے یعنی سلسلہ حدیث کے بعض راوی ذکر نہیں ہوئے۔ لہذا اس حدیث کو سند کے اعتبار سے ضعیف سمجھتے ہیں۔۔[14] اس کے باوجود بھی بعض لوگوں نے اس حدیث کو ضعیفِ مقبول کہا ہے یعنی سند کے ضعیف ہونے کے باوجود بھی اس پر عمل کیا ہے کیونکہ اس کو صدوق جیسے معتبر عالم نے روایت کو نقل کیا ہے اور وہ صرف اسی روایت کو نقل کرتے ہیں جس کے معصوم سے صادر ہونے کا یقین و اطمینان ہو۔[15]

مناظرے کا متن اور ترجمہ

امام رضاؑ کا رأس‌ الجالوت سے مناظرہ

متن ترجمه
فَالْتَفَتَ الرِّضَا(ع) إِلَى رَأْسِ الْجَالُوتِ فَقَالَ لَهُ تَسْأَلُنِي أَوْ أَسْأَلُكَ قَالَ بَلْ أَسْأَلُكَ وَ لَسْتُ أَقْبَلُ مِنْكَ حُجَّةً إِلَّا مِنَ التَّوْرَاةِ أَوْ مِنَ الْإِنْجِيلِ أَوْ مِنْ زَبُورِ دَاوُدَ أَوْ مِمَّا فِي صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَ مُوسَى‏ فَقَالَ الرِّضَا ع لَا تَقْبَلْ مِنِّي حُجَّةً إِلَّا بِمَا تَنْطِقُ بِهِ التَّوْرَاةُ عَلَى لِسَانِ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ وَ الْإِنْجِيلُ عَلَى لِسَانِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَ الزَّبُورُ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ فَقَالَ رَأْسُ الْجَالُوتِ مِنْ أَيْنَ تُثْبِتُ نُبُوَّةَ مُحَمَّدٍ قَالَ الرِّضَا ع شَهِدَ بِنُبُوَّتِهِ ص مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ وَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَ دَاوُدُ خَلِيفَةُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فِي الْأَرْضِ فَقَالَ لَهُ أَثْبِتْ قَوْلَ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ قَالَ الرِّضَا ع هَلْ تَعْلَمُ يَا يَهُودِيُّ أَنَّ مُوسَى أَوْصَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقَالَ لَهُمْ إِنَّهُ سَيَأْتِيكُمْ نَبِيٌّ هُوَ مِنْ إِخْوَتِكُمْ فَبِهِ فَصَدِّقُوا- وَ مِنْهُ فَاسْمَعُوا فَهَلْ تَعْلَمُ أَنَّ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِخْوَةً غَيْرَ وُلْدِ إِسْمَاعِيلَ إِنْ كُنْتَ تَعْرِفُ قَرَابَةَ إِسْرَائِيلَ مِنْ إِسْمَاعِيلَ وَ النَّسَبَ الَّذِي بَيْنَهُمَا مِنْ قِبَلِ إِبْرَاهِيمَ ع فَقَالَ رَأْسُ الْجَالُوتِ هَذَا قَوْلُ مُوسَى لَا نَدْفَعُهُ فَقَالَ لَهُ الرِّضَا ع هَلْ جَاءَكُمْ مِنْ إِخْوَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ نَبِيٌّ غَيْرُ مُحَمَّدٍ ص قَالَ لَا قَالَ الرِّضَا ع أَ وَ لَيْسَ قَدْ صَحَّ هَذَا عِنْدَكُمْ قَالَ نَعَمْ وَ لَكِنِّي أُحِبُّ أَنْ تُصَحِّحَهُ لِي مِنَ التَّوْرَاةِ فَقَالَ لَهُ الرِّضَا ع هَلْ تُنْكِرُ أَنَّ التَّوْرَاةَ تَقُولُ لَكُمْ جَاءَ النُّورُ مِنْ جَبَلِ طُورِ سَيْنَاءَ وَ أَضَاءَ لَنَا مِنْ جَبَلِ سَاعِيرَ وَ اسْتَعْلَنَ عَلَيْنَا مِنْ جَبَلِ فَارَانَ قَالَ رَأْسُ الْجَالُوتِ أَعْرِفُ هَذِهِ الْكَلِمَاتِ وَ مَا أَعْرِفُ تَفْسِيرَهَا قَالَ الرِّضَا ع‏

أَنَا أُخْبِرُكَ بِهِ أَمَّا قَوْلُهُ جَاءَ النُّورُ مِنْ جَبَلِ طُورِ سَيْنَاءَ فَذَلِكَ وَحْيُ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى الَّذِي أَنْزَلَهُ عَلَى مُوسَى ع عَلَى جَبَلِ طُورِ سَيْنَاءَ وَ أَمَّا قَوْلُهُ وَ أَضَاءَ لَنَا مِنْ جَبَلِ سَاعِيرَ فَهُوَ الْجَبَلُ الَّذِي أَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ع وَ هُوَ عَلَيْهِ وَ أَمَّا قَوْلُهُ وَ اسْتَعْلَنَ عَلَيْنَا مِنْ جَبَلِ فَارَانَ فَذَلِكَ جَبَلٌ مِنْ جِبَالِ مَكَّةَ بَيْنَهُ وَ بَيْنَهَا يَوْمٌ وَ قَالَ شَعْيَا النَّبِيُّ ع فِيمَا تَقُولُ أَنْتَ وَ أَصْحَابُكَ فِي التَّوْرَاةِ رَأَيْتُ رَاكِبَيْنِ أَضَاءَ لَهُمَا الْأَرْضُ أَحَدُهُمَا رَاكِبٌ عَلَى حِمَارٍ وَ الْآخَرُ عَلَى جَمَلٍ فَمَنْ رَاكِبُ الْحِمَارِ وَ مَنْ رَاكِبُ الْجَمَلِ قَالَ رَأْسُ الْجَالُوتِ لَا أَعْرِفُهُمَا فَخَبِّرْنِي بِهِمَا قَالَ ع أَمَّا رَاكِبُ الْحِمَارِ فَعِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَ أَمَّا رَاكِبُ الْجَمَلِ فَمُحَمَّدٌ ص أَ تُنْكِرُ هَذَا مِنَ التَّوْرَاةِ قَالَ لَا مَا أُنْكِرُهُ ثُمَّ قَالَ الرِّضَا ع هَلْ تَعْرِفُ حيقوقَ النَّبِيَ‏ قَالَ نَعَمْ إِنِّي بِهِ لَعَارِفٌ- قَالَ ع فَإِنَّهُ قَالَ وَ كِتَابُكُمْ يَنْطِقُ بِهِ جَاءَ اللَّهُ بِالْبَيَانِ مِنْ جَبَلِ فَارَانَ وَ امْتَلَأَتِ السَّمَاوَاتُ مِنْ تَسْبِيحِ أَحْمَدَ وَ أُمَّتِهِ يَحْمِلُ خَيْلَهُ فِي الْبَحْرِ كَمَا يَحْمِلُ فِي الْبَرِّ يَأْتِينَا بِكِتَابٍ جَدِيدٍ بَعْدَ خَرَابِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ يَعْنِي بِالْكِتَابِ الْقُرْآنَ أَ تَعْرِفُ هَذَا وَ تُؤْمِنُ بِهِ قَالَ رَأْسُ الْجَالُوتِ قَدْ قَالَ ذَلِكَ حَيْقُوقُ ع وَ لَا نُنْكِرُ قَوْلَهُ قَالَ الرِّضَا ع وَ قَدْ قَالَ دَاوُدُ فِي زَبُورِهِ وَ أَنْتَ تَقْرَأُ اللَّهُمَّ ابْعَثْ مُقِيمَ السُّنَّةِ بَعْدَ الْفَتْرَةِ فَهَلْ تَعْرِفُ نَبِيّاً أَقَامَ السُّنَّةَ بَعْدَ الْفَتْرَةِ غَيْرَ مُحَمَّدٍ ص قَالَ رَأْسُ الْجَالُوتِ هَذَا قَوْلُ دَاوُدَ نَعْرِفُهُ وَ لَا نُنْكِرُهُ وَ لَكِنْ عَنَى بِذَلِكَ عِيسَى وَ أَيَّامُهُ هِيَ الْفَتْرَةُ قَالَ الرِّضَا ع جَهِلْتَ إِنَّ عِيسَى لَمْ يُخَالِفِ السُّنَّةَ وَ قَدْ كَانَ مُوَافِقاً لِسُنَّةِ التَّوْرَاةِ حَتَّى‏ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ‏ وَ فِي الْإِنْجِيلِ مَكْتُوبٌ إِنَّ ابْنَ الْبَرَّةِ ذَاهِبٌ وَ الْفَارَقَلِيطَا جَاءٍ مِنْ بَعْدِهِ‏ وَ هُوَ الَّذِي يُخَفِّفُ الْآصَارَ وَ يُفَسِّرُ لَكُمْ كُلَّ شَيْ‏ءٍ وَ يَشْهَدُ لِي كَمَا شَهِدْتُ لَهُ أَنَا جِئْتُكُمْ بِالْأَمْثَالِ وَ هُوَ يَأْتِيكُمْ بِالتَّأْوِيلِ- أَ تُؤْمِنُ بِهَذَا فِي الْإِنْجِيلِ قَالَ نَعَمْ لَا أُنْكِرُهُ فَقَالَ لَهُ الرِّضَا ع يَا رَأْسَ الْجَالُوتِ أَسْأَلُكَ عَنْ نَبِيِّكَ مُوسَى بْنِ عِمْرَانَ فَقَالَ سَلْ قَالَ مَا الْحُجَّةُ عَلَى أَنَّ مُوسَى ثَبَتَتْ نُبُوَّتُهُ قَالَ الْيَهُودِيُّ إِنَّهُ جَاءَ بِمَا لَمْ يَجِئْ بِهِ أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلَهُ قَالَ لَهُ مِثْلِ مَا ذَا قَالَ مِثْلِ فَلْقِ الْبَحْرِ وَ قَلْبِهِ الْعَصَا حَيَّةً تَسْعَى وَ ضَرْبِهِ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ الْعُيُونُ وَ إِخْرَاجِهِ يَدَهُ بَيْضَاءَ لِلنَّاظِرِينَ وَ عَلَامَاتٍ لَا يَقْدِرُ الْخَلْقُ عَلَى مِثْلِهَا قَالَ لَهُ الرِّضَا ع صَدَقْتَ إِذَا كَانَتْ حُجَّتُهُ عَلَى نُبُوَّتِهِ أَنَّهُ جَاءَ بِمَا لَا يَقْدِرُ الْخَلْقُ عَلَى مِثْلِهِ أَ فَلَيْسَ كُلُّ مَنِ ادَّعَى أَنَّهُ نَبِيٌّ- ثُمَّ جَاءَ بِمَا لَا يَقْدِرُ الْخَلْقُ عَلَى مِثْلِهِ وَجَبَ عَلَيْكُمْ تَصْدِيقُهُ قَالَ لَا لِأَنَّ مُوسَى لَمْ يَكُنْ لَهُ نَظِيرٌ لِمَكَانِهِ مِنْ رَبِّهِ وَ قُرْبِهِ مِنْهُ وَ لَا يَجِبُ عَلَيْنَا الْإِقْرَارُ بِنُبُوَّةِ مَنِ ادَّعَاهَا حَتَّى يَأْتِيَ مِنَ الْأَعْلَامِ بِمِثْلِ مَا جَاءَ بِهِ قَالَ الرِّضَا ع فَكَيْفَ أَقْرَرْتُمْ بِالْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ كَانُوا قَبْلَ مُوسَى ع وَ لَمْ يَفْلِقُوا الْبَحْرَ وَ لَمْ يَفْجُرُوا مِنَ الْحَجَرِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ عَيْناً وَ لَمْ يُخْرِجُوا أَيْدِيَهُمْ بَيْضَاءَ مِثْلَ إِخْرَاجِ مُوسَى يَدَهُ بَيْضَاءَ وَ لَمْ يَقْلِبُوا الْعَصَا حَيَّةً تَسْعَى قَالَ لَهُ الْيَهُودِيُّ قَدْ خَبَّرْتُكَ أَنَّهُ مَتَى جَاءُوا عَلَى دَعْوَى نُبُوَّتِهِمْ مِنَ الْآيَاتِ بِمَا لَا يَقْدِرُ الْخَلْقُ عَلَى مِثْلِهِ وَ لَوْ جَاءُوا بِمَا لَمْ يَجِئْ بِهِ مُوسَى أَوْ كَانَ عَلَى غَيْرِ مَا جَاءَ بِهِ مُوسَى وَجَبَ تَصْدِيقُهُمْ‏ قَالَ الرِّضَا ع يَا رَأْسَ الْجَالُوتِ فَمَا يَمْنَعُكَ مِنَ الْإِقْرَارِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَ قَدْ كَانَ يُحْيِي الْمَوْتَى وَ يُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَ الْأَبْرَصَ وَ يَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ ثُمَّ يَنْفُخُ فِيهِ‏ فَيَكُونُ طَيْراً بِإِذْنِ اللَّهِ‏ قَالَ رَأْسُ الْجَالُوتِ يُقَالُ إِنَّهُ فَعَلَ ذَلِكَ وَ لَمْ نَشْهَدْهُ قَالَ لَهُ الرِّضَا ع أَ رَأَيْتَ مَا جَاءَ بِهِ مُوسَى مِنَ الْآيَاتِ شَاهَدْتَهُ أَ لَيْسَ إِنَّمَا جَاءَ فِي الْأَخْبَارِ بِهِ مِنْ ثِقَاتِ أَصْحَابِ مُوسَى أَنَّهُ فَعَلَ ذَلِكَ قَالَ بَلَى قَالَ فَكَذَلِكَ أَتَتْكُمُ الْأَخْبَارُ الْمُتَوَاتِرَةُ بِمَا فَعَلَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ فَكَيْفَ صَدَّقْتُمْ بِمُوسَى وَ لَمْ تُصَدِّقُوا بِعِيسَى فَلَمْ يُحِرْ جَوَاباً قَالَ الرِّضَا ع وَ كَذَلِكَ أَمْرُ مُحَمَّدٍ ص وَ مَا جَاءَ بِهِ وَ أَمْرُ كُلِّ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللَّهُ وَ مِنْ آيَاتِهِ أَنَّهُ كَانَ يَتِيماً فَقِيراً رَاعِياً أَجِيراً لَمْ يَتَعَلَّمْ كِتَاباً وَ لَمْ يَخْتَلِفْ إِلَى مُعَلِّمٍ ثُمَّ جَاءَ بِالْقُرْآنِ الَّذِي فِيهِ‏ قِصَصُ الْأَنْبِيَاءِ وَ أَخْبَارُهُمْ حَرْفاً حَرْفاً وَ أَخْبَارُ مَنْ مَضَى وَ مَنْ بَقِيَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ- ثُمَّ كَانَ يُخْبِرُهُمْ بِأَسْرَارِهِمْ وَ مَا يَعْمَلُونَ فِي بُيُوتِهِمْ وَ جَاءَ بِآيَاتٍ كَثِيرَةٍ لَا تُحْصَى قَالَ رَأْسُ الْجَالُوتِ لَمْ يَصِحَّ عِنْدَنَا خَبَرُ عِيسَى وَ لَا خَبَرُ مُحَمَّدٍ وَ لَا يَجُوزُ لَنَا أَنْ نُقِرَّ لَهُمَا بِمَا لَمْ يَصِحَّ قَالَ الرِّضَا ع فَالشَّاهِدُ الَّذِي شَهِدَ لِعِيسَى وَ لِمُحَمَّدٍ ص شَاهِدُ زُورٍ فَلَمْ يُحِرْ جَوَاباً۔[16]


امامؑ رأس الجالوت کی طرف مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: میں تم سے سوال کروں یا تم مجھ سے سوال کروگے؟ اس نے کہا: میں سوال کروں گا لیکن جواب صرف اس صورت میں قبول کروں گا جب آپ کا جواب توریت یا انجیل یا زبور یا صحف ابراہیم و موسی کے مطابق ہو۔ امامؑ نے فرمایا: ٹھیک ہے میں تمہیں توریت موسی یا انجیل عیسی یا زبور داود کے مطابق ہی جواب دوں گا۔ پھر رأس الجالوت نے سوال کیا کہ محمدؐ کی نبوت کو کیسے ثابت کیجئے گا؟ امامؑ نے فرمایا: اے یہودی، موسی بن عمران، عیسی بن مریم اور خلیفہ خدا داود نے ان کی نبوّت کی گواہی دی ہے۔ اس نے کہا موسی بن عمران نے کیسے گواہی دی ثابت کیجئے۔ حضرت نے فرمایا: کیا یہ قبول کرتے ہو کہ موسی نے بنی اسرائیل سے وصیت کی اور کہا: «پیغمبری تمہارے ہی بھائیوں میں آئے گی پس اس کی تصدیق و تائید کرنا» اب اگر اسرائیل (یعقوب) اور اسماعیل کے درمیان رشتہ داری اور دونوں کے تعلقات کو ابراہیم کی طرف سے جانتے ہو، تو کیا قبول کرتے ہو کہ بنی اسرائیل کے بھائی اسماعیل کی اولاد کے علاوہ کوئی اور نہیں تھے؟ رأس الجالوت نے کہا: ہاں موسی کے مطابق ایسا ہی ہے اور ہم اسے رد بھی نہیں کریں گے۔ حضرتؑ نے فرمایا: کیا بنی اسرائیل کی اولاد میں محمدؐ کے علاوہ بھی کسی کو پیغمبری ملی ہے؟ کہا: نہیں۔ امامؑ نے فرمایا: کیا تمہاری نظر میں یہ مطلب صحیح نہیں ہے؟ کہا: ہاں صحیح ہے لیکن چاہتا ہوں کہ بات اور محکم ہو جائے اس لئے آپ اسے توریت سے ثابت کیجئے۔ امام نے فرمایا: کیا تم اس بات کے منکر ہو سکتے ہو کہ توریت میں تم سے کہا گیا ہے: «کوہ طور سیناء سے نور ساطع ہوا، کوہ ساعیر سے ہمارے لئے متجلی ہوا اور کوہ کوہ فاران سے ہمارے لئے آشکار ہوا؟» رأس الجالوت نے کہا: میں ان کلمات کو تو پہچانتا ہوں لیکن اس کی تفسیر سے آشنا نہیں ہوں۔ امامؑ نے فرمایا: میں بیان کرتا ہوں۔ یہ جملہ «کوہ طور سیناء سے نور ساطع ہوا) پروردگار کی وحی کی طرف اشارہ ہے جو جناب موسی پر کوہ طور سیناء میں نازل ہوئی اور یہ جملہ «کوہ ساعیر میں ہم پر چمکا» یہ اس پہاڑ کی طرف اشارہ ہے جہاں عیسی بن مریم پر وحی نازل ہوئی۔ یہ جملہ «کوہ فاران سے ہم پر آشکار ہوا» یہ اشارہ ہے مکہ کے ایک پہاڑ کی طرف کہ جس کا فاصلہ مکہ تک ایک دن کا ہے اور تم اور تمہارے دوستوں کے مطابق «شعیا» پیغمبر نے توریت میں کہا ہے: دو سواروں کو دیکھ رہا ہوں جن کے لئے زمین روشن ہے: کہ جن میں کا ایک گدھے پر سوار ہے اور دوسرا اونٹ پر۔» گدھے اور اونٹ پر کون سوار ہے؟ رأس الجالوت نے کہا: میں انہیں نہیں پہچانتا، آپ بتائیے۔ امامؑ نے فرمایا: جو گدھے پر سوار ہے وہ عیسیٰؑ ہیں اور جو اونٹ پر سوار ہے وہ محمدؐ ہیں۔

کیا تم توریت کے اس مطلب کے منکر ہو؟ کہا: نہیں، میں انکار نہیں کرتا۔ اب امامؑ نے سوال کیا: کیا حیقوقِ نبی سے آگاہ ہو؟ کہا: جی آگاہ ہوں۔ حضرتؑ نے فرمایا: حیقوق بھی یہی بیان کرتے ہیں اور تمہاری کتاب بھی یہی کہتی ہے: پروردگار عالم نے کوہ فاران پر «بیان» کو نازل کیا تمام آسمان محمدؐ اور ان کی امّت کی تسبیح میں مشغول ہیں، اس کے سواروں کو دریا اور خشکی میں سوار کر رہے ہیں اور یہ ایک کنایہ ہے کہ ان کی امّت دریا و خشکی پر مسلّط ہے۔ بیت المقدس کی خرابی کے بعد ہمارے لئے نئی کتاب آئی جس کا نام فرقان ہے۔ کیا اس مطلب پر ایمان رکھتے ہو؟ رأس الجالوت نے کہا: اس مطلب کو حیقوق نے بیان کیا ہے اور ہم اس کے منکر بھی نہیں ہیں۔ امامؑ نے فرمایا: داود نے اپنی زبور میں جسے تم پڑھتے ہو فرمایا ہے: «پروردگارا! ایک مدّت کے بعد سنّت کو زندہ کرنے والے کو مبعوث فرما۔» کیا محمدؐ کے علاوہ کسی نبی کو پہچانتے ہو جس نے مدّتوں بعد سنّت الہی کو زندہ و برپا کیا ہو؟ رأس الجالوت نے کہا: یہ تو داود نبی کا قول ہے اسے قبول کرتا ہوں اور اس کا منکر بھی نہیں ہوں لیکن یہاں عیسیٰ منظور ہیں کیونکہ وہ مدت، عیسی کی عرصہ حیات ہے۔ امامؑ نے فرمایا: تمہیں نہیں پتا، دھوکہ ہے تمہیں۔ عیسیٰ نے توریت کی مخالفت نہیں کی تھی، بلکہ جس وقت خداوند انہیں آسمان میں اٹھایا تو وہ سنّت و روش کے موافق تھے۔ انجیل میں اس طرح وارد ہوا ہے: «نیک خاتون کا بیٹا جائے گا اور اس کے بعد فارقلیطا آئے گا اور وہ ایسا ہوگا جو مشکلات و سختیوں کو آسان کر دیگا اور تمام چیزوں کی تمہارے لئے تفسیر کرے گا اور جس طرح میں اس کے لئے گواہی دوں گا ویسے ہی وہ میری شہادت دیگا۔ میں تمہارے لئےامثال لایا ہوں اور وہ تمہارے لئے تأویل بیان کرے گا۔» کیا انجیل کے اس مطلب پر ایمان رکھتے ہو؟ کہا: ہاں، میں اس سے انکار نہیں کرتا۔ امامؑ نے فرمایا: اے رأس الجالوت، اب میں تم سے تمہارے نبی موسیٰ بن عمران کے بارے میں سوال کرتا ہوں، عرض کیا: جی پوچھئے، فرمایا: موسی کی نبوّت پر کیا دلیل ہے؟ اس مرد یہودی نے کہ: وہ ایسے معجزے لیکر آئے تھے جو ان سے پہلے کوئی نہیں لایا۔ حضرتؑ نے فرمایا: کوئی مثال ہے؟ کہا: جیسے دریا میں شگاف، عصا کا سانپ میں بدلنا، پتھر کو ٹھوکر مار کے پانی کے چشمے جاری کرنا، ید بیضاء (سفید و چمکتا ہوا ہاتھ) اور اسی طرح سے اللہ کی دوسری نشانیاں جس پر کوئی دوسرا نہ قدرت رکھتا تھا نہ رکھتا ہے۔ امامؑ نے فرمایا: تمہاری یہ بات بالکل درست ہے کہ موسی کی دعوت کی حقانیت پر یہ دلیل کہ انہوں نے ایسا کام انجام دیا جو دوسرے انجام نہیں دے سکتے۔ خیر! اب یہ بتاؤ کہ جو بھی نبوّت کا دعوی کرے پھر وہ ایسا کام کرے جو کوئی دوسرا نہ انجام دے سکے تو اس کی تصدیق تمہارے اوپر واجب نہیں ہے؟ کہا: نہیں، کیونکہ موسی اپنے پروردگار کے نزدیک عظمت و منزلت کی وجہ سے بے نظیر تھے لہذا کوئی بھی اگر دعوائے نبوّت کرتا ہے تو ہمارے لئے اس پر ایمان لانا واجب نہیں ہے مگر یہ کہ موسی جیسے معجزات کا حامل ہو۔ امام نے فرمایا: تو پھر کیسے موسی سے پہلے والے انبیاء پر ایمان رکھتے ہو جب کہ نہ انہوں نے دریا میں شکاف کیا، نہ پتھر سے پانی کا چشمہ جاری کیا اور نہ موسی کے جیسے ید بیضاء رکھتے تھے اور نہ عصا کو کبھی سانپ میں تبدیل کیا؟ یہودی نے کہا: میں تو کہتا ہوں کہ جب بھی ادعائے نبوّت کے لئے معجزہ لاتے ہیں چاہے وہ معجزاتِ موسیٰ کے علاوہ ہی کیوں نہ ہوں ان کی تصدیق واجب ہے۔ امامؑ نے فرمایا: تو عیسی بن مریم پہ ایمان کیوں نہیں لاتے جبکہ وہ مردہ کو زندہ کرتے، نابینا اور سفید داغ کے مریض کو شفا دیتے اور مِٹّی سے پرندہ بناتے، اس میں پھونک مارتے اور وہ مِٹّی کا مجسمہ اذن پروردگار سے ایک زندہ پرندہ میں تبدیل ہو جاتا؟ رأس الجالوت نے کہا: لوگ کہتے تو ہیں کہ وہ یہ کام انجام دیتے تھے لیکن ہم نے نہیں دیکھا۔ حضرتؑ نے فرمایا: تو کیا موسیٰ کے معجزوں کو دیکھا ہے؟ کیا یہ واقعات مورد اطمینان افراد کے ذریعہ تم تک نہیں پہونچا؟ کہا: ہاں ہے تو ایسا ہی۔ حضرتؑ نے فرمایا: ایسے ہی عیسی بن مریم کے بھی معجزات، اخبار متواتر کے ذریعہ تم تک پہونچے ہیں، تو ایسا کیا ہے کہ موسیٰ کی تو تصدیق کرتے ہو اور ان پر ایمان بھی لاتے ہو لیکن عیسی بن مریم پر ایمان نہیں لاتے؟ اس مرد یہودی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ حضرتؑ نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا: ایسے ہی محمدؐ کی نبوّت بھی ہے اور ہر اس نبی کی نبوّت جسے پروردگار کی طرف سے مبعوث کیا گیا ہے۔ اور ہمارے پیغمبر کا معجزہ یہ تھا کہ وہ یتیم تھے، ایسے فقیر جو بھیڑ بکریوں کا گَلّہ چرایا کرتے اور اجرت لیتے۔ کسی سے علم حاصل نہیں کیا اور نہ ان کے پاس کسی معلّم کی رفت و آمد ہوئی اور ان تمام اوصاف کے باوجود قرآن جیسی کتاب لیکر آئے کہ جس میں انبیاء کے قصّے اور حرف بہ حرف ان کی زندگانی کے واقعات درج ہیں نیز گزشتہ اور آئندہ لوگوں کی تا قیامت واقع ہونے والی خبروں کو بیان کیا ہے۔ ان کے تمام اسرار و رموز اور جو کام گھروں میں انجام دیتے ہیں، سب سے باخبر کیا ہے۔ اور بے شمار آیات و معجزات کو پیش کیا ہے۔ رأس الجالوت نے کہا: عیسیٰ اور محمدؐ کا مسئلہ میرے اعتبار سے ابھی ثابت نہیں ہے اور میرے لئے جائز بھی نہیں ہے کہ جو چیز ثابت نہ ہو اس پر ایمان لے لاؤں۔ امامؑ نے سوال کیا: تم نے جو گواہی حضرت عیسیٰ اور محمدؐ کے لئے دی ہے وہ باطل گواہی دی ہے؟ یہودی نے کوئی جواب نہیں دیا۔[17]


متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص417-418؛ شیخ صدوھ، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص154-155
  2. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص417-441؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص154-175
  3. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص419؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص155
  4. شیخ صدوق، التوحید، 1357ش، ص419
  5. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص427؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص164-165
  6. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص428؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص165۔
  7. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص428؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص166
  8. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص428؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص166
  9. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص417-441
  10. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص154-175
  11. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص415-425
  12. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج10، ص299-318
  13. خسرویان، «بررسی و تحلیل سند مناظرات امام رضاؑ در عراق و خراسان»، ص112-113، 116-125
  14. خسرویان، «بررسی و تحلیل سند مناظرات امام رضاؑ در عراق و خراسان»، ص126
  15. خسرویان، «بررسی و تحلیل سند مناظرات امام رضاؑ در عراق و خراسان»، ص126
  16. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص164-167۔
  17. شیخ صدوق، ترجمہ عیون اخبار الرضا، 1372ش، ص333-339

مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذريعۃ إلى تصانيف الشيعۃ، قم و تہران، 1408ھ۔
  • حسینی، محمدرضا، «تحقیق» در شرح حدیث رأس الجالوت تألیف ملاعبدالصاحب محمّد بن احمد نراقى، بی‌تا.
  • خسرویان قلہ ‌زو، جعفر، «بررسی و تحلیل سند مناظرات امام رضاؑ در عراق و خراسان»، در پژوهش‌های قرآن و حدیث، شماره 1، 1397 ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، تحقیق و تصحیح هاشم حسینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، چاپ اول، 1398ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، ترجمہ عیون اخبار الرضا‏، ترجمہ علی ‌اکبر غفاری و حمید رضا مستفید، تهران، نشر صدوق، چاپ اول، 1372 ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، تحقیق و تصحیح مهدی لاجوردی، تهران، نشر جهان، چاپ اول، 1378 ہجری شمسی۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اهل اللجاج، تحقیق و تصحیح محمد باقر خرسان، مشهد، نشر مرتضی، چاپ اول، 1403ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطهار، بیروت، دار احیاء‌ التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔