الفرات نیٹ ورک

ویکی شیعہ سے
(الفرات سیٹلائٹ ٹی وی سے رجوع مکرر)
الفرات نیٹ ورک
شیعہ ٹی وی چینل
کوائف
دیگر اسامیقَناۃُ الفُرات • الفرات ٹی‌ وی • الفرات چینل • الفُرات سیٹلائٹ ٹی وی چینل
تأسیسسنہ 2004ء
وابستہمجلس اعلی اسلامی عراق
نوعیتسیاسی • فرہنگی، میڈیا اور خبری
دائرہ کارعراق اور منطقہ
اغراض و مقاصداسلامی تہذیب کا فروغ اور عراقیوں کی ضروریات پوری کرنا
محل وقوعبغداد عراق
دیگر معلومات
وضعیتفعال
زبانعربی
مالی منابعمستقل
ویب سائٹhttps://alforatnews.iq/

الفرات نیٹ ورک عراق کے شیعہ خبررساں ٹی وی چینلوں میں سے ایک ہے جو مجلس اعلی اسلامی عراق سے وابستہ ہے۔ یہ نیت ورک عربی زبان میں بغداد سے اپنی نشریات پیش کرتا ہے جسے مجلس اعلی اسلامی عراق کے سربراہ سید عمار حکیم کا تعاون حاصل ہے۔[1] سنہ 2004ء کو صدام کے سقوط کے بعد اسلامی تہذیب و تمدن کے فروغ اور عراقی عربی زبان شیعوں کی دینی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے الفرات نیٹ ورک کی بنیاد رکھی گئی۔[2]

الفرات ٹی وی چینل ممتاز عراقی صحافیوں اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے توسط سے عراق کے مقامی معاملات میں دلچسپی لیتا ہے اور اپنے پروگراموں، خاص طور پر مذہبی تقریبات کو شیعہ مخاطبین کے لیے تیز رفتاری اور شفافیت کے ساتھ نشر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔[3]

خبروں اور ذرایع ابلاغ کی صداقت اور اعتدال پر ایمان، عراق اور دیگر اسلامی ممالک کے مختلف اقوام، ادیان اور عقائد سے تعلق رکھنے والے وسیع مخاطبین، مصنفین، مفکرین اور علماء کے توسط سے مختلف ثقافتی پروگرامز اور نیوز ٹاک شوز اور 24 گھنٹے معیاری تصویر اور آواز کے ساتھ مختلف پروگراموں کی نشر و اشاعت اس عراقی میڈیا چینل کی خصوصیات میں سے ہے۔[4]

الفرات ٹی وی چینل کی نشریات مختلف مذہبی، سیاسی، ثقافتی، سماجی، معاشی، ادبی اور کھیل کود جیسے موضوعات پر انٹرنیٹ کے ذریعے عرب ممالک، ایشیائی ممالک، یورپی ممالک، شمالی امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں دستیاب ہیں۔[5] اس ٹی وی چینل کے بعض نشریات درج ذیل ہیں:

  • سیاسی گفتگوی: «حوار الساعہ» و»فی الصمیم»
  • اخبار: «نشرات الاخبار» و «عین علی العراق»
  • سماجی اور ثقافتی پروگرامز: «صباح الخیر یا عراق» و «اضواء»
  • کھیل کود: «الملاعب» و «صفارۃ البدایۃ»
  • مذہبی اور فقہی پروگرامز: «نور الہدی» و «فقہ الحیاۃ»
  • تفریحی پروگرامز: «سہرۃ خاصۃ» و «سیرۃ وسیمۃ»
  • بچوں کے پروگرامز: «عالم الصغار» و «حکایات»۔[6]

حوالہ جات

مآخذ