حلال زادہ

ویکی شیعہ سے
(حرام زادہ سے رجوع مکرر)

حلال زادہ وہ شخص ہے جو حلال اور مشروع طریقے سے پیدا ہوا ہو یعنی شرعی شادی یا شادی کی طرح دیگر مشروع طریقے سے اس کی ولادت ہوئی ہو۔ فقہ میں حلال زادے کا ذکر "طہارت مَولِد" (پیدائش کی پاکیزگی) کی عبارت سے کیا گیا ہے اور فقہ کے بعض ابواب میں اسے شرط کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ فقہاء نے تقلید کے لئے مرجع تقلید کو حلال زادہ ہونے اور حرام زادہ نہ ہونے کو شرط قرار دیا ہے۔ امام جماعت، امام جمعہ، قاضی شرعی گواہ کے لئے حلال زادہ ہونے کو شرط قرار دیا ہے۔

شیعہ اور سنی منابع میں منقول متعدد روایات میں اہل بیتؑ اور امام علیؑ کی محبت کو حلال زادہ ہونے کی علامت اور ان سے دشمنی کو حرامزادے کی علامت قرار دیا ہے۔

مفہوم شناسی

حلال زادہ وہ شخص سے جو شرعی نکاح سے پیدا ہوا ہے اور ولد الزنا نہ ہو۔[1] شیعہ فقہی تعلیمات کے مطابق درج ذیل افراد بھی حلال زادہ شمار ہوتے ہیں:

  • وہ شخص جو وطی بالشبہہ کے ذریعے پیدا ہوجائے اور شبہہ ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ہو۔[2] اگر شبہہ کسی ایک کی طرف سے ہو یعنی میاں بیوی میں سے ایک کو شبہہ نہ ہو اور جانتے ہوئے اس حرام کام کا مرتکب ہوجائے تو اس جاننے والے کی نسبت بچہ ولد الزنا ہوگا۔[3]
  • وہ شخص جس کا نطفہ ایسی حالت میں ٹھہرا ہو جس میں میاں بیوی کے لئے ہمبستری حرام تھی؛[4] جیسے حیض کی حالت میں یا واجب معین روزے کی حالت میں یا احرام کی حالت میں ہمبستری سے نطفہ ٹھہرے۔[5]
  • وہ بچہ جو غیر اسلامی آئین کے مطابق ہونے والی شادی کے نتیجے میں اگرچہ مشرک متولد ہوا ہو[6] مثلا کوئی بچہ مجوسی آئین کے تحت محارم سے شادی کے نتیجے میں پیدا ہوا ہو تو شیعہ فقہا اسے حلال زادہ سمجھتے ہیں۔[7] بعض محققین نے اس مسئلے میں فقہا کا مستند ان روایات کو قرار دیا ہے جن میں دیگر ادیان کے شادی بیاہ کے رسومات، یہاں تک کہ مشرکین کے رسومات کو بھی رسمیت بخشا ہے۔[8] بعض فقہا نے قاعدہ جب(الاسلام یجب ما قبلہ) کو ان روایات سے ملا کر نتیجہ نکالا ہے کہ اگرچہ مجوسی شخص نے ماں سے شادی کی ہے جو اسلامی شریعت میں حرام ہے لیکن اس کے مسلمان ہونے کے بعد پچھلے اعمال کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔[9] ناصر مکارم شیرازی سیرہ عقلا سے استناد کرتے ہوئے اس بچے کو حلال زادہ سمجھتے ہیں۔[10] احادیث کے مطابق ہر قوم میں شادی کی رسم موجود ہے اور اسے زنا سے مختلف سمجھتے ہیں۔[11]
  • جس شخص کا حلال زادہ ہونا مشکوک ہو؛ لیکن والدین مشخص اور معین ہیں؛ اسی طرح کسی کے والدین مشخص نہیں ہیں جیسے وہ بچہ جو کہیں سے ملا ہے، اکثر فقہا ایسے بچوں کو حلال زادہ سمجھتے ہیں اگرچہ بعض نے اس پر کچھ اشکالات بھی کئے ہیں۔[12]حلال زادے کو "طَہارت مَوْلِد" کے عنوان سے[13] فقہ کے مختلف ابواب، جیسے اجتہاد و تقلید، نماز جماعت، نکاح، قضاوت اور شہادت میں ذکر کیا ہے[14]

حلال زادہ ہونے کی اہمیت

شیعہ فقہ میں ہاں حلال زادہ ہونا بہت اہم ہے چونکہ بعض امور اس سے مربوط ہیں؛ جیسے ارث کا حصول[15]اور بعض منصب اور عہدے جیسے قضاوت[16] اور امام جماعت بننا،[17] ان امور کے لئے مسلمان حلال زادہ ہونا شرط ہے اور زنا زادہ شخص ان سے محروم ہوتا ہے۔[18] بعض محققین نے اس محرومیت کے درج ذیل اسباب بیان کئے ہیں:

  • وراثت کے ذریعے کچھ بری صفات کا غیر حلال زادہ شخص تک منتقل ہونا۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح لوگوں کی ظاہری خصوصیات جِین (gene) کے ذریعے والدین سے بچوں تک منتقل ہوتی ہیں، اسی طرح اندرونی خصوصیات بھی منتقل ہوتی ہیں اور ناجائز بچوں کے پاس جرائم کے ارتکاب کا زمینہ زیادہ ہے۔[19]
  • سماجی مقبولیت کا فقدان[20]
  • جو حلال زادہ نہیں اس کا کافر ہونا[21]
  • نجابت کا فقدان: سید مرتضی کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ زنا سے پیدا ہونے والا شخص اچھائی اور صلح کو انتخاب نہیں کرتا ہے اسی لئے عدالت میں گواہ بننے جیسے منصب پر فائز ہونے سے محروم ہے۔[22]

بعض عہدوں کے لئے حلال زادہ ہونے کی شرط

فقہ کے بعض ابواب میں حلال زادہ ہونا بعض امور کے لئے شرط ہے اور اس کا نہ ہونا (یعنی ولد الزنا ہونا) ان امور میں نااہلی اور صلاحیت نہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔[23]

  • مرجعیت: جس مجتہد کی تقلید کی جاتی ہے اس کا حلال زادہ ہونا شرط ہے۔[24] حلال زادہ ہونے کی شرط پر شہید ثانی نے اجماع کا دعوا کیا ہے۔[25] کتاب عروۃ الوثقی میں ولد الزنا نہ ہونا شرط کے طور پر بیان ہوا ہے۔[26] شیعہ فقیہ حسین علی منتظری اپنی کتاب کتاب دراسات فی ولایۃ الفقیہ میں اسلامی حاکم کی شرائط میں سے ایک حلال زادہ ہونے کو بیان کرتے ہیں۔[27]
  • امامت جمعہ و الجماعت: امامیہ فقہاء کے اجماع کی بنا پر[28] حلال زادہ ہونا نماز میں امام جماعت کی شرائط میں سے ایک ہے اور وَلَدُ الزِنا کے لئے امامت جائز نہیں ہے۔[29] اس حکم کو احادیث سے مستند کیا گیا ہے۔[30] کہا گیا ہے کہ اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ امام جماعت کا ولد الزنا ہونا معلوم نہ ہو۔[31] لہٰذا جس کا حلال زادہ ہونے میں شک ہو اور زنا زادہ ہونا بھی ثابت نہیں ہو تو ایسے شخص کا امام جماعت بننے کو تمام فقہاء صحیح اور جائز قرار دیتے ہیں۔[32] اسی طرح امام جمعہ کے لئے بھی حلال زادہ ہونا شرط ہے۔[33]
  • قضاوت:قاضی کے لئے بھی حلال زادہ ہونا شرط ہے۔[34] اسی لئے ولد الزنا کا فیصلہ اور قضاوت صحیح نہیں ہے۔[35]
  • گواہ: عدالت میں گواہ کے لئے حلال زادہ ہونا شرط ہے لہذا ولد الزنا کی گواہی قبول نہیں کی جاتی ہے۔[36] صاحب جواہر (متوفی: 1266ھ) نے اس قول کو امامیہ فقہاء کے اجماع کے قریب ایک مشہور قول قرار دیا ہے اور اس کے مستند کو معتبر اور مستفیض احادیث قرار دیا ہے۔[37]

کیا امام علیؑ کی محبت حلال زادہ ہونے کی علامت ہے؟

بعض شیعہ[38] اور اہل سنت منابع[39]میں موجود روایات میں محبت اہل بیتؑ بالخصوص امام علیؑ کی محبت کو حلال زادہ ہونے کی علامت اور ان سے بغض اور دشمنی کو حرام زادہ ہونے کی نشانی قرار دی گئی ہے۔ مثال کے طور پر سنی منابع میں عبادت بن صامت اور ابوسعید خُدْری جو کہ دونوں رسول اللہؐ کے اصحاب میں سے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو علی بن ابی طالبؑ کی محبت سے آزمایا کرتے تھے۔ اگر وہ علی ابن ابی طالبؑ سے محبت نہ کرتے تو ہم سمجھتے تھے کہ وہ ہم میں سے نہیں ہیں اور حرام زادے ہیں۔[40] شافعی مذہب کے محدث اور فقیہ ابن جزری (751-833ھ) کا کہنا ہے کہ قدیم زمانے سے ان کے زمانے تک یہ مشہور تھا کہ ولد الزنا کے علاوہ کوئی اور علیؑ سے دشمنی نہیں کرتا ہے۔[41] علامہ مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار کے باب "اَن حبہم علیہم السلام علامۃ طیب الولادۃ و بغضہم علامۃ خبث الولادۃ" میں 31 احادیث ذکر کیا ہے[42] اور کتاب مرآۃ العقول میں انہیں متواتر قرار دیا ہے۔[43]

علامہ مجلسی کے اس قول کے برخلاف کہ ائمہ معصومینؑ کے ماننے والے حلالی ہونے اور ان کے دشمن حرامی ہونے کے بارے میں وارد روایات متواتر ہیں، بعض دینی محققین نے ان احادیث میں سے بعض کی سند کو مخدوش قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے ان روایات کے راوی یا نامعلوم ہیں یا غالی ہیں۔[44] اسی طرح ان روایات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ حرام زادہ ہونے سے انسان کا اختیار سلب نہیں ہوتا ہے اور گناہ میں ارتکاب کی علت تامہ اہل بیتؑ کی محبت سے دوری نہیں اور ولد الزنا بھی ممکن ہے کہ اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بدل دے اور مُحبِ اہل بیت قرار پائے اور اسی طرح ہر حلال زادے کا محبِ اہل بیت ہونے پر بھی کوئی دلیل قائم نہیں کی گئی ہے۔ اس نظر کے مطابق ولد الزنا کا دشمنِ اہل بیتؑ ہونا ایک کلی حکم نہیں ہے بلکہ یہ ولد الزنا کی تکوینی حالت بیان کرتی ہیں کہ حرام زادے کا دشمنِ اہل بیتؑ ہونا زیادہ امکان ہے؛ لیکن ایسا ہرگز نہیں کہ ہمیشہ ایسا ہی ہو۔[حوالہ درکار]

حوالہ جات

  1. بحرانی، الأنوار اللوامع في شرح مفاتيح الشرائع، مجمع البحوث العلمیۃ، ج 14، ص11۔
  2. بحرانی، الأنوار اللوامع في شرح مفاتيح الشرائع، مجمع البحوث العلمیۃ، ج 14، ص11 ؛ نجفی، جواہر الكلام في شرح شرائع الإسلام، 1404ھ، ج13، ص324۔
  3. بحرانی، الأنوار اللوامع في شرح مفاتيح الشرائع، مجمع البحوث العلمیۃ، ج 14، ص11 ؛ طاہری، حقوق مدنی، 1418ھ، ج5، ص350۔
  4. جمعى از پژوہشگران، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بيت عليہم السلام، 1426ھ، ج 3، ص367 ۔
  5. نجفی، جواہر الكلام في شرح شرائع الإسلام، 1404ھ، ج 41، ص411 ۔
  6. پورمحمدی، "قاعدہ لکل قوم نکاح"، ص278۔
  7. شیرازی، القواعد الفقہیۃ، 1413ھ، ص44؛ بروجردی، جامع الاحادیث الشیعہ، 1386شمسی، ج26، ص380؛ عاملی، وسائل، 1409ھ، ج21، ص199۔
  8. طوسی، تہذیب الاحکام، 1407ھ، ج6، ص387؛ عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج21، ص200؛ پورمحمدی، "قاعدہ لکل قوم نکاح"، ص278۔
  9. شیرازی، القواعد الفقہیۃ، 1413ھ، ص44؛ مباني الفقہ الفعال في القواعد الفقہيۃ الأساسيۃ، 1425ھ، ج 2، ص302۔
  10. مکارم شیرازی، انوار الفقاہہ (کتاب حدود و تعزیرات)، 1418ھ، ص48۔
  11. عاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج21، ص200۔
  12. مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385شمسی، ج3، ص367۔
  13. ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص87 و 114، ج4، ص59 و121؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج41، ص117و118؛ عاملی، الاصطلاحات الفقہیۃ فی الرسائل العملیۃ ، 1413ھ، ص133۔
  14. مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385شمسی، ج3، ص366۔
  15. فقہ الصادق عليہ السلام، 1412ھ، ج 24، ص470 ؛ نجفی، جواہر الكلام في شرح شرائع الإسلام، 1404ھ، ج 39، ص274 ۔
  16. نجفی، جواہر الكلام في شرح شرائع الإسلام، 1404ھ، ج 40، ص12 ؛ روحانی، فقہ الصادق عليہ السلام، 1412ھ، ج 25، ص21 ۔
  17. نجفی، جواہر الكلام في شرح شرائع الإسلام، 1404ھ، ج 13، ص324 ؛ روحانی، فقہ الصادق عليہ السلام، 1412ھ، ج 6، ص287 ۔
  18. ملاحظہ کریں: نجفی، جواہر الكلام في شرح شرائع الإسلام، 1404ھ، ج13، ص324 و ج40، ص12-13؛ یزدی، عروۃ الوثقی، 1409ھ، ج1، ص797؛ شکریان امیری، "شرطیت حلال زادگی یا زنازادہ نبودن در شہادت و قضاوت"، ص120۔
  19. بصیری، گوہری، "نقش وراثت در سرنوشت انسان از منظر قرآن و حدیث"، ص121۔
  20. کیخا، فتوحی، "تحلیل و بررسی ارزش اثباتی شہادت ولد الزنا در مذاہب اسلامی"، ص239۔
  21. حلی، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، 1410ھ، ج2، ص122۔
  22. سید مرتضی، الانتصار في انفرادات الإماميۃ، 1415ھ، ص502 ۔
  23. مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1385شمسی، ج3، ص366۔
  24. بنی ہاشمی خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص13۔
  25. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج3، ص62۔
  26. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج1، ص27۔
  27. منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیہ، 1409ھ، ج1، ص407۔
  28. ملاحظہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج13، ص324۔
  29. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج13، ص324۔
  30. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج13، ص324۔
  31. مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، الموسوعۃ الفقہیہ، 1423ھ، ج17، ص20۔
  32. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج13، ص325۔
  33. محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج1، ص87؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج11، ص296۔
  34. ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج4، ص59؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج40، ص12۔
  35. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج40، ص13۔
  36. ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایع الاسلام، 1408ھ، ج4، ص121؛ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج41، ص117و118۔
  37. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج41، ص117و118۔
  38. ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج8، ص316؛ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، 1407ھ، ج4، ص143؛ برقی، المحاسن، 1371ھ، ج1، ص138-139؛ شیخ صدوق، علل الشرائع، 1385شمسی، ج1، ص141-145۔
  39. ملاحظہ کریں: ابن عساکر، تاریخ دمشق، 1415ھ، ج42، ص287؛ ابن جزری، اسنی المطالب، اصفہان، ص57 -59؛ ابن مردویہ اصفہانی، مناقب علی بن ابی طالب، 1424ھ، ص76و77؛ شوشتری، احقاق الحق، 1409ھ، ج7، ص265و266، ج17، ص250 و ج21، ص363-369۔
  40. ملاحظہ کریں: ابن عساکر، تاریخ دمشق، 1415ھ، ج42، ص287؛ ابن جزری، اسنی المطالب، اصفہان، ص57 -59؛ ابن مردویہ اصفہانی، مناقب علی بن ابی طالب، 1424ھ، ص76و77۔
  41. ابن جزری، اسنی المطالب، اصفہان، ص57۔
  42. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج27، ص145-156۔
  43. مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج26، ص420۔
  44. قزوینی، "آیا شیعیان، مخالفان خود را "حرام زادہ" می دانند؟"، مندرج در سایت موسسہ تحقیقاتی ولی عصر۔

مآخذ

  • ابن براج، عبدالعزیز، المہذب، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1406ھ۔
  • ابن جزری، شمس الدین محمد، اسنی المطالب فی مناقب الامام علی بن ابی طالب، اصفہان، مکتبۃ الامام امیرالمؤمنین(ع) العامۃ، بی تا.
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق، تحقیق عمرو بن غرامۃ العمروی، بیروت،دار الفکر، 1415ھ/1995ء۔
  • ابن مردویہ اصفہانی، ابوبکر احمد بن موسی، مناقب علی بن ابی طالب، قم، دار الحدیث، چاپ دوم، 1424ھ۔
  • بحرانی، حسین بن محمد، الأنوار اللوامع في شرح مفاتيح الشرائع، قم، مجمع البحوث العلمیۃ، چاپ اول.
  • بروجردی، حسین، جامع الاحادیث الشیعہ، تہران، انتشارات فرہنگ سبز، چاپ اول، 1386ہجری شمسی۔
  • بصیری، حمیدرضا، گوہری، مریم، "نقش وراثت در سرنوشت انسان از منظر قرآن و حدیث"، دورہ 4، شمارہ 13، 1392ہجری شمسی۔
  • بنی ہاشمی خمینی، سید محمدحسین، توضیح المسائل (محشی)، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ ہشتم، 1424ھ۔
  • حسینی قزوینی، سید محمد، "آیا شیعیان مخالفان خود را "حرام زادہ" می دانند؟"، مندرج در سایت تحقیقاتی ولی عصر، تاریخ درج 24 آذر 1388شمسی، تاریخ بازدید 25 فروردین 1403ہجری شمسی۔
  • حلی، ابن ادریس، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • روحانی، سید محمدصادھ، فقہ الصادق عليہ السلام، قم، مدرسہ امام صادق عليہ السلام ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • سید مرتضی، الانتصار في انفرادات الإماميۃ، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1415ھ۔
  • سیفی مازندرانی، علی اکبر، مباني الفقہ الفعال في القواعد الفقہيۃ الأساسيۃ، قم، انتشارات جامعہ مدرسین، چاپ اول، 1425ھ۔
  • شکریان امیری، "شرطیت حلال زادگی یا زنازادہ نبودن در شہادت و قضاوت"، دوفصلنامہ فقہ و اجتہاد، دورہ 4، شمارہ 8، 1396ہجری شمسی۔
  • شوشتری، قاضی نوراللہ، احقاق الحق و ازہاق الباطل، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، 1409ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہيۃ في شرح اللمعۃ الدمشقيۃ، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، 1412ھ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالك الأفہام إلى تنقيح شرایع الاسلام ، مؤسسۃ المعارف الإسلاميۃ ، قم، چاپ اول، 1413ق .
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، جامعہ مدرسین، قم، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد، امالی، تہران، کتابچی، 1376ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، دارالکتب الاسلامیۃ، قم، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • طاہری، حبیب اللہ، حقوق مدنی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1418ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سیدمحمدکاظم، العروۃ الوثقی، لبنان، مؤسسۃ الأعلمي للمطبوعات ، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمد، العروۃ الوثقی فیما تعم بہ البلوی (محشّی)، تحقیق احمد محسنی سبزواری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1419ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، النہايۃ في مجرد الفقہ و الفتاوى، بیروت، دار الکتب العربی، چاپ دوم، 1400ھ۔
  • عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام ، قم، چاپ اول، 1409ھ۔
  • عاملی، یاسین عیسی، الاصطلاحات الفقہیۃ فی الرسائل العملیۃ بیروت، دار البلاغہ، چاپ اول، 1413ھ۔
  • کیخا، محمدرضا، فتوحی، عبداللہ، "تحلیل و بررسی ارزش اثباتی شہادت ولد الزنا در مذاہب اسلامی"، دوفصلنامہ مطالعات فقہ اسلامی و مبانی حقوق، شمارہ41، 1399ہجری شمسی۔
  • مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، قم، مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
  • مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، الموسوعۃ الفقہیہ (موسوعۃ الفقہ الاسلامی طبقاً لمذہب أہل البیت علیہم السلام)، زیر نظر محمود ہاشمی شاہرودی، قم، مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، چاپ اول، 1423ھ۔
  • مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، زیر نظر محمود ہاشمی شاہرودی، قم، مؤسسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، چاپ دوم، 1385ہجری شمسی۔
  • محقق حلی، نجم الدین جعفر بن حسن، شرایع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق عبدالحسین محمد علی بقال، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، انوار الفقاہہ (کتاب حدود و تعزیرات)، قم، انتشارات مدرسۃ الإمام علي بن أبي طالب عليہ السلام ، چاپ اول، 1418ھ۔
  • منتظری، حسینعلی، دراسات فی ولایۃ الفقیہ و فقہ الدولۃ الإسلامیۃ ، قم، نشر تفکر، 1409ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، دارالاحیاء لتراث العربی، بیروت، چاپ ہفتم، 1404ھ۔
  • علی پورمحمدی، رضا پورمحمدی، "قاعدہ لکل قوم نکاح"، دوفصلنامہ علمی فقہ و حقوق خانوادہ، دورہ 26، شمارہ 74، 1400ہجری شمسی۔