مندرجات کا رخ کریں

"شیطان" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 17: سطر 17:
شیطان کی اصل حقیقت آیا یہ [[جن|جنّات]] میں سے ہے یا [[ملائکہ]] میں سے، قدیم زمانے سے مورد بحث واقع رہی ہے۔ اکثر مفسرین اسے جنّات میں سے قرار دیتے ہیں لیکن [[ابن عباس|ابن عبّاس]]، [[ابن مسعود]]، قتادہ، [[سعید بن مسیب]]، ابن جریح، ابن انباری، ابن جریر طبری، [[شیخ طوسی]] اور بیضاوی وغیرہ اسے ملائک میں سے قرار دتیے ہیں۔<ref> شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۱، ص۱۵۰؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، دار الفکر، ج۱، ص۲۹۴؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، مج ۱، ج۱، ص۳۲۱۔</ref>
شیطان کی اصل حقیقت آیا یہ [[جن|جنّات]] میں سے ہے یا [[ملائکہ]] میں سے، قدیم زمانے سے مورد بحث واقع رہی ہے۔ اکثر مفسرین اسے جنّات میں سے قرار دیتے ہیں لیکن [[ابن عباس|ابن عبّاس]]، [[ابن مسعود]]، قتادہ، [[سعید بن مسیب]]، ابن جریح، ابن انباری، ابن جریر طبری، [[شیخ طوسی]] اور بیضاوی وغیرہ اسے ملائک میں سے قرار دتیے ہیں۔<ref> شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۱، ص۱۵۰؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، دار الفکر، ج۱، ص۲۹۴؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، مج ۱، ج۱، ص۳۲۱۔</ref>


==خصوصیات==<!--
==خصوصیات==
در قرآن کریم برخی از اوصاف شیطان بیان شدہ است؛ از جملہ:
قرآن کریم میں شیطان کے بعض اوصاف بیان ہوئے ہیں من جملہ وہ صفات درج ذیل ہیں:
{{جعبہ رنگ|عرض=95|رنگ پایین=FBFBFF|رنگ بالا=E8E8FF}}{{ستون-شروع|۳}}
{{رنگ|عرض=95|رنگ پایین=FBFBFF|رنگ بالا=E8E8FF}}{{ستون آ|3}}
* [[مستکبر]]<ref>سورہ بقرہ، آیہ ۳۴۔</ref>
* [[مستکبر]]<ref>سورہ بقرہ، آیہ ۳۴۔</ref>
* [[کافر]]<ref>سورہ بقرہ، آیہ ۳۴؛ سورہ ص، آیہ ۷۴۔</ref>
* [[کافر]]<ref>سورہ بقرہ، آیہ ۳۴؛ سورہ ص، آیہ ۷۴۔</ref>
سطر 38: سطر 38:
* وعدہ کاذب و برانگیختن آرزو<ref>سورہ نساء، آیہ ۴ و ۱۲۰۔</ref>
* وعدہ کاذب و برانگیختن آرزو<ref>سورہ نساء، آیہ ۴ و ۱۲۰۔</ref>
* دعوت بہ سوی [[جہنم]]۔<ref>سورہ لقمان، آیہ ۳۱ و ۲۱۔</ref>
* دعوت بہ سوی [[جہنم]]۔<ref>سورہ لقمان، آیہ ۳۱ و ۲۱۔</ref>
{{پایان}}
{{ستو خ}}
{{پایان جعبہ رنگ}}
{{خاتمہ}}
 
<!--
[[علامہ مجلسی]] در [[بحار الانوار]]، ۱۷۷ [[روایت]] از [[معصومین]] در ارتباط با شیطان ( و یا [[ابلیس]]) نقل کردہ است کہ بر اساس این روایات، ذکر [[خدا]] و گفتن [[تسمیہ|بسم اللہ]] در ابتدای کارہا، مایہ دوری شیطان است؛ برخی از این کارہا عبارتند از غذا خوردن،<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۳، ح۲۵ و۲۶۔</ref> سفر و خروج از خانہ،<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۱-۲۰۲، ح۲۱۔</ref> [[وضو]] گرفتن،<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۳، ح۲۷۔</ref> [[نماز]] خواندن،<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۲، ح۲۴۔</ref> و [[جماع]]۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۱، ح۱۹؛ ص۲۰۲، ح۲۳؛ ص۲۰۷، ح۴۲۔</ref> امام علی(ع) در [[خطبہ قاصعہ]]، برخی از صفات شیطان از جملہ [[حسادت]]، [[تعصب]] ناروا، [[عیب‌جویی]]، طعنہ‌زنی، [[فخرفروشی]] و [[طمع]] را برشمردہ است۔<ref>نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۹۲، ص۲۸۵-۳۰۳۔</ref>
[[علامہ مجلسی]] در [[بحار الانوار]]، ۱۷۷ [[روایت]] از [[معصومین]] در ارتباط با شیطان ( و یا [[ابلیس]]) نقل کردہ است کہ بر اساس این روایات، ذکر [[خدا]] و گفتن [[تسمیہ|بسم اللہ]] در ابتدای کارہا، مایہ دوری شیطان است؛ برخی از این کارہا عبارتند از غذا خوردن،<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۳، ح۲۵ و۲۶۔</ref> سفر و خروج از خانہ،<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۱-۲۰۲، ح۲۱۔</ref> [[وضو]] گرفتن،<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۳، ح۲۷۔</ref> [[نماز]] خواندن،<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۲، ح۲۴۔</ref> و [[جماع]]۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۰، باب ذکر ابلیس و قصصہ، ص۲۰۱، ح۱۹؛ ص۲۰۲، ح۲۳؛ ص۲۰۷، ح۴۲۔</ref> امام علی(ع) در [[خطبہ قاصعہ]]، برخی از صفات شیطان از جملہ [[حسادت]]، [[تعصب]] ناروا، [[عیب‌جویی]]، طعنہ‌زنی، [[فخرفروشی]] و [[طمع]] را برشمردہ است۔<ref>نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۹۲، ص۲۸۵-۳۰۳۔</ref>


سطر 69: سطر 69:
{{پایان}}
{{پایان}}
-->
-->
==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}

نسخہ بمطابق 18:22، 22 جنوری 2019ء



شیطان ہر شرور اور سرکش موجود کو کہا جاتا ہے۔ ابلیس جسے حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کرنے پر درگاہ خداوندی سے نکالا گیا تھا، کو بھی شیطان کہا جاتا ہے۔ شیطان کی حقیقت کے بارے میں علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اکثر مفسرین اسے جن قرار دیتے ہیں۔

قرآن میں شیطان یا شیاطین کا لفظ 88 بار آیا ہے جن میں سے اکثر موارد میں اس سے مراد ابلیس ہے۔ قرانی آیات کے مطابق شیطان نے خدا کی نا فرمانی کرتے ہوئے حضرت آدم کو سجدہ نہیں کیا یوں اسے اس کے مقام و منزلت سے عزل کرکے خدا کی بارگاہ سے نکالا گیا۔ اس کے بعد اس نے خدا سے قیامت تک کی مہلت مانگی جسے خدا نے قبول کیا اور اسے ایک معین دن تک مہلت دی گئی۔ خداوند متعال نے متعدد آیات میں انسان کو شیطان کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اس کے دھوکے میں نہ آنے کی سفارش کی ہے تاکہ وہ انسان کو خدا کی بندگی سے خارج نہ کر دے۔

شیطان سے متعلق بہت زیادہ احادیث بھی نقل ہوئی ہیں۔ ان احادیث میں شیطان سے متعلق متعدد موضوعات من جملہ بعض انبیا اور ائمہ کے ساتھ شیطان کی گفتگو، شیطان سے دوری کے اسباب اور شیطان کے اوصاف اور خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق شیطان صرف انسان کے دل میں وسوسہ ایجاد کر کے اسے گناہ کی طرف ترغیب دلاتا ہے اس سے زیادہ اسے انسان پر کوئی قدرت اور تسلط حاصل نہیں ہے بنا براین وہ کسی انسان کو گناہ پر مجبور نہیں کر سکتا ہے۔ شیطان اور اس کی اطاعت کرنے والے سب کے سب دوزخ میں جائیں گے۔

لغوی اور اصطلاحی معنی

اسلامی تعلیمات میں خدا کے حکم کی نافرمانی اور لوگوں کو منحرف کرنے والے موجود کو شیطان کہا جاتا ہے جو انسان بھی ہو سکتا ہے اور جن بھی۔ لیکن ابلیس اسم خاص ہے اس شیطان کا جس نے بہشت میں آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا اور دوسرے شیاطین کے ساتھ مل کر انسان کو منحرف کرنے کے در پے ہے۔[1] قرآن کریم میں شیطان کو انسان کے دائمی دشمن کے طور پر معرفی کیا گیا ہے جو ہمیشہ انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔[2] شیطان عالم تشریع میں انسان کو گمراہ کر سکتا ہے لیکن عالم تکوین میں اسے انسان پر کوئی تسلط حاصل نہیں ہے؛ کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق شیطان فقط انسان کے دل میں وسوسہ ڈال سکتا ہے اور اسے گناہ کی ترغیب دے سکتا ہے اور اس سے زیادہ اسے انسان پر کوئی تسلط حاصل نہیں ہے یعنی وہ انسان کو مجبور کر کے ہاتھ پکڑ کر گناہ کی طرف نہیں لے جا سکتا ہے۔[3]

شیطان کا لفظ قرآن میں 88 بار آیا ہے؛ 70 بار مفرد اور 18 بار جمع یعنی شیاطین کی صورت میں آیا ہے۔[4] قرآن میں لفظ شیطان اور لفظ ملائکہ کی تعداد برابر ذکر ہوا ہے۔[5] یہ لفظ بعض موارد من جملہ سورہ بقرہ آیت نمبر 36 میں ابلیس کے لئے اسم خاص کے عنوان سے جبکہ بعض دوسرے موارد من جملہ سورہ انعام کی آیت نمبر 121 میں ابلیس کے لشکروں اور پیروکاروں کے عنوان سے استعمال ہوا ہے۔[6]

علامہ طباطبایی تفسیر المیزان میں شیطان جو انسان کو بدی اور معصیت کی طرف دعوت دیتا ہے، کو کائنات اور ہستی کا ایک رکن قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ شیطان کا وجود ہے جو کمال کے راستے پر گامزن ہونے میں انسان کے مختار ہونے پر دلالت کرتا ہے۔[7]

شیطان کی اصل حقیقت آیا یہ جنّات میں سے ہے یا ملائکہ میں سے، قدیم زمانے سے مورد بحث واقع رہی ہے۔ اکثر مفسرین اسے جنّات میں سے قرار دیتے ہیں لیکن ابن عبّاس، ابن مسعود، قتادہ، سعید بن مسیب، ابن جریح، ابن انباری، ابن جریر طبری، شیخ طوسی اور بیضاوی وغیرہ اسے ملائک میں سے قرار دتیے ہیں۔[8]

خصوصیات

قرآن کریم میں شیطان کے بعض اوصاف بیان ہوئے ہیں من جملہ وہ صفات درج ذیل ہیں:

  • مستکبر[9]
  • کافر[10]
  • کفور: ناسپاس[11]
  • فاسق[12]
  • عصی: عصیان‌گر[13]
  • مارد و مَرید: سرکش[14]
  • مذئوم: نکوہیدہ[15]
  • رجیم = راندہ‌شدہ[16]
  • مدحور = راندہ[17]
  • ملعون[18]
  • مُنظَر: مہلت یافتہ[19]
  • عَدُوّ، عدوّ مبین: دشمن، دشمن آشکار[20]
  • ہمدم بد[21]
  • خذول: فروگذارندہ انسان[22]
  • مُضلّ مبین: گمراہ‌کنندہ آشکار[23]
  • غَرور: فتنہ‌گر، فریب‌کار[24]
  • وعدہ کاذب و برانگیختن آرزو[25]
  • دعوت بہ سوی جہنم۔[26]

سانچہ:ستو خ

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۵ش، ج۲۹، ص۱۹۲۔
  2. سورہ زخرف، آیہ ۶۲؛ سورہ یوسف، آیہ ۵؛ سورہ کہف، آیہ ۵۰؛ سورہ اسراء، آیہ ۵۳؛ سورہ بقرہ، آیہ ۱۶۸۔
  3. و ما کان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتکم فاستجبتم لی (سورہ ابراہیم، آیہ ۲۲)۔
  4. عسگری، «معناشناسی نوین از واژہ شیطان»، ص۲۱۴۔
  5. مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۴۱۷ق، ج۶، ص۶۱-۶۳؛ واعظ‌زادہ خراسانی، المعجم فی فقہ لغۃ القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۵۸۔
  6. عسگری، «معناشناسی نوین از واژہ شیطان»، ص۲۱۴۔
  7. علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۸، ص۳۸۔
  8. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۱، ص۱۵۰؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، دار الفکر، ج۱، ص۲۹۴؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، مج ۱، ج۱، ص۳۲۱۔
  9. سورہ بقرہ، آیہ ۳۴۔
  10. سورہ بقرہ، آیہ ۳۴؛ سورہ ص، آیہ ۷۴۔
  11. سورہ اسراء، آیہ ۲۷۔
  12. سورہ کہف، آیہ ۵۰۔
  13. سورہ مریم، آیہ ۴۴۔
  14. سورہ صافات، آیہ ۷؛ سورہ نساء، آیہ ۱۱۷۔
  15. سورہ اعراف، آیہ ۱۸۔
  16. سورہ تکویر، آیہ ۲۵؛ سورہ ص، آیہ ۷۷؛ سورہ نحل، آیہ ۹۸۔
  17. سورہ اعراف، آیہ ۱۸۔
  18. سورہ ص، آیہ ۷۸؛ سورہ حجر، آیہ ۳۵۔
  19. سورہ اعراف، آیہ ۱۵۔
  20. سورہ یس، آیہ ۶۰؛ سورہ کہف، آیہ ۵۰؛ سورہ فاطر، آیہ ۶؛ سورہ بقرہ، آیہ ۲۰۸ و ۱۶۸؛ سورہ انعام، آیہ ۱۴۲؛ سورہ یوسف، آیہ ۵۔
  21. سورہ نساء، آیہ ۳۸۔
  22. سورہ فرقان، آیہ ۲۹۔
  23. سورہ قصص، آیہ ۱۵؛ سورہ ص، آیہ ۸۲۔
  24. سورہ اعراف، آیہ ۷ و ۲۲ و ۲۷؛ سورہ طہ، آیہ ۲۰ و ۱۲۰۔
  25. سورہ نساء، آیہ ۴ و ۱۲۰۔
  26. سورہ لقمان، آیہ ۳۱ و ۲۱۔

مآخذ

  • بیضاوی، ناصرالدین، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، بیروت، دار الفکر، بیتا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل آي القرآن، بہ کوشش جمیل العطار صدقی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ق۔
  • عسگری، انسیہ، «معناشناسی نوین از واژہ شیطان»، در مجلہ قبسات، ش۶۴، زمستان ۱۳۸۹ش۔
  • علامہ طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، جامعہ مدرسین، ۱۳۷۴ش۔
  • فخر الرازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر أو مفاتیح الغیب، ج۱۱، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۰م۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق۔
  • مصطفوی، سید حسن، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۷ق۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۳۷۵ش۔
  • نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، بیروت، دار الکتاب اللبنانی، ۱۹۸۰م۔
  • واعظزادہ خراسانی، محمد، المعجم فی فقہ لغۃ القرآن و سرّ بلاغتہ، مشہد، بنیاد پژوہشہای آستان قدس، ۱۴۱۹ق۔