مندرجات کا رخ کریں

"رسالۃ الحقوق" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
سطر 26: سطر 26:
علم حدیث‌ کے ماہرین رسالۃ الحقوق کے سند کے تسلسل اور معتبر کتابوں میں تذکرہ ہونے کی بنا پر اس حدیث کو معتبر حدیثوں میں شمار کرتے ہیں۔<ref> حسینی جلالی، جہاد امام سجاد، ۱۳۸۲ش، ص۲۹۳۔</ref> اس حدیث کو [[ابو حمزہ ثمالی]] نے امام سجادؑ سے نقل کی ہیں اور علم رجال کے شیعہ علماء ابو حمزہ ثمالی کو "شیعوں کی برگزیدہ شخصیت"، "[[ثقہ]]" اور "معتمد" سمجھتے ہیں۔<ref> نجاشی، رجال‌النجاشی، ۱۳۶۵ق، ص۱۱۵۔</ref>
علم حدیث‌ کے ماہرین رسالۃ الحقوق کے سند کے تسلسل اور معتبر کتابوں میں تذکرہ ہونے کی بنا پر اس حدیث کو معتبر حدیثوں میں شمار کرتے ہیں۔<ref> حسینی جلالی، جہاد امام سجاد، ۱۳۸۲ش، ص۲۹۳۔</ref> اس حدیث کو [[ابو حمزہ ثمالی]] نے امام سجادؑ سے نقل کی ہیں اور علم رجال کے شیعہ علماء ابو حمزہ ثمالی کو "شیعوں کی برگزیدہ شخصیت"، "[[ثقہ]]" اور "معتمد" سمجھتے ہیں۔<ref> نجاشی، رجال‌النجاشی، ۱۳۶۵ق، ص۱۱۵۔</ref>


سب سے قدیم حدیثی مآخذ جن میں یہ حدیث بطور کامل نقل ہوئی ہیں یہ ہیں: [[ابن شعبہ حرانی|ابن‌ شُعبہ حَرّانی]](متوفی 381 ھ) کی کتاب [[تحف العقول|تُحَف‌العقول]]،<ref>ابن ‌شعبہ حرانی، تحف‌ العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۵۵تا۲۷۲۔</ref>  [[شیخ صدوق]](متوفی 382 ھ) کی تین کتابیں [[الخصال (کتاب)|خصال]]،<ref> صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴تا۵۷۰۔</ref> [[من لا یحضرہ الفقیہ|من لا یَحضُرُہُ الفقیہ]]<ref> صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸تا۶۲۵۔</ref> اور اَمالی،<ref> صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸تا۳۷۵۔</ref>۔
سب سے قدیم حدیثی مآخذ جن میں یہ حدیث بطور کامل نقل ہوئی ہیں یہ ہیں: [[ابن شعبہ حرانی|ابن‌ شُعبہ حَرّانی]] (متوفی 381 ھ) کی کتاب [[تحف العقول|تُحَف‌العقول]]،<ref>ابن ‌شعبہ حرانی، تحف‌ العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۵۵تا۲۷۲۔</ref>  [[شیخ صدوق]] (متوفی 382 ھ) کی تین کتابیں [[الخصال (کتاب)|خصال]]،<ref> صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴تا۵۷۰۔</ref> [[من لا یحضرہ الفقیہ|من لا یَحضُرُہُ الفقیہ]]<ref> صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸تا۶۲۵۔</ref> اور اَمالی،<ref> صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸تا۳۷۵۔</ref>۔


[[مستدرک الوسائل (کتاب)|مُستَدرَک‌ الوسایل]] میں [[محدث نوری]] کے مطابق [[سید بن طاووس]] (589-664 ھ) بھی اس حدیث کو اپنی کتاب [[فلاح السائل و نجاح المسائل (کتاب)|فلاح‌السائل]] میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے [[شیخ کلینی]] کی کتاب  رسائل‌ الائمہ سے نقل کئے ہیں۔<ref> محدث نوری، مستدرک‌ الوسایل، ۱۴۰۸ق، ج۱۱، ص۱۶۹۔</ref> البتہ یہ مطلب کتاب فلاح‌ السائل کی شایع شدہ نسخے میں موجود نہیں؛ لیکن مستدرک الوسائل کی مصححین کہتے ہیں کہ یہ مطلب اس کتاب کے غیر مطبوع نسخے میں موجود ہے۔<ref> ملاحظہ کریں: محدث نوری، مستدرک ‌الوسایل، ۱۴۰۸ق، ج۱۱، ص۱۶۹ (پانویس)۔</ref> دوسرا نکتہ یہ کہ شیخ کلینی کی کتاب رسائل ‌الائمۂ اس وقت نابود ہو چکی ہے۔<ref> حسینی جلالی، جہاد امام سجاد، ۱۳۸۲ش، ص۲۸۹۔</ref>
[[مستدرک الوسائل (کتاب)|مُستَدرَک‌ الوسایل]] میں [[محدث نوری]] کے مطابق [[سید بن طاووس]] (589-664 ھ) بھی اس حدیث کو اپنی کتاب [[فلاح السائل و نجاح المسائل (کتاب)|فلاح ‌السائل]] میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے [[شیخ کلینی]] کی کتاب  رسائل‌ الائمہ سے نقل کئے ہیں۔<ref> محدث نوری، مستدرک‌ الوسایل، ۱۴۰۸ق، ج۱۱، ص۱۶۹۔</ref> البتہ یہ مطلب کتاب فلاح‌ السائل کی شایع شدہ نسخے میں موجود نہیں؛ لیکن مستدرک الوسائل کی مصححین کہتے ہیں کہ یہ مطلب اس کتاب کے غیر مطبوع نسخے میں موجود ہے۔<ref> ملاحظہ کریں: محدث نوری، مستدرک ‌الوسایل، ۱۴۰۸ق، ج۱۱، ص۱۶۹ (پانویس)۔</ref> دوسرا نکتہ یہ کہ شیخ کلینی کی کتاب رسائل ‌الائمۂ اس وقت نابود ہو چکی ہے۔<ref> حسینی جلالی، جہاد امام سجاد، ۱۳۸۲ش، ص۲۸۹۔</ref>


===مآخذ میں اختلاف===
===مآخذ میں اختلاف===
حدیثی مآخذ میں اس حدیث کا متن مختلف عبارتوں کے ساتھ آیا ہے۔ من جملہ یہ کہ [[تحف العقول (کتاب)|تُحَف‌العقول]] اور [[الخصال (کتاب)|خصال]] میں یہ حدیث زیادہ مفصل‌ طور پر نقل ہوئی ہے اور ساتھ ساتھ ایک مقدمہ‌ پر بھی مشتمل ہے جس میں اس حدیث کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌شعبہ حرانی، تحف‌العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۵۵و۲۵۶؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴و۵۶۵۔</ref> یہ مقدمہ کتاب [[من لا یحضرہ الفقیہ|من لا یَحضُرُہُ الفقیہ]] اور [[امالی الصدوق (کتاب)|اَمالی]] میں موجود نہیں ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸۔</ref> اسی طرح کتاب امالی میں یہ حدیث انسان کے اوپر اپنے حقوق سے شروع ہوتی ہے؛<ref>ملاحظہ کریں: صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸۔</ref> دوسرے کتابوں کی برخلاف جن میں یہ حدیث حق‌اللہ سے شروع ہوتی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌شعبہ حرانی، تحف‌العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۵۵؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴؛ من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸۔</ref>
حدیثی مآخذ میں اس حدیث کا متن مختلف عبارتوں کے ساتھ آیا ہے۔ من جملہ یہ کہ [[تحف العقول (کتاب)|تُحَف‌ العقول]] اور [[الخصال (کتاب)|خصال]] میں یہ حدیث زیادہ مفصل‌ طور پر نقل ہوئی ہے اور ساتھ ساتھ ایک مقدمہ‌ پر بھی مشتمل ہے جس میں اس حدیث کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔<ref> ملاحظہ کریں: ابن ‌شعبہ حرانی، تحف‌ العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۵۵و۲۵۶؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴و۵۶۵۔</ref> یہ مقدمہ کتاب [[من لا یحضرہ الفقیہ|من لا یَحضُرُہُ الفقیہ]] اور [[امالی الصدوق (کتاب)|اَمالی]] میں موجود نہیں ہے۔<ref> ملاحظہ کریں: صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸۔</ref> اسی طرح کتاب امالی میں یہ حدیث انسان کے اوپر اپنے حقوق سے شروع ہوتی ہے؛<ref> ملاحظہ کریں: صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۶۸۔</ref> دوسرے کتابوں کی برخلاف جن میں یہ حدیث حق‌اللہ سے شروع ہوتی ہے۔<ref> ملاحظہ کریں: ابن‌شعبہ حرانی، تحف‌ العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۵۵؛ صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴؛ من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۱۸۔</ref>
 
==حقوق کی تعداد==
==حقوق کی تعداد==
رسالۃالحقوق میں بیان ہونے والے حقوق کی تعداد کتاب تحف‌العقول میں 50 ہیں۔ اس کتاب میں اس حدیث کے آخری حصے میں یوں آیا ہے: "یہ پچاس حق ہیں..."۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌شعبہ حرانی، تحف‌العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۷۲.</ref> جبکہ شیخ صدوق کے نسخے میں یہ عبارت موجود نہیں ہے؛<ref>صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۷۰؛‌ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۲۵؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۷۵.</ref> اگرچہ شیخ صدوق خود بھی ان حقوق کی تعداد پچاس قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ آپ نے کتاب خصال میں اس حدیث کو یوں عنوان دیا ہے: "وہ پچاس حقوق جسے علی بن الحسین نے اپنے اصحاب کے لئے تحریر فرمایا"۔<ref>ملاحظہ کریں: صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴.</ref>
رسالۃالحقوق میں بیان ہونے والے حقوق کی تعداد کتاب تحف‌العقول میں 50 ہیں۔ اس کتاب میں اس حدیث کے آخری حصے میں یوں آیا ہے: "یہ پچاس حق ہیں..."۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌شعبہ حرانی، تحف‌العقول، ۱۳۶۳ش/۱۴۰۴ق، ص۲۷۲.</ref> جبکہ شیخ صدوق کے نسخے میں یہ عبارت موجود نہیں ہے؛<ref>صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۷۰؛‌ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۲۵؛ صدوق، الامالی، ۱۳۷۶ش، ص۳۷۵.</ref> اگرچہ شیخ صدوق خود بھی ان حقوق کی تعداد پچاس قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ آپ نے کتاب خصال میں اس حدیث کو یوں عنوان دیا ہے: "وہ پچاس حقوق جسے علی بن الحسین نے اپنے اصحاب کے لئے تحریر فرمایا"۔<ref>ملاحظہ کریں: صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۶۴.</ref>
گمنام صارف