کربلا پر وہابیوں کا حملہ (1216ھ)

ویکی شیعہ سے
کربلا پر وہابیوں کا حملہ
زمانسنہ 1216ھ
مکانکربلا
سببقبور کی تعمیر اور زیارت قبور کو شرک تصور کرنا
عناصروہابی
اثراتشیعوں کا قتل عام اور حرم امام حسینؑ کا انہدام
نقصانات4500 افراد کا قتل
مربوطسنہ 1223ھ میں کربلا پر وہابیوں کا حملہ


کربلا پر وہابیوں کا حملہ وہ سانحہ ہے جو سنہ 1216ھ کو عید غدیر کے دن عبد العزیز بن محمد کے حکم سے اس کے بیٹے سعود بن عبد العزیز کے زیر نگرانی رونما ہوا۔[1] اہالیان کربلا روز عید غدیر ہمیشہ کی طرح نجف اشرف میں مرقد امام علیؑ کی زیارت کے لیے گئے ہوئے تھے لہذا اس دن شہر کربلا مردوں سے خالی تھا۔[2] اس حملے میں وہابیوں نے امام حسینؑ اور حضرت عباسؑ کے حرم کو منہدم کیا اور یہاں سے سارے مال لوٹ لیے۔[3] انہوں نے حرم امام حسینؑ کو بکثرت نقصان پہنچایا، بہت سے لوگوں کو مار ڈالا، عورتوں کو اسیر کیا اور حرم میں موجود قیمتی اموال کو غارت کیا۔[4] کتاب"تراث کربلاء" کے نقل کے مطابق اس واقعے میں 4500 لوگ مارے گئے۔[5] اس حملے میں شہادت پانے والوں میں تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ مجتہد و عارف اور کتاب "بحر المعارف" کےمصنف عبد الصمد ہمدانی بھی شامل تھے۔[6] کتاب "تاریخ کربلا و حائر حسینی" کے مصنف عبد الجواد کلیدار کے مطابق کربلا پر وہابیوں کے حملے کا یہ واقعہ، کربلا کے واقعے کے بعد سب سے بڑا واقعہ شمار ہوتا ہے۔[7]

عبد العزیز کا فتح علی‌ شاہ کے نام خط

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ رسول خداؐ محمد بن عبد اللہ کے بعد امت میں شرک اور بت پرستی عام ہوگئی ،حد یہاں تک پہنچی کہ کربلا اور نجف کے لوگ پتھر اور مٹی سے بنی قبروں کو سجدہ کرنے لگے۔ میں یعنی خدا کے ضعیف بندے نے کمرہمت کَس لی اور دین کی اصلاح شروع کی۔ کربلا اور نجف کے رہنے والے نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اعمال سے باز نہ آئے، میں نے دیکھا کہ اس کا واحد حل یہ ہے کہ انہیں نابود کیا جائے۔ جو بھی شرک اور کفر اختیار کرنے پر مُصِر ہوگا اس کا انجام بھی ساکنان کربلاجیسا ہوگا۔[8]

کتاب "مسیر طالبی" کے مصنف اصفہانی کہتے ہیں کہ زیارت قبور، تعمیر قبور، قبور پر گنبد کی تعمیر، قبور کو زینت کرنا اور قبور پر چراغ جلانے کو وہابی شرک آمیز عمل سمجھتے ہیں اس لیے یہ حملہ کیا گیا۔[9]

کہا جاتا ہے کہ کربلا پر وہابیوں کے اس حملے بعد سید علی طباطبائی المعروف صاحب ریاض نے سنہ 1217ھ میں شہر کربلا کی اطرف میں دیواریں بنوا دیں اور یہاں داخل ہونے کے لیے مختلف اطراف میں 6 دروازے نکالے۔[10]

اسی طرح کہا جاتا ہے کہ وہابیوں کی جانب سے کربلا سمیت مختلف مقامات پر قاتلانہ حملہ کے بعد انہیں احساس ہوا کہ سلطنت عثمانی کمزور ہوگئی ہے نتیجتاً کربلا پر حملہ کے بعد انہوں نے حجاز میں اپنے وجود کی جڑیں مزید مضبوط کردیں اور اپنی طاقت کو اور وسیع کردیا۔ کربلا پر حملہ کے ایک سال بعد وہابیوں نے طائف اور مکہ سمیت حجاز کے دیگر مناطق پر بھی حملہ آور ہوئے اس طرح سنہ 1220ھ میں اہالیان مکہ نے ان کے تسلط کو مان لیا۔[11]

کتاب "تاریخ کربلا کی چار صدیاں" کے مصنف عبد الجواد کلیدار کے مطابق، عبد العزیز بن سعود کو بغداد میں مقیم ایک افغانستانی شخص نے قتل کیا۔ اس نقل کے مطابق قاتل کا مقصد اس واقعے میں ہلاک ہونے والے اپنے بچوں سے بدلہ لینا تھا۔[12] محمدرضا ازری (متوفیٰ: 1240ھ) نے اس واقعے سے متعلق 65 بیت پر مشتمل اشعار کہے ہیں، ان میں سے ایک بیت یہ ہے:

ونادی بہ نادی الصلاح مؤرخالقد عاودتنا الیوم ارزاء کربلا
خیر و صلاح کے فریاد رس کو آواز دی، اس حال میں کہ وہ تاریخ متعین کررہا تھا، بے شک آج ہمارے لیے کربلا کی یاد تازہ ہوگئی![13]

اسی طرح کتاب "مجالی اللطف بارض الطف" کے مصنف محمد سماوی نجفی (متوفیٰ: 1370ھ) نے بھی اس سلسلے میں کچھ اشعار کہے ہیں:

فشد لا یثنی ہواہ الثانیومزق الکتاب والمثانی
وہدم الشباک والرواقاواستلب الحلی والاعلاقا
وقتل النساء والاطفالاإذ لم یجد فی کربلا رجالا
لانہم زاروا الغدیر قصدافارخوہ (بغدیر) عدّا
حملہ کیا گیا اور فطرت سالم ان کے نفسانی خواہشات پر غالب نہیں آسکی، قرآن کو پارہ کیا! باغ و بوستان کو ویران کردیا زیوروں کو لوٹ لیا، دشمنوں نے دیکھا کہ شہر کربلا میں کوئی مرد نہیں لہذا انہوں نے معصوم بچوں اور عورتوں کو مار ڈالا! ان کے سارے مرد عید غدیر کے دن نجف میں زیارت کرنے گئے ہوئے تھے۔ اس قتل و غارت کی تاریخ کو غدیر (1216) نے متعین کیا۔[14]

وہابی جمادی الثانی سنہ 1223ھ کو بھی 20 ہزار لشکریوں کے توسط سے کربلا پر حملہ آور ہوئے۔ دوران حملہ اہالیان کربلا نے ان کو شہر کی دیواروں کے اوٹ سے محاصرے میں لیا اور اس تصادم میں دونوں طرف کے کچھ لوگ مارے گئے۔[15]

حوالہ جات

  1. طعمہ، تراث کربلاء، 1393شمسی، ص116۔
  2. طعمہ، تراث کربلاء، 1393شمسی، ص116۔
  3. طعمہ، سلمان‌ہادی، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ، ص263۔
  4. طعمہ، تراث کربلاء، 1393شمسی، ص116۔
  5. طعمہ، تراث کربلاء، 1393شمسی، ص116۔
  6. آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ، 1403ھ، ج3، ص47؛ خوانساری، روضات الجنات، 1390ھ، ج4، ص198۔
  7. کلیدار، تاریخ کربلا و حایر حسینی، 1389شمسی، ص307۔
  8. اصفہانی، مسیر طالبی، 1383ہجری شمسی۔ ج3، ص412۔
  9. اصفہانی، مسیر طالبی، 1383شمسی، ج3، ص412۔
  10. «گذری بر تاریخچہ خیمہ‌گاہ حسینی»، حوزہ نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارت۔
  11. زینی‌دحلان، امراء البلد الحرام، دار المتحدة للنشر، ص294–323؛ وہبہ، جزیرة العرب فی القرن العشرین، 1430ھ، ص221–225 بہ نقل از: محمدحسینی، «نخستین گزارش‌ہای غربیان از یورش آل سعود و وہابیان بہ کربلا(1216ق)»، ص82۔
  12. مستر استفان ہمیسلی لونکریک، چہار قرن از تاریخ کربلا، ص246 بہ نقل از: کلیدار، تاریخ کربلا و حائر حسینی، 1389شمسی، ص321۔
  13. امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج9، ص285۔
  14. کلیدار، تاریخ کربلا و حائر حسینی، 1389شمسی، ص322۔
  15. طعمہ، تراث کربلاء، 1393شمسی، ص121۔

مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعة إلی تصانیف الشیعۃ، بیروت، دار الاضواء، چاپ سوم، 1403ھ۔
  • اصفہانی، ابو طالب بن محمد، مسیر طالبی، تصحیح: حسین خدیوجم، تہران، شرکت انشارات علمی و فرہنگی، چاپ چہارم، 1383ہجری شمسی۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعة، تحقیق حسن امین، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
  • خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی أحوال العلماء و السادات، تحقیق: اسد اللہ اسماعیلیان، قم، اسماعیلیان، چاپ اول، 1390 ھ۔
  • طعمہ، سلمان‌ہادی، تاریخ مرقد الحسین و العباس (علیہما السلام)، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، 1416ھ۔
  • طعمہ، سلمان‌ ہادی، تراث کربلاء، تہران، مشعر، چاپ اول، 1393ہجری شمسی۔
  • کلیدار، عبد الجواد، تاریخ کربلا و حائر حسینی، ترجمہ: مسلم صاحبی، تہران، نشر مشعر، چاپ اول، 1389 ہجری شمسی۔
  • «گذری بر تاریخچہ خیمہ‌ گاہ حسینی»، حوزہ نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارت، تاریخ درج مطلب: 18 آذر 1397شمسی، تاریخ بازدید: 29 بہمن 1402ہجری شمسی۔
  • محمدحسینی، کامران، «نخستین گزارش‌ہای غربیان از یورش آل سعود و وہابیان بہ کربلا(1216ھ)»، در مجلہ میقات حج، ش110، زمستان 1398ہجری شمسی۔