فہم حدیث
فہم حدیث کا معنی حدیث کے معنی سے آگاہی حاصل کرنا ہے۔احادیث و روایات کے سمجھنے کے لئے لازم ہے کہ "نقل بہ معنی"، "روایات کی زبان" "مخاطب شناسی"، "ناسخ و منسوخ" "حدیث کی معنوی سطوح"، "حدیث کی تاویل" ـ اور علم درایہ میں زیر بحث متعدد دیگر موضوعات ـ کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔
نقل بہ معنی
نقل بہ معنی تاریخ حدیث میں ایک تائید شدہ حقیقت ہے یعنی بعض راویانِ حدیث ـ بطور خاص تدوین حدیث سے قبل [یعنی] حدیث کے متقدم دور میں ـ بعض مواقع پر معصوم سے سنی ہوئی روایات کو معانی کے سانچے میں حفظ کرتے تھے اور نقل کرتے وقت انہیں بعض الفاظ کے سانچے میں بیان کرتے تھے؛ اور ان الفاظ اور ان کی نحوی ترکیب کا انتخاب وہ خود کرتے تھے، البتہ اس بات پر تاکید کے ساتھ کہ "راوی مطمئن تھا کہ وہ معنی کو صحیح طور پر منتقل کررہا ہے"۔[1]۔[2]۔[3]
کم ہی، کسی واحد باب میں مختلف راویوں سے منقولہ احادیث کو تلاش کیا جاسکتا ہے جن کے الفاظ بھی بعینہ ایک دوسرے پر منطبق ہوں چنانچہ دعوی کیا جاسکتا ہے کہ معنی کے سانچے میں منقولہ احادیث اور اصلی الفاظ میں منقولہ احادیث کے درمیان قابل توجہ نسبت پائی جاتی ہے [اور منقول بہ معنی احادیث کی تعداد اصلی الفاظ میں منقولہ احادیث سے کہیں زیادہ ہے۔
فہم حدیث کی سطوح
فہمِ نصوص سے متعلقہ بہت سے ابتدائی مسائل ـ جو سب سے پہلے قرآن کریم کے ادراک کے لئے سامنے آئے ـ بہت جلد حدیث کی حدود تک عام ہوئے اور بالکل اسی طرح حدیث کی حدود میں بھی بروئے کار لائے گئے۔ نمونے کے طور پر شافعی کی کتاب الرسالہ کے اوائل میں بیان کی اقسام سے متعلق مباحث کی طرف اشارہ کرنا چاہئے جہاں وہ مکمل طور پر قرآنی آیات کے ادراک میں مصروف نظر آتے ہیں؛ لیکن اس سفر کے تسلسل اور اصول فقہ کے مباحث الفاظ کی تشکیل میں یہ مسائل حدیث سے بھی مرتبط ہوجاتے تھے۔ عام طور پر سنت کے ہر ماخذ و منبع کے مضامین کی فہرست کو مد نظر رکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف مباحث و موضوعات پر بحث کرتے وقت اس لحاظ سے قرآنی اور حدیثی نصوص کے درمیان کسی قسم کا بامعنی تمایز اور تفاوت روا نہیں رکھا گیا ہے؛ دلالت کی اقسام، حقیقت و مجاز، اوامر اور نواہی، مخالف مفہوم، عام و خاص، مطلق و مقید اور مُجمَل و مُبَیَّن جیسے موضوعات جس قدر کہ قرآن کے بارے میں مصداق رکھتے ہیں حدیث سے بھی تعلق رکھتے ہیں یہاں تک کہ فقہ و اصول کی کتب میں قرآن کا "عام" یا قرآن کا "مطلق" حدیث سے ماخوذہ مخصِّص یا قید کے ذریعے تخصیص یا تقیید قبول کرتا ہے۔ دلالات کی بحث میں شریف رضی(متوفی سنہ 406ہجری قمری/ 1015عیسوی۔ کی کتاب المجازات النبویہ[4] اس سلسلے میں واحد معدود تالیفات میں سے ہے جو ابو عبیدہ معمر بن مثنی کی کتاب مجاز القرآن کے اسلوب کے تسلسل میں لکھی گئی ہے لیکن اسی تالیف میں بھی ادبی پہلو غالب ہے۔
ناسخ و منسوخ کے بارے میں ـ اس اختلاف انگیز بحث سے قطع نظر کہ کیا ممکن ہے حدیث کے ذریعے قرآن کریم کو نسخ کیا جائے؟[5]۔[6]، ـ اس موضوع میں کہ حدیث میں بھی ناسخ و منسوخ ہوسکتا ہے ـ کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اسی رائے کے پیش نظر ہی ہے کہ بطور خاص حدیث امامیہ کی حدود میں، اگر دو حدیثوں کے درمیان تعارض و تضاد پایا جائے تو دو میں سے ایک حدیث کی ترجیح کا ایک معیار یہ ہے کہ حدیث متاخر، متقدم پر پر مقدم اور مُرَجَّح ہوگی۔[7]۔[8] قابل ذکر ہے کہ بعض محدثین نے حدیث میں ناسخ و منسوخ کی بحث کو خاص اہمیت کی نگاہ سے دیکھا ہے اور اس سلسلے میں مستقل کتاب تالیف کرنے کا اہتمام کیا ہے؛ یہ سلسلہ دوسری صدی ہجری میں ابن شہاب زہری سے شروع ہوا ہے اور ابوبکر اثرم، ابن شاہین اور ابن جوزی کی تالیفات کی صورت میں مختلف ادوار میں جاری رہا ہے۔[9]
صدور کلام کی کیفیت ـ وہی جو قرآن کے حوالے سے "سبب نزول" قرار دیا گیا ہے ـ حدیث کے سلسلے میں بھی محدثین کے مدنظر رہی ہے اور حدیث میں اس کو "سبب ورود" کا نام دیا گیا ہے۔
مسلمانوں کے ہاں بلاغت کی رائج تعریف کے مطابق بلاغت ایسے فصیح اور عمدہ کلام ادا کرنے کو کہا جاتا ہے جو وقت کے تقاضوں اور حاضرین کے مقتضائے حال کے مطابق ہو[10]، اور قاعدہ فطری طور پر فہم حدیث تک بھی سرایت کرگیا؛ توقع یہ تھی کہ معصومین کا کلام ـ جو انسانی فصاحت کے عروج پر تھا ـ بلاغت کے عروج پر بھی ہو۔ [[ائمۂ معصومین علیہم السلام{ائمہ معصومین]](ع) کے معیار کے طور پر سید رضی نے امیرالمؤمنین(ع) کے جمع کردہ کلام کا نام نہج البلاغہ رکھا ہے اور ابن عباس نے ایک قول کے ضمن میں آپ(ع) کے کلام کو خدا کے کلام س نازل تر اور ـ رسول اللہ(ص) کے بعد ـ مخلوق کے کلام سے بالاتر قرار دیا ہے۔
اور یہ قاعدہ فطری طور پر فبیعی به دامنۀ فهم حدیث هم کشیده می شد؛ انتظار می رفت کلام معصومان به همان اندازه که اوج فصاحت انسانی محسوب می شد، اوج بلاغت نیز بوده باشد. به عنوان شاخصی از کلام ائمه(ع)، شریف رضی گردآوردۀ خود از کلام امام علی(ع) را « راه بلاغت » (نهج البلاغة) نام نهاده، و ابن عباس در نقلی، سخن او را فروتر از کلام خالق و والاتر از کلام مخلوق ــ جز پیامبر(ص) ــ دانسته است[11] اور دوسری طرف سے ادب شناسوں نے بھی اس قول کو دہرایا ہے۔[12]۔[13] بہر حال، مسئلۂ بلاغت کو ایک تجزیاتی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ حاضرین (اور مخاطَبین) کی سطحوں کی درجہ بندی نیز مختلف سطحوں کے افراد تک مختلف معانی پہنچانے کے لئے ایک بلیغ شخص کی طرف سے کہی جانی والی بات [یا کی جانے والی تقریر] پر نافذ ہو جاتا ہے۔
احادیث میں تأویل
امامیہ کے منابع حدیث میں ـ نیز اہل سنت کی بعض غیر اہم کتب میں، ایسی احادیث پائی جاتی تھیں جن میں رسول اللہ(ص) کے زبانی مروی ہے کہ "مجھے امر ہوا ہے یا ہم انبیاء چاہتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ ان کی عقلوں کے مطابق بات کریں"۔[14]۔[15]۔[16]۔[17] یہ تفکر امامیہ کے تفکر میں ائمہ(ع) کے مشہور جملے کی صورت میں جاری رہا ہے جس کا مضمون یہ ہے: "ہماری حدیث دشوار اور اس کا ادراک مشکل ہے (= حَدِیثُنا صَعبٌ مُستَصعَبٌ) [18]۔[19] اس قسم کی روایات، پیغمبر(ص) اور ائمہ(ع) کی فصاحت کو نئے مراحل میں داخل کرتی ہیں جو کبھی حدیث کے ذو معانی ہونے یا اس کی تاویل پذیری پر منتج ہوتی ہیں ـ وہ یوں کہ حدیث کے مخاطَبین (= Audiences) مختلف سطوح کے ہوں ـ اور کبھی اس امر پر منتج ہوتی ہیں کہ بنیادی طور پر ایک حدیث اپنے ظاہری الفاظ میں قابل فہم و ادراک ہی نہ ہو اور اس کو تفسیر و تشریح کی ضرورت ہو۔ یہ وہی بات ہے کہ بعض احادیث امامیہ میں "مشکل احادیث کے فہم و ادراک کو ائمہ(ع) کی طرف لوٹانے" کے عنوان سے مشہور ہے[20]۔[21] نیز اسی تفکر کا نتیجہ ہے کہ متشابہ احادیث ـ قرآنی متشابہات کی مانند ـ حدیث کی حدود میں بھی داخل ہوئے اور بعض احادیث کو متشابہ احادیث قرار دیا گیا ہے۔[22]۔[23]۔[24] ابوبکر محمد بن حسن بن فورک اسی لحاظ سے، حدیث کا قرآن کے ساتھ تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ بعض حدیثوں کو بعض دیگر احادیث کی طرف لوٹا کر، سمجھنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے یعنی متشابہ احادیث کے فہم و ادراک کے لئے انہیں محکم حدیثوں کی طرف پلٹانا چاہئے۔[25]
حدیث کی نسبت اس قسم کا تصور حدیث میں تاویل کا باب کھل جانے کا سبب ہوا، ایسی تاویل جس کو نہ صرف عقل پسندوں نے قبول کیا بلکہ معتدل حدیث پسندوں کے ہاں بھی قابل قبول نظر آتی تھی۔ متقدم ہجری صدیوں کے دوران، عامہ (= اہل سنت) کے ہاں ایسی تالیفات تلاش کی جاسکتی ہیں جو تاویل حدیث کے لئے مختص تھیں؛ ان کتابوں میں اشعری متکلم ابوبکر بن فورک (متوفی سنہ 406ہجری قمری/ 1015عیسوی) کی کتاب مشکل الحدیث وبیانہ کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جو متکلمین کی روش پر لکھی گئی ہے۔ [26] تأویل مختلف الحدیث تالیف ابن قتیبہ (متوفی سنہ 276ہجری قمری/ 889عیسوی) اور شرح مشکل الآثار تالیف ابوجعفر طحاوی (متوفی سنہ 321ہجری قمری/933عیسوی) ـ جو معتدل حدیث پسندوں نے لکھی ہیں[27]۔[28] امامیہ کے درمیان بھی بھی نمایاں نمونے کے طور پر محدثین کے زمرے میں ابن بابویہ قمی (متوفی سنہ 381ہجری قمری/991عیسوی) کی کتاب معانی الاخبار کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔[29]
اسماعیلیہ کی باطنیت کی فضا میں ـ بطور خاص ـ قاضی نعمان مغربی (متوفی سنہ 363ہجری قمری/974عیسوی) کی کتاب تأویل الدعائم[30] کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جس کو ان ہی کی تالیف دعائم الاسلام میں موضوع بنائی جانے والی ظاہری تعلیمات کی نچلی سطح کی تشریح کی غرض سے تالیف کیا گیا ہے اور اس میں باطنیت کی تاویل کی زیادہ مضبوط سطح کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
فقہ الحدیث
نصوص کے درمیان روابط میں فہم حدیث کا مسئلہ دو صورتوں میں قابل توجہ ہے: ایک طرف سے فہم و ادراک کو قرآنی نصوص کے سلسلے میں، کتاب اور سنت کے درمیان تعلق کے دائرے کے اندر، ہونا چاہئے۔ اور دوسری طرف سے ـ احادیث کے درمیان ابتدائی یا حقیقی تعارض و اختلاف ـ جس کو قدیم الایام سے "اختلاف الحدیث" کے عنوان سے شہرت ملی ہے ـ راہ حل کی ایک صورت یہ ہے کہ احادیث کو یکجا کیا جائے اور تاویل کی بنیاد پر ایک ہم آہنگ فہم و ادراک ممکن بنایا جائے۔ اس بحث کی مختلف شاخوں کو "تعارض اَدُِلہ"، "تعادل و تراجیح" اور "اختلاف الحدیث" جیسے عناوین کے ذیل میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔
وسیع سطح پر فہم احادیث کا موضوع، علوم حدیث میں ایک نئی شاخ کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنا ہے جس کو "فقہ الحدیث" کہا جاتا ہے۔ فقہ الحدیث نے حدیث کے قدیم مآخذ کی شرحوں کے ایک نئے سلسلے کے اسباب فراہم کئے جن کا اسلوب تفسیر قرآن سے ملتا ہے گوکہ ان شرحوں اور تفسیر قرآن میں وسیع تفرق پایا جاتا ہے؛ اس حوالے سے اہل تشیع کے ہاں کتب اربعہ اور اہل سنت کے ہاں صحاح ستہ پر لکھی گئی متعدد شروح کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے جو درمیانی اور متاخرہ صدیوں میں "ادبیات حدیث" کے اہم حصے کو تشکیل دیتی ہیں۔
متعلقہ مآخذ
حوالہ جات
- ↑ دارمی، سنن، ج1 ص93۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج1 ص51-52۔
- ↑ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ج1 ص412۔
- ↑ مطبوعه دمشق، 1408هجری قمری۔
- ↑ مفید، اوائل المقالات، 124-125۔
- ↑ ابو اسحق، التبصرة، 264-271۔
- ↑ طوسی، العدة فی اصول الفقه، ج1 ص397۔
- ↑ محقق حلی، معارج الاصول، ص156۔
- ↑ عماری، مقدمه بر اعـلام العالم ابنجوزی، 15-16۔
- ↑ تفتازانی، المُطَوَّل، 25۔
- ↑ باعونی، جـواهر لمطالب فی مناقب علی بن ابی طالب(ع)، ج1 ص299۔
- ↑ علامۀ حلی، کشف المراد...، ص415۔
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغه، ج1 ص24۔
- ↑ برقی، المحاسن، 195۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج1 ص23۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج8 ص268۔
- ↑ دیلمی، الفردوس الاخبار بمأثورالخطاب، ج1 ص398۔
- ↑ صفار، بصائر الدرجات، 40۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج1 ص401۔
- ↑ صفار، بصائر الدرجات، 41-42۔
- ↑ ابن بابویه، الخصال، 627۔
- ↑ حصنی، دَفْعُ الشُبَه عن الرسول(ص)، 38۔
- ↑ سیوطی، الدیباج، ج2 ص404 تا 409۔
- ↑ سیوطی، وہی ماخذ، ج5 ص284۔
- ↑ ابن فورک، مشکل الحدیث ...، ص 41-44۔
- ↑ بطور خاص دیکھیں: ابن فورک، مشکل الحدیث وبيانه، ص45۔
- ↑ نیز دیکھیں: طحاوی، شرح مشکل الاثار، ج1 ص11۔
- ↑ دارمی، سنن، ج1 ص153۔
- ↑ ابن بابویہ، معانی الاخبار۔
- ↑ نعمان المغربی، تاویل الدعائم۔
مآخذ
- ابن بابویه قمی، معانی الاخبار، ط قم، 1361هجری شمسی۔
- ابوبکر محمد بن حسن ابن فورک الاصفہانی الاشعری، کتاب مشکل الحدیث أو تأويل الأخبار المتشابهة، تحقیق وتعلیق دانیال جیماریہ، المعهد القريشي للدراسات العربية بدمشق، 2003عیسوی۔
- بـاعونی، محمد، جـواهر لمطالب فی مناقب علی بن ابی طالب(ع)، به کوشش محمدباقر محمودی، قم، 1415هجری قمری.
- برقی، احمد، المحاسن، به کوشش جلال الدین محدث ارموی، تهران، 1331هجری شمسی.
- تفتازانی، مسعود، المطول، استانبول، 1330هجری قمری.
- الحصني الدمشقي، أبو بكر بن محمد بن عبد المؤمن تقي الدين، دَفْعُ الشُبَه عن الرسول(ص)، قاهره، 1418هجری قمری.
- دیلمی، شیرویه، الفردوس الاخبار بمأثورالخطاب، به کوشش سعید بسیونی زغلول، بیروت، 1986عیسوی.
- علامۀ حلی، حسن، رجال، نجف، 1381هجری قمری/1961عیسوی.
- علامۀ حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، به کوشش ابراهیم موسوی زنجانی، قم، 1373هجری شمسی.
- دارمی، عبدالله، سنن، به کوشش فواز احمد زمرلی و خالد سبع علمی، بیروت، 1407هجری قمری.
- سیوطی، الدیباج، به کوشش ابو اسحق حوینی، الخبر، 1416هجری قمری/ 1996عیسوی.
- ابو اسحق شیرازی، ابراهیم، التبصرة، به کوشش محمدحسن هیتو، دمشق، 1403هجری قمری/1983عیسوی.
- شریف مرتضی، المجازات النبویه، دمشق 1408هجری قمری۔
- صفار، محمد، بصائر الدرجات، تهران، 1404هجری قمری.
- طوسی، العدة فی اصول الفقه، به کوشش محمدرضا انصاری، قم، 1376هجری شمسی.
- طوسی، الفهرست، به کوشش محمد صادق آل بحرالعلوم، نجف، 1380هجری قمری/1960عیسوی.
- طحاوی، احمدبن محمد ، شرح مشکل الا´ثار ، شعیب ارنؤوط ، بیروت 1408هجری قمری/1987عیسوی؛
- عماری، احمد عبدالله، مقدمه بر اعـلام العالم ابنجوزی، پـایان نامۀ دانشگاه ملک عبدالعزیز مکه، 1397- 1398هجری قمری.
- کلینی، محمد، الکافی، به کوشش علی اکبر غفاری، تهران، 1391هجری قمری.
- قرطبی، محمد، الجامع لاحکام القرآن، به کوشش احمد عبدالعلیم بردونی، قاهره، 1972عیسوی۔
- محقق حلی، جعفر، معارج الاصول، به کوشش محمدحسین رضوی، قم، 1403هجری قمری.
- المغربی، القاضی النعمان بن محمد، تاویل الدعائم الاسلام، تحقیق عارف تامر، بیروت، دارالاضواء، 1415هجری قمری/1373هجری شمسی۔
- مفید، محمد، اوائل المقالات، به کوشش ابراهیم انصاری، قم، 1414هجری قمری/1993عیسوی.