شیطانی آیات (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | سلمان رشدی |
موضوع | ناول |
زبان | انگریزی |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | وایکینگ |
مقام اشاعت | انگلینڈ |
سنہ اشاعت | 26 ستمبر 1988 ء |
شیطانی آیات (The Satanic Verses) بھارتی نژاد برطانوی ناول نگار سلمان رشدی کے اس ناول کو کہا جاتا ہے جس کا مرکزی خیال غرانیق کی روایت کی طرف اشارہ ہے جسے مسلمانوں نے غیر معتبر قرار دیا اور غرانیق کا افسانہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس نقل کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے سورہ نجم کی 19ویں اور 20ویں آیت کی تلاوت کے دوران ایسا مضمون زبان پر جاری کیا جو شیطانی وسوسہ تھا۔ بہت سارے ناقدین اور قارئین کی نظر میں اس ناول میں پیغمبر اکرمؐ کو «ماہوند» کی توہین کرنے والا قرار دیتے ہوئے قرآن کریم کو بھی داستان، افسانہ اور شیطانی خیالات پر مشتمل قرار دینے کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرمؐ کے بعض اصحاب کو بھی توہین آمیز القاب سے یاد کیا ہے اور ازواج پیغمبر اکرمؐ پر بھی اخلاقی برائیوں کا الزام لگایا ہے۔
26 ستمبر سنہ 1988ء کو شیطانی آیات نامی ناول نشر ہونے پر مسلمان، عیسائی اور یہودیوں کی طرف سے بہت سارے اعتراضات ہوئے، جبکہ بھارت، پاکستان، اٹلی، کینیڈا اور مصر میں سلمان رشدی اور اس کے ناول کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ اور اس کتاب کو بیچنے والی بعض دکانوں کو نذر آتش کیا گیا۔ اسی طرح ویٹیکن کے سرکاری اخبار میں سلمان رشدی اور اس کی کتاب کی مذمت کی گئی۔ افرام شابیرا اور اشکنازی یہودی خاخام نے اسرائیل میں اس کتاب کی نشر و اشاعت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ 14 فروری سنہ 1989 کو ایران میں اسلامی انقلاب کے بانی اور رہبر امام خمینی نے اس کتاب کی مذمت کی اور اس کے لکھنے والے کو پھانسی کا مستحق قرار دیا اور سلمان رشدی کو قتل کرنے میں اگر کسی کی جان چلی جائے تو اسے شہید کہا۔ جبکہ دوسرے پیغام میں سلمان رشدی کے توبہ کو بھی غیر قابل قبول قرار دیا۔ امام خمینی کے فتوے کے بعد سلمان رشدی مخفی زندگی کرنے پر مجبور ہوگیا اور مسلمانوں کے احساسات کو ٹھیس پہنچانے کے بعد پھر معذرت خواہی بھی اس کے پھانسی کے حکم سے جان چھڑانے میں کار آمد ثابت نہیں ہوئی۔
اس کتاب کے نقد میں فارسی زبان میں عطاء اللہ مہاجرانی کی کتاب «نقد توطئہ آیات شیطانی»، نصراللہ پورجوادی کا ایک مقالہ اور محمد صادقی تہرانی و مصطفی حسینی طباطبایی، کے دو کتابچے موجود ہیں۔ عطاءاللہ مہاجرانی نے چار مشہور مستشرقین جیسے نولدکہ کی طرح سلمان رشدی کو قرآن کریم کی اصالت کا انکار کرنے والوں میں سے قرار دیا ہے۔
ناول نگار
سلمان رشدی سنہ1947ء کو ہندوستان کے شہر بمبئ میں پیدا ہوا۔[1] ابتدائی تعلیم عیسائیوں کے ایک انگلش سکول میں حاصل کی۔ ان کی فیملی کا انگلستان کی طرف سفر کے بعد کیمبرج کالج میں داخلہ لیا۔ رشدی 1968ء میں پاکستان چلا گیا اور ٹی وی چینل پر کام کرنے لگا، لیکن ایک سال کے بعد دوبارہ انگلستان لوٹ آیا اور برطانیہ کی شہریت انتخاب کیا۔[2]
سلمان رشدی ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوا اور شیطانی آیات سے پہلے تین دیگر ناولز: "مڈ نائٹس چلڈرن" (آدھی رات کے بچے)، «شرم» (Shame)اور «مور کی آخری آہ» (The Moor's Last Sigh) لکھ چکا تھا۔[3] چاروں آثار کو برصغیر کے کلچر سے مربوط جانا گیا ہے۔[4]امام خمینی کی طرف سے سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کے فتوے کے بعد سلمان رشدی اپنے گھرانے سے دور مخفی زندگی بسر کرنے لگا۔[5]
کتاب کی اشاعت
شیطانی آیات نامی کتاب پہلی بار 547 صفحات پر مشتمل، 26 ستمبر سنہ 1988ء کو پنگوئن پبلشرز انگلستان سے انگریزی زبان میں چھپی[6]اور اب تک 140 سے زیاد مرتبہ دنیا کے مختلف خطے اور مختلف زبانوں میں چھپ چکی ہے۔ زبانوں میں عربی، اسپانیایی، جرمنی، چینی، روسی اور فارسی سر فہرست ہیں۔[7] آیات شیطانی، در همان سال برنده جایزه ادبی کاستا شد.[8] یہ ناول ادبی بوکر انعام کے لیے 1988ء میں منتخب ہوئی لیکن انعام اپنے نام نہ کر سکی۔[9] لہذا اشپیگل میگزین کے مطابق سلمان رشدی نے کتاب کی نشر و اشاعت سے پہلے 15 لاکھ مارک کتاب کے ناشر سے ایڈوانس دریافت کیا تھا جو اس دن تک ایک خطیر رقم سمجھی جاتی تھی۔[10]
مضمون
شیطانی آیات نامی کتاب کا نام غرانیق کے افسانے کی طرف اشارہ ہے۔ مذکورہ روایات کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے سورہ نجم کی 19ویں اور 20ویں آیت کی تلاوت کے دوران ایسی آیات کی تلاوت کی جن میں بتوں کی شفاعت کا تذکرہ تھا اور اسی رات جبرئیل پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئے اور آپ کو تذکر دیا کہ وہ آیات شیطانی وسوسے تھے۔[11]اکثر شیعہ اور اہل سنت علما غرانیق کی روایات کو افسانہ سمجھتے ہیں۔[12]
شیطانی آیات کی نو فصلیں ہیں؛ 1- جبرئیل فرشتہ، 2- ماہوند، 3- الوون دئوون، 4- عائشہ، 5- آشکار اور مخفی شہر، 6- دور جاہلیت کی طرف بازگشت، ۷- عزرائیل فرشتہ، ۸- بحر عرب کو دو حصوں میں تقسیم کرنا، ۹- تعجب آور چراغ۔[13] اس ناول میں پیغمبر اکرمؐ کو ماہوند سے یاد کیا ہے؛ جو شیطان کے تجسم کا ایک نام ہے کہ جو قرون وسطی میں اسلام دشمن عناصر کی طرف سے پیغمبر اکرمؐ پر جھوٹے الزامات لگانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔[14]اسی طرح شیطانی آیات میں رشدی قرآن مجید کو بھی ایک داستان، افسانہ اور شیطانی خیالات پر مشتمل کتاب خیال کرتا ہے[15] شیطانی آیات کے دیگر حصے میں پیغمبر اکرم کی ازواج پر غیر اخلاقی تہمت لگائی گئی ہے۔[16] مصنف کعبہ کے گرد طواف کو ایک لمبی قطار کی شکل میں پیش کرتا ہے جس میں لوگ فحاشی کے اڈے میں جانے کی انتظار کر رہے ہیں۔[17]اس کتاب میں پیغمبر اکرمؐ کے بعض اصحاب جیسے بلال حبشی اور سلمان فارسی کو سیاہ فام دیو اور انسانی دنیا کی پست موجود سے تعبیر کیا ہے۔[18]
رد عمل
شیطانی آیات کی اشاعت پر بہت شدید رد عمل سامنے آیا، مختلف ممالک میں مسلمانوں کے اعتراض آمیز مظاہرے، کتاب کی نشر پر پابندی یا دھمکی، ترجمہ کرنے والوں کو قتل کی دھمکی یہاں تک کہ نیویارک کے اسقف، ویٹیکن سیٹی کے سرکاری اخبار اور یہودی بلند پایہ خاخام کی طرف سے سلمان رشدی کی مذمت، امام خمینی کی طرف سے واجب القتل قرار دے کر فتوی اور 15 خرداد فاونڈیشن کی طرف سے سلمان رشدی کے سر کی قیمت کا اعلان نیز اس ناول کے نقد میں مختلف آثار لکھ دینا ان تمام اعتراضات اور عکس العمل میں سے کچھ ہیں۔
مسلمانوں کے اعتراضات
5 اکتوبر سنہ 1988ء کو بھارت میں شیطانی آیات کی اشاعت پر پابندی لگی اور انڈیا کی حکومت نے اس کتاب کے مضمون کو مذہب کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے خطرناک کتابوں میں سے قرار دیا۔[19]
پاکستان، ہندوستان، تھائی لینڈ، جرمنی، کینیڈا، اٹلی، سوڈان، اور مصر جیسے دنیا کے مختلف ممالک مسلمانوں نے سلمان رشدی کے خلاف مظاہرے کیا اور شیطانی آیات بیچنے والی بعض دکانوں کو نذر آتش کیا[20] ان مظاہروں میں بعض لوگ زخمی اور بعض مارے گئے۔[21]
شیطانی آیات کے ترجمے پر مختلف ممالک میں مسلمانوں نے عکس العمل دکھایا؛ جیسے کردی زبان میں ترجمہ کرنے والے مترجم؛ برمک بہداد قتل کی دھمکی کے بارے میں کہتا ہے اور عراق کا علاقہ سلیمانیہ کردستان کے خلق نامی میگزین نے شیطانی آیات کے کردی ترجمہ کا پہلا حصہ نشر کرنے کے بعد باقی حصے کو نشر کرنے سے معذرت کر لی[22] ترکی زبان میں ترجمہ کرنے والا عزیز نسین، جاپانی زبان کا مترجم، ہیتوشی ایگاریشی، اور فارسی ترجمہ کو نشر کرنے والے داوود نعمتی کو جرمنی میں دھمکی ملی یا مارے گئے۔[23]
عیسائیوں اور یہودیوں کی طرف سے مذمت
امریکہ نیوبورک میں کیتھولک اسقف، کاردینال اوکونر نے شیطانی آیات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس ناول کو نہ پڑھا ہے اور نہ ہی پڑھے گا۔[24] ویٹیکن کے سرکاری اخبار نے بھی، سلمان رشدی اور ناول کی مذمت کی۔[25] ہارتلی شوکرس،(Hartley Shawcross)انگلستان کے مشہور حقوقدان نے سلمان رشدی پر آزادی سے غلط فائدہ اٹھانے کا الزام لگایا ہے۔[26] افرام شابیرا، اسرائیل میں یہودی اشکنازی خاخام نے شیطانی آیات کو دینی اور غیر دینی دونوں اعتبار سے محکوم کیا اور ملک کے اندر اس کی اشاعت پر پابندی کا مطالبہ کیا۔[27]
اسی طرح عبرانی طائفوں کے خاخام امانوئل ژاکوبو ویتز ایسے قانون بنانے کا مطالبہ کر گئے جس میں عقائد کی توہین ممنوع ہو۔[28] اس کے علاوہ امریکہ کے کیتھولیک اسقفوں کے سالانہ اجلاس، جنوبی امریکہ کے تعمیدی کلیساوں کے اجلاس، متحدہ میتھوڈسٹ کلیسا امریکہ، پروٹسٹنٹ کلیسا امریکہ، امریکہ میں اخلاقی اکثریتی طرفدار تحریک کے سربراہ وگری و الویل وغیرہ نے شیطانی آیات نامی کتاب کی مذمت کی۔[29]
بسمہ تعالی
انا للہ و انا اليہ راجعون
پورے عالم کے غیور مسلمانوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف تحریر کی گئی کتاب «شیطانی آیات» کا مؤلف سمیت اس کتاب کے مضمون سے آگاہی رکھنے کے باوجود اسے شایع کرنے والے ناشرین سب واجب القتل ہیں. میں تمام غیور مسلمانوں سے درخواست ہوں کہ ان افراد کو جہاں بھی پائیں انہیں قتل کر ڈالیں تا کہ اس کے بعد کوئی بھی مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کی جرأت نہ کرسکے اور جو بھی اس راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے ان شاء اللہ. اگر کتاب کا مؤلف کسی کی دسترس میں ہے مگر وہ اس کو قتل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس کی اطلاع دوسرے مسلمانوں کو دیں تا کہ وہ اپنے عمل کی سزا پائے۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.
امام خمینی، صحیفه امام، ۱۳۸۹ش، ج۲۱، ص۲۶۳
پھانسی کا حکم
امام خمینی نے 8 رجب 1409ھ بمطابق 14 فروری سنہ 1989ء کو ایک پیغام میں شیطانی آیات نامی کتاب کے مصنف کو اسلام، پیغمبر اکرمؐ اور قرآن کے خلاف کتاب لکھنے اور شائع کرنے پر واجب القتل قرار دیا۔[30]امام خمینی نے کتاب کے مضمون کے بارے میں آگاہی رکھتے ہوئے کتاب کو چھاپنے والے کے خلاف بھی پھانسی کا حکم سنایا اور غیرتمند مسلمانوں سے درخواست کی کہ یہ لوگ جہاں کہیں ملیں ان کا سر قلم کردو تاکہ کوئی اور اس طرح سے اسلامی مقدسات کی توہین کی جسارت نہ کر سکے۔[31]اس راہ میں مر جانے والے کو امام خمینی نے شہید قرار دیا۔[32]
اسی سال 18 فروری کو امام خمینی کے دفتر سے ایک بیان جاری ہوا جس میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی طرف سے امام خمینی کا حکم سلمان رشدی کے توبہ کرنے پر لغو ہونے کی خبر کی تکذیب کی گئی۔ اور اس بات پر زور دیا گیا کہ «سلمان رشدی اگر توبہ بھی کرے اور زمانے کا سب سے بڑا زاہد بھی بنے تب بھی ہر مسلمان پر واجب ہے کہ جانی اور مالی تمام کوششوں کو بروے کار لاتے ہوئے اسے واصل جہنم کریں»[33]اس بیانیہ کے دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی غیر مسلم کو سلمان رشدی کی جگہ کا پتہ چلے اور اسے قتل کرے تو مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس شخص کو انعام اور اجرت دیں۔[34]
امام خمینی کا سلمان رشدی کے واجب القتل ہونے کے حکم پر مختلف ممالک میں وسیع پیمانے پر استقبال کیا گیا؛ جیسے ایران، لبنان، انگلستان کے مسلمان،[35] اور ترکی میں اس حکم کی حمایت سامنے آئی۔[36]اسی طرح لبنان کے 21 سالہ جوان مصطفی محمود مازح، نے امام خمینی کے اس حکم کے بعد سلمان رشدی کو قتل کرنے کی کوشش کری اور اپنے بدن پر دھماکہ خیز مواد باندھ کر اس ہوٹل میں گیا جہاں سلمان رشدی تھا لیکن سلمان رشدی تک پہنچنے سے پہلے دھماکہ ہوا اور خود مر گیا۔[37]امام خمینی کی طرف سے سلمان رشدی کے خلاف قتل کا حکم سامنے آنے کے بعد سلمان رشدی مخفی زندگی کرنے پر مجبور ہوا یہاں تک کہ گھر والوں سے رابطہ بھی اس حکم کی وجہ سے متاثر ہوا[38] یہاں تک کہ لوگوں کو غصہ دلانے پر معذرت خواہی بھی کسی کام نہ آسکی۔[39]
لیکن مکہ میں «رابطۃ العالم الاسلامی» کے مرکز نے شیطانی آیات کو کفر پر مشتمل ایک کتاب قرار دیا لیکن سلمان رشدی کے پھانسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔[40]اسی طرح جامع الازہر کے ہیئت فتوی کے صدر عبداللہ مرشدی نے بھی ایک بیانیے میں آیات شیطانی نامی کتاب کو اسلامی اصول اور ضوابط کے منافی جانا۔[41]شیخ محمد سید طنطاوی نے سلمان رشدی کی کتاب کے مقابلے میں بہترین راستہ یہ ہے کہ اس کا مطالعہ کیا جائے اور اس کے نقد میں لکھا جائے تاکہ اس کی غلطیوں کا پتہ چل سکے۔[42]
سر کی قیمت
امام خمینی کی طرف سے شیطانی آیات کے مصنف سلمان رشدی کے خلاف قتل کا حکم آنے کے بعد 15 خرداد فاونڈیشن نے سلمان رشدی کو قتل کرنے والے کو دو میلین ڈالر انعام کا اعلان کیا۔[43] 15 خرداد فاونڈیشن کے سربراہ اور نمایندہ ولی فقیہ، حسن صانعی، نے ستمبر 2012 میں پیغمبر اکرمؐ کے خلاف بننے والی توہین آمیز فیلم کو محکوم کرنے کے ساتھ ساتھ سلمان رشدی کے سر کی قیمت کو بڑھا کر 33 لاکھ ڈالر قرار دیا۔[44]ان کا کہنا ہے کہ سلمان رشدی کی پھانسی سے اسلام اور پیغمبر اکرمؐ کے خلاف بننے والے کارٹون، مقالات اور فیلمیں رک سکتی ہیں۔[45]
ایران اور انگلستان کے سفارتی تعلقات ختم
امام خمینی کے حکم کے بعد انگلستان کی حکومت نے اس بہانے سے کہ اس کے ایک شہری کے خلاف یہ حکم آیا ہے، اپنے سفیر کو تہران سے واپس بلایا ہے ساتھ میں پورپی اقتصادی یونین کے ممبر 12 ممالک؛ جیسے اسپین، فرانس اور اٹلی نے بھی اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا۔ اسی طرح ایران کی پارلیمنٹ نے بھی مارچ 1989 میں انگلستان سے سیاسی رابطہ ختم کرنے کا بل پاس کیا۔[46]
لیکن 27 ستمبر سنہ 1990 کو انگلستان کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے دین اسلام کے احترام کی تصریح کی اور اسی بنا پر دوبارہ روابط برقرار ہوگئے۔[47]
انتقادی آثار
شیطانی آیات کے نقد میں لکھی جانے والی کتابوں میں عطاءاللہ مہاجرانی کی فارسی زبان میں لکھی گئی کتاب «نقد توطئہ آیات شیطانی» سب سے مفصل اور سب سے زیادہ چھپنے والی کتاب ہے۔[48]یہ کتاب 1989ء میں انتشارات مؤسسہ اطلاعات نے چھاپ دیا[49]اور سنہ 2007ء تک 25 مرتبہ چھپ گئی۔[50] کتاب نقد توطئہ آیات شیطانی، اور سنہ 1992ء میں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ہوگیا۔[51] مہاجرانی کا کہنا ہے کہ سلمان رشدی نے مشہور چار مستشرقین؛تئودور نولدکہ، ویلیام موئر، مونتگمری وات و گلدزیہر کی طرح حدیث غرانیق کو مان کر قرآن کریم کی حقانیت پر سوال اٹھایا ہے[52]
ایران میں فلسفہ کے استاد نصراللہ پورجوادی نے سنہ 1990ء میں شیطانی آیات کے ناول کو تکلیف دہ اور رنج آور قرار دیا اور اسے فرشتوں کی توہین، انبیاء الہی کے خلاف ناسزا گوئی، پیغمبر اکرمؐ، صحابہ اور ازواج نبی کے خلاف ناسزا قرار دیا۔[53] پورجوادی شیطانی آیات کے بعض مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کتاب میں ایران کے اسلامی نقلاب کے خلاف بھی اشارے کنایوں میں تحقیر کی ہے۔[54]
محمد صادقی تہرانی نے 26 رمضان المبارک سنہ 1409ھ کو 40 صفحوں پر مشتمل ایک کتابچہ لکھا جس میں سلمان رشدی کو عصر کا شیطان قرار دیا۔[55] صادقی تہرانی کہ کہنا ہے کہ سلمان رشدی نے نہ فقط پیغمبر اکرمؐ بلکہ جبرئیل امین، صحابہ، اور ازواج پیغمبر کے خلاف ناروا کہا ہے اور ان پر تہمت لگایا ہے۔[56]
مصطفی حسینی طباطبایی نے بھی 1368 ہجری شمسی کو 40 صفحوں پر مشتمل ایک کتابچہ «حقارت سلمان رشدی» نشر کیا جس میں سلمان رشدی کے کام کو سیاسی سازش قرار دیتے ہوئے اسے علمی اور تحقیقی میدان سے اجنبی قرار دیا۔[57] حسینی طباطبایی، شیطانی آیات کو صلیبی جنگوں کے بعد والی قدیم اسلام دشمنی کا تسلسل قرار دیا جس میں عیسائیوں نے پیغمبر اکرمؐ کے خلاف جھوٹے اور غیر اخلاقی افسانے بنایا تاکہ اسلام کا چہرہ اور اسلامی کلچر کو بدنام کرے۔[58]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ اسپراکمن، «آیہ ہای شیطانی و ترجمہ ہای فارسی آن در ایران»، ص۸۱۰.
- ↑ واعظزاده خراسانی، «سمینار مقدماتی تبیین حکم امام...»، ص۱.
- ↑ اسپراکمن، «آیہ ہای شیطانی و ترجمہ ہای فارسی آن در ایران»، ص۸۱۰.
- ↑ اسپراکمن، «آیہ ہای شیطانی و ترجمہ ہای فارسی آن در ایران»، ص۸۱۰.
- ↑ اسپراکمن، «آیہ ہای شیطانی و ترجمہ ہای فارسی آن در ایران»، ص۸۱۱.
- ↑ .«The Satanic Verses»
- ↑ .«The Satanic Verses > Editions»
- ↑ «Rushdie's Banned Novel Gets Whitbread Prize».
- ↑ «The Man Booker Prize».
- ↑ ابو حسین، آزادی ابراز عقیده، ۱۳۷۱ش، ص۲۱.
- ↑ مکارم شیرازی، یکصد و هشتاد پرسش و پاسخ، ۱۳۸۶ش، ص۶۷۹.
- ↑ آلوسی، تفسیر روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۱۷، ص۱۷۷؛ سید قطب، فی ظلال القرآن،۱۴۱۲ق، ج۴، ص۲۴۳۲؛ مکارم شیرازی، ناصر، یکصد و هشتاد پرسش و پاسخ، ۱۳۸۶ش، ص۶۷۹.
- ↑ درویشی سہتلانی، «رفتارشناسی سیاسی امام خمینی در برخورد با کتاب آیات شیطانی»، ص۱۲۶.
- ↑ پارسا، «روحانیت مسیحی و تداوم رویکرد جدلی نسبت به قرآن کریم»، ص۱۴۶.
- ↑ درویشی سہتلانی، «رفتارشناسی سیاسی امام خمینی در برخورد با کتاب آیات شیطانی»، ص۱۲۶.
- ↑ رشدی، آیات شیطانی، مقدمہ، ص۳.
- ↑ ابو حسین، آزادی ابراز عقیده، ۱۳۷۱ش، ص۱۷.
- ↑ ابوحسین، آزادی ابراز عقیده، ۱۳۷۱ش، ص۱۷.
- ↑ اسپراکمن، «آیہ ہای شیطانی و ترجمہ ہای فارسی آن در ایران»، ص۸۱۰.
- ↑ اسپراکمن، «آیہ ہای شیطانی و ترجمہ ہای فارسی آن در ایران»، ص۸۱۰؛ رضوانی، بررسی حکم امام خمینی درباره سلمان رشدی، ۱۳۸۸ش، ص۱۲۶-۱۲۷.
- ↑ اسپراکمن، «آیہ ہای شیطانی و ترجمہ ہای فارسی آن در ایران»، ص۸۱۰؛ رضوانی، بررسی حکم امام خمینی درباره سلمان رشدی، ۱۳۸۸ش، ص۱۲۶.
- ↑ «آیہ ہای شیطانی، تحت تعقیب در سلیمانیه!».
- ↑ «آیہ ہای شیطانی، تحت تعقیب در سلیمانیہ!».
- ↑ جلال العظم، سلمان رشدی و حقیقت در ادبیات، ۱۳۷۸ش، ص۱۲۳.
- ↑ جلال العظم، سلمان رشدی و حقیقت در ادبیات، ۱۳۷۸ش، ص۱۲۳.
- ↑ جلال العظم، سلمان رشدی و حقیقت در ادبیات، ۱۳۷۸ش، ص۱۲۳.
- ↑ جلال العظم، سلمان رشدی و حقیقت در ادبیات، ۱۳۷۸ش، ص۱۲۳.
- ↑ جلال العظم، سلمان رشدی و حقیقت در ادبیات، ۱۳۷۸ش، ص۱۲۴.
- ↑ جلال العظم، سلمان رشدی و حقیقت در ادبیات، ۱۳۷۸ش، ص۱۲۴.
- ↑ خمینی، صحیفہ امام، ۱۳۸۹ش، ج۲۱، ص۲۶۳.
- ↑ خمینی، صحیفہ امام، ۱۳۸۹ش، ج۲۱، ص۲۶۳.
- ↑ خمینی، صحیفہ امام، ۱۳۸۹ش، ج۲۱، ص۲۶۳.
- ↑ خمینی، صحیفہ امام، ۱۳۸۹ش، ج۲۱، ص۲۶۸.
- ↑ خمینی، صحیفہ امام، ۱۳۸۹ش، ج۲۱، ص۲۶۸.
- ↑ شیرعلینیا، روایتی از زندگی و زمانہ ہاشمی رفسنجانی، ۱۳۹۵، ص۵۲۸.
- ↑ ابوحسین، آزادی ابراز عقیدہ، ۱۳۷۱ش، ص۱۷۰.
- ↑ «تیری کہ بر ہدف خواہد نشست».
- ↑ عزیزپور، «سلمان رشدی ۲۴ سال پس از آیات شیطانی».
- ↑ عزیزپور، «سلمان رشدی ۲۴ سال پس از آیات شیطانی».
- ↑ رضوانی، بررسی حکم امام خمینی دربارہ سلمان رشدی، ۱۳۸۸ش، ص۱۲۹.
- ↑ رضوانی، بررسی حکم امام خمینی دربارہ سلمان رشدی، ۱۳۸۸ش، ص۱۲۹.
- ↑ رضوانی، بررسی حکم امام خمینی دربارہ سلمان رشدی، ۱۳۸۸ش، ص۱۳۰.
- ↑ مالونی، «بنیادہای موازی دولت و چالش توسعہ در ایران»، ص۱۱.
- ↑ «افزايش جايزہ اجراي حكم اعدام سلمان رشدي توسط بنياد 15 خرداد».
- ↑ «افزايش جايزہ اجراي حكم اعدام سلمان رشدي توسط بنياد 15 خرداد».
- ↑ محبینیا، «روابط سینوسی ایران و انگلیس پس از انقلاب اسلامی»، ص۵۸.
- ↑ محبینیا، «روابط سینوسی ایران و انگلیس پس از انقلاب اسلامی»، ص۵۸.
- ↑ اسپراکمن، «آیہ ہای شیطانی و ترجمہ ہای فارسی آن در ایران»، ص۸۱۵.
- ↑ «نقد توطئہ آیات شیطانی».
- ↑ «نقد توطئہ آیات شیطانی».
- ↑ « A critique on the machination of the "Satanic verses"»
- ↑ اسپراکمن، «آیہ ہای شیطانی و ترجمہ ہای فارسی آن در ایران»،ص۸۱۵.
- ↑ پورجوادی، «آیہ ہای شیطانی و مسألہ تمدن غرب»، ص۳.
- ↑ پورجوادی، «آیہ ہای شیطانی و مسألہ تمدن غرب»، ص۳.
- ↑ صادقی تہرانی، آیات رحمانی، ۱۴۰۹ق، ص۱۳.
- ↑ صادقی تہرانی، آیات رحمانی، ۱۴۰۹ق، ص۱۳.
- ↑ حسینی طباطبایی، حقارت سلمان رشدی، ۱۳۶۸ش، ص۹.
- ↑ حسینی طباطبایی، حقارت سلمان رشدی، ۱۳۶۸ش، ص۱۱.
مآخذ
- آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق علی عبدالباری عطیۃ، بیروت، ناشر دارالکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۴۱۵ھ۔
- «آیاتی کہ شیطان نوشت»، سایت مشرقنیوز، تاریخ درج مطلب: ۲۹ بہمن ۱۳۹۰شمسی ہجری، اخذ شدہ بتاریخ: ۲۸ آبان ۱۳۹۷شمسی ہجری۔
- ابوحسین، آزادی ابراز عقیدہ، ترجمہ احمد بہپور، تہران، سازمان تبلیغات اسلامی، پاییز ۱۳۷۱شمسی ہجری۔
- «افزایش جایزہ اجرای حکم اعدام سلمان رشدی توسط بنیاد ۱۵ خرداد»، سایت خبرگزاری ایسنا، تاریخ درج مطلب: ۲۵ شہریور ۱۳۹۱شمسی ہجری، اخذ شدہ بتاریخ: ۲ آذر ۱۳۹۷شمسی ہجری۔
- اسپراکمن، پال، «آیہ ہای شیطانی و ترجمہ ہای آن در ایران»، در مجلہ ایرانشناسی، ش۵۶، زمستان ۱۳۸۱شمسی ہجری۔
- پارسا، فروغ، «روحانیت مسیحی و تداوم رویکرد جدلی نسبت بہ قرآن کریم»، در مجلہ بینات، ش۶۶، تابستان ۱۳۸۹شمسی ہجری۔
- پورجوادی، نصراللہ، «آیہ ہای شیطانی و مسألہ تمدن غرب»، در مجلہ نشر دانش، ش۵۱، فروردین و اردیبہشت ۱۳۶۸شمسی ہجری۔
- «تیری کہ بر ہدف خواہد نشست»، سایت دفتر حفظ و نشر آثار آیت اللہ خامنہای، تاریخ درج مطلب: ۲۵ بہمن ۱۳۹۴شمسی ہجری۔، اخذ شدہ بتاریخ: ۲ آذر ۱۳۹۷شمسی ہجری۔
- جلال العظم، صادق، سلمان رشدی و حقیقت در ادبیات، ترجمہ تراب حقشناس، ہامبورگ، سنبلہ، آذر ۱۳۷۸شمسی ہجری۔
- حسینی طباطبایی، مصطفی، حقارت سلمان رشدی، تہران، شرکت سہامی انتشار، پاییز ۱۳۶۸شمسی ہجری۔
- امام خمینی، روح اللہ، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ویرایش سوم، ۱۳۷۸شمسی ہجری۔
- درویشی سہتلانی، فرہاد، «رفتارشناسی سیاسی امام خمینی در برخورد با کتاب آیات شیطانی»، در فصلنامہ مطالعات انقلاب اسلامی، ش۹و۱۰، تابستان و پاییز ۱۳۸۶شمسی ہجری۔
- رشدی، سلمان، آیات شیطانی، ترجمہ روشنک ایرانی، بیجا، بیتا، بینا.
- رضوانی، علیاصغر، بررسی حکم امام خمینی دربارہ سلمان رشدی، قم، مسجد مقدس جمکران، ۱۳۸۸شمسی ہجری۔
- سید قطب، فی ظلال القرآن، بیروت و قاہرہ، دارالشروق، چاپ ہفدہم، ۱۴۱۲ھ۔
- شیرعلینیا، جعفر، روایتی از زندگی و زمانہ ہاشمی رفسنجانی، تہران، نشر سایہ، ۱۳۹۵شمسی ہجری۔
- صادقی تہرانی، محمد، آیات رحمانی، ۱۴۰۹ھ۔
- عزیزپور، مسعود، «سلمان رشدی ۲۴ سال پس از آیات شیطانی»، سایت بیبیسی فارسی، تاریخ درج مطلب: ۲۷ شہریور ۱۳۹۱ش، اخذ شدہ بتاریخ: ۲۸ آبان ۱۳۹۷شمسی ہجری۔
- مالونی، سوزان، «بنیادہای موازی دولت و چالش توسعہ در ایران»، در مجلہ گفتگو، ش۳۹، اسفند ۱۳۸۲شمسی ہجری۔
- محبینیا، جہان بخش و دیگران، «روابط سینوسی ایران و انگلیس پس از انقلاب اسلامی»، در فصلنامہ مطالعات روابط بین الملل، ش۲۶، تابستان ۱۳۹۳شمسی ہجری۔
- مکارم شیرازی، ناصر، یکصد و ہشتاد پرسش و پاسخ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۳۸۶شمسی ہجری۔
- واعظزادہ خراسانی، محمد، «سمینار مقدماتی تبیین حکم امام دربارہ نویسندہ کتاب آیات شیطانی»، در مجلہ مشکوۃ، ش۳۰، بہار ۱۳۷۰شمسی ہجری۔