سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار (کتاب)

ویکی شیعہ سے
سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار
مشخصات
مصنفشیخ عباس قمی
موضوعحدیث
زبانعربی
طباعت اور اشاعت
ناشردار الاسوہ قم
سنہ اشاعت۱۳۴۴ھ


سَفینَۃ البِحار و مَدینَۃ الحِکَمِ و الآثار مَعَ تَطبیقِ النُّصوصِ الواردَۃ فیہا عَلی بِحارِالأنوار، سفینۃ البحار کے نام سے مشہور، شیعہ جوامع حدیث میں سے ایک ہے جسے شیخ عباس قمی نے لکھا ہے۔ مؤلف نے ایک موضوعی فہرست کو الف ب کے تحت مرتب کرکے علامہ مجلسی کی کتاب بحار الانوار کی احادیث کو 1700 سے زیادہ موضوعات میں مرتب کیا ہے۔

کچھ مصنف کے بارے میں

عباس بن محمد رضا القمی (1294-1359 ھ) شیخ عباس قمی کے نام سے مشہور ہیں، آپ قمی محدث اور چودہویں صدی کے مشہور عالم تھے۔ آپ علم حدیث، تاریخ نیز وعظ و خطاب میں بھی بڑے مایہ ناز رہے ہیں۔ شیخ عباس قمی کی بہت ساری تالیفات ہیں ان میں سے مشہور مفاتیح الجنان، سفینۃ البحار اور منتہی الآمال ہیں۔ محدث قمی نے سنہ 1359 ھ میں نجف میں وفات پائی اور حرم علی بن ابیطالبؑ میں دفن ہوئے۔

کتاب لکھنے کی وجہ

محدث قمی نے کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے کہ بحارالانوار کے بہت سارے مطالب مناسب جگہ پر ذکر نہیں ہوئے ہیں اسی لئے اس کتاب کو لکھا ہے تاکہ محققین کے اپنے مقصد تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہو سکے۔[1]

خصوصیات

  1. کتاب کے موضوعات الف ب کی ترتیب سے ہر موضوع کے اصلی حروف کے مطابق مرتب ہوئے ہیں۔ پڑھنے والا بآسانی 1700 موضوعات کو حاصل کر سکتا ہے اور ہر موضوع میں بھی مختلف موضوعات شامل ہیں۔
  2. یہ کتاب بحارالانوار کا ایک خلاصہ ہے جس میں مولف نے کوشش کی ہے کہ پڑھنے والے کو روایات بآسانی مل سکیں۔ مؤلف نے حدیث اور علم رجال میں اپنی مہارت کے پیش نظر احادیث کو منتخب کیا ہے۔ مثال کے طور پر «علم» کے مادہ کے ذیل میں بحار الانوار کے کتاب العلم سے صرف ابتدائی اور آخری آیت کو لے آیا ہے اور 122 احادیث میں سے صرف دو حدیثوں کو انتخاب کیا ہے۔ اسی طرف چھٹے باب تک کوئی بھی آیت یا حدیث ذکر نہیں کیا ہے اور چھٹے باب میں صرف ایک آیت ذکر کیا ہے۔ پھر ساتویں باب کو چھوڑ دیا ہے اور آٹھویں باب کے 13 آیات میں صرف ایک آیت اور 92 روایات میں سے صرف ایک روایت پر اکتفا کیا ہے۔
  3. سفینۃ البحار کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ مؤلف نے صرف اسی باب کی روایت پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اس باب سے مربوط نکات جنہیں کتاب کے دوسرے حصوں سے پایا ہے ان کا بھی حوالہ دیا ہے۔
  4. عناوین کو زیادہ آشنا عبارت میں لے آیا ہے؛ اگر کسی شخص کا نام مشہور تھا تو نام ذکر کیا ہے اور اگر کسی کا لقب یا کنیت مشہور تھا تو نام کے بجائے لقب یا کنیت ہی استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر حارث بن سعید کی کنیت مشہور تھی تو اس کی حالات زندگی ابو فراس الحمدانی کے ذیل میں ذکر کیا ہے۔[2] [3]

دیگر جوامع احادیث سے تقابلی جائزہ

اہم حدیثی کتب مصنف متوفی تعداد احادیث توضیحات
المحاسن احمد بن محمد برقی 274 ھ تقریباً 2604 مختف عناوین کا مجموعۂ احادیث
کافی محمد بن یعقوب کلینی 329 ھ تقریباً 16000 اعتقادی، اخلاقی آداب اور فقہی احادیث
من لا یحضر الفقیہ شیخ صدوق 381 ھ تقریباً 6000 فقہی
تہذیب الاحکام شیخ طوسی 460 ھ تقریباً 13600 فقہی احادیث
الاستبصار فیما اختلف من الاخبار شیخ طوسی 460 ھ تقریباً 5500 احادیث فقہی
الوافی فیض کاشانی 1091 ھ تقریباً 50000 حذف مکررات کے ساتھ کتب اربعہ کی احادیث کا مجموعہ اور بعض احادیث کی شرح
وسائل الشیعہ شیخ حر عاملی 1104 ھ 35850 کتب اربعہ اور اس کے علاوہ ستر دیگر حدیثی کتب سے احادیث جمع کی گئی ہیں
بحار الانوار علامہ مجلسی 1110 ھ تقریباً 85000 مختلف موضوعات سے متعلق اکثر معصومین کی روایات
مستدرک الوسائل مرزا حسین نوری 1320 ھ 23514 وسائل الشیعہ کی فقہی احادیث کی تکمیل
سفینہ البحار شیخ عباس قمی 1359ھ 10 جلد بحار الانوار کی احادیث کی الف ب کے مطابق موضوعی اعتبار سے احادیث مذکور ہیں
مستدرک سفینہ البحار شیخ علی نمازی 1405 ھ 10 جلد سفینۃ البحار کی تکمیل
جامع احادیث الشیعہ آیت اللہ بروجردی 1380 ھ 48342 شیعہ فقہ کی تمام روایات
میزان الحکمت محمدی ری شہری معاصر 23030 غیر فقہی 564 عناوین
الحیات محمد رضا حکیمی معاصر 12 جلد فکری اور عملی موضوعات کی 40 فصل

مربوط کتابیں

ترجمے

فارسی زبان میں سفینۃ البحار کے دو ترجمے چھپ چکے ہیں ایک ترجمہ محمد باقر ساعدی خراسانی کا ہے اور دوسرا ترجمہ ہادی صلواتی کا ہے۔

مستدرک سفینۃ البحار نوشتہ نمازی شاہرودی

مستدرک سفینۃ البحار

علی نمازی شاہرودی نے مستدرک سفینۃ البحار کو محدث قمی کی سفینۃ البحار کے تکمیل کی غرض سے لکھا ہے اور یہ کتاب پہلی مرتبہ سنہ 1409 ھ دس جلدوں پر مشتمل بنیاد بعثت کے توسط چھپی۔ [4] جامعہ مدرسین نے بھی اس کتاب کو دوبارہ سے چھاپ دیا۔

موضوعی فہرست

سید مہدی شمس الدین نے موضوعات الاخبار من کتاب سفینۃ البحار نامی کتاب میں سفینۃ البحار کے موضوعات کی فہرست ذکر کی ہے۔ یہ کتاب 128 صفحوں پر مشتمل دار النشر الاسلامی قم کے توسط سنہ 1371 ش میں چھپی۔ [5]

محمد شبر الحسینی کی کتاب لآلی الاخبار من کتاب سفینۃ البحا» چار جلدوں میں تہران انتشارات محبان الحسین کے توسط 1389 ش کو نشر ہوئی۔[6]

اشاعت

سفینۃ البحار کئی بار زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہے:

  • پہلی بار دو جلدوں پر مشتمل سنگی چھاپ کی صورت میں متشر ہوئی ہے۔ اس نسخے میں محدث قمی کے حوالہ جات بحار الانوار کے 25 جلدی نسخے کے مطابق تھے۔
  • آستان قدس رضوی سے وابستہ ادار، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی نے 1416ھ کو دو جلدوں میں اور 1383ش کو چار جلدوں میں چھاپ دیا۔ اور یہ نسخہ علی اکبر الہی خراسانی کے زیر نظر اور ان کے تقریظ کے ساتھ منظر عام پر آگیا۔ اس نسخے میں سفینۃ البحار کی احادیث کے حوالہ جات بحار الانوار کی 110 جلدی نسخے کے مطابق دئے گئے۔ اس کے علاوہ بحار الانوار کی تدوین کے وقت علامہ مجلسی نے جن منابع سے استفادہ کیا تھا ان کا حوالہ بھی دیا گیا۔[7] [8]

حوالہ جات

  1. سفینۃ البحار، مقدمہ کتاب
  2. مقدمہ سفینۃ البحار، ص ۳۲-۳۹.
  3. علی مختاری، سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار
  4. بنیاد محقق طباطبایی
  5. کنسرسیوم محتوای ملی
  6. محدث ربانی، ج۱، ص۴۱۳.
  7. محدث ربانی، ج۱، ص۴۱۳.
  8. بنیاد محقق طباطبایی

مآخذ

  • قمی، عباس، سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار، قم، اسوہ.
  • مختاری، علی، سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار، کتاب ماہ دین، فروردین ۱۳۷۸ - شمارہ ۱۸
  • کنگرہ بزرگداشت، محدث ربانی، نور مطاف، قم، ۱۳۸۹ش.