مندرجات کا رخ کریں

"تحویل قبلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 13: سطر 13:


یہ آیت  قبلہ کی تبدیلی کو بیان کرتی ہے اور اسے آیت قبلہ <ref>علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۱، ص۳۳؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۵.</ref> کے نام سے مشہور ہے ۔  نیز [[سورہ بقرہ]] ۱۴۲ویں،<ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۲، ص۳-۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۱۴.</ref> ۱۴۳ویں <ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۰۷.</ref> اور ۱۵۰ویں <ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۹.</ref>  کو بھی آیات قبلہ سے یاد کرتے ہیں ۔  بعض  مفسرین بقرہ کی  ۱۴۲ تا ۱۴۴ تک کی آیات کو تحویل قبلہ کی آیات سمجھتے ہیں ۔ <ref> طنطاوی، الوسیط، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۹۴.</ref>
یہ آیت  قبلہ کی تبدیلی کو بیان کرتی ہے اور اسے آیت قبلہ <ref>علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۱، ص۳۳؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۵.</ref> کے نام سے مشہور ہے ۔  نیز [[سورہ بقرہ]] ۱۴۲ویں،<ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۲، ص۳-۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۱۴.</ref> ۱۴۳ویں <ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۰۷.</ref> اور ۱۵۰ویں <ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۹.</ref>  کو بھی آیات قبلہ سے یاد کرتے ہیں ۔  بعض  مفسرین بقرہ کی  ۱۴۲ تا ۱۴۴ تک کی آیات کو تحویل قبلہ کی آیات سمجھتے ہیں ۔ <ref> طنطاوی، الوسیط، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۹۴.</ref>
<!--
 
==پیشینه==
==سرگذشت قبلہ==
قبلہ کے ماضی سے متعلق  [[روایات]] اور نظریات مختلف موجود ہیں:
قبلہ کے ماضی سے متعلق  [[روایات]] اور نظریات مختلف موجود ہیں:
*بعض روایات کی بنا پر  [[کعبہ]] زمانۂ [[حضرت آدم (ع) ]] سے قبلہ تھا۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۳۷۵ق، ج۴، ص۱۹۹؛ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۹۲.</ref>  [[حضرت ابراہیم]] (ع) نے  کعبہ کو از سر نو تعمیر کیا ۔<ref> قمی، تفسیر قمی، ج۱، ۱۴۰۴ق، ص۶۲.</ref> اور [[حضرت موسی(ع)]]  نے [[مسجدالاقصی]] کو [[شرک]] اور انحراف سے نجات کیلئے حکم خداوندی سے  [[بیت المقدس]] کو  قبلہ  قرار دیا.<ref>ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ج۱، ۱۳۹۱ق، ص۴۸۳.</ref>
*بعض روایات کی بنا پر  [[کعبہ]] زمانۂ [[حضرت آدم (ع) ]] سے قبلہ تھا۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۳۷۵ق، ج۴، ص۱۹۹؛ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۹۲.</ref>  [[حضرت ابراہیم]] (ع) نے  کعبہ کو از سر نو تعمیر کیا ۔<ref> قمی، تفسیر قمی، ج۱، ۱۴۰۴ق، ص۶۲.</ref> اور [[حضرت موسی(ع)]]  نے [[مسجدالاقصی]] کو [[شرک]] اور انحراف سے نجات کیلئے حکم خداوندی سے  [[بیت المقدس]] کو  قبلہ  قرار دیا.<ref>ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ج۱، ۱۳۹۱ق، ص۴۸۳.</ref>
سطر 21: سطر 21:
*دیگر بعض روایات کی بنا پر  مسلمان  مکہ میں جس طرف منہ کر کے نماز پڑھنا چاہتے پڑھ سکتے تھے لیکن  پیامبر(ص) نے اپنے لیے  بیت المقدس کا انتخاب کیا۔ <ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۱، ص۴۲۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۶.</ref>
*دیگر بعض روایات کی بنا پر  مسلمان  مکہ میں جس طرف منہ کر کے نماز پڑھنا چاہتے پڑھ سکتے تھے لیکن  پیامبر(ص) نے اپنے لیے  بیت المقدس کا انتخاب کیا۔ <ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۱، ص۴۲۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۶.</ref>
*روایات اس کی بھی حکایت کرتی ہیں کہ ہجرت سے پہلے  کعبہ مسلمانوں کا قبلہ تھا۔ <ref>زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۰؛ قرطبی، تفسیر قرطبی، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۱۵۰.</ref> یہ اس بات کا لازمہ ہے کہ قبلہ کی دو مرحلوں میں تبدیلی ہوئی یعنی کعبہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے کعبہ ۔
*روایات اس کی بھی حکایت کرتی ہیں کہ ہجرت سے پہلے  کعبہ مسلمانوں کا قبلہ تھا۔ <ref>زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۰؛ قرطبی، تفسیر قرطبی، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۱۵۰.</ref> یہ اس بات کا لازمہ ہے کہ قبلہ کی دو مرحلوں میں تبدیلی ہوئی یعنی کعبہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے کعبہ ۔
*بعض تفسیری منابع کے مطابق  سورہ بقرہ کی ۱۱۵ ویں آیت : <font color=green>{{حدیث|وَ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ فَأَینَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ}}</font> کو دیکھتے ہوئے  پیامبر(ص) اور مسلمانوں کی  [[تخییر]] کے قائل ہوئے ہیں ۔ <ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۲۰۲.</ref>
*بعض تفسیری منابع کے مطابق  سورہ بقرہ کی ۱۱۵ ویں آیت : <font color=green>{{حدیث|وَ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ فَأَینَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ}}</font> کو دیکھتے ہوئے  پیامبر(ص) اور مسلمانوں کی  [[تخییر]] کے قائل ہوئے ہیں ۔ <ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۲۰۲.</ref> وہ اسکی تائید میں ہجرت سے پہلے [[براء بن معرور]] کے مکہ کے سفر میں کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے اور رسول کی مخالفت نہ کرنے کو ذکر کرتے ہیں
 
<ref>ابن ہشام، السیرة النبویہ، بیروت، ج۱، ص۴۳۹-۴۴۰.</ref> جبکہ اس کے مقابلے میں بعض علما مذکورہ آیت کو سفر میں نافلہ کے ادا کرنے سے مربوط سمجھتے ہیں ۔<ref> طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۲۱.</ref> بعض تاریخی روایات کی بنا پر  براء بن معرور کا یہ سفر ہجرت کے بعد پیش آیا اور وہ نماز کعبہ کی طرف منہ کر نماز ادا کرتا ہے جبکہ  پیامبر اکرم(ص)  بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے ۔جب آنحضرت کو برا کے اس عمل کی خبر پہنچی تو آپ نے اسے اس کام سے منع کیا اور اس نے اسے قبول کیا ۔ <ref>ابن ہشام، السیره النبویہ، بیروت، ج۱، ۴۳۹-۴۴۰</ref>
<!--
<!--
آنان در تأیید نظر خویش، به عدم مخالفت صریح [[رسول خدا(ص)]] با کار [[براء بن معرور]] در سفری به مکہ پیش از هجرت استناد می‌کنند که به سوی کعبه نماز گزارد.<ref>ابن هشام، السیرة النبویه، بیروت، ج۱، ص۴۳۹-۴۴۰.</ref> در برابر، بعضی آیه یاد شده را درباره نافله‌های در حال سفر می‌دانند؛<ref> طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۲۱.</ref>اما بنابر برخی روایات تاریخی، براء بن معرور پس از هجرت همچنان به سوی کعبه نماز می گزارد در حالی که پیامبر اکرم(ص) رو به بیت المقدس نماز می گزارد. چون خبر به آن حضرت رسید، براء را از این کار منع کرد و او پذیرفت.<ref>ابن هشام، السیره النبویه، بیروت، ج۱، ۴۳۹-۴۴۰</ref>
==چگونگی تغییر قبله==
==چگونگی تغییر قبله==
به گفته روایات، در روز تغییر قبله، [[پیامبر]](ص) به سوی بیت المقدس [[نماز ظهر]] می‌گزارد و طبق معمول، مردان پشت سر ایشان و زنان پشت مردان به نماز ایستاده بودند. پس از ادای دو رکعت از نماز، [[جبرئیل]] بر [[پیامبر(ص)]] نازل شد و با ابلاغ آیه ۱۴۴ [[سوره بقره]] پیامبر(ص) را به سوی کعبه برگرداند.<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۸۶؛ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۷۵.</ref>
به گفته روایات، در روز تغییر قبله، [[پیامبر]](ص) به سوی بیت المقدس [[نماز ظهر]] می‌گزارد و طبق معمول، مردان پشت سر ایشان و زنان پشت مردان به نماز ایستاده بودند. پس از ادای دو رکعت از نماز، [[جبرئیل]] بر [[پیامبر(ص)]] نازل شد و با ابلاغ آیه ۱۴۴ [[سوره بقره]] پیامبر(ص) را به سوی کعبه برگرداند.<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۸۶؛ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۷۵.</ref>
سطر 55: سطر 53:


*زبان سرزنش مشرکان متعصب و دشمن اسلام، که مسلمانان را به سبب قبله‌کردن [[بیت المقدس]]، نکوهش می کردند، کوتاه شد. بسیاری از دیگر مردم حجاز که علاقه‌ای ویژه به کعبه داشتند، با تغییر قبله مسلمانان به کعبه، به اسلام نزدیک شدند و یکی از موانع اسلام‌آوردن آنها از میان رفت. قرآن به این مطلب اشاره کرده است: «از هر جا بیرون شدی، روی خود را به سوی مسجدالحرام کن تا مردم بهانه‌ای بر ضد شما نداشته باشند.»<ref>سوره بقره، آیه ۱۵۰.</ref>
*زبان سرزنش مشرکان متعصب و دشمن اسلام، که مسلمانان را به سبب قبله‌کردن [[بیت المقدس]]، نکوهش می کردند، کوتاه شد. بسیاری از دیگر مردم حجاز که علاقه‌ای ویژه به کعبه داشتند، با تغییر قبله مسلمانان به کعبه، به اسلام نزدیک شدند و یکی از موانع اسلام‌آوردن آنها از میان رفت. قرآن به این مطلب اشاره کرده است: «از هر جا بیرون شدی، روی خود را به سوی مسجدالحرام کن تا مردم بهانه‌ای بر ضد شما نداشته باشند.»<ref>سوره بقره، آیه ۱۵۰.</ref>
*یهودیان حجاز از این رویداد سخت ناخرسند شدند و به  تبلیغ بر ضد مسلمانان پرداختند.<ref>سوره بقره، آیه ۱۴۲.</ref><ref>نک: ابن هشام، السیرة النبویه، بیروت، ج۱، ص۵۵۰؛ الصالحی، سبل الهدی، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۵۴۱.</ref>
*یهودیان حجاز از این رویداد سخت ناخرسند شدند و به  تبلیغ بر ضد مسلمانان پرداختند.<ref>سوره بقره، آیه ۱۴۲.</ref><ref>نک: ابن ہشام، السیرة النبویہ، بیروت، ج۱، ص۵۵۰؛ الصالحی، سبل الهدی، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۵۴۱.</ref>
-->
-->
==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 69: سطر 67:
*ابن سید الناس ، عیون الاثر فی فنون المغازی و الشمائل و السیر، تحقیق ابراہیم محمد رمضان، بیروت، ‌دار القلم، ۱۴۱۴ق.
*ابن سید الناس ، عیون الاثر فی فنون المغازی و الشمائل و السیر، تحقیق ابراہیم محمد رمضان، بیروت، ‌دار القلم، ۱۴۱۴ق.
*ابن کثیر، البدایہ و النہایہ،بیروت، دارالفکر، 1986م.
*ابن کثیر، البدایہ و النہایہ،بیروت، دارالفکر، 1986م.
*ابن هشام، السیرة النبویه، به کوشش السقاء و دیگران، بیروت، ‌دار المعرفه.
*ابن ہشام، السیرة النبویہ، به کوشش السقاء و دیگران، بیروت، ‌دار المعرفه.
*ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، به کوشش یاحقی و ناصح، مشهد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۵ش.
*ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، به کوشش یاحقی و ناصح، مشهد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۵ش.
*الازرقی، محمد بن عبدالله بن احمد، اخبار مکہ، به کوشش رشدی الصالح، مکہ، مکتبة الثقافه، ۱۴۱۵ق.
*الازرقی، محمد بن عبدالله بن احمد، اخبار مکہ، به کوشش رشدی الصالح، مکہ، مکتبة الثقافه، ۱۴۱۵ق.
گمنام صارف