مندرجات کا رخ کریں

"تحویل قبلہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Mabbassi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 13: سطر 13:


یہ آیت  قبلہ کی تبدیلی کو بیان کرتی ہے اور اسے آیت قبلہ <ref>علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۱، ص۳۳؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۵.</ref> کے نام سے مشہور ہے ۔  نیز [[سورہ بقرہ]] ۱۴۲ویں،<ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۲، ص۳-۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۱۴.</ref> ۱۴۳ویں <ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۰۷.</ref> اور ۱۵۰ویں <ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۹.</ref>  کو بھی آیات قبلہ سے یاد کرتے ہیں ۔  بعض  مفسرین بقرہ کی  ۱۴۲ تا ۱۴۴ تک کی آیات کو تحویل قبلہ کی آیات سمجھتے ہیں ۔ <ref> طنطاوی، الوسیط، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۹۴.</ref>
یہ آیت  قبلہ کی تبدیلی کو بیان کرتی ہے اور اسے آیت قبلہ <ref>علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۱، ص۳۳؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۵.</ref> کے نام سے مشہور ہے ۔  نیز [[سورہ بقرہ]] ۱۴۲ویں،<ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۲، ص۳-۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۱۴.</ref> ۱۴۳ویں <ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۰۷.</ref> اور ۱۵۰ویں <ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۹.</ref>  کو بھی آیات قبلہ سے یاد کرتے ہیں ۔  بعض  مفسرین بقرہ کی  ۱۴۲ تا ۱۴۴ تک کی آیات کو تحویل قبلہ کی آیات سمجھتے ہیں ۔ <ref> طنطاوی، الوسیط، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۹۴.</ref>
<!--
 
==پیشینه==
==سرگذشت قبلہ==
قبلہ کے ماضی سے متعلق  [[روایات]] اور نظریات مختلف موجود ہیں:
قبلہ کے ماضی سے متعلق  [[روایات]] اور نظریات مختلف موجود ہیں:
*بعض روایات کی بنا پر  [[کعبہ]] زمانۂ [[حضرت آدم (ع) ]] سے قبلہ تھا۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۳۷۵ق، ج۴، ص۱۹۹؛ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۹۲.</ref>  [[حضرت ابراہیم]] (ع) نے  کعبہ کو از سر نو تعمیر کیا ۔<ref> قمی، تفسیر قمی، ج۱، ۱۴۰۴ق، ص۶۲.</ref> اور [[حضرت موسی(ع)]]  نے [[مسجدالاقصی]] کو [[شرک]] اور انحراف سے نجات کیلئے حکم خداوندی سے  [[بیت المقدس]] کو  قبلہ  قرار دیا.<ref>ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ج۱، ۱۳۹۱ق، ص۴۸۳.</ref>
*بعض روایات کی بنا پر  [[کعبہ]] زمانۂ [[حضرت آدم (ع) ]] سے قبلہ تھا۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۳۷۵ق، ج۴، ص۱۹۹؛ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۹۲.</ref>  [[حضرت ابراہیم]] (ع) نے  کعبہ کو از سر نو تعمیر کیا ۔<ref> قمی، تفسیر قمی، ج۱، ۱۴۰۴ق، ص۶۲.</ref> اور [[حضرت موسی(ع)]]  نے [[مسجدالاقصی]] کو [[شرک]] اور انحراف سے نجات کیلئے حکم خداوندی سے  [[بیت المقدس]] کو  قبلہ  قرار دیا.<ref>ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ج۱، ۱۳۹۱ق، ص۴۸۳.</ref>
سطر 21: سطر 21:
*دیگر بعض روایات کی بنا پر  مسلمان  مکہ میں جس طرف منہ کر کے نماز پڑھنا چاہتے پڑھ سکتے تھے لیکن  پیامبر(ص) نے اپنے لیے  بیت المقدس کا انتخاب کیا۔ <ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۱، ص۴۲۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۶.</ref>
*دیگر بعض روایات کی بنا پر  مسلمان  مکہ میں جس طرف منہ کر کے نماز پڑھنا چاہتے پڑھ سکتے تھے لیکن  پیامبر(ص) نے اپنے لیے  بیت المقدس کا انتخاب کیا۔ <ref>شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۱، ص۴۲۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۶.</ref>
*روایات اس کی بھی حکایت کرتی ہیں کہ ہجرت سے پہلے  کعبہ مسلمانوں کا قبلہ تھا۔ <ref>زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۰؛ قرطبی، تفسیر قرطبی، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۱۵۰.</ref> یہ اس بات کا لازمہ ہے کہ قبلہ کی دو مرحلوں میں تبدیلی ہوئی یعنی کعبہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے کعبہ ۔
*روایات اس کی بھی حکایت کرتی ہیں کہ ہجرت سے پہلے  کعبہ مسلمانوں کا قبلہ تھا۔ <ref>زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۰؛ قرطبی، تفسیر قرطبی، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۱۵۰.</ref> یہ اس بات کا لازمہ ہے کہ قبلہ کی دو مرحلوں میں تبدیلی ہوئی یعنی کعبہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے کعبہ ۔
*بعض تفسیری منابع کے مطابق  سورہ بقرہ کی ۱۱۵ ویں آیت : <font color=green>{{حدیث|وَ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ فَأَینَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ}}</font> کو دیکھتے ہوئے  پیامبر(ص) اور مسلمانوں کی  [[تخییر]] کے قائل ہوئے ہیں ۔ <ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۲۰۲.</ref>
*بعض تفسیری منابع کے مطابق  سورہ بقرہ کی ۱۱۵ ویں آیت : <font color=green>{{حدیث|وَ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ فَأَینَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ}}</font> کو دیکھتے ہوئے  پیامبر(ص) اور مسلمانوں کی  [[تخییر]] کے قائل ہوئے ہیں ۔ <ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۲۰۲.</ref> وہ اسکی تائید میں ہجرت سے پہلے [[براء بن معرور]] کے مکہ کے سفر میں کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے اور رسول کی مخالفت نہ کرنے کو ذکر کرتے ہیں
 
<ref>ابن ہشام، السیرة النبویہ، بیروت، ج۱، ص۴۳۹-۴۴۰.</ref> جبکہ اس کے مقابلے میں بعض علما مذکورہ آیت کو سفر میں نافلہ کے ادا کرنے سے مربوط سمجھتے ہیں ۔<ref> طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۲۱.</ref> بعض تاریخی روایات کی بنا پر  براء بن معرور کا یہ سفر ہجرت کے بعد پیش آیا اور وہ نماز کعبہ کی طرف منہ کر نماز ادا کرتا ہے جبکہ  پیامبر اکرم(ص)  بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے ۔جب آنحضرت کو برا کے اس عمل کی خبر پہنچی تو آپ نے اسے اس کام سے منع کیا اور اس نے اسے قبول کیا ۔ <ref>ابن ہشام، السیره النبویہ، بیروت، ج۱، ۴۳۹-۴۴۰</ref>
<!--
<!--
آنان در تأیید نظر خویش، به عدم مخالفت صریح [[رسول خدا(ص)]] با کار [[براء بن معرور]] در سفری به مکہ پیش از هجرت استناد می‌کنند که به سوی کعبه نماز گزارد.<ref>ابن هشام، السیرة النبویه، بیروت، ج۱، ص۴۳۹-۴۴۰.</ref> در برابر، بعضی آیه یاد شده را درباره نافله‌های در حال سفر می‌دانند؛<ref> طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۲۱.</ref>اما بنابر برخی روایات تاریخی، براء بن معرور پس از هجرت همچنان به سوی کعبه نماز می گزارد در حالی که پیامبر اکرم(ص) رو به بیت المقدس نماز می گزارد. چون خبر به آن حضرت رسید، براء را از این کار منع کرد و او پذیرفت.<ref>ابن هشام، السیره النبویه، بیروت، ج۱، ۴۳۹-۴۴۰</ref>
==چگونگی تغییر قبله==
==چگونگی تغییر قبله==
به گفته روایات، در روز تغییر قبله، [[پیامبر]](ص) به سوی بیت المقدس [[نماز ظهر]] می‌گزارد و طبق معمول، مردان پشت سر ایشان و زنان پشت مردان به نماز ایستاده بودند. پس از ادای دو رکعت از نماز، [[جبرئیل]] بر [[پیامبر(ص)]] نازل شد و با ابلاغ آیه ۱۴۴ [[سوره بقره]] پیامبر(ص) را به سوی کعبه برگرداند.<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۸۶؛ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۷۵.</ref>
به گفته روایات، در روز تغییر قبله، [[پیامبر]](ص) به سوی بیت المقدس [[نماز ظهر]] می‌گزارد و طبق معمول، مردان پشت سر ایشان و زنان پشت مردان به نماز ایستاده بودند. پس از ادای دو رکعت از نماز، [[جبرئیل]] بر [[پیامبر(ص)]] نازل شد و با ابلاغ آیه ۱۴۴ [[سوره بقره]] پیامبر(ص) را به سوی کعبه برگرداند.<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۸۶؛ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۷۵.</ref>
سطر 55: سطر 53:


*زبان سرزنش مشرکان متعصب و دشمن اسلام، که مسلمانان را به سبب قبله‌کردن [[بیت المقدس]]، نکوهش می کردند، کوتاه شد. بسیاری از دیگر مردم حجاز که علاقه‌ای ویژه به کعبه داشتند، با تغییر قبله مسلمانان به کعبه، به اسلام نزدیک شدند و یکی از موانع اسلام‌آوردن آنها از میان رفت. قرآن به این مطلب اشاره کرده است: «از هر جا بیرون شدی، روی خود را به سوی مسجدالحرام کن تا مردم بهانه‌ای بر ضد شما نداشته باشند.»<ref>سوره بقره، آیه ۱۵۰.</ref>
*زبان سرزنش مشرکان متعصب و دشمن اسلام، که مسلمانان را به سبب قبله‌کردن [[بیت المقدس]]، نکوهش می کردند، کوتاه شد. بسیاری از دیگر مردم حجاز که علاقه‌ای ویژه به کعبه داشتند، با تغییر قبله مسلمانان به کعبه، به اسلام نزدیک شدند و یکی از موانع اسلام‌آوردن آنها از میان رفت. قرآن به این مطلب اشاره کرده است: «از هر جا بیرون شدی، روی خود را به سوی مسجدالحرام کن تا مردم بهانه‌ای بر ضد شما نداشته باشند.»<ref>سوره بقره، آیه ۱۵۰.</ref>
*یهودیان حجاز از این رویداد سخت ناخرسند شدند و به  تبلیغ بر ضد مسلمانان پرداختند.<ref>سوره بقره، آیه ۱۴۲.</ref><ref>نک: ابن هشام، السیرة النبویه، بیروت، ج۱، ص۵۵۰؛ الصالحی، سبل الهدی، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۵۴۱.</ref>
*یهودیان حجاز از این رویداد سخت ناخرسند شدند و به  تبلیغ بر ضد مسلمانان پرداختند.<ref>سوره بقره، آیه ۱۴۲.</ref><ref>نک: ابن ہشام، السیرة النبویہ، بیروت، ج۱، ص۵۵۰؛ الصالحی، سبل الهدی، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۵۴۱.</ref>
-->
-->
==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 69: سطر 67:
*ابن سید الناس ، عیون الاثر فی فنون المغازی و الشمائل و السیر، تحقیق ابراہیم محمد رمضان، بیروت، ‌دار القلم، ۱۴۱۴ق.
*ابن سید الناس ، عیون الاثر فی فنون المغازی و الشمائل و السیر، تحقیق ابراہیم محمد رمضان، بیروت، ‌دار القلم، ۱۴۱۴ق.
*ابن کثیر، البدایہ و النہایہ،بیروت، دارالفکر، 1986م.
*ابن کثیر، البدایہ و النہایہ،بیروت، دارالفکر، 1986م.
*ابن هشام، السیرة النبویه، به کوشش السقاء و دیگران، بیروت، ‌دار المعرفه.
*ابن ہشام، السیرة النبویہ، به کوشش السقاء و دیگران، بیروت، ‌دار المعرفه.
*ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، به کوشش یاحقی و ناصح، مشهد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۵ش.
*ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، به کوشش یاحقی و ناصح، مشهد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۵ش.
*الازرقی، محمد بن عبدالله بن احمد، اخبار مکہ، به کوشش رشدی الصالح، مکہ، مکتبة الثقافه، ۱۴۱۵ق.
*الازرقی، محمد بن عبدالله بن احمد، اخبار مکہ، به کوشش رشدی الصالح، مکہ، مکتبة الثقافه، ۱۴۱۵ق.

نسخہ بمطابق 21:57، 5 مئی 2017ء

مسجد اقصیٰ اور کعبہ

تحویل قبلہ وہ واقعہ ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا قبلہ مسجد الاقصی سے کعبہ کی طرف تبدیل ہوا ۔یہ واقعہ رجب دوم ہجری میں سورہ بقرہ کی ۱۴۴ویں آیت کے نازل ہونے کے بعد پیش آیا ۔

اکثر مؤرخین کے مطابق تحویل قبلہ مدینہ کی مسجد ذو قبلتین میں نماز ظہر کے وقت پیش آیا ۔ نماز جماعت کے دوران ۱۶۰ درجہ قبلہ کی تبدیلی ایک قابل توجہ واقعہ ہے ۔

قبلۂ اول اور اسکی تبدیلی

اسلامی مآخذوں کے مطابق پیامبر(ص) مکہ میں اور مدینے میں ہجرت کے ابتدائی سالوں میں بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے لیکن اپنے مخصوص قبلے کو دوست رکھتے تھے ۔ اسی وجہ سے تحویل قبلہ کی وحی کے انتظار میں رہتے ۔ خداوند نے آیت قبلہ کے نزول کو خوش حال کیا اور مسلمانوں کو کعبہ کی تبدیلی کا حکم دیا ۔ [1]

آیت قبلہ

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
(اے رسول(ص)) تحویل قبلہ کی خاطر) تیرا بار بار آسمان کی طرف منہ کرنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ تو ضرور اب ہم تمہیں موڑ دیں گے اس قبلہ کی طرف جو تمہیں پسند ہے۔ بس اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ دیجئے۔ اور (اے اہل ایمان) تم جہاں کہیں بھی ہو اپنے منہ (نماز پڑھتے وقت) اسی طرف کیا کرو۔ جن لوگوں کو (آسمانی) کتاب (تورات وغیرہ) دی گئی ہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ (تحویل قبلہ کا فیصلہ) ان کے پروردگار کی طرف سے ہے اور یہ حق ہے۔ اور جو کچھ (یہ لوگ) کر رہے ہیں اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ (144)

یہ آیت قبلہ کی تبدیلی کو بیان کرتی ہے اور اسے آیت قبلہ [2] کے نام سے مشہور ہے ۔ نیز سورہ بقرہ ۱۴۲ویں،[3] ۱۴۳ویں [4] اور ۱۵۰ویں [5] کو بھی آیات قبلہ سے یاد کرتے ہیں ۔ بعض مفسرین بقرہ کی ۱۴۲ تا ۱۴۴ تک کی آیات کو تحویل قبلہ کی آیات سمجھتے ہیں ۔ [6]

سرگذشت قبلہ

قبلہ کے ماضی سے متعلق روایات اور نظریات مختلف موجود ہیں:

  • بعض روایات کی بنا پر کعبہ زمانۂ حضرت آدم (ع) سے قبلہ تھا۔[7] حضرت ابراہیم (ع) نے کعبہ کو از سر نو تعمیر کیا ۔[8] اور حضرت موسی(ع) نے مسجدالاقصی کو شرک اور انحراف سے نجات کیلئے حکم خداوندی سے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا.[9]
  • بعض روایات میں آیا ہے کہ ہجرت کے دو سال بعد تک قانونی طور پر مسلمانوں کا قبلہ رہا ۔ [10] اس وقت کعبہ بتخانے کی صورت میں تھا اور نماز گزار بتوں کے احترام کے شبہے میں اسکی طرف منہ کرتے تھے۔ [11]
  • بعض نے کہا: پیامبر(ص) ہجرت سے پہلے امکانی حد تک دونوں قبلوں کی طرف من کر کے نماز پڑھتے تھے ؛ اس طرح سے کہ مکہ کی جغرافیائی موقعیت کی وجہ سے اس طرح سے کھڑے ہوتے کہ کعبہ انکے اور بیت المقدس کے درمیان ہوتا اور جمع کے ممکن نہ ہونے کی صورت میں مسجد الاقصی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ [12] ہجرت کے بعد مدینے کی جغرافیائی موقعیت کے پیش نظر دو قبلوں کا جمع کرنا ممکن نہیں تھا اس لحاظ سے مسلمانوں کا صرف ایک قبلہ بیت المقدس تھا ۔ [13]
  • دیگر بعض روایات کی بنا پر مسلمان مکہ میں جس طرف منہ کر کے نماز پڑھنا چاہتے پڑھ سکتے تھے لیکن پیامبر(ص) نے اپنے لیے بیت المقدس کا انتخاب کیا۔ [14]
  • روایات اس کی بھی حکایت کرتی ہیں کہ ہجرت سے پہلے کعبہ مسلمانوں کا قبلہ تھا۔ [15] یہ اس بات کا لازمہ ہے کہ قبلہ کی دو مرحلوں میں تبدیلی ہوئی یعنی کعبہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے کعبہ ۔
  • بعض تفسیری منابع کے مطابق سورہ بقرہ کی ۱۱۵ ویں آیت : وَ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ فَأَینَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ کو دیکھتے ہوئے پیامبر(ص) اور مسلمانوں کی تخییر کے قائل ہوئے ہیں ۔ [16] وہ اسکی تائید میں ہجرت سے پہلے براء بن معرور کے مکہ کے سفر میں کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے اور رسول کی مخالفت نہ کرنے کو ذکر کرتے ہیں

[17] جبکہ اس کے مقابلے میں بعض علما مذکورہ آیت کو سفر میں نافلہ کے ادا کرنے سے مربوط سمجھتے ہیں ۔[18] بعض تاریخی روایات کی بنا پر براء بن معرور کا یہ سفر ہجرت کے بعد پیش آیا اور وہ نماز کعبہ کی طرف منہ کر نماز ادا کرتا ہے جبکہ پیامبر اکرم(ص) بیت المقدس کی جانب منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے ۔جب آنحضرت کو برا کے اس عمل کی خبر پہنچی تو آپ نے اسے اس کام سے منع کیا اور اس نے اسے قبول کیا ۔ [19]

حوالہ جات

{{حوالہ جات|3}

منابع

  • قرآن کریم
  • نهج البلاغه، به تصحیح صبحی صالح، تهران، ‌دار الاسوه، ۱۴۱۵ق.
  • ابن النجار، محمد بن محمود، الدرة الثمینه فی أخبار المدینه، به کوشش حسین محمد علی شکری، بیروت، ‌دار الارقم.
  • ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، بیروت، ‌دار احیاء التراث العربی، ۱۳۹۱ق.
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، به کوشش محمد عبدالقادر، بیروت، ‌دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۸ق.
  • ابن سید الناس ، عیون الاثر فی فنون المغازی و الشمائل و السیر، تحقیق ابراہیم محمد رمضان، بیروت، ‌دار القلم، ۱۴۱۴ق.
  • ابن کثیر، البدایہ و النہایہ،بیروت، دارالفکر، 1986م.
  • ابن ہشام، السیرة النبویہ، به کوشش السقاء و دیگران، بیروت، ‌دار المعرفه.
  • ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، به کوشش یاحقی و ناصح، مشهد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۵ش.
  • الازرقی، محمد بن عبدالله بن احمد، اخبار مکہ، به کوشش رشدی الصالح، مکہ، مکتبة الثقافه، ۱۴۱۵ق.
  • الحلبی، علی بن ابراہیم بن احمد، السیرة الحلبیه، بیروت، ‌دار المعرفه، ۱۴۰۰ق.
  • السمهودی، علی بن عبدالله، وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفی، به کوشش محمد عبدالحمید، بیروت، ‌دار الکتب العلمیه، ۲۰۰۶م.
  • الصالحی، محمد بن یوسف، سبل الهدی و الرشاد، به کوشش عادل احمد و علی محمد، بیروت، ‌دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۴ق.
  • القرطبی، تفسیر قرطبی (الجامع لاحکام القرآن)، بیروت، ‌دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ق.
  • بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوه، به کوشش عبدالمعطی قلعجی، بیروت، ‌دار الکتب العلمیه، ۱۴۰۵ق.
  • زمخشری، جارالله، الکشاف، قم، بلاغت، ۱۴۱۵ق.
  • شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویه، من لا یحضره الفقیه، به کوشش غفاری، قم، نشر اسلامی، ۱۴۰۴ق.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان، به کوشش العاملی، بیروت، ‌دار احیاء التراث العربی.
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیرالقرآن، قم: انتشارات اسلامی، ۱۴۱۷ق.
  • طباطبایی، سیدمحمدحسین، ترجمه تفسیر المیزان، قم: انتشارات اسلامی، ۱۳۷۴ش.
  • طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البیان فى تفسیر القرآن، تهران: ناصرخسرو، ۱۳۷۲ش
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فى تفسیر القرآن، به کوشش گروهی از علماء، بیروت، اعلمی، ۱۴۱۵ق.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری (تاریخ الامم و الملوک)، به کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت: دار احیاء التراث العربی، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، به کوشش صدقی جمیل، بیروت، ‌دار الفکر، ۱۴۱۵ق.
  • طنطاوی، محمد سید، التفسیر الوسیط للقرآن الکریم، قاهره، ‌دار المعارف، ۱۴۱۲ق.
  • عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری شرح صحیح البخاری، بیروت، ‌دار المعرفه.
  • علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، ‌دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
  • فخر رازی، التفسیر الکبیر(مفاتیح الغیب)، قم، دفتر تبلیغات، ۱۴۱۳ق.
  • قائدان، اصغر، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمه و مدینه منوره، تهران، مشعر، ۱۳۸۶ش.
  • قمی، علی ابن ابراہیم، تفسیر القمی، به کوشش الجزائری، قم، ‌دار الکتاب، ۱۴۰۴ق.
  • کلینی، محمدبن یعقوب، الکافی، به کوشش غفاری، تهران، ‌دار الکتب الاسلامیه، ۱۳۷۵ش.
  • مقاتل بن سلیمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، به کوشش عبدالله محمود شحاته، بیروت، التاریخ العربی، ۱۴۲۳ق.
  • یعقوبی، احمد بن یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ‌دار صادر، ۱۴۱۵ق.

پیوند به بیرون

  1. رک: ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۹۸۶م، ج۳، ص۲۵۳؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۹۶۷م، ج۲، ص۴۱۵-۴۱۷؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۵.
  2. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۸۱، ص۳۳؛ طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۵.
  3. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۲، ص۳-۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۱۴.
  4. فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۰۷.
  5. طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۲۹.
  6. طنطاوی، الوسیط، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۹۴.
  7. کلینی، الکافی، ۱۳۷۵ق، ج۴، ص۱۹۹؛ نہج البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ ۱۹۲.
  8. قمی، تفسیر قمی، ج۱، ۱۴۰۴ق، ص۶۲.
  9. ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ج۱، ۱۳۹۱ق، ص۴۸۳.
  10. ازرقی،‌ اخبار مکہ، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۳۱.
  11. نک: زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۰.
  12. نک: ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۹۸۶م، ج۳، ص۲۵۳.
  13. نک: ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۹۸۶م، ج۳، ص۲۵۳؛ ابن سید الناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۲۶۸.
  14. شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۱، ص۴۲۴؛ طبرسی، مجمع البیان، ج۲، ص۶.
  15. زمخشری، الکشاف، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۲۰۰؛ قرطبی، تفسیر قرطبی، ۱۴۰۵ق، ج۲، ص۱۵۰.
  16. ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۷۵ش، ج۲، ص۲۰۲.
  17. ابن ہشام، السیرة النبویہ، بیروت، ج۱، ص۴۳۹-۴۴۰.
  18. طبرسی، مجمع البیان، ج۱، ص۴۲۱.
  19. ابن ہشام، السیره النبویہ، بیروت، ج۱، ۴۳۹-۴۴۰