مندرجات کا رخ کریں

"غزوہ حمراء الاسد" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 22: سطر 22:
}}
}}


{{تاریخ صدر اسلام}}
{{پیغمبر خدا(ص) کی مدنی زندگی}}
'''غزوہ حَمراءُ الاَسَد''' [عربی میں: '''''غزوة حمراء الأسد'''''] [[رسول خدا(ص)]] کے غزوات میں سے ایک ہے جو سنہ 3 ہجری میں اور [[غزوہ احد]] کے صرف ایک دن بعد انجام پایا۔ اس جنگ سے [[رسول اللہ]](ص) کا ہدف و مقصود مشرکین کو دوبارہ [[مدینہ]] پر حملہ کرنے سے باز رکھنا تھا۔
'''غزوہ حَمراءُ الاَسَد''' [عربی میں: '''''غزوة حمراء الأسد'''''] [[رسول خدا(ص)]] کے غزوات میں سے ایک ہے جو سنہ 3 ہجری میں اور [[غزوہ احد]] کے صرف ایک دن بعد انجام پایا۔ اس جنگ سے [[رسول اللہ]](ص) کا ہدف و مقصود مشرکین کو دوبارہ [[مدینہ]] پر حملہ کرنے سے باز رکھنا تھا۔



نسخہ بمطابق 17:30، 1 جون 2015ء

غزوہ حمراء الاسد
سلسلۂ محارب: رسول خدا(ص) کے غزوات
فائل:حمراء الاسد1.gif
تاریخ
مقام منطقه حمراءالاسد
محل وقوع مدینہ سے آٹھ یا دس میل (تقریبا 20 کلومیٹر) جنوب کی طرف
نتیجہ مسلمانان جنگ کے بغیر مدینہ چلے آئے۔
سبب یہ غزوہ اللہ کے حکم سے انجام پایا اور اس مہم سے رسول اللہ(ص) کا ہدف یہ تھا کہ مشرکین کو مدینہ پر دوبارہ کسی حملے سے خوفزدہ کیا جائے اور دشمن کے سامنے مسلمانوں کی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے۔
ملک حجاز
فریقین
سپاہ اسلام سپاہ مشرکین قریش
قائدین
حضرت محمد(ص) ابو سفیان
قریش کو رسول اللہ(ص) کی عزیمت کی اطلاع ملی تو انھوں نے مسلمانوں کے خوف سے فرار کو کرار پر ترجیح دی اور مسلمین نے 3 دن تک حمراء الاسد میں قیام کیا اور مدینہ واپس آئے۔ آل عمران کی چار آیتیں (172 تا 175) حمراء الاسد کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔


پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ

غزوہ حَمراءُ الاَسَد [عربی میں: غزوة حمراء الأسد] رسول خدا(ص) کے غزوات میں سے ایک ہے جو سنہ 3 ہجری میں اور غزوہ احد کے صرف ایک دن بعد انجام پایا۔ اس جنگ سے رسول اللہ(ص) کا ہدف و مقصود مشرکین کو دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنے سے باز رکھنا تھا۔

مسعودی نے حمراء الاسد کو اس لئے غزوات کے زمرے میں نہیں گردانا ہے کہ اس میں کوئی جنگ واقع نہیں ہوئی!

وقت اور مقام غزوہ

غزوہ حمراء الاسد یک شنبہ (= اتوار) 8 شوال سنہ 3 ہجری کو غزوہ احد کے صرف ایک دن بعد، مدینہ سے 8 یا 10 میل (تقریبا 20 کلومیٹر) جنوب کی طرف، بمقام حمراء الاسد انجام پایا۔[1]۔[2]

غزوات کے ابتدائی اقدامات

غزوہ احد کے ایک دن بعد، پیغمبر خدا(ص) نے نماز صبح کے بعد ـ جبکہ جنگ کے زخمی اپنے زخموں کے مداوا میں مصروف تھے ـ بلال حبشی سے فرمایا کہ ندا دیں کہ:

أن رَسُول اللَّهِ يأمركم بطلب عدوكم ولا يخرج معنا إلا مِن شهد القتال بالأمس۔
(رسول اللہ(ص) تمہیں حکم دیتے ہیں کہ دشمن کا تعاقب کرو اور ہمارے ساتھ کوئی بھی (مدینہ) سے باہر نہ نکلے سوائے ان کے جو کل ہمارے ساتھ جنگ میں شریک تھے۔[3]۔[4]

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ(ص) نے صرف ان افراد کو اپنے ساتھ عزیمت کرنے کی اجازت دی جو غزوہ احد میں زخمی ہوئے تھے۔[5]

اول الذکر روایت کے مطابق غزوہ احد میں شرکت کرنے والے 700 مسلمانوں میں سے 70 جام شہادت نوش کرچکے تھے[6]۔[7] اور باقی ماندہ تمام مجاہدین غزوہ حمراء الاسد میں شریک تھے۔[8]

لیکن مؤخر الذکر روایت کے مطابق، اس غزوے میں [[رسول خدا(ص) کے ساتھیوں کی تعداد 60[9] یا 70 تھی،[10] یعنی تقریبا اتنے ہی افراد جو غزوہ احد میں زخمی ہوئے تھے۔[11] سورہ آل عمران کی آیت 172 میں ارشاد ہوا:

الَّذِينَ اسْتَجَابُواْ لِلّهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَآ أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُواْ مِنْهُمْ وَاتَّقَواْ أَجْرٌ عَظِيمٌ۔
ترجمہ: [صاحبان ایمان ہیں وہ] جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہی، ان میں سے جو نیک عمل بجا لانے والے اور پرہیزگار ہیں، ان کے لیے اجر عظیم ہے۔

رسول اللہ(ص) نے فرمایا:

ألا عصابة تشد لامر الله، تطلب عدوها؟ فانها أنكأ للعدو، وأبعد للسمع۔
ترجمہ: بےشک ایک گروہ الہ کے فرمان کی تعمیل پر استوار ہے اور اپنے دشمن کے تعاقب میں جاتا ہے، پس یہ عمل دشمن کے لئے نقصان دہ ہے اور اس کی شہرت زیادہ اور دو رس ہے۔

اور مذکورہ بالا آیت کریمہ اور حدیث شریف سے مؤخر الذکر قول کی تائید ہوتی ہے۔[12]۔[13]

شمس شامی نے ان دو اقوال کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔[14] روایت ضعیفی نیز می‌گوید که پیامبر(ص) از میان حاضرانِ در احد و کسانی که در آنجا حضور نیافتند، لشکری به این غزوه برد.[15]

بہرحال احد کے زخمیوں نے رسول خدا(ص) کی اطاعت کرتے ہوئے ہتھیار اٹھائے۔ ان میں سے 40 افراد کا تعلق بنی سلمہ سے تعلق رکھتے تھے جو دوسروں سے کچھ زیاد زخم اٹھا چکے تھے اور آنحضرت(ص) سے آ ملے۔ عبداللہ بن سہل اور ان کے بھائی رافع ـ جن کے پاس کوئی سواری نہ تھی ـ گرتے پڑتے آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جابر بن عبداللہ ـ جنگ احد میں شرکت نہ کرنے کے باوجود، رسول خدا(ص) کی اجازت سے لشکر میں شامل ہوئے۔[16]

رسول خدا(ص) نے جنگ احد والا پرچم علی(ع) (اور بقولے ابوبکر) کے سپرد کیا اور خود بھی بےشمار زخموں کے باوجود مسجد میں تشریف فرما ہوئے اور نماز بپا کی اور بعدازاں لباس رزم زیب تن کیا اور روانہ ہوئے۔[17]۔[18]۔[19]

غزوہ حمراء الاسد کا ہدف

یہ غزوہ اللہ کے حکم سے انجام پایا[20]۔[21]۔[22] اور رسول خدا(ص) کی اس مہم کا ہدف دشمنوں کو ایک بار پھر مدینہ پر حملہ کرنے سے خوفزدہ اور اور مسلمانوں کی قوت کا مظاہرہ، کرنا تھا اور یہ باور کرانا تھا کہ غزوہ احد مسلمانوں کو پہنچنے والے زخم اور نقصانات ان کے حوصلے اور دشمن کے مقابلے میں ان کا عزم و ارادہ پست نہیں کرسکے ہیں۔[23]۔[24]

مسلمانوں کو مہم کے لئے عزیمت کا فرمان دیتے ہوئے رسول اللہ(ص) کا کلام بھی اسی حقیقت پر دلالت کرتا ہے:

"... فانها أنكأ للعدو وأبعد للسمع"۔
ترجمہ: پس بےشک یہ عمل دشمن کے لئے نقصان دہ ہے اور اس کی شہرت زیادہ اور دو رس ہے۔[25]۔[26]۔[27]

ایک روایت میں منقول ہے کہ رسول خدا(ص) کو خبر ملی کہ مشرکین روحاء میں ہیں اور مدینہ کی طرف پلٹ آنے پر غور کررہے ہیں چنانچہ آپ(ص) نے مسلمانوں کو ان کے تعاقب کے لئے بلایا۔[28]۔[29]


پاورقی حاشیے

  1. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص107ـ108۔
  2. ابن سعد، طبقات، ج2، ص49۔
  3. واقدی، المغازی، ج1، ص334۔
  4. ابن سعد، طبقات، ج2، ص39، 42ـ43۔
  5. قمی، تفسیرالقمی، ذیل آیات 172ـ174 سورہ آل عمران۔
  6. واقدی، المغازی، ج1، ص300۔
  7. ابن سعد، طبقات، ج2، ص39، 42ـ43۔
  8. ابن کثیر، البدایة والنهایة، ج2، جزء4، ص51ـ52۔
  9. مقدسی، البدء والتاریخ، ج4، ص205۔
  10. طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیات 172ـ174 سورہ آل عمران۔
  11. عاملی، الصحیح من سیرة النبی، ج4، ص335۔
  12. طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیات 172 تا 174، سورہ آل عمران۔
  13. عاملی، الصحیح من سیرة النبی، ج6، ص335۔
  14. شمس شامی، سبل الهدی و الرّشاد، ج4، ص447۔
  15. بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص403۔
  16. واقدی، المغازی، ج1، ص334ـ336۔
  17. واقدی، المغازی، ج1، ص336ـ337۔
  18. طبرسی، اعلام الوری، ج1، ص183ـ184۔
  19. ابن شهر آشوب، مناقب، ج1، ص167۔
  20. رجوع کریں: آیات 172 تا 174 سورہ آل عمران۔
  21. قمی، تفسیر القمی ان ہی آیات کے ذیل میں۔
  22. طبرسی، مجمع البیان، ان ہی آیات کے ذیل میں۔
  23. ابن هشام، السیرة النبویة، ج3، ص107۔
  24. ابن حزم، جوامع السیرة، ص175۔
  25. طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیات 172 تا 174، سورہ آل عمران۔
  26. عاملی، الصحیح من سیرة النبی، ج6، ص335۔
  27. طبری، تفسیر جامع، ذیل سوره آیت 172، سورہ آل عمران۔
  28. رجوع کریں:طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیات سوره آل عمران: 172ـ174۔
  29. شمس شامی، سبل الهدی والرّشاد، ج4، ص438ـ439، 441۔