مندرجات کا رخ کریں

حکومت صلیحیان

ویکی شیعہ سے
حکومت صلیحیان
حکومت صلیحیان
معلومات حکومت
دوسرے نامبنی‌ صلیح
بانیعلی بن محمد صلیحی
تاریخ تأسیس439ھ
جغرافیایی حدودیمن اور جزیرۃ العرب کا کچھ حصہ
خصوصیاتمصر کے فاطمیوں سے وابستہ اور طرز حکومت میں مذہبی رواداری
اہم اقداماتتعمیر و ترقی
دار الحکومتصنعاء، ذی‌ جبلہ
زوال532ھ
افراد
مشہور حکمرانملکہ اَروی


حکومت صُلَیحیان (439-532ھ)، یمن کی پہلی اسماعیلی حکومت تھی جسے 439ھ میں علی بن محمد صُلحی نے قائم کی اور تقریباً ایک صدی تک قائم رہی۔ یہ حکومت یمن کی تاریخ کی سب سے مؤثر حکومتوں میں شمار ہوتی ہے اور حکمران طبقہ کی جانب سے ملکی تعمیر و ترقی پر توجہ دینے کی بنا پر یمن کی تاریخ کا ایک شاندار دور سمھا جاتا ہے۔ اس حکومت کی ایک نمایاں خصوصیت مذہبی رواداری کا ماحول قائم کرنا تھا۔

صُلحی فاطمیوں کے نمائندے کی حیثیت سے یمن میں حکمرانی کرتے تھے اور داعی اور حجّت جیسے عہدے (جو اسماعیلی مذہب میں اہم مناصب ہیں) فاطمیوں سے حاصل کرتے تھے۔ ان پر لازم تھا کہ وہ جزیرۂ عرب اور برصغیر میں اسماعیلی تشیّع کی ترویج کریں اور اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے فاطمیوں کی توثیق کے محتاج تھے۔

ملکہ اَرویٰ، جو سیدہ حُرّہ اور بلقیسِ ثانی کے لقب سے معروف تھیں، پہلی شیعہ خاتون حکمران تھیں جنہوں نے اس سلسلے سے تعلق رکھتے ہوئے 40 سال سے زیادہ یمن پر حکومت کی۔ ملکہ اَرویٰ کی وفات کے ساتھ، جو درحقیقت سلسلۂ صُلحی کی حقیقی اختتام شمار ہوتی ہے، یمن مقامی خاندانوں کے ہاتھوں میں چلا گیا اور آخر کار 569ھ میں یہ سب ایوبی حکمرانوں (جو مصر، شام اور یمن کے نئے فرمانروا تھے) کے ہاتھوں ختم ہو گئے۔ بعض صُلحی امراء چھٹی صدی ہجری کے آخر تک یمن کے کچھ قلعوں پر قابض رہے۔

تعارف اور مقام

صُلَیحیان (439–532ھ) پہلی اسماعیلی حکومت اور یمن کی اہم سلطنتوں میں شمار ہوتی ہے۔[1] صُلحی حکمرانوں نے، جن کی حکومت تقریباً ایک صدی تک قائم رہی، مصر کے فاطمیوں کے نمائندے کے طور پر یمن پر حکومت کی[2] اور یمن میں فاطمیوں کی جانب سے "دعوت" (یعنی اسماعیلی مذہب کی اشاعت کا نظام اور عہدہ) کے سربراہ مقرر ہوئے۔[3]

کہا جاتا ہے کہ سلسلہ صُلحیان یمن کی تاریخ کی سب سے مؤثر اسلامی حکومتوں میں ایک ہے اور ان کا دور یمن کی بہترین حکومتوں میں شمار ہوتا ہے۔[4] انہوں نے یمن کی اقتصادی اور ثقافتی حالت کو بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کی[5] اور مذہبی رواداری و برداشت کی پالیسی اختیار کی۔ وہ عوام کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آتے تھے اور اہل سنت کو مکمل آزادی کے ساتھ مذہبی آداب و رسوم کی ادائیگی کی اجازت دیتے تھے۔[6] عوامی تعلقات عامہ اور نیک اقدامات اس حکومت کی اہم خصوصیات میں شمار ہوتے ہیں۔[7] اس دور میں علوم اسلامی کو زبردست فروغ حاصل ہوا اور زیادہ تر صُلحی حکمران اور شہزادے خود شاعر اور ادیب ہوا کرتے تھے۔[8]

صُلحی حکمرانوں نے یمن کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا اور وہ ابتدائی حکمرانوں میں سے تھے جنہوں نے دینی علوم کے مدارس قائم کیے۔[9] ان کے اہم اقدامات میں مساجد اور مذہبی مقامات کی تعمیر، تزئین اور قدیم مساجد کی مرمت شامل ہیں، جو ان کی اصلاحی اور تبلیغی پالیسیوں کا بنیادی حصہ تھا۔[10] یہی وجہ ہے کہ یہ دور خوبصورت مساجد، مذہبی عمارتوں اور عظیم آثار قدیمہ کی کثرت کے سبب ممتاز ہے۔ صُلحی طرزِ تعمیر کا ظہور اور نمود بنیادی طور پر یمن کی مساجد کے فن تعمیر نظر آتا ہے۔[11]

موسس اور بانی

علی بن محمد صُلحی حکومت صلیحیان کے بانی تھے۔ انہوں نے اسماعیلیہ مذہب کی تعلیم فاطمی داعی سلیمان بن عبداللہ زواحی[یادداشت 1] سے حاصل کی اور آخر کا ان کے معاون اور مشیر بن گئے۔[12] علی صلیحی کے والد قاضی محمد اہل سنت اور شافعی المذہب تھے۔[13]

قیام سے زوال تک

علی بن محمد صُلحی نے 439ھ میں یمن میں صلیحیوں کی اسماعیلیہ حکومت قائم کی۔[14] ابتدا میں انہوں نے پُرامن اور خاموش دعوت کا طریقہ اپنایا اور اس طرح ایک لشکر تیار کیا، پھر کھلے عام مسلح بغاوت کا فیصلہ کیا۔[15] انہوں نے حَراز (صنعا کے مغرب میں یمن کا ایک کوہستانی علاقہ) میں قیام کیا اور وہاں قلعے تعمیر کیے۔[16] یہی سلسلۂ صُلحیان کی بنیاد تھی جو تقریباً ایک صدی یعنی 532ھ تک قائم رہی۔[17]

علی بن محمد صُلحی کی حیثیت اس وقت مزید مستحکم ہوئی جب فاطمی خلیفہ مُستنصر باللّٰہ نے ان کی توثیق کی اور ان کی فتوحات جاری رہیں۔[18] آخر کار 455ھ میں انہوں نے پورے یمن کو اپنے زیرِ اقتدار لے آیا۔[19]

علی صلیحی نے صنعا کو دارالحکومت بنایا اور "داعی الدعات"

  1. داعی، اسماعیلیہ مذہب کے علم کلام کی ایک اصطلاح ہے، کے معنی دعوت کی اجازت یافتہ نمائندہ کے ہیں؛ یعنی ایسا مُبلّغ جس کا وظیفہ اسماعیلیہ مذہب کے امام یا قائم منتظر کے پیروکاروں میں اضافہ کرنے کی ذریعے مذہب اسماعیلیہ کی تبلیغ اور ترویج ہے۔ اس طرح وہ مذہب اسماعیلیہ میں داخل ہونے والے نئے پیروکاروں کی مذہبی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔ (دفتری، «داعی»، ذیل مدخل)

کا لقب پایا۔[20] یمن کے علاوہ وہ حجاز اور بیت المقدس کے امور میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ اس بنا پر انہوں نے 454 یا 455ھ میں مکہ پر لشکر کشی کی اور اسے فتح کر لیا،[21] لیکن 459ھ[22] یا 473ھ میں سفر حج کے دوران ایک غیر متوقع حملے میں قتل کر دیے گئے۔[23]

ان کے بعد ان کے بیٹے احمد المُکَرَّم (وفات 477ھ)[24] نے، فاطمی خلیفہ سے "امیرالامراء" کا لقب حاصل کر کے، اقتدار سنبھالا۔[25] ان کے دور میں صُلحی حکومت اپنے عروج پر پہنچی[26] اور اسماعیلیہ مذہب کی تبلیغ کا سلسلہ یمن سے باہر، عمان، بحرین اور ہندوستان تک پھیل گیا۔[27] آخر عمر میں احمد المُکَرَّم فالج میں مبتلا ہو گئے اور انہوں نے حکومت اپنی بیوی ملکہ اَرویٰ کے سپرد کر دی۔[28]

احمد المُکَرَّم کی وفات کے بعد 477ھ میں ملکہ اَرویٰ حکمران بنیں[29] اور 481ھ میں فاطمی خلیفہ مُستنصر باللّٰہ نے انہیں یمن، ہند اور عمان کی حکومت اور دعوت کی سربراہی سونپ دی۔[30] انہوں نے 532ھ تک اقتدار سنبھالا رکھا۔ ملکہ اَرویٰ نے دارالحکومت کو صنعا سے ذُوجِبلہ منتقل کر دیا۔[31] ملکہ اروی 55 سال حکومت کرنے کے بعد سنہ 532ھ میں وفات پا گئیں۔ ان کی وفات کے بعد یہ حکومت زوال پذیر ہو گئی۔ ملکہ اَرویٰ کی وفات کے ساتھ سلسلۂ صُلحی عملاً ختم ہو گیا۔ بعد کے چند صُلحی حکمران حکومت کے زوال کو روکنے میں کامیاب نہ ہوئے اور محض چند علاقوں میں 560ھ تک باقی رہے۔[32]

آخرکار یمن مقامی خاندانوں کے قبضے میں چلا گیا اور 569ھ میں یہ سب ایوبی حکمرانوں کے ہاتھوں ختم ہو گئے۔[33] بعض صلحی حکمران چھٹی صدی ہجری کے آخر تک یمن کے بعض علاقوں پر قابض رہے۔[34]

کتاب اروی مقتدرترین ملکه یمن

ملکہ اَرویٰ – پہلی شیعہ خاتون حکمران

ملکہ اَرویٰ، صُلحی حکومت کی سب سے اہم اور مؤثر حکمران تھیں، جو سیدہ حُرّہ اور بلقیسِ ثانی کے لقب سے معروف تھیں۔ وہ پہلی شیعہ خاتون حکمران تھیں جنہوں نے 40 سال سے زیادہ یمن پر حکومت کی۔[35] ان کے اخلاھ، عقل اور تدبیر کی بہت تعریف کی گئی ہے۔[36] وہ تعمیر و ترقی، سیاست اور حکومت میں کامیاب حکمران سمجھی جاتی ہیں۔[37] کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تمام شہروں میں لوگوں کو عقیدے کی آزادی دی اور سب کے ساتھ مساوات قائم رکھی۔[38] یمن ان کے دور میں ترقی کے عروج پر پہنچ گیا تھا۔[39]

ملکہ اَرویٰ کی تدبیر اور قابلیت کی بنا پر فاطمیوں نے انہیں یمن کی داعی الدعات اور حجّت[یادداشت 1] کے منصب پر فائز کیا۔[40] انہی کے دور میں صُلحی اور فاطمی حکومتوں کے درمیان سیاسی و مذہبی تعلقات اپنی انتہا کو پہنچے۔[41] ان کے اور فاطمی خلفاء کے درمیان خط و کتابت ان کے منفرد مقام کی نشاندہی کرتی ہے۔[42]

فاطمیوں سے سیاسی و مذہبی وابستگی

صُلحی ابتدا ہی سے خود کو فاطمی خلافت کا تابع سمجھتے تھے اور ان کے مذہب کی پیروی کرتے تھے۔[43] وہ فاطمی داعیوں کے طور پر جزیرۂ عرب اور برصغیر میں دعوت کے امور پر مامور تھے۔[44] اس دور کی تہذیب و ثقافت نمایاں طور پر مصر کی فاطمی تہذیب سے متاثر تھی۔[45] صُلحی حکومت نے اپنی بنیاد فاطمیوں کے ساتھ دوستانہ اور قریبی تعلقات پر رکھی۔[46] صلیحیوں اور فاطمیوں کے درمیان بہت زیادہ خط و کتابت کا سلسلہ اس موضوع کی تائید کرتا ہے۔[47] فاطمی خلفاء کی حمایت ان کی کامیابی کے اسباب میں سے تھی۔[48]

یمن کے صُلیحی داعی فاطمیوں کی جانب سے مکہ، مدینہ، عمان، بحرین اور ہندوستان میں اسماعیلیہ مذہب کی ترویج پر مامور تھے۔ ان کا وظیفہ تھا کہ وہ لوگوں کو فاطمی امام کی طرف دعوت دینے کے ساتھ ساتھ عباسی خلافت کی بنیادوں کو کمزور کریں اور خطبوں سے عباسی خلیفوں کا نام ختم کریں۔[49] اس کے بدلے میں فاطمی خلفاء ان کی حکومت کو تسلیم کرتے اور مذہبی و سیاسی جواز عطا کرتے۔[50] صلیحیوں نے اس دو طرفہ تعلقات کے ذریعے اپنی سیاسی قدرت کو مستحکم کیا۔[51]

مذہب اسماعیلیہ کی ترویج

کتاب الصلیحیون و الحرکۃ الفاطمیہ

صُلحی حکمرانوں کی ایک صدی پر محیط سرگرمیوں کے نتیجے میں مذہب اسماعیلیہ یمن، جزیرۃ العرب اور برصغیر میں وسیع پیمانے پر پھیل گیا اور یمن اسماعیلیہ مذہب کی دعوت کے اہم مراکز میں سے ایک بن گیا۔[52] صُلحی سلاطین نے فاطمی داعیوں کی حیثیت سے جنوبی جزیرۂ عرب میں اسماعیلی مذہب کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا سب سے اہم کام فاطمی امام کی دعوت کے ساتھ یمن، مکہ اور مدینہ میں فاطمی اقتدار کو مضبوط کرنا تھا۔[53]

برصغیر میں دعوت

یمن کے صُلحی داعیوں نے برصغیر میں بھی اسماعیلیہ مذہب کی دعوت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔[54] یمن سے داعی باقاعدگی سے برصغیر جاتے رہے، جس کے نتیجے میں گجرات[55] اور جنوب و جنوب مغربی ہند کے علاقوں میں نئی اسماعیلی جماعتیں وجود میں آگئیں۔[56] برصغیر کے داعی یمن کے داعی الدعات کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے اور مذہبی فیصلوں میں یمن کے داعیوں سے متاثر ہوتے تھے۔[57]

مستقل کتابیں

  • کتاب "الصُلحیون والحركۃ الفاطميۃ فی الیمن" – حسین بن فیض اللہ ہمدانی کی تصنیف، جو یمن میں صُلحی حکومت کی تاریخ پر لکھی گئی ہے۔
  • کتاب "اَرویٰ، مقتدر ترین ملکۂ یمن" – عارف تامر کی تصنیف، مترجم: ساجدہ یوسفی و مصطفیٰ حقانی فضل، سنہ 1400ش میں انتشارات طہ کی جانب سے شائع ہوئی، جو صُلحی حکومت کی تاریخ پر مشتمل ہے۔

حوالہ جات

  1. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص33.
  2. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص38؛ طاہری بوئینی، «صلیحیان یمن با تأکید بر داعی الدعاہ یمین ملکہ أروی»، سایت دانشگاہ ادیان و مذاہب.
  3. باسورث، سلسلہ‌ہای اسلامی جدید، 1381ش، ج1، ص208.
  4. ہمدانی، الصلیحیون و الحرکۃ الفاطمیۃ فی الیمن، دمشق، ص104-105؛ حسن‌پور، «صلیحیان»، ذیل مدخل.
  5. حسن‌پور، «صلیحیان»، ذیل مدخل.
  6. حسن‌پور، «صلیحیان»، ذیل مدخل.
  7. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص49.
  8. حسن‌پور، «صلیحیان»، ذیل مدخل.
  9. حسن‌پور، «صلیحیان»، ذیل مدخل.
  10. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص49.
  11. جان‌احمدی، «صلیحیون و آثار معماریشان در یمن»، پایگاہ مرکز اطلاعات علمی جہاد دانشگاہی.
  12. باسورث، سلسلہ‌ہای اسلامی جدید، 1381ش، ج1، ص208؛ دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، 1386ش، ص241.
  13. ابن‌کثیر، البدایۃ والنہایہ، بیروت، ج12، ص121؛‌ ہمدانی، الصلیحیون والحرکۃ الفاطمیۃ فی الیمن، دمشق، ص64.
  14. طاہری بوئینی، «صلیحیان یمن با تأکید بر داعی الدعاۃ یمین ملکہ أروی»، سایت دانشگاہ ادیان و مذاہب.
  15. حسن‌پور، «صلیحیان»، ذیل مدخل.
  16. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، 1386ش، ص241.
  17. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، 1386ش، ص241.
  18. باسورث، سلسلہ‌ہای اسلامی جدید، 1381ش، ج1، ص208؛ حسن‌پور، «صلیحیان»، ذیل مدخل.
  19. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، 1386ش، ص242.
  20. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص34.
  21. حسن‌پور، «صلیحیان»، ذیل مدخل.
  22. تامر، اَروی، مقتدرترین ملکہ یمن، 1400ش، ص60.
  23. مقریزی، اتعاظ الحنفا بأخبار الائمۃ الفاطمیین الخلفا، قاہرہ، 1416ھ، ج3، ص25؛ ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایہ، بیروت، ج12، ص121.
  24. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، 1386ش، ص242.
  25. طاہری بوئینی، «صلیحیان یمن با تأکید بر داعی الدعاہ یمین ملکہ أروی»، سایت دانشگاہ ادیان و مذاہب.
  26. باسورث، سلسلہ‌ہای اسلامی جدید، 1381ش، ج1، ص208.
  27. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص40.
  28. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، 1386ش، ص242؛ جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص40.
  29. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص40.
  30. حسن‌پور، «صلیحیان»، ذیل مدخل.
  31. باسورث، سلسلہ‌ہای اسلامی جدید، 1381ش، ج1، ص208.
  32. جان احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص43.
  33. باسورث، سلسلہ‌ہای اسلامی جدید، 1381ش، ج1، ص208؛ دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، 1386ش، ص242.
  34. باسورث، سلسلہ‌ہای اسلامی جدید، 1381ش، ج1، ص208.
  35. طاہری بوئینی، «صلیحیان یمن با تأکید بر داعی الدعاہ یمین ملکہ أروی»، سایت دانشگاہ ادیان و مذاہب.
  36. کحالہ، اعلام النساء فی عالمی العرب و الإسلام، بیروت، ج1، ص27؛ ہمدانی، الصلیحیون و الحرکۃ الفاطمیۃ فی الیمن، دمشق، ص143.
  37. طاہری بوئینی، «صلیحیان یمن با تأکید بر داعی الدعاہ یمین ملکہ أروی»، سایت دانشگاہ ادیان و مذاہب.
  38. تامر، اَروی، مقتدرترین ملکہ یمن، 1400ش، ص60.
  39. طاہری بوئینی، «صلیحیان یمن با تأکید بر داعی الدعاۃ یمین ملکہ أروی»، سایت دانشگاہ ادیان و مذاہب.
  40. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص41.
  41. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص44.
  42. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص34 و 40.
  43. حسن‌پور، «صلیحیان»، ذیل مدخل.
  44. حسن‌پور، «صلیحیان»، ذیل مدخل.
  45. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص53.
  46. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص34-43.
  47. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص52؛ دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، 1386ش، ص242.
  48. طاہری بوئینی، «صلیحیان یمن با تأکید بر داعی الدعاہ یمین ملکہ أروی»، سایت دانشگاہ ادیان و مذاہب.
  49. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص44.
  50. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص44.
  51. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص49.
  52. طاہری بوئینی، «صلیحیان یمن با تأکید بر داعی الدعاہ یمین ملکہ أروی»، سایت دانشگاہ ادیان و مذاہب.
  53. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص34.
  54. دفتری، تاریخ تشیع، 1397ش، ص140.
  55. دفتری، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، 1386ش، ص242.
  56. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص51.
  57. جان‌احمدی، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، ص51.

نوٹ

  1. حجت اسماعیلیوں کے تنظمی امور میں ایک اعلی مقام ہے جو ان کے امام کے بعد لوگوں کی ہدایت اور قیادت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ (خضری، تشیع در تاریخ، 1393ش، ص251.)

مآخذ

  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دار الفکر، بی‌تا.
  • باسورث، کلیفورد ادموند، سلسلہ‌ہای اسلامی جدید، ترجمہ فریدون بدرہ‌ای، تہران، مرکز بازشناسی اسلام و ایران، 1381ہجری شمسی۔
  • تامر، عارف، اَروی، مقتدرترین ملکہ یمن، ترجمہ ساجدہ یوسفی و مصطفی حقانی فضل، قم، کتاب طہ، 1400ہجری شمسی۔
  • جان‌احمدی، فاطمہ، «داعیان حکومت‌گر صلیحی در یمن»، علوم انسانی دانشگاہ الزہرا(س)، شمارہ 59، تابستان 1385ہجری شمسی۔
  • جان‌احمدی، فاطمہ، «صلیحیون و آثار معماریشان در یمن»، پایگاہ مرکز اطلاعات علمی جہاد دانشگاہی، تاریخ اخذ: 26 دی 1403ہجری شمسی۔
  • حسن‌پور، مریم، «صلیحیان»، دانشنامہ جہان اسلام، ج30، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، بی‌تا.
  • خضری، احمدرضا، تشیع در تاریخ، قم، دفتر نشر معارف، 1393ہجری شمسی۔
  • دفتری، فرہاد، «اسماعیلیہ»، دائرۃ‌المعارف بزرگ اسلامی، ج8، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، بی‌تا۔
  • دفتری، فرہاد، تاریخ تشیع، ترجمہ رحیم غلامی، تہران، فرزان روز، 1397ہجری شمسی۔
  • دفتری، فرہاد، تاریخ و عقاید اسماعیلیہ، ترجمہ فریدون بدرہ‌ای، تہران، فرزان روز، 1386ہجری شمسی۔
  • دفتری، فرہاد، «داعی»، دانشنامہ جہان اسلام، ج16، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، 1393ہجری شمسی۔
  • طاہری بوئینی، ہدی، «صلیحیان یمن با تأکید بر داعی الدعاہ یمین ملکہ أروی»، سایت دانشگاہ ادیان و مذاہب، تاریخ درج مطلب: 18 آبان 1403ش، اخذ: 26 دی 1403ہجری شمسی۔
  • کحالہ، عمررضا، اعلام النساء فی عالمی العرب و الإسلام، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، بی‌تا۔
  • مقریزی، احمد بن علی، اتعاظ الحنفا بأخبار الائمۃ الفاطمیین الخلفا، قاہرہ، وزارۃ الاوقاف، 1416ھ۔
  • ہمدانی، حسین بن فضل‌اللہ، ‌الصلیحیون و الحرکۃ الفاطمیۃ فی الیمن، دمشق، دار المختار للطباعۃ و النشر، بی‌تا۔