وحید بہبہانی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | محمد باقر بن محمد اکمل اصفہانی |
لقب/کنیت | وحید عصر |
تاریخ ولادت | 1118 ھ |
آبائی شہر | اصفہان |
تاریخ وفات | 1205 ھ، |
مدفن | کربلا |
نامور اقرباء | والد: سید محمد طباطبایی بروجردی |
علمی معلومات | |
اساتذہ | والد: سید محمد طباطبایی بروجردی و سید صدر الدین قمی ہمدانی۔ |
شاگرد | ملاّ مہدی نراقی • بحر العلوم • ابو علی حائری • سید محمد جواد عاملی • کاشف الغطاء • میرزای قمی • صاحب ریاض • شیخ اسد الله کاظمی • ملا احمد نراقی • شیخ محمد تقی اصفہانی • حاج محمد ابراہیم کلباسی اصفہانی • سید محمد حسن زنوزی خویی • |
تالیفات | ابطال القیاس • اثبات التحسین و التقبیح العقلیین • الاجتہاد و الاخبار • اصالہ البرائہ • اصالہ الصحہ فی المعاملات و عدمها • الاستصحاب • اصول الاسلام و الایمان • التحفہ الحسینیہ • التعلیقہ البھبھانیہ • التقیہ • حاشیہ ارشاد علامہ • حاشیہ تہذیب علامہ • حاشیہ ارشاد اردبیلی • حاشیہ مسالک الافہام • حاشیہ معالم • شرح مفاتیح الکلام • |
خدمات |
محمد باقر بن محمد اکمل اصفہانی (1118۔1205 ھ)، وحید بہبہانی کے نام سے مشہور، آقا کے لقب سے ملقب، بارہویں صدی ہجری کے شیعہ امامیہ فقیہ اور اصولی ہیں۔ انہیں وحید عصر کا لقب بھی دیا گیا۔ اس کے علاوہ وہ استاد اکبر، استاد کل، علامہ ثانی و محقق ثالث جیسے القاب سے بھی مشہور ہیں۔ انہوں نے اخباریت اور شدت پسند اخباریوں سے مقابلہ کیا۔ ان کی فعالیت کی وجہ سے اخباریت زوال پذیر ہوئی۔ وحید بہبہانی نے کربلا میں وفات پائی، ان کے جسد خاکی کو حرم امام حسین (ع) میں دفن کیا گیا۔
ولادت و نسب
محمد باقر بھبھانی سن 1118 ء اصفہان میں پیدا ہوئے۔[1] ان کے والد محمد اکمل اصفہانی علامہ مجلسی کے شاگردوں میں سے تھے[2] اور ان کی والدہ آقا نور الدین بن ملا صالح مازندرانی کی بیٹی تھیں۔[3] بعض نے وحید بھبھانی کا سلسلہ نسب شیخ مفید (متوفی 413 ھ) تک پہچایا ہے۔[4] البتہ کیوان سمیعی نے سردار کابلی سے نقل کیا ہے کہ شیخ مفید سے ان کے سلسلہ نسب کا انتساب جعلی ہے۔{حوالہ درکار}
تعلیم و تحصیل
وحید بھبھانی نے بچپن اور نوجوانی کا زمانہ اصفہان میں بسر کیا۔ علوم عقلی کو اپنے والد کے پاس پڑھا[5] اور ان کے انتقال اور محمود افغان کے اصفہان پر حملے اور قبضے کے بعد وہ اصفہان کو ترک کرکے نجف روانہ ہو گئے۔
نجف میں انہوں نے سید محمد طباطبایی بروجردی (خسر)، سید صدر الدین قمی ہمدانی (شارح وافیہ الاصول) جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا۔[6]
محمد باقر بھبھانی استاد الکل فی الکل معروف ہیں۔[7]
اقامت
- بہبہان
انہوں نے عراق میں تحصیل علم کے بعد بہبہان کا رخ کیا اور 1140 سے 1170 ھ تک تقریبا 30 سال تک وہاں رہائش اختیار کی۔[8]
ان کے بہبہان ہجرت کرنے کے اسباب میں سے مہم ترین سبب اس علاقہ کی پر سکون زندگی تھی جو اصفہان کے حالات خراب ہو جانے کی وجہ سے اہل علم حضرات کی پناہ گاہ میں تبدیل ہو گیا تھا۔ ان کی ہجرت کا دوسرا سبب اخباریت سے مقابلہ کرنا تھا جو اس وقت شیخ عبد اللہ سماہیجی بحرینی (متوفی 1135 ھ) کی ذات کی وجہ سے بہبہان میں رونق حاصل کر رہی تھی اور ان کے بعد ان کے شاگرد سید عبد اللہ بلادی (متوفی 1165 ھ) کے ہاتھوں پروان چڑھ رہی تھی۔[9]
- کربلا
وحید بھبھانی نے بہبہان میں اخباریت سے مستمر مقابلہ علمی کے بعد اپنے بعض رشتہ داروں اور علاقے والوں کے ساتھ کربلا کا سفر کیا اور وہیں رہایش اختیار کی اور آخر عمر تک وہیں رہے۔[10]
شاگرد
ان کے بعض شاگردوں کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں:
- ملا مہدی نراقی (متوفی 1209 ھ)
- سید محمد مہدی طباطبائی بحر العلوم (متوفی 1212 ھ)
- ابو علی حائری، مؤلف منتہی المقال (متوفی 1215 ھ)
- سید محمد جواد عاملی، مؤلف مفتاح الکرامہ (متوفی 1226 ھ)
- شیخ جعفر نجفی کاشف الغطاء (متوفی 1228 ھ)
- میرزا ابو القاسم قمی، مؤلف قوانین (متوفی 1231 ھ)
- میر سید علی طباطبایی، مؤلف ریاض المسائل (متوفی 1231 ھ)
- شیخ اسد الله کاظمی، مؤلف مَقابِس الانوار (متوفی 1234 ھ)
- ملا احمد نراقی (متوفی 1245 ھ)
- شیخ محمد تقی اصفہانی، مؤلف ہدایة المسترشدین (متوفی 1248 ھ)
- محمد ابراہیم کلباسی اصفہانی (متوفی 1261 ھ)
- سید محمد حسن زنوزی خویی، مؤلف ریاض الجنّة (متوفی 1246 ھ)۔[11]
تالیفات
محمد باقر بھبھانی نے ملا محسن فیض کاشانی کی کتاب مفاتیح الشرایع کے ابواب عبادات پر شرح اور سید محمد عاملی کی کتاب مدارک الاحکام پر حواشی تحریر کئے۔ وہ علم رجال اور حدیث میں بھی تبحر رکھتے تھے۔ علم رجال کی ان کی تحقیقات میں جو انہوں نے کتاب منہج المقال پر تعلیقہ کی صورت میں تحریر کی ہے، سعی کی ہے کہ ان روات کو جن کی وثاقت واضح طور پر ثابت نہیں ہے، انہیں قرائن و شواہد کی مدد سے توثیق کریں۔ اسی وجہ سے وہ متاخرین ماہرین علم رجال کی طرف مورد تنقید بھی قرار پائے ہیں۔[12]
ان کی تالیفات و آثار میں 119 رسائل اور کتابیں باقی ہیں۔ ذیل میں ان میں سے بعض کا ذکر کیا جا رہا ہے:
- الحاشیہ علی مدارک الاحکام
- الرسائل الأصولیہ
- الرسائل الفقہیہ
- الفوائد الحائریہ
- حاشیہ الوافی (بھبھانی)
- حاشیہ مجمع الفایدة و البرہان
- رسالہ عملیہ (مع التعلیقات للمجدد الشیرازی)
- مصابیح الظلام فی شرح مفاتیح الشرایع
- ابطال القیاس
- اثبات التحسین و التقبیح العقلیین
- الاجتہاد و الاخبار
- اصالہ البرائہ
- اصالہ الصحہ فی المعاملات و عدمہا
- الاستصحاب
- اصول الاسلام و الایمان
- التحفہ الحسینیہ
- التعلیقہ البھبھانیہ
- التقیہ
- حاشیہ ارشاد علامہ
- حاشیہ تہذیب علامہ
- حاشیہ ارشاد اردبیلی
- حاشیہ مسالک الافہام
- حاشیہ معالم
- شرح مفاتیح الکلام۔[13]
اخباریت سے مقابلہ
آیت اللہ بھبھانی کا اخباریت سے مقابلہ ان کے بہبہان میں طویل اقامت کے ساتھ ہی شروع ہوا۔ بہبہان بہت سے بحرینی علماء کی وہاں مہاجرت کی وجہ سے اخباریت کی نشر و اشاعت کا مرکز بن چکا تھا۔ وحید بھبھانی نے وہاں تدریس، اقامہ نماز، دینی امور کی انجام دہی اور سب سے اہم اخباریت کے نظریات کی تبیین و تنقید کے سلسلہ میں کتاب کی تالیف کا کام کیا۔
انہوں نے کتاب الاجتہاد و الاخبار مسلک اجتہاد کے دفاع میں سن 1155 ھ میں بہبہان میں تحریر کی اور اس میں اخباریت کے نظریات پر تنقید کی۔
وحید بھبھانی نے کربلا میں جو اس وقت اخباریوں کا گڑھ تھا، کچھ دن شیخ یوسف بحرانی (1186 ھ جو فقہائے عصر کے سرکردہ اور اخباریت کے آخری نمائندہ تھے) کے درس میں شرکت کی، اس کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ وہ کچھ عرصہ تک شیخ یوسف بحرانی کی جگہ درس دینا چاہتے ہیں اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنے شاگردوں سے ان کے درس میں شامل ہونے کی سفارش کریں۔
بحرانی جو معتدل اخباری تھے اور خود ان کے بقول انہوں نے راہ اعتدال و راہ وسط کا انتخاب کیا تھا،[14] وہ علماء کی اصولی و اخباری تقسیم بندی اور بزرگ شیعہ مجتہدین کے سلسلہ میں بدگوئی پر تنقید کرتے تھے لہذا انہوں نے اپنے مجلس درس کو جو اس زمانہ میں سے سب سے بڑا مجلس درس تھا، آقا وحید بھبھانی کے حوالے کر دیا اور انہوں نے محض تین دن کے اندر نظریہ اجتہاد کی تبیین اور اخباریوں کے نظریات پر تنقید کے ذریعہ بحرانی کے دو سوم شاگردوں کو اخباریت کے افکار سے نکال کر اپنا ہم خیال بنا لیا۔[15]
محمد باقر بھبھانی 30 سے زیادہ عرصہ کربلا میں رہے اور آخرکار انہوں نے اخباری مسلک کو کنارے کرکے اپنے اجتہادی نظریات کو قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔[16]
اولاد
ان کے بڑے فرزند آقا محمد علی کرمان شاہ میں مشہور فقیہ تھے۔ ان کے ایک دوسرے بیٹے جن کا نام عبد الحسین تھا، اہل سلوک، ریاضت و مجاہدت با نفس تھے، والد کی مرجعیت کے زمانہ میں وہ مالی امور اور استفتائات کے ذمہ دار تھے۔[17]
ان کی ایک بیٹی بھی تھی جو میر سید علی طباطبایی (صاحب ریاض) کی زوجہ تھیں اور ان کے بیٹوں میں سے ایک سید محمد مجاہد (متوفی 1242 ھ) صاحب المناہل ہیں جنہوں نے فتح علی شاہ قاجار کے دور میں تزاری روس کے خلاف جہاد کا فتوی صادر کیا تھا۔[18]
وفات
وحید بھبھانی نے 83 برس عمر پائی اور اواخر عمر میں انہوں نے درس و مباحثہ کو ترک کر دیا تھا اور وہ فقط کربلا میں شرح لمعہ کا درس دیا کرتے تھے۔ انہوں نے حکم دیا کہ ان کے شاگردوں میں سب سے بڑے علامہ سید بحر العلوم نجف لوٹ جائیں اور مستقل طور پر سلسلہ درس و تدریس قائم اور شیعوں کے امور کی رسیدگی کریں۔
آخرکار 29 شوال 1305 ھ میں جمعہ کے روز وفات پائی اور کربلا میں حرم امام حسین (ع) میں شہدائے کربلا کے پائنتی حصہ میں دفن کئے گئے۔[19]
حوالہ جات
- ↑ علیاری، بہجة الامال، ج ۶، ص۵۷۲
- ↑ قمی، الکنی، ج۲، ص۹۷.
- ↑ بھبھانی، فوائد الوحید، ص۶۴ ؛ بهبهانی، الرسائل، ص۲۸، ۱۹۶؛ قمی، فوائد، ج۲، ص۴۰۸.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ج۳، ص۱۳۶.
- ↑ بھبھانی، مرآت الاحوال جہان نما، ج ۱، ص ۱۴۷
- ↑ بھبھانی، مرآت الاحوال جہان نما، ج۱، ص۱۴۷ـ۱۴۹؛ دوانی، آقا محمد باقر بن محمد اکمل اصفہانی معروف بہ وحید بھبھانی، ص۱۱۲.
- ↑ مازندرانی، ج ۶، ص ۱۷۷ ؛ تنکابنی، قصص العلماء، ص ۱۹۸ ؛ جاپلقی، روضة البہیہ فی طرق الشفیعیہ، ص ۳۱ ؛ بھبھانی، مرآت الاحوال جہان نما، ج ۱، ص ۱۴۶ـ۱۴۷
- ↑ بھبھانی، مرآت الاحوال جهان نما، ج۱، ص۱۴۷ـ۱۴۹.
- ↑ جزایری، لاجازة الکبیرة، ص۲۰۵ ـ ۲۰۶ ؛ بحرانی، لؤلؤة البحرین، ص ۹۳ و ۹۸.
- ↑ بھبھانی، مرآت الاحوال جہان نما، ج ۱، ص ۱۴۸ ـ ۱۴۹.
- ↑ آقا بزرگ طہرانی، طبقات، جزء۲، قسم ۱، ص ۱۷۲ ؛ قمی، فوائد، ج ۲، ص ۴۰۶ ؛ بھبھانی، الفوائد الحائریہ، مقدمہ ، ص ۱۹ ـ ۲۰
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج ۲، ص ۳۴۶ و ج ۵، ص ۱۲۹، ۱۳۳ و ج ۷، ص ۶۰ و ج ۱۶، ص ۴۵ ـ ۴۶
- ↑ مازندرانی، منتہی المقال، ج ۶، ص ۱۸۰ـ۱۸۲ ؛ بھبھانی، الفوائد الحائریہ، مقدمہ، ص ۲۰ ـ ۲۶
- ↑ بحرانی، الحدائق، ج ۱، ص ۱۵
- ↑ مامقانی، نقیح المقال، ج ۲، ص ۲۸۵
- ↑ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج ۱۶، ص ۳۳۰ ـ ۳۳۱
- ↑ بھبھانی، مرآت الاحوال جہان نما، ج ۱، ص ۱۶۸
- ↑ بھبھانی، مرآت الاحوال جہان نما، ج ۱، ص ۱۲۸، ۱۷۹ ؛ دوانی، آقا محمد باقر بن محمد اکمل اصفہانی معروف بہ وحید بھبھانی، ص ۲۵۶ و ۲۷۲.
- ↑ بھبھانی، مرآت الاحوال جہان نما، ج ۱، ص ۵۱
مآخذ
- آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، چاپ علی نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت، ۱۴۰۳ق
- آقا بزرگ طہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، مشہد، ۱۴۰۴ق
- امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، چاپ حسن امین، بیروت، ۱۴۰۳ق
- بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة فی احکام العترة الطاہرة، قم، ۱۳۶۳ش
- بحرانی، لؤلؤة البحرین، چاپ محمد صادق بحر العلوم، قم
- بھبھانی، احمد، مرآت الاحوال جہان نما، قم، ۱۳۷۳ ش
- بھبھانی، محمد باقر، الرسائل الاصولیہ، قم، ۱۴۱۶ق
- بھبھانی، محمد باقر، الفوائد الحائریہ، قم، ۱۴۱۵ق
- بھبھانی، محمد باقر، فوائد الوحید البھبھانی، چاپ محمد صادق بحر العلوم، قم، ۱۴۰۴ق
- تنکابنی، قصص العلماء، تہران
- جاپلقی بروجردی شفیعا، روضة البہیہ فی طرق الشفیعیہ، چاپ سنگی، تہران ۱۲۸۰ش
- جزایری، الاجازة الکبیرہ، چاپ محمد سمامی حائری، قم، ۱۴۰۹ق
- خوئی، معجم رجال الحدیث، بیروت، ۱۴۰۳ق
- دوانی، آقا محمد باقر بن محمد اکمل اصفہانی معروف بہ وحید بھبھانی، تہران، ۱۳۶۲ش
- علیاری، بہجة الامال فی شرح زبدة المقال، چاپ جعفر حائری، تهران، ۱۳۶۶ش
- قمی، شیخ عباس، فوائد الرضویہ، تہران
- قمی، شیخ عباس، الکنی و الالقاب، چاپ افسٹ، قم
- مازندرانی حائری، منتهی المقال فی احوال الرجال، قم، ۱۴۱۶ق
- مامقانی، تنقیح المقال فی علم الرجال، چاپ سنگی، نجف، ۱۳۴۹ق