اسلامو فوبیا
اسلامو فوبیا یا اسلامْ ہَراسی سے مراد باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسلام اور اسلامی مظاہر کی نسبت خوف اور نفرت پیدا کرنا ہے۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں، اسلامی اداروں اور تنظیموں کے ساتھ مختلف قسم کے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور انہیں مختلف حقوق سے محروم اور ان کے خلاف پر تشدد کاروائیاں کی جاتی ہیں۔
اسلاموفوبیا کو ایک مذہبی، سیاسی، ثقافتی اور سماجی اثر سمجھا جاتا ہے جس کا ایک تاریخی پس منظر موجود ہے لیکن 20ویں صدی کے آخر میں اور خاص طور پر 11 ستمبر (سنہ 2011ء) کے حملوں کے بعد یہ زیادہ رائج ہوا۔ اسلام ہراسی کو پھیلانے میں مغربی دنیا کسی حد تک کامیاب رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزرتے دنوں کے ساتھ اسلام دشمنی میں اضافہ اور مسلمانوں اور اہل مغرب کے درمیان بے اعتمادی کی فضا میں شدت آتی گئی۔ نتیجاََ اسلامی دنیا میں اسلام ہراسی کو ایک اہم موضوع سمجھا جاتا ہے لہذا اس کی تحقیق اور اس کا مکمل جائزہ لینے کے لیے اونچی سطح پر کام ہوتا ہے۔
عام طور پر اسلامی اور مغربی حکومتوں کے درمیان تاریخی عدم مطابقت اور مغربی اور اسلامی اقدار کے مابین تضاد کو اسلام ہراسی کی بنیاد سمجھا جاتا رہا ہے۔ محققین نے عالم اسلام کی مذہبی تفرقہ بازی جیسی اندرونی کمزوریوں، اسلامی دنیا میں ترقی کا فقدان، مسلمان ممالک میں رائج جمہوری نظام کی کمزوریوں اسی طرح اسلام اور مسلمانوں کی ماہیت کے بارے میں مغرب والوں کی لاعلمی وغیرہ کو اسلام ہراسی کا سبب قرار دیا ہے۔ نیز مسلمانوں کی یورپی ممالک ہجرت، ان ممالک میں مسلمان آبادی میں وسعت، بعض مسلمانوں کے ہاں اسلامی بنیاد پرستی کا عروج اور ان کے پر تشدد اقدامات کو بھی اسلاموفوبیا کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف خود مغربی میڈیا کے ذریعے منفی ماحول اور رائے عامہ کی تشکیل بھی اسلام ہراسی کے پھیلاؤ کا ایک ایم ترین عامل ہے۔
اسلام ہراسی کی روک تھام کے لیے اسلامی دنیا کے چہرے کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے مشترکہ اسلامی میڈیا کی تاسیس، مغربی مذہبی مراکز کے ساتھ منظم اور وسیع انداز میں رابطے، انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے بین التہذیبی تبادلے اور تقریب مذاہب اسلامی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام ہراسی کی روک تھام کے سلسلے میں بعض مسلمان شخصیات کی جانب سے مختلف طریقے اپنائے گئے ہیں، ان میں سے ایک ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا یورپ اور شمالی امریکہ کے نوجوانوں کے نام مکتوب خط ہے جس میں اہل مغرب کو اسلام کی حقیقت جاننے کے لیے اسلامی نصوص کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
مفہوم
آج کل مغربی دنیا اور عیسائیت میں اسلامی دنیا سے مقابلہ کرنے کے لیے اسلاموفوبیا کو ایک اہم اور اسٹریٹجک معاملہ سمجھا جاتا ہے۔[1] کہا جاتا ہے کہ عصر حاضر میں اسلام ہراسی کا ظہور ماضی قریب اور بعید میں عالم اسلام اور مغربی دنیا کے درمیان اختلافات اور تصادم کی وجہ سے ہوا۔ البتہ مسلمانوں اور اہل مغرب کے درمیان بقائے باہمی کے ساتھ زندگی گزارنے کے طریقوں کے باوجود دونوں کے درمیان اب بھی تنازعہ اور اختلاف موجود ہے۔[2]
اسلامو فوبیا کا لفظ عالمی سماج کی سیاسی سماجی تبدیلیوں کی طویل تاریخ میں مشاہدہ کیے جانے کے باوجود،[3] ایک نئی اصطلاح ہے جو سنہ 1980ء کی دہائی میں تشکیل پائی اور 11 ستمبر (سنہ 2001ء) کے حملوں کے بعد زیادہ مشہور ہوئی۔[4] اس دور میں کمیونزم کے بجائے اسلام کو ایک شیطانی سلطنت کے طور پر پیش کرتے تھے اور اسے عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔[5]
تعریف
اسلام ہراسی (انگریزی: islamophobia) کے معنی ہیں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں خوف و دہشت پیدا کرنا، غیر معقول طریقوں سے ان کے ساتھ شدید نفرت کرنا، ان کے ساتھ بے جا تعصب برتنا اور غیر معقول امتیازی سلوک روا رکھنا۔[6] انگلینڈ کے رننی میڈ ٹرسٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق "اسلامو فوبیا: ہم سب کے لیے ایک چیلنج" کے عنوان سے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسلامو فوبیا کا مطلب اسلام سے خوف اور نفرت ہے؛ اس کے نتیجے میں مسلمانوں سے خوف اور نفرت ہے، جس کی وجہ سے انہیں غیر اسلامی ممالک کی معاشی، سماجی اور عوامی میدانوں سے خارج اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔[7]
میدان سیاست کے محققین اسلام ہراسی سے یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ دنیائے اسلام اور بالاخص مغرب میں مقیم مسلمان ان کے لیے اور ان کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔[8] اسی طرح اسلام ہراسی ہی کی بنیاد پر اہل مغرب یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام میں دوسری تہذیبوں کے ساتھ میل جول اور ان کے ساتھ کسی قسم کے مشترکہ اقدار موجود نہیں، اہل مغرب کے مقابلے میں مسلمان پست مقام کے حامل ہیں۔[9] فکری جمود، پسماندگی، تشدد اور دہشت گردی وغیرہ اسلامو فوبیا کی تفہیم کے سلسلے میں بیان کیے جانے والے معیارات ہیں۔ اسی طرح اہل مغرب کے ہاں اسلام ہراسی کے دیگر عوامل میں سے یہ ہیں کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ مسلمان ان کے سامنے ایک ٹھوس بلاک ہیں، اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب میں مطابقت نہیں، ان سب کا لازمی نتیجہ یہ کہ آخر کار مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کرنے پر اتر آتے ہیں۔[10]
کچھ دیگر محققین اسلامو فوبیا کے بارے میں تصور کرتے ہیں کہ یہ مواصلاتی ٹیکنالوجیز جیسے اخبارات اور سیٹلائٹ نیٹ ورک وغیرہ کے ذریعے پیدا ہوتا ہے اور روز بروز اس میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔[11] میدان سیاست کے محقق اصغر افتخاری کے مطابق اسلام ہراسی مغربی دنیا میں میڈیا کی طرف سے اسلام کے بارے میں پیدا کیے جانے والے ایک منفی ذہنی تصویر ہے، جس کے نتیجے میں وہ لوگ اسلامی نظام کے اجرا اور اس کی ترقی کے بارے میں نظریاتی یا عملی طور پر منفی ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔[12]
اسلام ہراسی پنپنے کے مواقع اور شکلیں
اسلامو فوبیا سے متعلق انجام پانے والی تحقیق کے مطابق کئی سطحوں اور کئی طریقوں سے اسلام ہراسی ظاہر ہوتی ہے۔ اس کی بنیاد پر، اسلامو فوبیا یا اسلام دشمنی معاشرتی چار سطحوں؛ عوام، مختلف گروہوں، میڈیا اور حکومتی سطح پر مختلف طریقوں جیسے تشدد، مغرضانہ ماحول سازی، تعصب اور امتیازی سلوک کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور انہی کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ دشمنی روا رکھی جاتی ہے۔[13]
- متشدد طریقے: کسی بہانہ سے مسلمانوں پر حملہ آور ہونا، ان کے اموال و املاک کو نقصان پہنچانا اور دوران گفتگو طعنہ زنی اور دشنام طرازی کرنا؛
- امتیازی سلوک: شہری اور مدنی حقوق میں امتیازی سلوک کرنا؛ جیسے مسلمانوں کے کام کرنے کے مقامات پر ان کی نسبت حفظان صحت اور تعلیم جیسے امور میں ان کو حقوق سے محروم رکھنا؛
- تعصب: میڈیا پر اسلام کے خلاف منفی مواد پر مبنی کارٹونز شائع کرنا اور اسلامی مقدسات، جیسے قرآن وغیرہ کی توہین کرنا؛
- بے دخلی: مسلمانوں کو سیاست، حکومت، ملازمت، انتظامی امور اور دیگر مختلف ذمہ داریوں سے دور اور بے دخل کرنا؛
- مسترد کرنا: مسلمانوں کو سیاست، حکومت، ملازمت، انتظامی امور اور ذمہ داریوں سے باہر نکالنا.[14]
مغربی دنیا میں اسلام دشمنی اور اسلام ہراسی کا پھیلاؤ
تمغربی دنیا میں اسلام ہراسی کا منصوبہ کسی حد تک کامیاب رہا اور اس کے نتیجے میں وہاں اسلام دشمنی میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا جس سے اہل مغرب اور مسلمانوں کے مایبن بے اعتمادی کی فضا پید اہوگئی۔[15] یہی چیز باعث بنی کہ اسلامی دنیا میں اسلام ہراسی نام کے مغربی حربے کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔[16]
میدان سیاست کے محققین کے مطابق ایک طرف 20ویں صدی کے 50 سے 70 کی دہائیوں میں استعمار مخالف اور ایک عالمی حکومت کی منصوبہ بندی کے تحت اسلامی تحریکوں کی تشکیل[17] اور دوسری طرف سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اسلام کو مغرب کا سب سے اہم مخالف قرار دیے جانے کا عمل[18] باعث بنا کہ عالمی طاقتیں اسلام اور اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے اسلام ہراسی کی شکل میں ایک منصوبہ تیار کیا جسے "دعوت اسلامی" کے مقابلے میں لاکر اسلام کو بدنام کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ [19]
یہ بھی کہا گیا ہے کہ سیموئل ہنٹنگٹن اور برنارڈ لیوس جیسے مغربی سیاسی تھیورسٹ نے اسلام پسندی، بنیاد پرستی اور روایت پرستی جیسی چیزوں کو غلط استعمال کرتے ہوئے اسلامو فوبیا کو جنم دینے کی کوشش کی اور ان کی یہ کوشش کامیاب بھی رہی۔ البتہ بعض اسلامی ممالک میں کچھ پرتشدد سرگرمیاں اور انتہاپسند گروہوں کی تشکیل بھی ان کی اس کامیابی کے حصہ رہی ہے۔[20] اس بنا پر بعض مفکرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلامو فوبیا کے منصوبے کا صحیح ادراک، اس کی تخلیق کے سیاق و سباق اور عوامل پر توجہ دینا اور اس رجحان سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ سطح پر حکمت عملی بنانا مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے اہم ترین اقدامات میں سے ہونا چاہیے۔[21]
عوامل و اسباب
تین چیزیں اس بات کی باعث بنی ہیں کہ عربوں اور اسلام کے بارے میں ایک سادہ ترین تصور کو ایک مکمل سیاسی اور تقریباً عجیب موضوع بنا گیا:
پہلا: مغربی دنیا میں عرب اور اسلام مخالف تعصب کی مقبولیت کا تاریخی پس منظر؛
دوسرا: عربوں اور اسرائیلی صیہونیوں کے درمیان تنازعہ اور لبرل ثقافت اور عام لوگوں پر اس کے اثرات؛
تیسرا: ایک عمومی ظرفیت اور ثقافتی پس منظر کا مکمل فقدان جس کے ذریعے اس بات کو ممکن بنایا جاسکتا ہے کہ عرب اور اسلام کو حساس اور منفی موضوع قرار دیے بغیر آپس میں ڈائیلاگ اور ایک دوسرے کے مظاہر کو مورد بحث قرار دیا جاسکتا ہے۔
سعید، شرقشناسی، 1382یجری شمسی، ص55.
اسلامو فوبیا کے پھیلاؤ کو، خاص طور پر مغربی ممالک میں اس کے پھیلاؤ کو، مسلمانوں اور مغربی ممالک کے درمیان تاریخی پس منظر اور ایک دوسرے کے ثقافتی، سماجی اور سیاسی تعلقات سے اثر پذیری کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔[22] محققین کے مطابق، اسلامو فوبیا یا تو بیرونی عناصر (منفی اسلامو فوبیا) کے ذریعے پیدا کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد اسلام کے حقیقی چہرے کو تبدیل کر کے پیش کرنا ہے یا اندرونی عوامل (مثبت اسلامو فوبیا) کے ذریعے اسے پھیلایا جاتا ہے۔۔[23]
اسلامو ہراسی کے پھیلاؤ میں کئی قسم کے عوامل کو موثر سمجھا جاتا ہے؛ ان میں سے بعض یہ ہیں: مفادات کا ٹکراؤ اور اسلامی دنیا اور مغربی دنیا کے مابین مختلف قدروں پایا جانا، انتہا پسند گروہوں کے پرتشدد اقدامات، اسرائیل اور عرب کے مابین تاریخی تنازعات، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جہالت اور عدم شناخت، مسلمانوں کو آبادیاتی اور ثقافتی خطرہ قرار دینا، میڈیا کے ذریعے منفی رائے عامہ کی تشکیل اور ماحول سازی کرنا۔ [24]
تاریخی پس منظر
بہت سے مفکرین کا خیال ہے کہ مغرب کے اسلام سے خوف اور نفرت کی وجہ صرف عصر حاضر کے واقعات نہیں بلکہ اسلامی اور مغربی حکومتوں کے درمیان تاریخی ناہمواریاں اور یورپی اور اسلامی اقدار میں تضادات ان عوامل میں سے ہیں جن کی وجہ سے اسلام ہراسی وجود میں آئی ہے۔[25] مفکرین کے اس گروہ کے مطابق اسلام اور دنیائے مغرب کے مابین ناہمواریوں کے چند مراحل تسلسل کے ساتھ برقرار رہے ہیں؛ ان میں سے چند یہ ہیں: ظہور اسلام اور اس کا رومی سلطنت اور عیسائیت کے ساتھ مقابلہ،[26] اندلس کی فتح، قرون وسطیٰ میں صلیبی جنگیں،[27] یورپیوں کے ساتھ سلطنت عثمانیہ کی جھڑپیں اور 18 اور 19ویں صدی کو اقوام یورپ کی جانب سے اسلامی دنیا میں استعماری ہتھکنڈوں کا استعمال وغیرہ۔[28]
عالم اسلام کی اندرونی کمزوریاں
اسلامی دنیا میں موجود بہت سی کمزوریوں کو اسلامو فوبیا کے منصوبے کو تقویت دینے دینے والے اہم عوامل میں سے شمار کیا جاتا ہے؛ جیسے مذاہب کے مابین موجود تفرقہ بازیاں، اسلامی ممالک کے درمیان ہم آہنگی کی کمزروی، ترقی کا فقدان اور غربت، بہت سے اسلامی ممالک میں کمزور جمہوریت اور غیر اسلامی حکومت کا قیام، قبائلی اور نسلی تشدد پسندی، انسانی حقوق کی عدم رعایت اور حقوق نسواں کی خلاف ورزی، نیز یورپ کے برخلاف میڈیا سے متعلق ٹیکنالوجیز میں کمزوری وغیرہ عالم اسلام کی اندرونی کمزوریوں میں شمار ہوتا ہے۔[29]
اہل مغرب کی ماہیت اسلام سے نا آشنائی
آخر کار (اسلام ہراسی کے بارے میں)جو چیز زیادہ پیچیدہ ہے وہ اسلام کے بارے میں مغرب کی لاعلمی اور شناخت کی کمی ہے۔ اگر وہ لوگ مثبت انداز میں اسلام کی شناخت حاصل کرتے تو ان کو اسلام کی نسبت زیادہ آگاہی ملتی اور اس طرف زیادہ توجہ مبذول کرتے۔
سعید، شرقشناسی، 1382ہجری شمسی، ص112.
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اہل مغرب کی لاعلمی کو اسلامو فوبیا کے سب سے اہم عوامل میں سے جانا گیا ہے۔ [30] محققین کے مطابق یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اس قدر جہالت پائی جاتی ہے کہ بہت سے اہل مغرب یہ خیال کرتے ہیں کہ سارے مسلمان عرب ہیں۔ نیز یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ اسلام میں جہاد کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے جبکہ اہل مغرب کے ہاں جہاد تشددپسندی اور دہشت گردی کی علامت ہے۔[31]
خوف
اہل مغرب کا مسلمانوں کے بارے میں منفی سوچ رکھنے کی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے ہاں اسلام کو ایک خوفناک چیز کے طور میں تعارف کیا گیا ہے۔ اس خوف کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: "تاریخی لحاظ سے خوف" اور "معاصر خوف"۔ تاریخی لحاط سے خوف مراد یہ ہے کہ جب اسلام اور مسیحیت کا آپس میں مقابلہ ہوا تو بہت سی جگہوں پر اسلام فتحیاب ہوگیا؛ اس سے عیسائی مبلغین نے یہ تصور عام کیا کیا کہ دین اسلام میں خوف کا عنصر پایا جاتا ہے جبکہ معاصر میں اہل مغرب میں اسلام کی بنسبت خوف پیدا ہونا اس لحاظ سے ہے کہ وہ لوگ اسلام کی بالادستی کو ایک سیاسی خطرے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسلام سیاسی، سماجی اور معاشی لحاظ سے طاقت بننے سے ان پر غلبہ پاسکتا ہے۔ اسلام کے بارے میں اس منفی نقطہ نظر کو مغربی سیاست دانوں نے مقبول عام بنایا ہے۔[32]
یورپی ممالک کی طرف مسلمانوں کی ہجرت اور ان کی بڑھتی ہوئی آبادی
دوسری عالمی جنگ کے بعد روزگار کی تلاش میں بہت سے مسلمانوں کی یورپ کی طرف ہجرت، یہاں مسلمانوں کے ہاں بڑھتا ہوا سرمایہ اور یورپی ممالک میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کو یورپ میں اسلامو فوبیا کے پھیلاؤ کا ایک اور عنصر سمجھا جاتا ہے۔[33] کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی یورپ کی طرف ہجرت کے طول پکڑنے سے مسلم کمیونٹیز اور اقلیتیں وجود میں آئیں اور مغرب میں تارکین وطن کی دوسری اور تیسری نسلوں کا بھی ظہور ہوا اور رفتہ رفتہ یورپ اور بعض دیگر ممالک میں اسلام کو دوسرا بڑا مذہب کا درجہ ملنے گا۔[34] محققین کے مطابق، یورپ میں مسلمانوں کی آبادی میں توسیع کی وجہ سے مغربی باشندوں اور خاص طور پر ان کے ذرائع ابلاغ کو آبادی کی ساخت اور اس کے نتیجے میں ثقافتی منظر نامے میں تبدیلی کے بارے میں فکر مندی سامنا ہوا[35]
اسلامی بنیاد پرستی کا ظہور
سیاسی اسلام سے متعلق نظریات کا پھیلاؤ، خاص طور پر انتہا پسند گروہوں کے ظہور اور ان کے غیر مناسب اقدامات کو عالم اسلام میں اسلامو فوبیا کے پھیلاؤ کی سب سے اہم وجوہات میں سے سمجھا جاتا ہے۔[36] محققین کے مطابق، اِخوان المسلمین، جماعتُ المسلمین، اَلتَّکفیر و الْهِجرَة، تحریک الجہاد، القاعدہ، طالبان اور داعش جیسی سلفی تنظیموں کی تشکیل[37] اور ان کی دہشت گردانہ کارروائیاں کرنا؛ جیسے 11 ستمبر کا واقعہ،[38] عراق اور شام میں قتل عام اور پوری دنیا میں ان کی طرف سے خودکش حملے[39] یورپ میں دائیں بازو کی انتہاء پسند جماعتوں کی طاقت کا سبب بنے۔ انہوں نے مسلم تارکین وطن کو یورپ کے عدم تحفظ کا سبب قرار دیا اور اسلامو فوبیا کی بات کو پھیلانے اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین منظور کروانے میں یہ لوگ کامیاب ہوئے[40]
ذرائع ابلاغ کا منفی کردار
ذرائع ابلاغ کی متنوع صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا اور ماحول پیدا کرنے اور رائے عامہ تشکیل دینے میں ان کے بڑی تاثیر گزاری کو اسلامو فوبیا کے پھیلاؤ ایک اور اہم عامل سمجھا جاتا ہے۔[41] یہاں تک کہ بعض لوگ ذرائع ابلاغ کے اس منفی کردار کو مغربی دنیا میں اسلام ہراسی کا واحد سبب سمجھتے ہیں۔[42]
اسلامو فوبیا سے نمٹنے کی حکمت عملی
اسلاموفوبیا کے پھیلاؤ کے پس منظر اور اس کے عوامل کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے نمٹنے کے لیے عالم اسلام کے محققین اور سیاست دانوں نے کچھ حکمت عملی تجویز کی ہے۔ منجملہ:
- اسلامی دنیا کے چہرے کو مثبت انداز میں پیش کرنے کے لیے مشترکہ اسلامی ذرائع ابلاغ کی ترقی؛
- تنظیموں اور غیر سرکاری اداروں کے ذریعے مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کے درمیان براہ راست رابطہ قائم کرنا؛
- مغربی مذہبی مراکز کے ساتھ منظم اور وسیع رابطہ قائم کرنا؛
- انتہا پسندی اور بنیاد پرستی افکار کو خنثی کرنے کے لیے تہذیبی تبادلوں کو مضبوط کرنا؛
- اسلام کے حقیقی چہرے کے تعارف کے لیے ضروری سہولیات (مطالعہ اور سیاحت) پیدا کرنا؛[43]
- اسلامی دنیا کے اندرونی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے اسلام کے اصلی مبانی پر توجہ دے کر تقریب مذاہب اسلامی کر فروغ دینا؛
- جمہوری نظام کو مضبوط کرکے اسلامی ممالک کے نظم و نسق میں عوامی کو اہمیت دینے کی ضرورت؛[44]
- مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جنگ؛
- انتہا پسندوں اور دوسرے حقیقی مسلمانوں کے فرق ڈالنا۔[45]
اسلام ہراسی کے پھیلاؤ پر ردعمل
مغرب میں اسلامو فوبیا کے پھیلاؤ کے ردعمل میں عالم اسلام کے رہنماؤں اور مفکرین کی جانب سے کچھ اقدامات اٹھائے گئے، ان میں سے ایک جمہوریہ اسلامی ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا سنہ 2013ء میں یورپ اور شمالی امریکہ کے نوجوانوں کے نام تحریر کردہ خط ہے۔ فرانس میں مسلم انتہا پسند گروہوں کی دہشت گردی کے واقعے کے بعد رہبر معظم انقلاب نے یورپ اور شمالی امریکہ کے نوجوانوں کے نام ایک پیغام جاری کیا اور اس میں نوجوانوں سے کہا کہ وہ اسلام کی حقیقی شناخت حاصل کرنے کے لیے صرف ذرائع ابلاغ پر انحصار کرنے کے بجائے اسلام کے بنیادی متن یعنی قرآن مجید اور پیغمبر اسلامؐ کی سوانح حیات کی طرف رجوع کریں۔[46]
حوالہ جات
- ↑ ناصری طاهری، «مبانی و ریشههای تاریخی اسلامهراسی غرب؛بررسی موردی جنگهای صلیبی»، ص123.
- ↑ قنبرلو، «11 سپتامبر و گسترش پدیده اسلامهراسی در غرب»، ص104-105.
- ↑ افتخاری، «دو چهره اسلامهراسی: سلبی و ایجابی در تبلیغات غرب»، ص31.
- ↑ مرشدیزاده و غفاری، «اسلامهراسی در اروپا، ریشهها و عوامل»، ص114.
- ↑ علیپور و همکاران، «راهبردهای پیشگیری و مقابله با اسلامهراسی»، ص99.
- ↑ مجیدی و صادقی، اسلامهراسی غربی، 1393یجری شمسی، ص20-21؛ علیپور و همکاران، «راهبردهای پیشگیری و مقابله با اسلامهراسی»، ص104؛ علیزاده و همکاران، «بررسی پدیده اسلامهراسی و راهکارهای قرآنی مقابله با آن»، ص381.
- ↑ مسلمی، «گزارش رانیمد تراس/ اسلام هراسی: چالشی در برابر همه ما»، ص39.
- ↑ سید امامی و حسینی فائق، «زمینههای رشد اسلامهراسی ساختمند در بریتانیا»، ص101.
- ↑ مرشدیزاده و غفاری، «اسلامهراسی در اروپا، ریشهها و عوامل»، ص114.
- ↑ مسلمی، «گزارش رانیمد تراس/ اسلام هراسی: چالشی در برابر همه ما»، ص38-41؛ عیسیزاده و همکاران، «راهبردهای فهم پدیده اسلامهراسی بر پایه شرقشناسی»، ص134.
- ↑ نظری، «فرایندهای هویتی در غرب و بازنمایی سیاستگذاری مبتنی بر هراس: درک زمینههای اسلامهراسی»، ص124.
- ↑ افتخاری، «دو چهره اسلامهراسی: سلبی و ایجابی در تبلیغات غرب»، ص31-32.
- ↑ صباغیان و خاکسار، «نمودهای اجتماعی اسلامهراسی و اسلامستیزی در انگلستان»، ص144-150.
- ↑ مرشدیزاده و غفاری، «اسلامهراسی در اروپا، ریشهها و عوامل»، ص124
- ↑ شیرغلامی، «اسلامهراسی و اسلامستیزی: ده سال پس از حادثه 11 سپتامبر»، ص996.
- ↑ علیپور و همکاران، «راهبردهای پیشگیری و مقابله با اسلامهراسی»، ص101؛ افتخاری، «دو چهره اسلامهراسی: سلبی و ایجابی در تبلیغات غرب»، ص29.
- ↑ افتخاری، «دو چهره اسلامهراسی: سلبی و ایجابی در تبلیغات غرب»، ص30.
- ↑ علیپور و همکاران، «راهبردهای پیشگیری و مقابله با اسلامهراسی»، ص99.
- ↑ افتخاری، «دو چهره اسلامهراسی: سلبی و ایجابی در تبلیغات غرب»، ص30.
- ↑ نظری، «فرایندهای هویتی در غرب و بازنمایی سیاستگذاری مبتنی بر هراس: درک زمینههای اسلامهراسی»، ص120؛ دگمجیان، اسلام در انقلاب: جنبشهای اسلامی در جهان عرب، 1377یجری شمسی، ص19-29.
- ↑ نظری، «فرایندهای هویتی در غرب و بازنمایی سیاستگذاری مبتنی بر هراس: درک زمینههای اسلامهراسی»، ص136-137؛ علیپور و همکاران، «راهبردهای پیشگیری و مقابله با اسلامهراسی»، ص100.
- ↑ مرشدیزاده و غفاری، «اسلامهراسی در اروپا، ریشهها و عوامل»، ص125.
- ↑ افتخاری، «دو چهره اسلامهراسی:سلبی و ایجابی ...»، ص36-40.
- ↑ عیسیزاده و همکاران، «ریشههای تاریخی و علل اسلامهراسی معاصر»، ص115-116.
- ↑ توپراک، محمد، چرا آنها از اسلام متنفرند یا میترسند؟ مجموعه مقالات همایش اسلامهراسی پس از 11 سپتامبر: علل، روندها و راه حلها.
- ↑ توسلی، «شرقشناسی هگلی و سیاست رسانهای مبتنی بر اسلامهراسی»، ص59.
- ↑ ناصری، «مبانی و ریشههای تاریخی اسلامهراسی غرب؛ بررسی موردی جنگهای صلیبی»، ص124.
- ↑ عیسیزاده و همکاران، «ریشههای تاریخی و علل اسلامهراسی معاصر»، ص105.
- ↑ علیپور و همکاران، «راهبردهای پیشگیری و مقابله با اسلامهراسی»، ص110.
- ↑ شیرغلامی، «اسلامهراسی و اسلامستیزی: ده سال پس از حادثه 11 سپتامبر»، ص999.
- ↑ علیپور و همکاران، «راهبردهای پیشگیری و مقابله با اسلامهراسی»، ص110.
- ↑ عیسیزاده و همکاران، «ریشههای تاریخی و علل اسلامهراسی معاصر»، ص112-114.
- ↑ مرشدیزاده و غفاری، «اسلامهراسی در اروپا، ریشهها و عوامل»، ص118؛ عیسیزاده و همکاران، «ریشههای تاریخی و علل اسلامهراسی معاصر»، ص113-114.
- ↑ نقیبزاده، نیاز به دشمن،این بار اسلام، ص 401
- ↑ عیسیزاده و همکاران، «ریشههای تاریخی و علل اسلامهراسی معاصر»، ص113-114.
- ↑ سیفی، «افراطگرایی نوسلفی درجهان اسلام: آثار و روشهای مواجهه با آن»، ص133؛ افتحاری، «دوچهره اسلامهراسی: سلبی و ایجابی ...»، ص38؛ مرشدی زاد و دیگران، اسلامهراسی در اروپا؛ ریشهها و عوامل، ص 127-131.
- ↑ مرشدی زاد و دیگران، اسلامهراسی در اروپا؛ ریشهها و عوامل، ص130-131.
- ↑ شیرغلامی، «اسلامهراسی و اسلامستیزی: ده سال پس از حادثه 11 سپتامبر»، ص1003.
- ↑ زارع و رستمی، «پیامدهای ظهور تروریسم در غرب آسیا بر کشورهای اروپایی»، ص57-61.
- ↑ ترابی و فقیه عبداللهی، «تاثیر ظهور بنیادگرایی اسلامی در غرب آسیا بر قدرتیابی احزاب راست افراطی در اروپا»، ص40-41.
- ↑ عیسیزاده و شرفالدین، «اسلامهراسی در رسانههای تصویری غرب»، ص51-52.
- ↑ مجیدی و صادقی، اسلامهراسی غربی، 1393یجری شمسی، ص49.
- ↑ علیپور و همکاران، «راهبردهای پیشگیری و مقابله با اسلامهراسی»، ص111-114.
- ↑ علیزاده و همکاران، «بررسی پدیده اسلامهراسی و راهکارهای قرآنی مقابله با آن»، ص397-400.
- ↑ سیفی، «افراطگرایی نوسلفی درجهان اسلام: آثار و روشهای مواجهه با آن»، ص134-137.
- ↑ نامهای برای تو، سایت آیتالله خامنهای.
مآخذ
- افتخاری، اصغر، «دو چهره اسلامهراسی؛ سلبی و ایجادی در تبلیغات غرب»، در فصلنامه رسانه، شماره 79، 1389ہجری شمسی۔
- ترابی، محمد و فقیه عبداللهی، حسین، «تأثیر ظهور بنیادگرایی اسلامی در غرب آسیا بر قدرتیابی احزاب راست افراطی در اروپا»، در فصلنامه دانش تفسیر سیاسی، شماره 15، 1402ہجری شمسی۔
- توپراک، محمد، «چرا آنها از اسلام متنفرند یا میترسند؟»، در مجموعه مقالات همایش اسلامهراسی پس از 11 سپتامبر: علل، روندها و راه حلها، تهران، پژوهشگاه فرهنگ، هنر و ارتباطات، 1389ہجری شمسی۔
- توسلی، مجید، «شرقشناسی هگلی و سیاست رسانهای مبتنی بر اسلامهراسی»، فصلنامه رسانه، سال 20، شماره 2، 1389ہجری شمسی۔
- دگمجیان، هرایر، اسلام در انقلاب: جنبشهای اسلامی معاصر در جهان عرب (بررسی پدیده بنیادگرایی اسلامی)، مترجم حمید احمدی، تهران، نشر کیهان، 1377ہجری شمسی۔
- زارع، علی و رستمی، محسن، «پیامدهای ظهور تروریسم در غرب آسیا بر کشورهای اروپایی»، در فصلنامه دانشنامه علوم سیاسی، شماره 5، 1400ہجری شمسی۔
- سعید، ادوارد، شرقشناسی، ترجمه عبدالرحیم گواهی، تهران: دفتر نشر فرهنگ اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
- سید امامی، کاووس و حسینی فائق، سید محمدمهدی، «زمینههای رشد اسلامهراسی ساختمند در بریتانیا»، دوفصلنامه دانش سیاسی، شماره 14، 1390ہجری شمسی۔
- سیفی، عبدالمجید و سیفی، عبدالرضا، «افراطگرایی نوسلفی در جهان اسلام: آثار و روشهای مواجهه با آن»، در فصلنامه مطالعات روابط فرهنگی بینالمللی، سال دوم، شماره اول، 1396ہجری شمسی۔
- شیرغلامی، خلیل، «اسلامهراسی و اسلامستیزی: ده سال پس از حادثه 11 سپتامبر»، در فصلنامه سیاست خارجی، سال 25، شماره 4، 1390ہجری شمسی۔
- صباغیان، علی و خاکسار، علیمحمد، «نمودهای اجتماعی اسلامهراسی و اسلامستیزی در انگلستان»، در دوفصلنامه جامعهشناسی سیاسی جهان اسلام، دوره 4، شماره 1، 1395ہجری شمسی۔
- علیزاده، زهرا و اعتمادیفر، اعظم و طباطبایی، مینا سادات، «بررسی پدیده اسلامهراسی و راهکارهای قرآنی مقابله با آن»، فصلنامه مطالعات قرآنی، شماره 36، 1397ہجری شمسی۔
- علیپور، عباس و مجردی، سعید و حیاتمقدم، امیر و علیزاده، علی و جنیدی، رضا، «راهبردهای پیشگیری و مقابله با اسلامهراسی»، فصلنامه راهبرد دفاعی، شماره 63، 1397ہجری شمسی۔
- عیسیزاده، عباس و شرفالدین، سید حسین و اخوان علوی، سید حسین، «ریشههای تاریخی و علل اسلامهراسی معاصر»، در ماهنامه معرفت، سال 25، شماره 230، 1395ہجری شمسی۔
- عیسیزاده، عباس و شرفالدین، سید حسین و اخوان علوی، سید حسین، «راهبردهای فهم پدیده اسلامهراسی بر پایه شرقشناسی»، در فصلنامه راهبرد، شماره 87، 1397ہجری شمسی۔
- عیسیزاده، عباس و شرفالدین، سید حسین، «اسلامهراسی در رسانههای تصویری غرب»، در فصلنامه مطالعات رسانهای، شماره 40، 1397ہجری شمسی۔
- عیسیزاده، عباس و شرفالدین، سید حسین، «واکاوی نقش رسانههای غربی در اسلامهراسی معاصر»، در فصلنامه رسانه و فرهنگ، سال هشتم، شماره 2، 1397ہجری شمسی۔
- قنبرلو، عبدالله، «11 سپتامبر و گسترش پدیده اسلامهراسی در غرب»، فصلنامه جستارهای سیاسی معاصر، شماره 2، 1389ہجری شمسی۔
- کریمی، غلامرضا، روند تحولات اسلامهراسی پس از 11 سپتامبر، مجموعه مقالات همایش اسلامهراسی پس از 11 سپتامبر: علل، روندها و راه حلها/ تدوین و گردآوری پژوهشگاه فرهنگ، هنر و ارتباطات، تهران، 1389ہجری شمسی۔
- مجیدی، محمدرضا و صادقی، محمدمهدی، اسلامهراسی غربی، تهران، دانشگاه امام صادق، 1393ہجری شمسی۔
- مرشدیزاد، علی و غفاری هشجین، زاهد، «اسلامهراسی در اروپا؛ ریشهها و عوامل»، دوفصلنامه دانش سیاسی، سال سوم، شماره 2، 1386ہجری شمسی۔
- مسلمی، احمد، «گزارش رانیمد تراست / اسلام هراسی: چالشی در برابر همه ما»، در ماهنامه کتاب ماه دین، شماره 161، 1389ہجری شمسی۔
- ناصری طاهری، عبدالله، «مبانی و ریشههای تاریخی اسلامهراسی غرب؛ بررسی موردی جنگهای صلیبی»، در فصلنامه مطالعات تاریخ اسلام، شماره 2، 1388ہجری شمسی۔
- نامهای برای تو، «نامه رهبر معظم انقلاب به جوانان اروپا و آمریکای شمالی»، پایگاه اطلاع رسانی دفتر مقام معظم رهبری، تاریخ نشر: 2 بهمن 1393یجری شمسی، تاریخ بازدید: 29 آذر 1401ہجری شمسی۔
- نظری، علی اشرف، «فرایندهای هویتی در غرب و بازنمایی سیاستگذاری مبتنی بر هراس:درک زمینههای اسلامهراسی»، فصلنامه سیاستگذاری عمومی، دوره 2، شماره 3، 1395ہجری شمسی۔
- نقیبزاده، احمد، «نیاز به دشمن،این بار اسلام»، در فصلنامه مطالعات، میان فرهنگی، شماره 3، 1385ہجری شمسی۔