احمد بن موسی بن جعفر

ویکی شیعہ سے
احمد بن موسی شاہ چراغ
ناماحمد بن موسی بن جعفرؑ
وجہ شہرتامام موسی کاظمؑ کے فرزند
لقبشاہ چراغ
مدفنشیراز
والدامام موسی کاظمؑ
والدہام احمد
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


احمد بن موسی بن جعفر، شاہ چراغ اور سید السادات الاعاظم کے القاب سے مشہور امام موسی کاظم علیہ السلام کے فرزند ہیں۔ ایران کے مشہور امام زادوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے مامون کی خلافت کے دور میں ایران کا سفر کیا اور امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کی خبر سننے کے بعد وہ شیراز میں ہی رک گئے اور وہیں پر شہید ہوئے۔ شیراز میں ان کا مقبرہ مدتوں مخفی تھا۔

ولادت اور نسب

ان کی تاریخ ولادت واضح نہیں ہے۔ ان کے والد موسی بن جعفر (ع) شیعوں کے ساتویں امام اور ان کی والدہ کا نام ام احمد تھا۔[1][2]

مقام و منزلت

نقل ہوا ہے کہ احمد بن موسی بہت کریم تھے اور امام موسی کاظم (ع) انہیں بہت مانتے تھے۔[3][4]

شیخ مفید بھی احمد بن موسی کا ذکر بزرگی اور عظمت کے ساتھ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: احمد بن موسی کریم النفس، جلیل القدر اور پرہیز گار انسان تھے۔ ان کے والد انہیں دوست رکھتے تھے اور انہیں دوسرے بیٹوں پر مقدم کرتے تھے۔ امام کاظم (ع) نے اپنا یسیرہ نامی مشہور مزرعہ انہیں عطا کر دیا تھا۔ احمد بن موسی نے 1000 غلاموں کو آزاد کیا۔[5]

اسی طرح سے شیخ مفید ایک روایت اسماعیل بن موسی بن جعفر (ع) سے نقل کرتے ہیں: ایک سفر میں میرے والد کے 20 خادم احمد بن موسی کے ہمراہ تھے اور وہ سب ان کے ساتھ احترام سے پیش آ رہے تھے۔ جب بھی وہ اٹھتے اور بیٹھتے تھے وہ سب بھی ان کے احترام میں ان کے ساتھ اٹھتے اور بیٹھتے تھے۔ میرے والد ہمیشہ احمد پر عنایت فرماتے تھے۔ ان سے ٖغافل نہیں ہوتے تھے اور ان سے نظریں نہیں بھیرتے تھے۔[6]

کشی نے احمد بن موسی کا شمار اپنے عصر کے فضلاء میں سے کیا ہے اور ان کا نام ان محدثین میں شمار کیا ہے جنہوں نے اپنے والد اور اجداد بزرگوار سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں اور وہ مزید ذکر کرتے ہیں کہ احمد بن موسی نے اپنے ہاتھوں سے قرآن کریم تحریر کیا تھا۔[7]

امامت امام کاظم کی شہادت کے بعد

اگرچہ ساتویں امام کی شہادت کے بعد بعض لوگوں نے احمد بن موسی کی امامت کے گمان میں ان کی والدہ ام احمد کے گھر کے باہر اجتماع کیا لیکن انہوں نے واضح الفاظ میں اعلان کیا:

جیسے آپ لوگ میری بیعت میں ہیں ویسے ہی میں اپنے بھائی علی بن موسی الرضا (ع) کی بیعت میں ہوں اور میرے والد کے بعد وہ ولی خدا، رہبر اور میرے والد کے جانشین ہیں۔

اس کے بعد تمام لوگوں نے امام رضا (ع) کی بیعت کر لی اور امام نے اپنے بھائی کے حق دعا کی۔[8] اس کے باوجود بعض فرق نویس اور ملل و نحل کے مصنفین نے احمدیہ نامی فرقہ کا ذکر کیا ہے جو احمد بن موسی کے پیروکار تھے۔ جنہوں نے امام موسی کاظم (ع) کی شہادت کے بعد ان کی امامت کو قبول کر لیا تھے۔[9][10][11]

قیام احمد بن موسی

بعض منابع نے عباسی حکومت کے خلاف احمد بن موسی کے قیام کا تذکرہ کیا ہے۔ لیکن ان کے جزئیات اور کیفیت کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ یہ تاریخی گزارشات ان کے ابن طباطبا کے قیام میں ہمراہی کی حکایت کرتی ہیں۔[12]

ایران کی طرف ہجرت

حرم شاہ چراغ کا ایک منظر

احمد بن موسی نے ایک عظیم کاروان کے ساتھ جس کی تعداد 3 ہزار سے 15 ہزار تک نقل ہوئی ہے، ایران کی طرف ہجرت کی۔[13][14][15] اس مہاجرت کی دو دلیل ذکر ہوئی ہے:

1۔ اپنے بھائی امام علی بن موسی الرضا (ع) کے خون کا بدلہ لینے کے لئے جو مامون کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔[16]

2۔ اپنے بھائی کے دیدار کے لئے جو اس وقت مرو میں تھے اور اثنائے راہ انہیں ان کی شہادت کی خبر ملی۔[17][18]

ان کی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت

قتلغ خان نے جو شیراز کا حاکم اور مامون کا کارندہ تھا، خان زینان نامی جگہ پر جو شیراز سے 8 فرسخ کے فاصلہ پر ہے، احمد بن موسی اور ان کے ہمراہ کاروان سے ملاقات کی اور انہیں امام رضا (ع) کی شہادت کی خبر دی۔ یہ خبر ان کے ارادوں کو کمزور کرنے کا سبب بنی اور وہ سب منتشر ہوگئے۔ احمد نے اپنے قریبیوں کے ساتھ شیراز کا رخ کیا اور وہاں جنگ میں شہید ہوئے۔[19]

ان کی قبر کا آشکار ہونا

تاریخ کی کتابوں میں ان کی قبر کے آشکار ہونے کے سلسلہ میں کئی اقوال ذکر ہوئے ہیں:

1۔ چوتھی صدی ہجری کے اواخر اور پانچویں صدی ہجری کے اوائل تک ان کی قبر کے بارے میں کوئی بات تاریخی منابع میں موجود نہیں ہے۔[20] بعض مصادر جیسے ریاض الانساب ملک الکتاب شیرازی و بحر الانساب تیموری نے چوتھی صدی ہجری میں عضد الدولہ دیلمی (338۔372ھ) کے زمانہ میں ان کی قبر کے کشف ہونے کے سلسلہ میں خبر دی ہے۔ بعض مآخذ کا دعوی ہے کہ احمد بن موسی کی قبر 300 سال تک مخفی رہی اور آخر کار عضد الدولہ دیلمی[21] کے زمانہ میں ظاہر ہوئی۔

2۔ ملحقات انوار النعمانیہ کے لباب الانساب بیہقی اور سید محسن امین عاملی کے لب الانساب نیشاپوری سے نقل کے مطابق، شیراز میں احمد بن موسی کی قبر کے آشکار ہونے کا واقعہ پانچویں صدی ہجری کے اوائل میں پیش آیا ہے۔

3۔ دوسرے مصادر جیسے شد الآزار، سفرنامہ ابن بطوطہ اور نزہۃ القلوب جو آٹھویں صدی ہجری میں لکھے گئے ہیں، نے ان کی قبر کے ظاہر ہونے کا زمانہ ساتویں و آٹھویں صدی ہجری لکھا ہے۔[22] بعض منابع کے مطابق ان کی قبر ابو بکر اتابک (653۔658ھ)[23] کے نزدیکی اور ان کے وزیر امیر مقرب الدین کے زمانہ میں کشف ہوئی اور ان کا جنازہ ان کی انگوٹھی کی وجہ سے پہچانا گیا جس کے نگینہ پر العزۃ للہ احمد بن موسی نقش تھا۔[24][25][26]

شاہ چراغ لقب کا انتساب

احمد بن موسی (ع) کی ضریح

اس لقب کا سرچشمہ داستانیں، افسانے اور متاخرین کی کتابیں ہیں۔ قدیم منابع میں اس سلسلہ میں کوئی بات ذکر نہیں ہوئی ہے۔[27]

مدفن

ان کے محل دفن کے سلسلہ میں تین اقوال نقل ہوئے ہیں:

  • شیراز۔ (بزرگان و مورخین کے درمیان مشہور قول)[30][31][32][33]

اولاد

انساب کے بہت سے علماء نے احمد بن موسی کو لا ولد ذکر کیا ہے۔[34][35][36] البتہ ان کے نظریات کے برخلاف بعض انہیں صاحب اولاد مانتے ہیں۔ ضامن شدقم نے ان کے چار بیٹے محمد، علی، عبد اللہ اور داود ذکر کئے ہیں۔[37] فیض قمی نے امام زادہ ابراہیم کو جو قم میں مدفون ہیں، ان کا بیٹا شمار کیا ہے۔[38]

حوالہ جات

  1. مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۸، ص۳۰۸
  2. سید محسن امین، اعیان الشیعہ، ج۱۰ص ۲۸۵
  3. اربلی، کشف الغمہ، ج‏۲، ص ۲۳۶
  4. ابن صباغ، الفصول المہمہ، ج‏۲، ص۹۶۱
  5. مفید، الارشاد، ج۲، ص۲۴۴
  6. مفید، الارشاد، ج۲، ص۲۴۵
  7. کشی، رجال کشی، ص۲۹۴
  8. بحر العلوم، ج۲ص ۲۷.
  9. شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۳۰ش، ج۱، ص۱۶۹
  10. اشعری، مقالات الاسلامیین، ص۳۰
  11. نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۴۰۴ق، ص۸۵
  12. کشی، رجال کشی، ص۴۷۲
  13. سید جعفر مرتضی، زندگانی سیاسی امام ہشتم، ص۲۱۴
  14. تشید، قیام سادات علوی، ص۱۶۹.
  15. سلطان الواعظین، شب‌ہای پیشاور، ص۱۱۷
  16. بیہقی، جامع الانساب
  17. سلطان الواعظین، شب‌ہای پیشاور، ص۱۱۸
  18. فرصت شیرازی، آثار العجم، ص۳۴۵
  19. شوشتری، تحفہ العالم، ص۲۸
  20. زاہدی، احمد بن موسی(ع)، فصل نامہ سخن تاریخ، ص ۹۸
  21. مجد الاشرف، آثار الاحمدیہ، ص۲ – ۸
  22. زاہدی، احمد بن موسی(ع)، فصل نامہ سخن تاریخ، ص ۹۸
  23. فرصت شیرازی، آثار العجم، ص ۴۴۵
  24. زرکوب شیرازی، شیراز نامہ، ص ۵۹
  25. مجد الاشرف، آثار الحمدیه، ص ۲-۸
  26. جنید شیرازی، شدّ الازار فی حظ الاوزار عن زوار المزار، ص ۲۸۹
  27. برای نمونہ مراجعہ کریں: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۸، ص۳۰۸
  28. جامع الانساب، ج۱، ص۷۸
  29. ابن عنبہ، عمده الطالب، ص۱۹۷ (حاشیہ)
  30. مستوفی، نزھه القلوب، ص۱۷۲
  31. قزوینی، فلک النجاه، ص۲۳۷
  32. مامقانی، تنقیح المقال، ج۱، ص۹۷
  33. ابن بطوطہ، سفرنامہ، ج۱، ص۲۲۹
  34. المعقبین، ص۴۳
  35. سر السلسله العلویہ، ص۴۳
  36. تہذیب الانساب، ص۱۴۷
  37. تحفه الازہار، ج۳ص ۲۹۶
  38. گنجنہ آثار قم، ج۲ص ۳۶۴-۳۷۱

مآخذ

  • اربلی (۶۹۳ ق‏)، کشف الغمہ فی معرفة الأئمہ، بنی ہاشمی‏، تبریز، ۱۳۸۱ ق‏، چاپ اول‏
  • بحر العلوم، سید جعفر، تحفة العالم في شرح خطبة المعالم، مکتبہ صادق، چاپ دوم، تہران، ۱۴۰۱ق
  • زاہدی، سید یاسین، «احمد بن موسی (ع)»، مجلہ سخن تاریخ، تابستان ۱۳۸۸ش، شماره ۵
  • شہرستانی، محمد بن عبد الکریم، الملل و النحل، تہران، امیر کبیر، چاپ اول، ۱۳۳۰ش
  • مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، کنگره شیخ مفید، قم‏، ۱۴۱۳ ق‏
  • نوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعہ، دار الاضواء، بیروت، ۱۴۰۴ق
  • کشی، محمد، اختیار معرفہ الرجال، دانشگاه مشہد، ۱۳۴۸ش
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار الجامعة لدُرر اخبار الائمة الاطہار، بیروت، دار الاحیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۳ق

بیرونی روابط