ابن میثم بحرانی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | کمال الدین میثم بن علی بن میثم بحرانی |
لقب/کنیت | مفید الدین |
تاریخ ولادت | 636 ھ، 1239 ء |
تاریخ وفات | 669 ھ، 1280 ء |
علمی معلومات | |
اساتذہ | ابو السعادات اسعد بن عبد القاہر بن اسعد اصفہانى و كمال الدین على بن سلیمان بحرانى۔ |
شاگرد | خواجہ نصیر الدین طوسی۔ |
تالیفات | قواعد المرام فى علم الكلام، شرح بزرگ نہج البلاغہ مصباح السالكین۔ |
خدمات | |
سماجی | محدث، فقیہ، متکلم۔ |
کمال الدین میثم بن علی بن میثم بحرانی (636-679 یا 699 ھ)، ساتویں ہجری کے محدث، فقیہ اور شیعہ متکلم تھے۔ ابن میثم نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بہت سے شاگردوں کی تربیت کی اور تالیف و تصنیف میں مشغول ہوگئے۔ نقل ہوا ہے کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے آپ کے پاس فقہ کا درس پڑھا۔ ابن میثم کی زیادہ شہرت علم کلام میں تھی۔ اس بارے اور دیگر موضوعات میں آپ کے بہت سے آثار موجود ہیں من جملہ قواعد المرام فی علم الکلام اور اختیار مصباح السالکین۔
تعلیم و تحصیل
بعض نے آپ کا لقب مفید الدین کہا ہے۔[1] آپ کی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں۔ یہی کچھ کہا گیا ہے کہ سنہ 636 ھ میں آپ کی ولادت ہوئی [2] اور ابو السعادات اسعد بن عبد القاہر بن اسعد اصفہانی اور کمال الدین علی بن سلیمان بحرانی کے پاس تعلیم حاصل کی۔[3]
اگرچہ مآخذ میں آپ کے مقام تحصیل کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا، لیکن احتمالاً آپ نے عراق کے شیعہ مراکز جیسے کہ حلہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ لیکن ظاہراً اس کے بعد آپ بحرین واپس چلے گئے اور تنہائی اختیار کی۔
تالیف و تدریس
کچھ وقت گزرنے کے بعد عراق کے اہل علم بالخصوص اہل حلہ آپ کو ایک علمی شخصیت سمجھتے تھے، انہوں نے آپ سے چاہا کہ شاگردوں کی تربیت اور تالیف و تصنیف کا کام شروع کریں۔ ابن میثم نے پہلے تو سفر کرنے سے انکار کیا، لیکن پھر عراق چلے گئے [4] اور زیادہ احتمال یہ ہے کہ حلہ میں اقامت اختیار کی، کیونکہ جنہوں نے آپ سے روایت کی ہے جیسے کہ عبد الکریم بن طاووس حلی [5]اور علامہ حلی[6] حلہ کے رہنے والے ہیں۔
آپ خواجہ نصیر الدین طوسی کے ہم عصر تھے اور کہا گیا ہے کہ خواجہ نے آپ کے پاس فقہ کا درس پڑھا اور آپ نے خواجہ کے پاس کلام پڑھا۔[7]
ابن میثم کی عمدہ شہرت علم کلام میں ہے اور انہوں نے نہج البلاغہ کی شرح لکھنے میں کلامی اور فلسفی طریقہ کار اختیار کیا ہے۔
ابن میثم اپنے زمانے میں اتنے مشہور ہوئے کہ آپ کو فیلسوف، محقق، جید فقیہ، محدث اور ماہر متکلم[8] کہا گیا اور طریحی [9] نے کہا ہے کہ جیسے خواجہ نصیر الدین طوسی کو علم کلام میں مہارت تھی اسی طرح آپ کو علم فقہ میں مہارت تھی۔
سلیمان ماحوزی بحرانی کے مطابق [10] (جس نے شاگردوں اور دوستوں کی درخواست پر، آپ کی شرح حال پر ایک رسالہ لکھا، جس کا نام السلافۃ البہیۃ فی الترجمۃ المیثمیہ ہے) فقہاء، محدثین، متکلمین اور ادباء نے ابن میثم کی نظرات اور روایات سے فائدہ حاصل کیا ہے۔[11]
بعض کلامی نظریے
ابن میثم بحرانی نے مسائل کے مطرح کرنے اور استدلال کو بیان کرنے کے لئے خواجہ نصیر الدین کی روش کو اپنایا اور آپ کے دلائل کی سند، علامہ حلی کے برعکس، زیادہ تر عقل ہے نہ نقل، اگرچہ تمام آراء پر تسلط رکھنے اور متکلمین کے مختلف عقائد، کے لحاظ سے آپ علامہ حلی سے کمتر ہیں۔
ابن میثم نے معرفت اور خدا کی شناخت کو عقلاً واجب قرار دیا ہے اور یہ کہ یہ معرفت تقلید اور نقل کی صورت میں، قابل حصول نہیں ہے۔[12] آپ نے ظاہراً اثبات صانع کے باب میں معتزلہ کی نظر کو اشاعرہ سے برتر سمجھا ہے۔[13] اور باب نبوت میں، فلسفی روش کو اپنایا اور اسے "ما، هل، لِم َ، کیف و من" جیسے مطالب سے تطبیق دی اور بیان کیا ہے۔[14] اور قیامت کے بارے میں ابو الحسن بصری کے نظریے کو قبول کیا ہے اور کہا ہے کہ انسان اپنے اصلی اجزاء میں تحول اور تبدیلی کے بغیر محشور ہوگا۔[15]
آثار
تقریباً 30 آثار کی نسبت ابن میثم کی طرف دی گئی ہے:
مطبوعہ آثار
- مصباح السالکین یا نہج البلاغہ کی شرح جو سنہ 1276 ھ میں مولانا ملا محمد باقر کی مدد سے تہران میں طبع ہوئی اور دوسری بار سنہ 1404 ھ تہران میں کچھ محققین کی مدد شائع کی گئی۔ ابن میثم نے اس کے مقدمہ میں خود لکھا ہے کہ یہ شرح عطاء الملک جوینی کے لئے لکھی گئی ہے۔[16]
- اختیار مصباح السالکین، نہج البلاغہ کی شرح کا خلاصہ۔
- شرح المائۃ کلمۃ لنہج البلاغہ [17] کنتوری نے اس کا اصلی نام منہاج العارفین کہا ہے [18] اور آقا بزرگ نے اس کے نسخوں کو اہدائی مشکوۃ کی کتابوں اور کاشف الغطاء لائبرئری میں استعمال کیا ہے۔[19] یہ کتاب سنہ 1390 ھ میں محدث ارموی کی کوشش سے قم میں طبع اور نشر کی گئی ہے۔
- قواعد المرام فی علم الکلام کہ جسے عز الدین ابو المظفر عبد العزیز بن جعفر نیشابوری کے کہنے پر لکھا۔ یہ کتاب سید احمد حسینی کی کوشش سے سنہ 1398 ھ میں قم میں چھاپی گئی ہے اس کا دوسرا نام القواعد الالہیہ فی الکلام والحکمہ ہے۔[20]
- النجاۃ فی القیامۃ، امامت کے موضوع پر تالیف کیا گیا ایک رسالہ ہے۔
مسودات
- الشرح الصغیر لنہج البلاغۃ [21] آقا بزرگ تہرانی کے مطابق احتمالاً یہ وہی شرح الماۃ کلمۃ لنہج البلاغہ ہے۔[22]
- رسالۃ فی آداب البحث [23]
- الاستغاثۃ فی بدع الثلاثۃ [24] آقا بزرگ نے [25] اسے شریف ابو القاسم علی بن احمد کوفی (وفات 302 ھ) کی تصنیفات سے کہا ہے۔
- استقصاء النظر فی امامۃ ائمۃ الاثنی عشر [26] کہ جسے ابن میثم کی طرف منسوب ہونے میں عبداللہ افندی اصفہانی نے تردید کیا ہے۔[27]
- اصول البلاغۃ، کہ جسے عطاء الملک جوینی کے بیٹے نظام الدین منصور کے لئے لکھا گیا ہے۔[28] یہ کتاب تجرید البلاغۃ کے نام سے بھی مشہور ہے۔[29]
- جواب رسالہ نصیر الدین، جس کا نسخہ نجف کی حکیم لائبریری میں موجود ہے۔[30]
اس کے دوسرے مسودات کے لئے کتاب بروکلمان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔[31]
وفات
ابن میثم کی وفات اکثر مآخذ میں سنہ 769ھ/1280ء ذکر ہوئی ہے، لیکن کیونکہ آپ نے الشرح الصغیر لنہج البلاغۃ کی شرح کو سنہ 681 ھ میں ختم کیا ہے[32] اس لئے شاید آپ کی وفات اس تاریخ کے بعد ہوئی ہو، کنتوری نے ایک جگہ سنہ 699ھ/1300ء میں ابن میثم کی وفات کی تاریخ ذکر کی ہے۔[33]
آپ کی قبر بحرین میں الدونج یا ہلتا کے مقام پر ہے۔ میرزا حسین نوری [34] کے مطابق قرائن و شواہد کو مدنظر رکھتے ہوئے، آپ کی قبر شاید ہلتا میں ہے اور بعض نے اشارہ کیا ہے کہ الدونج میں جو قبر ہے وہ میثم بن معلی کی ہے نہ کہ کمال الدین ابن میثم کی۔[35]
حوالہ جات
- ↑ شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص۲۱۰؛ تنکابنی، ص۴۲۰
- ↑ ماحوذی، فہرست، قصص العلماء، ص۶۹
- ↑ افندی، ریاض العلماء، ج۵، ص۲۲۷
- ↑ ماحوزی، السلافہ البہیہ فی الترجمہ المیثمیہ، ج۱، ص۴۳، ۴۴
- ↑ افندی، ریاض العلماء، ج۵، ص۲۲۷
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، ج۷، ص۲۱۶
- ↑ ماحوزی، السلافۃ البہیہ فی الترجمۃ المیثمیہ ج۱، ص۴۷؛ نک: نوری، مستدرک الوسائل، ج۳، ص۴۲۶؛ خوانساری، روضات الجنات، ج۶، ص۳۰۲
- ↑ حر عاملی، امل الامل، ج۱، ص۳۳۲؛ ماحوزی، السلافہ، ج۱، ص۴۲
- ↑ طریحی، مجمع البحرین، ج۶، ص۱۷۲
- ↑ ماحوزی بحرانی، السلافہ البہیہ فی الترجمہ المیثمیہ، ج۱، ص۴۷-۵۳
- ↑ ماحوزی بحرانی، السلافہ البہیہ فی الترجمہ المیثمیہ، ج۱، ص۴۷، ۴۸
- ↑ ابن میثم، قواعد المرام فی علم الکلام، ص۲۸
- ↑ ابن میثم، قواعد المرام فی علم الکلام، ص۶۳، ص۸۲، ص۸۴
- ↑ ابن میثم، قواعد المرام فی علم الکلام، ص۱۲۱
- ↑ ابن میثم، قواعد المرام فی علم الکلام، ص۱۳۹-۱۴۴؛ اس کے بعض دیگر نظریات کے لئے، نک: شرح نہج البلاغہ؛ شریف لاہیجی، محبوب القلوب، ج۲، ص۵۴۵ -۵۴۷
- ↑ شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۴
- ↑ استر آبادی، منہج المقال، ص۵۱۱
- ↑ کنتوری، کشف الحجب و الاستار عن اسماء الکتب و الاسفار، ص۳۴۹
- ↑ آقا بزرگ، الذریعہ، ۲۳/۱۶۸
- ↑ الذریعۃ، ج۱۷، ص۱۷۹
- ↑ استر آبادی، ص۵۱۱.
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، ج۲۰، ص۱۹۸.
- ↑ طریحی، مجمع البحرین، ج۶، ص۱۷۲
- ↑ شریف لاہیجی، محبوب القلوب، ج۲، ص۵۴۵
- ↑ آقا بزرگ، الذریعۃ، ج۲، ص۲۸
- ↑ شریف لاہیجی، محبوب القلوب، ج۲، ص۵۴۵
- ↑ افندی، ریاض العلماء، ج۲، ص۵۴۵
- ↑ کنتوری، کشف الحجب و الاستار عن اسماء الکتب و الاسفار، ص۴۹
- ↑ آقا بزرگ، ج۲، ص۲۸، ج۳، ص۳۵۲
- ↑ نجف، فہرست مخطوطات مکتبہ آیۃ اللہ حکیم العامہ، ج۱، ص۱۶۴
- ↑ Brockelmann,vol.1/705
- ↑ آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، قرن ۷، ص۱۸۸
- ↑ کنتوری، کشف الحجب و الاستار عن اسماء الکتب و الاسفار، ص۲۹۱
- ↑ ج۳، ص۴۶۱
- ↑ نامہ دانشوران، ج۳، ص۲۸۷
مآخذ
- آستان قدس، فہرست.
- آقا بزرگ، الذریعہ.
- آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، قرن ۷، علی نقی منزوی کی کوشش، بیروت ۱۹۷۲م.
- ابن میثم، میثم، شرح نہج البلاغہ، تہران، ۱۴۰۴ق.
- ہمو، قواعد المرام فی علم الکلام، احمد حسینی کی کوشش، قم، ۱۳۹۸ق.
- استر آبادی، میرزا محمد، منہج المقال، تہران، ۱۳۰۶ق.
- افندی اصفہانی، عبدالله، ریاض العلماء، محمود مرعشی و احمد حسینی کی کوشش، قم، ۱۴۰۱ق.
- بحرانی یوسف، کشکول، بیروت، ۱۴۰۶ق.
- تنکابنی، محمد، قصص العلماء، تہران، ۱۳۶۴ش.
- حرعاملی، محمد، اہل الامل، احمد حسینی کی کوشش، بغداد، مکتبہ الاندلس.
- خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات، تہران، ۱۳۸۲ق /۱۹۶۲م.
- دانش پژوه، محمد تقی و بہاء الدین علمی انواری، فہرست کتابہای خطی مجلس شورای اسلامی ش ۲، تہران.
- شریف لاہیجی، محمد، محبوب القلوب، نسخہ عکسی موجود در کتابخانہ مرکز؛ ششن، رمضان، نوادر مخطوطات العربیہ فی مکاتبات ترکیا، بیروت، ۱۴۰۰ق.
- شوشتری، قاضی نور الله، مجالس المؤمنین، تہران، ۱۳۶۵ش.
- طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، احمد حسینی کی کوشش، تہران، مکتبہ المرتضویہ.
- عیسوی، احمد محمد و محمد سعید ملیح، فہرست مخطوطات المکتبہ الغربیہ بالجامع الکبیر بصنعاء، اسکندریہ، منشأه المعارف.
- فہرست مخطوطات خزانہ الروضہ الحیدریہ، احمد حسینی کی کوشش، نجف، ۱۳۹۱ق.
- کنتوری، اعجاز حسین، کشف الحجب و الاستار عن اسماء الکتب و الاسفار، هدایت حسین کی کوشش، کلکتہ، ۱۹۳۵م.
- ماحوزی بحرانی، سلیمان، السلافہ البہیہ فی الترجمہ المیثمیہ.
- ہمو، فہرست آل بابویہ اور علماء البحرین، احمد حسینی و محمد مرعشی کی کوشش، قم، ۱۴۰۴ق.
- نامہ دانشوران، قم، دار الفکر.
- نجف، محمد مہدی، فہرست مخطوطات مکتبہ آیۃ الله حکیم العامہ، نجف، ۱۳۸۱ق.
- نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، تہران، ۱۳۱۸-۱۳۲۱ق.