سید محمد باقر صدر

ویکی شیعہ سے
شہید صدر
سید محمد باقر صدر
کوائف
مکمل نامسید محمد باقر صدر
لقب/کنیتصدر
تاریخ ولادت25 ذی القعدۃ 1353 ھ
آبائی شہرکاظمین، عراق
تاریخ وفات23 جمادی الاول 1400ھ 47 سال کی عمر میں۔
مدفنورودی شہر نجف اشرف عراق
نامور اقرباءامام موسی صدر، سید محمد صدر، بنت الہدی صدر
علمی معلومات
مادر علمیکاظمین و نجف اشرف
اساتذہآیت اللہ خوئی، محمد رضا آل یاسین، صدرا بادکوبی، علامہ جعفری ...
شاگردسید محمد باقر حکیم، سید محمود ہاشمی شاہرودی، سید کاظم حسینی حائری، محمد مہدی آصفی، سید کمال حیدری ...
تالیفاتفدک فی التاریخ، غایۃ الفکر فی علم الاصول، فلسفتنا، اقتصادنا، البنک اللاربوی فی الاسلام، دور الائمۃ فی الحیاۃ الاسلامیۃ
خدمات
سیاسیحزب الدعوی کی تاسیس میں تعاون، جماعۃ العلماء فی النجف کے ساتھ تعاون، حزب بعث کی رکنیت پر حرمت کا فتوی صادر کرنا، عراق کے شہروں میں مظاہرے کرانا۔


سید محمد باقر صدر (1353۔1400 ھ) عراقی شیعہ مرجع تقلید اور متفکر ہیں۔ انہوں نے دینی علوم کی تعلیم آیت اللہ خوئی اور نجف اشرف کے دوسرے علماء سے حاصل کی۔ بیس سال کی عمر سے پہلے ہی انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کر لی اور نجف کے حوزہ علمیہ میں دینی علوم کی تدریس میں مشغول ہو گئے۔ سید محمد صدر، سید محمد باقر حکیم، سید کاظم حسینی حائری اور سید محمود شاہرودی ان کے تلامذہ میں سے ہیں۔

سید محمد باقر صدر نے اصول فقہ، فقہ، فلسفہ سیاست اور معرفت شناسی جیسے علوم میں جدید نظریات پیش کئے ہیں۔ ان کے بعض مشہور نظریات یہ ہیں: نظریہ حق الطاعۃ، توالد ذاتی معرفت و منطقۃ الفراغ، انہوں نے بہت ساری کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں سے مہم ترین فلسفتنا، اقتصادنا، دروس فی علم الاصول (مشہور بہ حلقات) اور الاسس المنطقیہ للاستقراء ہیں۔

حزب الدعوۃ الاسلامیۃ جیسی تنظیم کی تاسیس میں مشارکت، عراق کی بعث پارٹی میں مسلمانوں کی رکنیت کی حرمت کے سلسلہ میں فتوی صادر کرنا اور جنوب عراق کے شہروں اور بغداد کے شیعہ نشین علاقوں میں مظاہروں کی دعوت دینا، ان کے بعض سیاسی کارنامے ہیں۔ یہ اقدامات سبب بنے کہ عراقی حکومت نے انہیں اور ان کی ہمشیرہ آمنہ صدر کو گرفتار کرکے شہید کر دیا۔

ولادت اور خانوادہ

سید محمد باقر صدر، 25 ذی القعدہ 1353 ھ میں عراق کے شہر کاظمین میں پیدا ہوئے۔[1] ان کے والد سید حیدر صدر عاملی اور والدہ شیخ عبد الحسین آل یاسین کی بیٹی ہیں۔[2] ان کے دادا سید اسماعیل صدر چودہویں صدر ہجری کے نیمہ اول میں شیعہ مراجع تقلید میں سے تھے۔[3] ان کا سلسلہ نسب امام موسی کاظم علیہ السلام اور ان دینی علما تک پہنچتا ہے جو ایران، لبنان اور عراق میں زندگی بسر کرتے تھے۔[4]

ان کے بڑے بھائی اور استاد سید اسماعیل صدر کا شمار بھی نجف اشرف کے جوان مجتہدین میں سے ہوتا تھا اور سن 1388 ھ میں اڑتالیس سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔[5] ان کی ہمشیرہ بنت الہدی (آمنہ صدر) شاعرہ اور مصنفہ تھیں جنہیں ان کے ساتھ پھانسی دی گئی۔[6] تین سال کی عمر میں وہ والد کے سایہ سے محروم ہو جاتے ہیں[7] اور اپنی والدہ اور بھائی سید اسماعیل صدر کے زیر سایہ پروان چڑھتے ہیں۔[8]

تحصیلات

شہید صدر ۵ سال کی عمر میں اپنے بڑے بھائی سید اسماعیل صدر کے ہمراہ

شہید صدر نے اپنی ابتدائی تعلیم کو تین سال میں مکمل کر لیا اور اس کے بعد دینی و حوزوی تعلیم کا آغاز کیا۔[9] انہوں نے محمد رضا مظفر کی کتاب المنطق اور معالم الاصول کو اپنے بڑے بھائی سید اسماعیل صدر سے پڑھا۔ انہوں نے حوزہ میں سطوح کے دروس کو نہایت کم مدت میں مکمل کیا۔ ان کے سطوح کے اساتذہ میں محمد تقی جواہری، عباس شامی، سید باقر شخص، صدرا بادکوبی اور سید محمد روحانی شامل ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے سید ابو القاسم خوئی اور شیخ محمد رضا آل یاسین کے فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کی۔[10]

شاگرد

سید محمد باقر صدر نے بیس سال کی عمر میں کفایۃ الاصول کی تدریس کا آغاز کیا۔ پچیس سال کی عمر میں انہوں نے اصول فقہ کے درس خارج اور اٹھائیس برس کے سن میں فقہ کے درس خارج کی ابتدائ کی۔[11] انہوں نے تقریبا تیس سال کے عرصہ تک تدریس میں بہت سے شاگردوں کی تربیت کی۔ ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

تصنیفات

شہید صدر کی مشہور تصنیف فلسفتنا

سید محمد باقر صدر نے مختلف علوم و موضوعات جیسے فقہ، اصول فقہ، منطق، فلسفہ، اقتصاد، کلام، تفسیر، تاریخ، سیاست پر کتابیں لکھی ہیں۔ جن میں سے بعض ذیل الذکر ہیں:

مرجعیت

شہید صدر نے اپنے سابقہ علمی، جدید ترین علمی مسائل پیش کرنے اور آیت اللہ خوئی کی حمایت کی وجہ سے بہت کم عرصہ میں خواص و عوام کے درمیان میں مقبولیت حاصل کر لی۔ ان کی سیاسی فعالیت خاص طور پر حزب الدعوۃ الاسلامیہ کی تاسیس عوام کے ان کی طرف اور زیادہ مائل ہونے کا سبب بنی۔ عراق و لبنان میں عوام کے بہت سے گروہ ان کی تقلید کرنے لگے تھے۔[14]

سیاسی و سماجی فعالیت

حزب الدعوۃ الاسلامیہ کی تشکیل

1377 ھ میں شہید صدر نے عراق کے بعض علماء کے ساتھ مل کر، عراقی مسلمانوں کی سیاسی فعالیت کو منظم و مرتب کرنے کی غرض سے حزب الدعوۃ الاسلامیۃ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے پانچ سال کے بعد بعض مصلحت کی بناء پر اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ لیکن وہ اس کے دوسرے اعضاء و اراکین کو اس میں کام کرنے رہنے کی تاکید کرتے تھے۔[15]

جماعۃ العلماء کے ساتھ تعاون

شہید صدر نجف اشرف میں امام خمینی کے ہمراہ

سید محمد باقر صدر کا تعاون جماعۃ العلماء فی النجف الاشرف کے ساتھ بھی رہا۔ جس کے ارکان میں شیخ مرتضی آل یاسین، شیخ محمد رضا مظفر اور سید مہدی حکیم جیسے علماء شامل تھے۔ وہ جوان ہونے کے سبب اس کے رکن میں شامل نہیں تھے مگر ان کے ساتھ سنجیدہ طور پر تعاون کرتے تھے اور جماعۃ العلماء کے بعض بیانات اور مجلہ الاصواء میں شائع ہونے والے بعض مقالات کو وہ خود تحریر فرمایا کرتے تھے۔[16]

انقلاب اسلامی ایران کی حمایت

سید محمد باقر صدر، ایران میں امام خمینی کی تحریک کی حمایت کرتے تھے[17] اور آپ نے اپنی چھ جلدی کتاب الاسلام یقود الحیاۃ اسی مقصد کے تحت تالیف کی۔[18] نجف اشرف میں امام خمینی کی سکونت کے ایام میں بھی وہ ان سے نزدیکی رابطہ رکھتے تھے۔

شہید صدر نے امام خمینی کے سلسلہ میں ایک جملہ کہا ہے جس کا مضمون یہ ہے: امام خمینی میں جذب ہو جاو جیسے وہ اسلام میں جذب ہو گئے ہیں۔[19]

بعث پارٹی سے جڑنے کی حرمت

جس وقت عراقی حکومت نے تمام عوام کے لئے بعث پارٹی کی عضویت کو ضروری و لازمی قرار دیا تو شہید صدر نے اس کے رد عمل کے طور بعث پارٹی سے ملحق ہونے کے سلسلہ میں حرام کا فتوی دے دیا۔ جس کے نتیجہ میں بہت سے افراد نے اس کا عضو بننے سے پرہیز کیا۔[20]

افکار و نظریات

ماسکو (روس) کی ایک یونیورسٹی میں نصب شہید صدر کا مجمسہ

سید محمد باقر صدر نے اصول فقہ، فقہ، فلسفہ سیاست اور معرفت شناسی جیسے علوم میں جدید نظریات پیش کئے ہیں۔ ان کے بعض مشہور نظریات یہ ہیں:

نظریہ حق الطاعۃ

شہید صدر نے نظریہ حق الطاعۃ کو مشہور نظریہ قبح عقاب بلا بیان کے مقابلہ میں پیش کیا ہے۔ نظریہ حق الطاعۃ کے مطابق، شبہات بدوی میں یعنی ان موارد میں جہاں وجود تکلیف کا احتمال پایا جاتا ہے لیکن اس کے سلسلہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہو تو عقل اس سے برائت کا حکم نہیں دیتی ہے اور وہ وہاں پر احتیاط کو لازمی و ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ خداوند عالم کا حق اس کے بندوں پر محدود نہیں ہے اور صرف ان بعض مواقع میں شامل نہیں ہوتا ہے جن میں ہمیں تکلیف کا یقین ہو، بلکہ وہ ان موارد کو شامل کرتا ہے جن میں ہمیں تکلیف کا احتمال بھی ہو لہذا یقین تکلیف نہ ہونے کی صورت میں بھی حکم عقل لزوم احتیاط ہے۔[21] قابل ذکر ہے کہ شہید بھی دوسرے تمام اصولیوں کی طرح سے اس مورد میں برائت شرعی کو قبول کرتے ہیں؛ یعنی ان کا ماننا ہے کہ اگر چہ عقل برائت کا حکم نہیں دیتی ہے۔ آیات و روایات احتیاط کو ضروری نہیں سمجھتی ہیں اور برائت کا حکم دیتی ہیں۔[22]

ضرورت وجود حکومت اسلامی

شہید صدر کی نظر میں حکومت کا وجود ایک سماجی ضرورت ہے اور یہ انسانی فطرت پر مبتنی ہے[23] اور وہ اس نظریہ کے مبنا اور بنیاد پر حکومت اسلامی کے وجود کو ضروری و لازمی سمجھتے تھے اور کہتے تھے: اسلامی حکومت محض ایک دینی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ ایک بشری و انسانی معاشرے اور تمدن کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ یہ اسلامی حکومت ہی انسانی و بشری استعداد کے ارتقاء کا واحد راستہ ہے۔[24]

اقتصاد اسلامی علم نہیں مکتب ہے

شہید صدر کی شہرہ آفاق تالیف اقتصادنا

سید محمد باقر صدر کا ماننا ہے کہ جو نظریہ اقتصاد، اسلام نے پیش کیا ہے اس کے مطابق اقتصاد ایک مکتب ہے، علم اقتصاد اسلامی نہیں۔ مکتب اقتصاد اسلامی یعنی یہ کہ اسلام نے اقتصادی زندگی کی تنظیم کے ایک عادلانہ روش اور طرز عمل پیش کیا ہے اور ہرگز اس سلسلہ میں اسلام کسی جدید علمی کشف و اکتشاف میں نہیں پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اسلام حجاز میں ربا و سود کے عوامل و اسباب کشف کرنے کے فراق نہیں پڑتا ہے بلکہ اسے ممنوع قرار دیتا ہے اور مضاربہ کی بنیاد پر ایک جدید نظام اور قانون کی بنیاد ڈالتا ہے۔[25] شہید صدر کے مطابق جب اقتصاد اسلامی ریاستوں کے تمام اسلامی معاشرے میں نافذ ہو جائے اس وقت عالم یا ماہر اقتصاد، اقتصادی نظریات کو کشف کر سکتا ہے اور علم اقتصاد اسلامی کی تبیین و تشریح کر سکتا ہے۔[26]

مکتب اقتصاد اسلامی میں منطقۃ الفراغ

شہید صدر کے نظریہ کے مطابق اسلام میں منطقۃ الفراغ موجود ہے۔ یعنی بعض موارد میں حاکم اسلامی کو یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ خود قانون کو وضع کرے۔ ان کا ماننا ہے کہ اسلام کا اقتصادی متکب دو بخش پر مشتمل ہے۔ ایک بخش وہ ہے جس میں شارع مقدس نے احکام کو بطور معین وضع کیا ہے اور وہ احکام و قوانین قابل تغییر نہیں ہیں۔ دوسرا بخش وہ ہے جس میں وضع احکام یا قانون بنانا حاکم اسلامی (ولی فقیہ) کی ذمہ داری ہے۔ وہ اس بخش دوم کو منطقۃ الفراغ کا نام دیتے ہیں اور کہتے ہیں: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی اس سے استفادہ کیا ہے۔[27]

توالد ذاتی معرفت و حل مشکل استقراء

سید محمد باقر صدر نے کسب معرفت کے لئے ان دو راہوں عقل و حس کے علاوہ ایک تیسری جدید روش کا اضافہ کیا ہے اور اسے توالد یا پیدائش ذاتی معرفت کا نام دیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ انہوں نے اس جدید نظریہ کے پیش کرنے کے ساتھ ہی استقراء کے ظنی ہونے کی تاریخی مشکل کو بھی حل کر دیا ہے۔ نظریہ توالد ذاتی معرفت یعنی ایک معرفت سے دوسری معرفت کا پیدا کرنا بغیر اس کے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی ملازمہ پایا جاتا ہو۔ اس نظریہ کے مطابق، توالد موضوعی یعنی معرفتوں کے درمیان ملازمہ کے ذریعہ سے جدید معرفت کا پیدا کرنا، معرفت عقلی کسب کرنے کا واحد و منحصر راستہ نہیں ہے۔ ارسطو کی منطق کے برخلاف، عمدہ علوم و معارف روش ذاتی کے ساتھ وجود میں آتے ہیں۔[28] شہید صدر نے اپنے اس نظریہ کو اپنی کتاب الاسس المنطقیۃ للاستقراء یا مبانی منطقی استقراء میں پیش کیا ہے۔[29]

شہادت

شہید صدر کی قبر (ورودی شہر نجف)

5 اپریل 1980ء بمطابق 19 جمادی الاول 1400 ھ میں[30] عراقی حکومت نے شہید صدر کو 9 ماہ گھر میں نظر بند رکھنے کے بعد گرفتار کر لیا[31] اور ان سے کہا گیا کہ وہ اعلان کریں کہ وہ حکومت سے دشمنی نہیں رکھتے ہیں، اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو انہیں پھانسی دے دی جائے گی۔ شہید صدر نے ان کو بات کو قبول نہیں کیا اور کہا وہ شہادت کے لئے آمادہ ہیں۔[32] آخرکار انہیں 9 اپریل 1980 مطابق 23 جمادی الاول 1400ھ میں ان کی ہمشیرہ کے ہمراہ شہید کر دیا گیا۔[33]

محل دفن

عراقی حکومت نے شہید صدر کے جنازہ کو خاموشی کے ساتھ قبرستان وادی السلام میں دفن کر دیا۔ 1991ء میں انتفاضہ شعبانیہ کے بعد شیعوں کی قبروں کو مٹانے کی غرض سے اس قبرستان میں بہت سے راستے بنائے گئے۔ جس کے نتیجہ میں شہید صدر کی قبر شاہراہ پر آ گئی۔ جن لوگوں کو ان کے محل دفن کی اطلاع تھی انہوں نے ان کے جنازہ کو وادی السلام میں ہی ایک دوسری جگہ منتقل کر دیا لیکن کچھ عرصہ کے بعد اس وجہ سے کہ دوسرے لوگ بھی قبر سے واقف ہو گئے تھے اسے ایک تیسری جگہ پر منتقل کر دیا گیا۔ آخرکار ماہ مبارک رمضان 1427ھ میں شہید صدر کے جنازہ کو شہر نجف کے ورودی دروازہ کے پاس منتقل کیا گیا تاکہ وہاں پر علمی و سماجی ادارے قائم کئے جائیں۔ اس بار قبر کو کھولے بغیر اس کے اطراف کے تمام قطعہ زمین کو اس جدید مقام پر منتقل کیا گیا۔[34]

حوالہ جات

  1. ابو زید العاملی، السیره و المسیره، ۲۰۰۷م، ج۱، ص۳.
  2. ابو زید العاملی، السیره و المسیره، ۲۰۰۷م، ج۱، ص۷.
  3. ابو زید العاملی، السیره و المسیره، ۲۰۰۷م، ج۱، ص۵۸.
  4. ابو زید العاملی، السیره و المسیره، ۲۰۰۷م، ج۱، ص۷تا۱۱.
  5. ابو زید العاملی، السیره و المسیره، ۲۰۰۷م، ج۱، ص۷۹و۸۰.
  6. ابو زید العاملی، السیره و المسیره، ۲۰۰۷م، ج۱، ص۸۱.
  7. ابو زید العاملی، محمد باقر الصدر، السیره و المسیره، ۲۰۰۷م، ج۱، ص۷۹.
  8. ابو زید العاملی، السیره و المسیره، ۲۰۰۷م، ج۱، ص۱۰۵.
  9. ابو زید العاملی، السیره و المسیره، ۲۰۰۷م، ج۱، ص۱۲۲.
  10. ابو زید العاملی، السیره و المسیره، ۲۰۰۷م، ج۱، ص۱۴۶تا۱۵۲.
  11. صدر، مباحث الاصول، مقدمهٔ حسینی حائری، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۴.
  12. غروی، تلامذة الامام الشہید الصدر، ۲۰۰۲م.
  13. صدر، مباحث الاصول، مقدمہ حسینی حائری، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۶۷تا۶۹.
  14. فضل الله، «شهید صدر در بستر اندیشه وعمل»، ص۱۳و۱۴.
  15. صدر، مباحث الاصول، مقدمهٔ حسینی حائری، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۸۷تا۸۹.
  16. المؤمن، سنوات الجمر، ۲۰۰۴م، ص۵۳و۵۴.
  17. صدر، مباحث الاصول، مقدمهٔ حسینی حائری، ۱۴۰۷ق، ج۱،ص۱۴۱.
  18. صدر، مباحث الاصول، مقدمهٔ حسینی حائری، ۱۴۰۷ق، ج۱،ص۶۸.
  19. ابو زید العاملی، السیره و المسیره، ۲۰۰۷م، ج۴، ص۲۷.
  20. نعمانی، آیت الله العظمی شہید سید محمد باقر صدر، ۱۳۸۸ش، ص۳۹۶-۳۹۸.
  21. اسلامی، «مکتب اصولی شهید آیت الله صدر»، ص۱۵۳؛ لاریجانی، «نظریه حق الطاعه»، ص۱۲.
  22. لاریجانی، «نظریه حق الطاعه»، ص۱۳.
  23. جمشیدی و درودی، «حکومت اسلامی در اندیشه سیاسی شهید صدر»، ص۹۳.
  24. جمشیدی، «مفهوم و چيستی حكومت در انديشه سياسی شهيد صدر»، ص۸و۹.
  25. حسینی حائری، «اقتصاد اسلامی و روش کشف آن از دیدگاه شهید صدر رحمه الله»، ص۲۲و۲۳.
  26. حسینی حائری، «اقتصاد اسلامی و روش کشف آن از دیدگاه شهید صدر رحمه الله»، ص۲۴.
  27. حسینی حائری، «اقتصاد اسلامی و روش کشف آن از دیدگاه شهید صدر رحمه الله»، ص۲۹.
  28. خسرو پناه، «منطق استقراء از دیدگاه شہید صدر»، ص۳۹.
  29. خسرو پناه، «منطق استقراء از دیدگاه شہید صدر»، ص۲۹.
  30. نعمانی، آیت الله العظمی شهید سید محمد باقر صدر، ۱۳۸۸ش، ص۵۵۷.
  31. نعمانی، آیت الله العظمی شهید سید محمد باقر صدر، ۱۳۸۸ش، ص۵۰۳.
  32. نعمانی، آیت الله العظمی شهید سید محمد باقر صدر، ۱۳۸۸ش، ص۵۴۹-۵۵۱.
  33. نعمانی، آیت الله العظمی شهید سید محمد باقر صدر، ۱۳۸۸ش، ص۵۶۰.
  34. عاملی، «روایتی شگفت از تدفین مجدد پیکر شهید صدر پس از ۱۷ سال»، ص۹۸تا۱۰۲.

مآخذ

  • ابو زید العاملی، احمد، محمد باقر الصدر، السیره و المسیره فی حقائق و وثائق، نشر العارف للمطبوعات، بیروت، ۲۰۰۷ء
  • اسلامی، رضا، «مکتب اصولی شہید آیت الله صدر»، پژوہش و حوزه، ش ۲۷و ۲۸، ۱۳۸۵ ہجری شمسی
  • المؤمن، علی، سنوات الجمر مسیرة الحرکہ الإسلامیہ فی العراق، بیروت: نشر المرکز الإسلامی المعاصر، ۲۰۰۴ء
  • جمشیدی، محمد حسین، «مفہوم و چيستی حكومت در انديشہ سياسی شہيد صدر»، فصل نامہ سياست، مجلہ دانشكده حقوق و علوم سياسی، ش۳، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
  • جمشیدی، محمد حسین و مسعود درودی، «حکومت اسلامی در اندیشہ سیاسی شہید صدر؛ بررسی مؤلفہ ہای صوری و ماہوی حکومت اسلامی در دوران غیبت»، حکومت اسلامی، ش۶۴، ۱۳۹۱ہجری شمسی۔
  • حسینی حائری، سید کاظم، «اقتصاد اسلامی و روش کشف آن از دیدگاه شہید صدر رحمہ الله»، ترجمہ: یوسفی، احمد علی، اقتصاد اسلامی، ش۱، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • حسینی حائری، سید کاظم، زندگی و افکار شہید صدر، ترجمہ حسن طارمی، تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۷۵ہجری شمسی۔
  • خسرو پناه، عبد الحسین، «منطق استقراء از دیدگاه شہید صدر»، ذہن، ش۱، ۱۳۸۳ ہجری شمسی۔
  • صدر، سید محمد باقر، مباحث الاصول، قم، ۱۴۰۷ھ۔
  • عاملی، عبد الله، «روایتی شگفت از تدفین مجدد پیکر شہید صدر پس از 17 سال»، ترجمہ عبد الکریم زنجانی، شاہد یاران، ش۱۸، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • غروی، سید محمد، تلامذة الامام الشہید الصدر ملامحہم النفسیہ و مواقفہم الاجتماعیہ، بیروت: دار الہادی، ۲۰۰۲ء۔
  • فضل الله، سید محمد حسین، «شہید صدر در بستر اندیشہ و عمل»، شاہد یاران، ش۱۸، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
  • لاریجانی، صادق، «نظریہ حق الطاعہ»، پژوہش‌ ہای اصولی، ش۱، ۱۳۸۱ہجری شمسی۔

بیرونی روابط