محمد آصف محسنی قندہاری
کوائف | |
---|---|
لقب | قندہاری |
تاریخ پیدائش | 26 اپریل 1935ء |
آبائی شہر | قندہار |
سکونت | کابل |
ملک | افغانستان |
تاریخ/مقام وفات | 5 اگست 2019ء کابل |
مدفن | مدرسہ خاتم النبیین کابل |
اولاد | عبد الله، حفیظ و حبیب |
دین | اسلام |
مذہب | شیعہ |
سیاسی کوائف | |
مناصب | شورائے عالی علمائے افغانستان کے سربراہ، حرکت اسلامی افغانستان کے رہبر |
علمی و دینی معلومات | |
تالیفات | بحوث فی علم الرجال مشرعۃ بحار الانوار |
محمد آصف محسنی قندہاری (2019-1935ء)، افغانستان میں ساکن شیعہ مراجع تقلید میں سے تھے۔ آپ اتحاد بین المذاہب کے حامی، شورائے علمائے شیعہ افغانستان کے سربراہ اور حوزہ علمیہ و جامعہ خاتم النبیین کابل کے بانی تھے۔ محمد آصف محسنی مجمع جہانی اہل بیت کی سپریم کونسل کے رکن، حرکت اسلامی افغانستان کے سابقہ رہنما اور تمدن ٹیلی ویژن چینل کے مؤسس تھے۔
محمد آصف محسنی فقہ و اصول فقہ میں سید محسن حکیم و سید ابو القاسم خوئی کے شاگرد ہیں۔ آپ کی علم رجال، فقہ اور علم حدیث میں کئی تصنیفات ہیں۔ مہدی مہریزی نے آپ کی کتاب بحوث فی علم الرجال کو درایۃ الحدیث کے موضوع پر ایک باقی رہنے والی تالیف قرار دیا ہے۔
حالات زندگی
محمد آصف محسنی بن محمد مرزا محسنی، 26 اپریل 1935 ء کو افغانستان کے شہر قندہار میں پیدا ہوئے۔[1] ابتدائی تعلیم کا آغاز مکتب سے کیا اور دس سال کی عمر میں اپنے والد کے پاس لکھنا پڑھنا شروع کر دیا۔[2] 14 سال کی عمر بمطابق سنہ 1949ء میں پاکستان چلے گئے اور کوئٹہ میں اردو زبان سیکھی۔[3] پاکستان سے واپسی کے بعد کچھ مدت تک الیکٹریکل کمپنی میں کام کرتے رہے اور پھر 1951ء میں قندھار کے ایوان تجارت میں ملازم ہو گئے۔[4] آصف محسنی نے 1961ء میں اپنے چچا کی بیٹی سے شادی کی کہ جس سے تین بیٹے عبد اللہ، حفیظ اور حبیب پیدا ہوئے۔[5] آپ کے بڑے بیٹے اور پہلی بیوی آپ کی حیات میں ہی انتقال کرگئے۔[6]
وفات
آپ 5 اگست 2019 کی شام کو کابل کے ایک ہسپتال میں وفات پاگئے[7] اور آپ کے جسد خاکی کو مدرسہ خاتم النبیین کابل میں سپرد خاک کیا گیا۔[8]
دینی تعلیم
آصف محسنی نے پہلے چھ ماہ تک قندھار میں دینی مقدماتی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ پھر افغانستان کے شہر غزنی کے ایک دیہات جاغوری چلے گئے اور 8 ماہ کی قلیل مدت میں ہدایہ، سیوطی، حاشیہ ملا عبد اللہ اور کچھ حد تک معالم و لمعہ دمشقیہ جیسی کتابیں پڑھیں۔[9] محمد آصف محسنی 3 جولائی 1953ء میں نجف تشریف لے گئے اور 3 سال سے بھی کم مدت میں سطوح کی باقیماندہ تعلیم کو مکمل کیا۔[10] چنانچہ وہ خود کہتے ہیں کہ حوزے کی تعطیلات میرے لیے خوش آئند نہیں ہوتی تھیں اور چھٹیوں کے دوران بھی دروس میں مشغول رہتا تھا۔[11] آپ نے مطول شیخ محمد علی مدرس افغانی، کفایہ کی جلد اول شیخ مجتبی لنکرانی، کفایہ کی جلد دوم صداری بادکوبہ ای، رسائل شیخ کاظم یزدی اور مکاسب چند دیگر اساتذہ کے پاس مکمل کیں۔[12] شیخ آصف محسنی فلسفے میں بھی دلچسپی رکھتے تھے تاہم نجف میں فلسفے کی تدریس پر پابندی کے پیش نظر ذاتی طور پر مطالعہ کرنے لگے اور کتاب باب حادی عشر پر حاشیہ تحریر کیا۔[13] دیگر کتب منجملہ اسفار، حکمت الاشراق اور کلامی کتب کا بھی مطالعہ کیا۔[14] آپ کے ہم بحث شیخ قربان علی محقق کابلی، شیخ اسماعیل محقق اور شیخ موسی عالمی بامیانی تھے۔[15] شیخ آصف محسنی نے 9 سال تک سید محسن حکیم، سید ابو القاسم خوئی، شیخ حسین حلی اور سید عبدالاعلی سبزواری کے دروس خارج میں شرکت کی۔[16]
سیاسی جدوجہد
27 اپریل 1978ء کے کمیونسٹ شب خون اور خلق افغانستان ڈیموکریٹک پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد آصف محسنی افغانستان سے ہجرت کر گئے۔[17] پہلے مناسک حج کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب گئے[18] پھر شام کا رخ کیا اور دمشق میں چند ماہ تک علوم دینیہ کی تدریس میں مشغول رہے۔[19]
حزب حرکت اسلامی افغانستان
مارچ 1979ء میں قم تشریف لے آئے اور حوزہ علمیہ قم میں مقیم افغانی علما کے ہمراہ 8 اپریل[20] کو حزب حرکت اسلامی افغانستان کی بنیاد رکھی۔[21] چھوٹے چھوٹے گروہوں پر مشتمل اس جماعت نے افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کے خلاف عسکری جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس جماعت نے افغانستان کے 19 صوبوں میں 100 سے زیادہ عسکری مراکز قائم کیے اور روسی افواج کے خلاف ہزاروں جنگجوؤں پر مشتمل مسلح دستوں کو منظم کیا۔[22] شیخ آصف محسنی 2005ء تک اس جماعت کے رہنما رہے اور حرکت اسلامی افغانستان سے استعفیٰ دینے کے بعد اپنی سیاسی سرگرمیاں ختم کر دیں۔[23]
مجاہدین کی حکومت سے تعاون
ڈاکٹر نجیب اللہ کی کمیونسٹ حکومت کے سقوط کے بعد 8 مئی 1992ء کو محمد آصف محسنی کابل میں تشکیل پانے والی مجاہدین کی پہلی حکومت کے دوران افغانستان کی اسلامی حکومت کو کنٹرول کرنے والی مرکزی شوریٰ کے منشی اور ترجمان تھے۔ تاہم مجاہدین کے گروہوں میں داخلی جنگیں چھڑ جانے کے بعد آپ کابل چھوڑ کر پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد چلے گئے۔[24]
دینی سرگرمیاں
محمد آصف محسنی نے افغانستان میں مختلف نوعیت کے دینی کام کیے ہیں؛ منجملہ شورائے علمائے شیعہ افغانستان کی سربراہی، مذہب شیعہ کی سرکاری شناخت کیلئے جدوجہد، کابل میں خاتم النبیین تعلیمی و تربیتی انسٹی ٹیوٹ کی تاسیس، تمدن ٹیلی ویژن کا آغاز اور اسی طرح بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے جدوجہد۔
شورائے علمائے شیعہ افغانستان: آصف محسنی نے سنہ 2003ء میں علمائے شیعہ افغانستان کا کابل میں پہلا اجلاس منعقد کیا اور سہ روزہ مذاکرات کے بعد شورائے علمائے شیعہ افغانستان کی تاسیس کی باقاعدہ منظوری دے دی گئی۔[25] شورائے علمائے شیعہ افغانستان کے ملک بھر میں 65 نمائندہ دفاتر اور دو ہزار سے زیادہ ارکان ہیں۔[26] محمد آصف محسنی شورائے علمائے شیعہ افغانستان کے سربراہ منتخب ہوئے۔[27]
افغانستان میں شیعہ مذہب کی سرکاری شناخت: 4 جنوری 2004ء کو منظور کیے جانے والے اسلامی جمہوریہ افغانستان کے آئین میں افغانستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شیعہ مذہب کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیا گیا۔ اکثر لوگ افغانستان کے آئین میں شیعہ مذہب کی سرکاری شناخت کو محمد آصف محسنی کی جدوجہد کا نتیجہ قرر دیتے ہیں۔[28]
مؤسسہ خاتم النبیین: مؤسسہ تحصیلات عالی و حوزہ علمیہ خاتم النبیین کابل 40 ہزار مربع میٹر پر محیط مرکز ہے کہ جو آصف محسنی کی زیرنگرانی تعمیر کیا گیا ہے اور سنہ 2007ء سے سرگرم عمل ہے۔ یہ کمپلیکس حوزہ علمیہ، یونیورسٹی، لائبریری اور جامعہ مسجد پر مشتمل ہے۔[29][30]
تمدن ٹیلی ویژن: تمدن ٹیلی ویژن چینل کہ جس کی نشریات کا زیادہ تر حصہ خبروں، تبصروں اور دینی پروگراموں پر مشتمل ہوتا ہے؛ کا آغاز 2007ء میں آصف محسنی نے کیا۔[31] یہ ٹیلی ویژن افغانستان کے دیگر ٹی۔وی چینلز کے برخلاف موسیقی نشر کرنے سے اجتناب کرتا ہے۔[32]
قانون احوال شخصیہ شیعیان: شورائے علمائے شیعہ افغانستان کے سربراہ محمد آصف محسنی نے 2009ء میں قانون احوال شخصیہ شیعیان کے نام سے ایک بل حامد کرزئی کی حکومت کے سامنے پیش کیا کہ جو آئین افغانستان کے آرٹیکل 131[33] کے تحت حکومت نے منظور کر لیا مگر افغان عوام کے مختلف طبقات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مخالفت کے بعد اسے ایک مرتبہ پھر نظرثانی کے مرحلے پر قرار دیا گیا۔
بین المذاہب ہم آہنگی: آصف محسنی اتحاد بین المسلمین کیلئے جد و جہد کے حوالے سے افغانستان کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ شورائے اخوت اسلامی افغانستان کی تاسیس، بین المذاہب ہم آہنگی، تقریب مذاہب؛ از نظر تا عمل[34] کے نام سے کتاب کی اشاعت، اسی طرح سنی شیعہ کی مشترکہ تعلیمی درسگاہ جامعہ خاتم النبیین[35] کی تاسیس ان کاوشوں میں سے ایک ہے۔
تالیف و تحقیق
محمد آصف محسنی نے سیاسی اقدامات اور دینی و معاشرتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ متعدد کتابیں اور مقالات تصنیف کیے ہیں کہ جن میں سے اب تک ساٹھ سے زیادہ تالیفات شائع ہو چکی ہیں۔[36] اسی لیے آصف محسنی کو افغانستان کے اعلیٰ ترین علمی اعزاز سے نوازا گیا ہے۔[37]
آپ کی کتابیں عربی و فارسی میں متنوع موضوعات پر ہیں؛ منجملہ حدیث، فقہ، رجال، عقائد اور سیاست۔ آپ کی بعض تصانیف یہ ہیں:
- بحوث فی علم الرجال، یہ رجالی قواعد پر مشتمل ہے اور مہدی مہریزی کے مطابق درایۃ الحدیث کے موضوع پر یہ ایک باقی رہنے تالیف ہے۔[38]
- مشرعۃ بحار الانوار، جیسا کہ مؤلف نے کہا ہے کہ یہ بحار الانوار پر تعلیقہ ہے۔ اس کتاب میں محمد آصف محسنی نے اپنی کتاب بحوث فی علم الرجال میں مذکور رجالی قواعد کی بنا پر بحار الانوار کی معتبر روایات کو غیر معتبر روایات سے جدا کیا ہے اور مختلف موضوعات کا جائزہ لیا ہے کہ جو معتبر روایات میں مذکور ہیں۔[39]
عقاید برای ہمہ،[40] تقریب مذاہب، از نظر تا عمل،[41] زن در شریعت اسلامی،[42] توضیح المسائل سیاسی،[43] اور خصایص خاتم النبیین،[44] آپ کی دیگر تصنیفات ہیں۔
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»۔
- ↑ «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»۔
- ↑ «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»۔
- ↑ «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»۔
- ↑ «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»۔
- ↑ «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»۔
- ↑ مرجع تقلید شیعیان افغانستان درگذشت
- ↑ «پیکر آیت اللہ محسنی تشییع و بہ خاک سپردہ شد»
- ↑ «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»۔
- ↑ «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»۔
- ↑ «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»۔
- ↑ «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»۔
- ↑ «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»۔
- ↑ «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»۔
- ↑ «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»۔
- ↑ مہدی زادہ کابلی، «محسنی، محمد آصف»۔
- ↑ «آیت اللہ محسنی، مبلغ اتحاد شیعہ و سنی»۔
- ↑ «آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی قندہاری»۔
- ↑ «آیت اللہ محسنی، مبلغ اتحاد شیعہ و سنی»۔
- ↑ «درباره ما».
- ↑ «محسنی، محمد آصف».
- ↑ مہدی زادہ کابلی، «محسنی، محمد آصف»۔
- ↑ «تاریخچہ مختصر حرکت اسلامی افغانستان»۔
- ↑ مہدی زادہ کابلی، «محسنی، محمد آصف»۔
- ↑ شیعیان افغانستان را بہتر بشناسیم۔
- ↑ شیعیان افغانستان را بہتر بشناسیم۔
- ↑ اعضای شورای علمای شیعہ افغانستان مشخص شدند۔
- ↑ اعضای شورای علمای شیعہ افغانستان مشخص شدند۔
- ↑ صادقی بلخابی، محمد آصف محسنی۔
- ↑ حوزہ علمیہ خاتم النبیین کابل - افغانستان۔
- ↑ تلویزیون ہای کابل۔
- ↑ تلویزیونہای افغانستان۔
- ↑ واعظی، احوال شخصیہ شیعیان، فروع فقہی در کرسی اصول حقوقی۔
- ↑ تقریب مذاہب؛ از نظر تا عمل۔
- ↑ مؤسسہ خاتم النبیین کابل؛ زمینہساز تقریب مذاہب اسلامی۔
- ↑ «محسنی، محمدآصف»۔
- ↑ «اعطای بالاترین نشان علمی افغانستان بہ آیت اللہ آصف محسنی»۔
- ↑ مہریزی، «طرح پژوہشی:علم الحدیث»، ص76۔
- ↑ محسنی، مشرعۃ بحار الانوار، 1426ھ، ج1، ص7۔
- ↑ محسنی، عقاید برای ہمہ، 1373 شمسی۔
- ↑ محسنی، تقریب مذاہب: از نظر تا عمل، 1387 شمسی۔
- ↑ محسنی، زن در شریعت اسلامی، 1391 شمسی۔
- ↑ محسنی، توضیح المسائل سیاسی، 1391 شمسی۔
- ↑ محسنی، خصایص خاتم النبیین، 1396 شمسی۔
مآخذ
- «آیت اللہ محسنی؛ مبلغ اتحاد شیعہ و سنی»، سائیٹ بی بی سی فارسی، تاریخ درج مطلب:8 مرداد 1388 شمسی۔ تاریخ بازدید:23 مہر 1396 شمسی۔
- «اعضای شورای علمای شیعہ افغانستان مشخص شدند»، سائٹ حوزہ نیوز، تاریخ درج مطلب:8 آبان 1396شمسی۔ تاریخ بازدید:16 دی 1397 شمسی۔
- «اعطای بالاترین نشان علمی افغانستان بہ آیتاللہ آصف محسنی»، سائٹ شیعہ نیوز، تاریخ درج مطلب:22 مرداد 1386شمسی۔ تاریخ بازدید:23 مہر 1396 شمسی۔
- «تاریخچہ مختصر حرکت اسلامی افغانستان»، در صفحہ شورای جوانان حرکت اسلامی در فیس بک، تاریخ درج مطلب:14 دسامبر 2014ء، تاریخ بازدید:23 مہر 1396 شمسی۔
- «تقریب مذاہب؛ از نظر تا عمل»، سائٹ بنیاد محقق طباطبایی، تاریخ بازدید:23 مہر 1396 شمسی۔
- «تلویزیونہای افغانستان»، سائیٹ پیام آفتاب، تاریخ درج مطلب:اول فروردین 1387 شمسی۔ تاریخ بازدید:23 مہر 1396 شمسی۔
- «تلویزیونہای کابل»، سائٹ آژانس خبری پژواک، تاریخ بازدید: 23 مہر 1396شمسی۔
- «حوزہ علمیہ خاتم النبیین کابل-افغانستان»، ویب لاگ حمیداللہ نجم، تاریخ درج مطلب:اول دسامبر 2009ء، تاریخ بازدید:23 مہر 1396 شمسی۔
- «دربارہ ما»، سایٹ حزب حرکت اسلامی افغانستان، تاریخ بازدید: 13 تیر 1395 شمسی۔
- «شیعیان افغانستان را بہتر بشناسیم»، سایٹ خبرگزاری فارس، تاریخ درج مطلب: 11 خرداد 1392 شمسی۔ تاریخ بازدید: 23 مہر 1396 شمسی۔
- «گاردین: آیت اللہ محسنی، روحانی سرکش افغانستان»، سائیٹ بی بی سی فارسی، تاریخ درج مطلب: 3 اردیبہشت 1388 شمسی۔ تاریخ بازدید: 23 مہر 1396 شمسی۔
- «گفتگوی اختصاصی با آیت اللہ شیخ محمد آصف محسنی»، در پایگاہ اطلاع رسانی رسالات، تاریخ درج مطلب: 27 خرداد 1391 شمسی۔ تاریخ بازدید: 23 مہر 1396 شمسی۔
- «مؤسسہ خاتم النبیین کابل؛ زمینہ ساز تقریب مذاہب اسلامی»، سایٹ خبرگزاری تقریب، تاریخ درج مطلب: 22 مہر 1388 شمسی۔ تاریخ بازدید: 23 مہر 1396 شمسی۔
- صادقی بلخابی، سید غلام حسین، «محمد آصف محسنی»، سایٹ فرہیختگان تمدن شیعی، تاریخ درج مطلب: 12 مہر 1394 شمسی۔ تاریخ بازدید: 23 مہر 1396 شمسی۔
- محسنی، محمد آصف، تقریب مذاہب: از نظر تا عمل، تہران، نشر ادیان، 1387 شمسی۔
- محسنی، محمد آصف، توضیح المسائل سیاسی، کابل، کمیسیون فرہنگی شورای علمای شیعہ افغانستان، 1391 شمسی۔
- محسنی، محمد آصف، خصایص خاتم النبیین، کابل، مرکز حفظ و نشر آثار حضرت آیت اللہ العظمی محسنی، 1396 شمسی۔
- محسنی، محمد آصف، زن در شریعت اسلامی، کابل، حوزہ علمیہ خاتم النبیین، 1391 شمسی۔
- «محسنی، محمد آصف»، سایٹ دانشنامہ تخصصی کتاب شناسی و زندگی نامہ ویکی نور، تاریخ بازدید: 17 دی 1397 شمسی۔
- محسنی، محمد آصف، عقاید (وظایف عملی و وظایف متقابل) برای ہمہ، اسلام آباد، کمیسیون فرہنگی حرکت اسلامی افغانستان، 1373 شمسی۔
- محسنی، محمد آصف، مشرعۃ بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ العارف للمطبوعات، 1426ھ/2005ء.
- مہدی زادہ کابلی، محمد رئوف مہدی، «محسنی، محمدآصف»، در دانش نامہ آریانا، تاریخ درج مطلب: 11 مرداد 1388 شمسی۔ تاریخ بازدید: 23 مہر 1396 شمسی۔
- مہریزی، مہدی، «طرح پژوہشی:علم الحدیث»، در مجلہ آینہ پژوہش۔ ش33، تابستان 1374 شمسی۔
- واعظی، حمزہ، «احوال شخصیہ شیعیان، فروع فقہی در کرسی اصول حقوقی»، سایٹ بی بی سی فارسی، تاریخ درج مطلب: 18 فروردین 1388 شمسی۔ تاریخ بازدید: 23 مہر 1396 شمسی۔