ودایع امامت

نامکمل زمرہ
غیر سلیس
ویکی شیعہ سے
(میراث امام سے رجوع مکرر)

ودایع امامت انبیاء، امام علیؑ اور حضرت زہرا(س) کی اس میراث کو کہا جاتا ہے جو شیعہ ائمہ معصومین کے پاس یکے بعد دیگرے موجود تھی۔ ودایع امامت کو امام کی نشانیوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ اس میراث میں پیغمبر اکرمؐ کی تلوار اور انگوٹھی، عصائے موسی، انگشتر سلیمان، مصحف فاطمہ(س) اور جفر اور جامعہ شامل ہیں۔

اہمیت

شیعہ مذہب میں امام کو پہچاننے کی مختلف نشانیاں ہیں جن میں ودایع امامت اور پہلے امام کی وصیت بھی شامل ہیں۔[1] لیکن جب تقیہ اور دیگر حالات کی وجہ سے وصیت کے ذریعے کسی امام کی امامت ثابت کرنا مشکل یا نا ممکن ہو جائے تو ودایع امامت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔[2] اسی بنا پر شیعہ مذہب میں ودایع امامت کی خاص اہمیت ہے کیونکہ اس کے ذریعے امام کی شناخت اور پہچان میں موجود ممکنہ شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔[3] تاریخی لحاظ سے بھی ودایع امامت دوسری نشانیوں کی نسبت عام فہم ہونے کی وجہ سے زیادہ مشہور ہو گئی ہے۔[4] البتہ ودایع امامت میں موجود اشیاء عام لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ رہی ہیں اور صرف بعض مخصوص افراد انہیں دیکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔[5]

مصادیق

شیعہ منابع میں نقل شدہ احادیث میں بعض اشیاء کو ودایع امامت میں شمار کیا گیا ہے جن کی طرف "عندنا" یا "عندی" جیسے الفاظ کے ذریعے اشارہ کئے گئے ہیں:

ودایع امامت وضاحت
پیغمبر اکرمؐ کی تلوار[6] امام صادقؑ سے منقول ایک حدیث میں پیغمبر اکرمؐ کی تلوار کو بنی اسرائیل کی تابوت سے تشبیہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ہم میں سے جس کے پاس پیغمبر اکرمؐ کی تلوار ہو گی امامت بھی اسی کو دی گئی ہے۔[7] بعض احادیث کے مطابق یہ تلوار وہی ذوالفقار تھی۔[8]
جفر[9] یہ ایک کتاب ہے جس میں قیامت تک کے واقعات ذکر ہوئے ہیں۔[10]
جامعہ ایک کتاب ہے جسے پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو املاء فرمایا۔ اس کتاب میں حلال اور حرام کے تمام احکام موجود ہیں۔[11]
کتاب علیؑ[12] بعض مورخین جامعہ اور کتاب علیؑ کو ایک ہی کتاب کے دو نام مانتے ہیں[13] لیکن آقا بزرگ تہرانی نے اسے امالی رسول اللہ کا نام دیتے ہوئے جفر اور جامعہ کے علاوہ ایک اور کتاب قرار دیتے ہیں۔[14]
مصحف فاطمہ(س) یہ کتاب ان مطالب پر مشتمل ہے جو فرشتوں کے ذریعے حضرت فاطمہ(س) پر الہام ہوئی اور امام علیؑ نے اسے تدوین فرمایا۔[15]
صحیفہ فرایض ارث کے بارے میں امام علیؑ کے دست مبارک سے لکھی ہوئی کتاب ہے[16]
پیغمبر اکرمؐ کی انگوٹھی[17]
پیغمبر اکرمؐ کا زرہ[18] احادیث کے مطابق امام کی نشانی یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کا زرہ ان کے جسم پر فٹ آئے۔[19]
سرخ جفر چمڑے کی تھیلی جس میں پیغمبر اکرمؐ کا اسلحہ رکھا جاتا تھا۔[20]
سفید جفر چمڑے کی تھیلی جس میں توریت، انجیل، زبور اور دوسری آسمانی کتابیں رکھی جاتی تھیں۔[21]
دیوان شیعیان جس میں تمام شیعوں کا نام موجود ہے۔ بعض احادیث میں اسے ناموس کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔[22]
دوسرے انبیاء کی میراث الواح حضرت موسی، طشت، تابوت، عصائے موسی اور انگشتر سلیمان[23]

جھوٹے دعویداروں کے مقابلے میں حجت

ائمہ معصومین امامت کے جھوٹے دعویداروں اور شیعوں کے درمیان شکوک و شبہات پیدا ہوتے وقت اپنے پاس موجود ودایع امامت کے ذریعے اپنی امامت پر استدلال کرتے تھے۔ امام علیؑ نے خلیفہ منتخب کرنے کیلئے بنائے گئے چھ رکنی کمیٹی سے مخاطب ہو کر فرمایا: "خدا کو حاضر و ناظر جان کر بتاؤ آیا میرے علاوه تم میں سے کوئی ہے جس کے پاس پیغمبر اکرمؐ کا اسلحہ، پرچم اور انگوٹھی ہو؟"[24]

امام صادقؑ کا مقابلہ ایک طرف سے حسنیوں کے ساتھ تھا جو محمد بن عبداللہ محض کی بعنوان مہدی موعود تبلیغ کیا کرتے تھے[25] اور دوسری طرف سے کیسانیہ اور زیدیہ جیسے دو فرقے آپ کے سامنے تھے، ان سب کے مقابلے میں آپ اپنے پاس موجود پیغمبر کے اسلحے کے ساتھ اپنی امامت پر استدلال کرتے تھے۔[26] کہا جاتا ہے کہ جب آپ سے کہا گیا کہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ کی تلوار عبداللہ بن حسن کے پاس ہے۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا:

"خدا کی قسم! عبداللہ بن حسن نے ہرگز اسے نہیں دیکھا ہے۔ رسول کی تلوار اور انگوٹھی میرے پاس ہے۔ رسول‌اللہ کا اسلحہ بنی اسرائیل کے درمیان تابوت کی طرح ہے۔ جہاں تابوت ہوتی وہاں نبوت ہوتی۔ رسول اللہ کا اسلحہ بھی جس کے پاس ہو گا وہ امام ہے۔"[27]

امام کاظمؑ کی شہادت کے بعد واقفیہ نامی فرقے نے سر اٹھایا اور یہ دعوا کرنے لگا کہ امام کاظمؑ غیب میں چلے گئے ہیں اور کچھ مدت کے بعد آپ ظہور کریں گے۔ اس فرقے نے بہت سارے شیعوں کو شک و تردید میں مبتلا کر دیا۔ اسی بنا پر بعض شیعوں نے امام رضاؑ سے پیغمبر اکرمؐ کے اسلحے کے بارے میں سوال کیا کہ آیا یہ آپ کے پاس ہے یا نہیں؟۔[28]

بعد والے امام کی طرف منتقلی

احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ودایع امامت کو ایک امام دوسرے امام کے سپرد کیا کرتے تھے، خواہ یہ منتقلی بطور مستقیم انجام پائے یا باالواسطہ۔ امام صادقؑ سے منقول ہے: یہ کتابیں علیؑ کے پاس موجود تھیں؛ جب آپ نے عراق کی طرف سفر کیا تو انہیں بطور امانت ام سلمہ کے حوالے فرمایا۔ آپ کی شہادت کے بعد وہ کتابیں حسنؑ کے پاس موجود تھیں، آپ کے بعد حسینؑ، آپ کے بعد علی بن حسینؐ اور آپ کے بعد میرے والد ماجد کے پاس موجود تھیں۔[29]

نیز منقول ہے کہ جب امام حسینؑ نے عراق کی طرف سفر کیا تو ان کتابوں کو پھر ام سلمہ کے یہاں بطور امانت رکھا۔ جب علی بن حسینؑ شام کی اسیری سے واپس مدینہ پہنچے تو ام سلمہ انہیں آپ کے حوالہ کیا۔[30]

امام باقرؑ سے منقول ہے: جب علی بن حسینؑ کی شہادت قریب پہنچی تو آپ نے ایک صندوق میرے حوالے کرتے ہوئے فرمایا: "اے محمد! اس صندوق کو اپنے پاس رکھو"۔ اس صندوق میں رسول خدا کی تلوار اور آپ کی کتابیں تھیں۔[31]

حوالہ جات

  1. طوسی‌، الإقتصاد‌، ۱۴۳۰ھ، ص۳۷۵۔
  2. طباطبایی، جستاری در آسیب شناسی چالش‌ہای آغاز امامت امام کاظم، ص۱۰۴۔
  3. طباطبایی، جستاری در آسیب شناسی چالش‌ہای آغاز امامت امام کاظم، ص۷۹۔
  4. طباطبایی، جستاری در آسیب شناسی چالش‌ہای آغاز امامت امام کاظم، ص۸۱۔
  5. طباطبایی، جستاری در آسیب شناسی چالش‌ہای آغاز امامت امام کاظم، ص۷۹۔
  6. کلینی، الکافی، ج۱، ۱۳۶۲ہجری شمسی، ص۳۰۵۔
  7. کلینی، الکافی، ۱۳۶۲ہجری شمسی، ج۱، ص۲۳۸۔
  8. ابن شہرآشوب، المناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۴، ص۱۳۵ و ۲۵۳۔
  9. کلینی، الکافی، ۱۳۶۲ہجری شمسی، ج۱، ص۲۳۹؛ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۵۲۔
  10. صدوھ، کمال الدین و تمام النعمہ، موسسہ النشر الاسلامی، ج۱، ص۳۵۳۔
  11. شیخ مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۱۸۶۔
  12. صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۴۷۔
  13. عسکری، مرتضی، معالم المدرستین، ۱۴۱۰ھ، ج۲، ص۳۳۵-۳۳۸۔
  14. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، اسماعیلیان، ج۲، ص۳۰۶-۳۰۷۔
  15. صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۵۲-۱۵۳۔
  16. آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، اسماعیلیان، ج۲، ص۱۶۲۔
  17. صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۵۶۔
  18. صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۵۶۔
  19. ابن شہرآشوب، المناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۱، ص۲۵۳؛ شیخ مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۲۱۷۔
  20. شیخ مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۱۸۶۔
  21. شیخ مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۱۸۶۔
  22. صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۷۳۔
  23. صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۷۵۔
  24. صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۸۲۔
  25. نجفیان رضوی، بررسی چگونگی مناسبات حسنیان و امامان شیعہ، مطالعات تاریخ اسلام، ۱۳۹۲ش۔
  26. شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۱۸۷-۱۸۸۔
  27. صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۷۵۔
  28. رجال کشی، ۱۳۴۸ہجری شمسی، ص۴۷۳؛ قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۶۶۳۔
  29. صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۱۶۲۔
  30. کلینی، الکافی، ۱۳۶۲ہجری شمسی، ج۱، ص۳۰۴؛ ابن شہرآشوب، المناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۴، ص۱۷۲۔
  31. کلینی، الکافی، ۱۳۶۲ہجری شمسی، ج۱، ص۳۰۵۔

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، قم، اسماعیلیان، بی‌تا۔
  • ابن شہر آشوب، المناقب، قم، نشر علامہ، ۱۳۷۹ھ۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد، قم، مکتبۃ آیۃ‌اللہ المرعشی النجفی، چاپ دوم، ۱۴۰۴ھ۔
  • طباطبایی، محمدکاظم، جستاری در آسیب‌شناسی چالش‌ہای آغاز امامت امام کاظم، مجلہ امامت پژوہی، شمارہ ۸، سال دوم، زمستان ۱۳۹۱ہجری شمسی۔
  • طوسی، محمد بن حسن، الإقتصاد فیما یجب علی العباد، تحقیق‌ سید‌ کاظم‌ موسوی، قم، دلیل ما، چاپ اول، ۱۴۳۰ق۔
  • عسکری، سید مرتضی، معالم المدرستین، بیروت، مؤسسۃ النعمان، ۱۴۱۰ھ۔
  • قطب راوندی، سعید بن عبداللہ، الخرائج و الجرائح، تصحیح سید محمدباقر ابطحی، اول، قم، مؤسسہ امام مہدی، ۱۴۰۹ھ۔
  • کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی (اختیار معرفۃ الرجال)، مشہد، دانشگاہ مشہد، ۱۳۴۸ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، اسلامیۃ، چاپ دوم، ۱۳۶۲ہجری شمسی۔
  • مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
  • نجفیان رضوی، لیلا، بررسی چگونگی مناسبات حسنیان و امامان شیعہ تا سال ۱۴۵ ہجری قمری، مطالعات تاریخ اسلام، ۱۳۹۲ہجری شمسی، شمارہ پنجم۔