سید علی نقی نقوی لکھنوی

ویکی شیعہ سے
(علی نقی نقن سے رجوع مکرر)
سید علی نقی نقوی لکھنوی
کوائف
مکمل نامسید علی نقی نقوی
لقب/کنیتنقن صاحب
نسبعلی نقی بن ... محمد بن الطاہر بن جعفر بن امام علی نقی (ع)
تاریخ ولادت26 رجب 1323 ھ مطابق 1905 ء
آبائی شہرلکھنؤ
تاریخ وفات1 شوال 1408 ھ /18 مئی 1988 ء
مدفنلکھنؤ
علمی معلومات
اساتذہمولانا سید محمد عرف میرن صاحب • نجم الملۃ • جناب باقر العلوم
اجازہ اجتہاد ازسید ابو الحسن اصفہانی، محمد حسین نائینی، سید ضیاء الدین عراقی، شیخ عبد الکریم حائری یزدی، محمد حسین اصفہانی، ابراہیم (میرزا شیرازی)، شیخ ہادی کاشف الغطاء، میرزا علی یزدانی، شیخ محمد حسین تہرانی، شیخ کاظم شیرازی، میرزا ابو الحسن مشکینی، سید سبط حسن مجتہد۔
خدمات


سید علی نقی نقوی (1905۔1988 ء) المعروف نقن صاحب برصغیر پاک و ہند کے شیعہ مجتہد، مفسر اور مشہور خطباء میں سے تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب اٹھائیس پشتوں کے ذریعے حضرت امام علی نقیؑ تک جا پہنچتا ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم لکھنؤ میں ہی حاصل کی اور مزید تعلیم کے حصول کے لئے نجف اشرف گئے۔ یہاں بزرگ علماء سے کسب فیض کے بعد ہندوستان واپس آگئے اور علوم اہل بیت اطہارؑ کی تبلیغ و ترویج شروع کی۔ آپ نے بہت سی کتابیں بھی تصنیف کیں۔ نجف میں آپ نے اپنے اساتذہ سے نقل روایت اور اجتہاد کے اجازہ نامے حاصل کیے۔

سوانح حیات

پیدائش

سید علی نقی نقوی 26 رجب سنہ1323ھ مطابق 1905ء کو ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد خود عالم دین اور سید دلدار علی نقوی کے نواسے تھے۔ بچپنے میں آپ اپنے والد کے ہمراہ نجف اشرف گئے، چند سال کے بعد نجف سے ہندوستان واپس آئے اور اپنے والد اور بڑے بھائی کے پاس ہی اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔[1] سید علی نقن سنہ1927ء میں دوبارہ نجف اشرف چلے گئے اور پانچ سال مزید تعلیم حاصل کی۔ اس دوران سید ابوالحسن اصفہانی، محمد حسین نائینی، آغا ضیاء عراقی اور دیگر اساتذہ سے کسب علم کیا۔ آپ 27 سال کی عمر میں مرتبہ اجتہاد پر پہنچے۔ [2]

وفات

سید علی نقی نقوی نے یکم شوال روز عید الفطر 1408ھ بمطابق 18 مئی سنہ1988ء کو لکھنؤ میں وفات پائی اور وہیں سپرد خاک کئے گئے۔[3]

علمی زندگی

آپ لکھنؤ میں ایک ہی وقت میں دو مدرسوں؛ مدرسہ ناظمیہ اور سلطان المدارس میں زیر تعلیم رہے۔[4] زمانہ طالب علمی میں ہی (سر فراز لکھنؤ)، (الواعظ لکھنؤ) اور (شیعہ لاہور) میں آپ کے علمی مضامین شائع ہونے لگے تھے۔ کچھ عرصے تک بحثیت مدرس، ناظمیہ میں معقولات کی تدریس کی۔[5] عربی ادب میں آپ کافی مہارت رکھتے تھے اور فی البدیہ قصائد و مراثی لکھنے کے اسی دور میں بہت سے مظاہرے ہوئے۔ آپ کی عربی مہارت کو تسلیم کرتے ہوئے علامہ امینی نے آپ کے قصائد کے مجموعے میں سے حضرت ابو طالب کی شان میں لکھے گئے قصیدے کو کتاب الغدیر میں شامل کیا[6] اور آقا بزرگ تہرانی نے شیخ طوسی کے حالات زندگی کو آپ ہی کے لکھے ہوئے مرثیے پر ختم کیا ہے۔[7] آپ نے لکھنؤ میں اپنے والد ابوالحسن منن، سید محمد عرف میرن، نجم الملت اور باقر العلوم سے تعلیم حاصل کی۔[8]، سنہ 1345ھ بمطابق1927ء میں آپ نے ایک بار پھر نجف کا سفر کیا۔ یہاں آپ نے پانچ سال کے عرصے میں سید ابوالحسن اصفہانی، محمد حسین نائینی، آغا ضیاء عراقی اور دیگر اساتذہ سے کسب فیض کیا۔[9] آپ27 سال کی عمر میں مرتبہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔[10]

اجازۂ اجتہاد اور نقل روایت

درج ذیل شخصیات نے آپ کو اجازۂ اجتہاد سے نوازا:

  1. سید ابو الحسن اصفہانی[11]
  2. محمد حسین نائینی[12]
  3. سید ضیاء الدین عراقی[13]
  4. شیخ عبد الکریم حائری یزدی
  5. محمد حسین اصفہانیؒ
  6. ابراہیم (میرزا شیرازیؒ)
  7. شیخ ہادی کاشف الغطاء
  8. میرزا علی یزدانیؒ
  9. شیخ محمد حسین تہرانی
  10. شیخ کاظم شیرازیؒ
  11. میرزا ابو الحسن مشکینی
  12. سید سبط حسن مجتہد[14]

درج ذیل شخصیات نے آپ کو اجازہ نقل روایت سے نوازا:

  1. آقا بزرگ تہرانی
  2. سید ہبۃ الدین شہرستانی
  3. سید محسن امین عاملی[15]
  4. سید حسن صدرالدین[16]
  5. سید شہاب الدین مرعشی نجفی
  6. سید محمد ہادی بجستانی خراسانی
  7. سید عبد الحسین شرف‌الدین [17] آپ نے ان شخصیات کے علاوہ بعض دیگر علما سے بھی نقل روایت کی اجازت حاصل کی۔[18]

علمی اور اجتماعی خدمات

سید علی نقی نقوی لکھنؤی سنہ1350ھ میں نجف سے ہندوستان واپس آئے۔[19] سنہ 1932ء سے آپ نے لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ عربی ادبیات میں تدریس کی اور یہ سلسلہ 27 سال تک جاری رہا۔ اس کے بعد سنہ 1959ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ الٰہیات میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ سید علی نقی نقن ایک زبردست خطیب بھی تھے۔ آپ ہندوستان اور پاکستان میں مجالس و محافل سے خطاب کرتے تھے۔ [20]

قلمی آثار

عراق میں حصول علم کے دوران آپ نے مختلف موضوعات پر چند کتابیں تالیف کیں۔ آپ نے پہلی کتاب وہابیت کے خلاف تصنیف کی جو بعد میں "کشف النقاب عن عقائد ابن عبدالوہاب"[21] کے نام سے شائع ہوئی۔ دوسری کتاب "اقالۃ العاثر فی اقامۃ الشعائر"[22] حضرت امام حسین کی عزاداری کے جواز میں اور تیسری کتاب "السیف الماضی علی عقائد الاباضی" [23] کے نام سے چار سو صفحات پر مشتمل کتاب خوارج کے رد میں لکھی۔[24] نیز "الفرقان فی تفسیر القرآن" جو لکھنؤ کے "الرضوان مجلہ" میں سلسلہ وار مضامین کے طور پر شائع ہوئی۔ یہ سلسلہ سنہ 1354ھ سے سنہ 1375ھ تک جاری رہا۔ [25] آپ نے عربی کے علاوہ اردو میں بھی بہت سی کتابیں تالیف کیں۔[26] البتہ آپ کے گھر کی ایک مشکوک آتشزدگی سے بعض کتابیں آگ میں جلا دی گئیں۔ آپ کی دیگر تصانیف میں "اصول دین اور قرآن"، "یزید اور قسطنطنیہ کی جنگ"، اردو میں[27]، اور عربی میں "البیت المعمور فی عمارۃ القبور" اور "تفسیر قرآن" شامل ہیں۔ [28]

حوالہ جات

  1. مجلہ میراث برصغیر، ص28
  2. کرجی، مشعل‌ دار فرہنگ سید علی نقی نقوی، سایت فرہیختگان تمدن شیعہ
  3. مجلہ میراث برصغیر، ص31
  4. مجلہ میراث برصغیر، ص28
  5. مجلہ میراث برصغیر، ص28
  6. الغدیر، ج7، ص405
  7. مجلہ میراث برصغیر، ص28
  8. امروہی، تذکره مفسرین امامیہ، ص418
  9. امروہی، تذکره مفسرین امامیہ، ص418، 419
  10. کرجی، مشعل‌ دار فرهنگ سید علی نقی نقوی، سایت فرہیختگان تمدن شیعہ
  11. مجلہ میراث برصغیر، ص29
  12. مجلہ میراث برصغیر، ص29
  13. مجلہ میراث برصغیر، ص29
  14. مجلہ میراث برصغیر، ص 82 تا 88
  15. مرعشی نجفی، المسلسلات فی الاجازات، ج۲، ص۴۴۶.
  16. جلالی حسینی، ثبت الأسانید العوالی من مرویات الجلالی، ص۶۵.
  17. جلالی حسینی، ثبت الأسانید العوالی من مرویات الجلالی، ص65-84
  18. اصفہانی نجفی، وقایۃ الأذہان، ص38؛ تہرانی، الذریعۃ،1403ھ، ج1، ص240.
  19. مرعشی نجفی؛1373شمسی، المسلسلات فی الاجازات ص444.
  20. ۔نجفی اصفہانی، وقایۃ الاذہان، 1413ھ، ص38
  21. معجم المؤلفین عمر کحالہ، ج10، ص270؛ علی فی الکتاب و السنۃ، حاج حسین شاکری، ج5، ص229.
  22. الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، آقا بزرگ تہرانی، ج2، ص263؛ معجم المطبوعات النجفیہ، محمد ہادی امینی، ص88.
  23. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج12، ص288، 1938ء.
  24. مجلہ میراث برصغیر، ص29
  25. نقوی، تفسیر فصل الخطاب، 1414ھ، ج1، ص67 و 68.
  26. رضوی، خورشید خاور، تذکره علمائے ہند و پاکستان، ص26۔
  27. مکمل فہرست کتب مجلہ شش ماہی مآب، شماره1
  28. مکمل فہرست کتب مجلہ شش ماہی مآب، شماره1۔

مآخذ

  • اصفہانی نجفی، محمد رضا، وقایة الأذہان، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)لإحیاء التراث، 1413ھ.
  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ،‌ بیروت، دار الاضواء، 1403ھ.
  • امروہی، سید شاہسوار حسین، تذکرہ مفسرین امامیہ، دہلی نو، المصطفی پبلیکیشنز، 2009ء.
  • امینی، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، چاپ اسلامیہ، بی‌تا۔
  • جلالی حسینی، سید محمدرضا، ثبت الأسانید العوالی من مرویات الجلالی، قم، مجمع ذخایر اسلامی، بی‌تا۔
  • رضوی، سید سعید اختر، خورشید خاور تذکرہ علمائے ہند و پاک، ہندوستان، معارف پبلیکیشنز، گوپال پور، باقر گنج، 2002ء.
  • شاکری، حسین، علیؑ فی الکتاب و السنۃ و الادب، قم، موسسہ انصاریان، 1418ھ.
  • عمر کحالہ، معجم المؤلفین،‌ بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • مجلہ میراث برصغیر، شمارہ اول و دوم (محرم و جمادی الثانی 1432ھ بمطابق 2011ء)، انتشارات مرکز احیاء آثار برصغیر۔
  • مرعشی نجفی، سیّد شهاب‌ الدّین، الاجازة الکبیرة، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1414ھ.
  • مرعشی نجفی، سیّد شهاب‌ الدّین، المسلسلات فی الاجازات، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، 1373ہجری شمسی.
  • نقوی، سید علی‌ نقی، تفسیر فصل الخطاب، لاہور، مصباح القرآن ٹرسٹ، 1414ھ.
  • کرجی، علی، مشعلدار فرہنگ سید علی نقی نقوی، فرہیختگان تمدن شیعہ ویب سائٹ؛ تاریخ درج: 4 اکتوبر 2015ء، تاریخ مشاہدہ: 29 دسمبر2022ء.
  • مکمل فہرست کتب مجلہ شش ماہی مآب، شمارہ1.