کتب خانہ آصفی

ویکی شیعہ سے
کتب خانہ آصفی
کتب خانہ آصفیہ
ابتدائی معلومات
استعمالکتب خانہ
محل وقوعحیدر آباد دکن
دیگر اسامیکتب خانہ آصفیہ • اسٹیٹ سینٹرل لائبریری (حیدرآباد)
مشخصات
موجودہ حالتفعال
سہولیاتخطی نسخے، مطبوعہ کتب
معماری


کتب خانہ آصفی یا حیدر آباد سینڑل لائبریری (1891 ء)، ہندوستان کے مشہور کتب خانوں میں سے ہے جو حیدر آباد دکن میں واقع ہے۔ اس کتب خانہ کی بنیاد حیدر آباد کی آصف شاہی حکومت کے دور میں رکھی گئی۔ اسی وجہ سے اس کی شہرت آصفیہ کے نام سے ہے۔ اس کتب خانہ میں عربی، فارسی، اردو، انگریزی اور برصغیر کی مقامی زبانوں میں مختلف موضوعات پر مختلف خطی اور مطبوعہ کتابوں کے نسخے پائے جاتے ہیں۔ عربی اور فارسی کتب کی فہرست میں شیعہ اور اہل سنت کی فقہی کلامی، حدیثی، رجالی کتابوس کے ساتھ ساتھ علوم قرآن، ادبیات، فلسفه، منطق، تاریخ، جغرافیہ، طب، ریاضیات اور علم نجوم پر مختلف کتابیں موجود ہیں۔ کتابخانہ آصفیہ اس میں موجود نایاب اور منحصر بفرد خطی نسخوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔

کتاب الغدیر کے مولف علامہ امینی نے اپنے سفر ھند کے دوران اس کتب خانہ کا دیدار کیا تھا۔ آصف شاہی حکومت کے خاتمہ کے بعد اس کا نام حیدر آباد مرکزی لائبریری ہوگیا۔ اس وقت کتابخانہ آصفیہ میں 4 لاکھ 66 هزار مطبوعہ کتابیں موجود ہیں اور سنہ 1960ء سے یہ کتابخانہ عام لوگوں کے لئے کھولا گیا ہے۔ اس لائبریری کو ڈیجیٹل کرنے کا کام امریکہ کی کارنیگی میلن یونیورسٹی (Carnegie Mellon University) کے کتب خانہ کے تعاون سے انجام دیا گیا ہے۔

تاریخچہ تاسیس

کتب خانہ آصفی سنہ 1891ء بمطابق 1308ھ کو آصف شاہی حکومت کے حاکم میر محبوب علی خان نظام (دور حکومت: 1869 سے 1911ء) کے زمانہ میں سید حسین بلگرامی و ملا عبد القیوم کی کوششوں سے حیدر آباد میں قائم ہوا۔ انہوں نے لوگوں کے ذاتی کتب خانوں کو خرید کر اس کتابخانے میں شامل کرنا شروع کیا۔[1] اس کتب خانہ کی عمارت کی تعمیر کا آغاز سنہ 1932ء میں میر عثمان علی خان بہادر (دور حکومت: 1911 سے 1948 ء) کی حکومت میں ان کے حکم سے افضل گنج نامی محلہ میں ہوا اور سنہ 1936ء میں اس عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی جس پر 300 روپئے خرچ ہوئے۔ اس سال اس کتب خانہ کی کتابوں کی تعداد ایک لاکھ جلدوں تک پہچ گئی۔[2] کچھ عرصہ کے بعد دکن کی حکومت نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا اور اس کے لئے سالانہ بجٹ متعین کیا۔[3]

نام کی تبدیلی

چونکہ یہ کتب خانہ آصف شاہی یا آصف جاہی دور حکومت میں تاسیس کیا گیا، اس لئے کتب خانہ آصفیہ کے نام سے مشہور ہوا۔[4] آصف شاہی حکومت کے خاتمہ کے بعد سنہ 1956ء میں اس کا نام تبدیل کرکے اس کا نام حیدر آباد مرکزی کتابخانہ (Hydrabad) State Central Library) رکھا گیا۔ اس لائبریری کا مخفف یا شارٹ نام S.C.L ہے۔[5]

کتابیں

کتب خانہ آصفیہ کی کتابوں کی فہرست

اس کتب خانہ میں مختلف موضوعات پر مشتمل متعدد خطی و مطبوعہ کتب کے نسخے عربی، فارسی، اردو، انگریزی اور ہندوستان کی مختلف مقامی زبانوں میں موجود ہیں۔ عربی و فارسی آثار و تالیفات کی فہرست میں شیعہ اور اہل سنت کے چاروں مذاہب کی فقہی کتب، علم کلام، حدیث، علم رجال، علوم قرآنی، ادبیات عرب، فلسفہ، منطق، تاریخ، جغرافیا، طب، ریاضیات و نجوم جیسے موضوعات پر کتابیں شامل ہیں۔[6] آقا بزرگ تہرانی کے مطابق علامہ کنتوری کے پوتے سید تصدیق حسین کنتوری (متوفی 1348ھ) نے اس کتب خانہ میں موجود کتابوں کی فہرست آمادہ کرکے اسے سنہ 1332ھ میں حیدرآباد دکن میں طبع کیا تھا۔[7] علامہ امینی نے اپنے ہندوستان کے سفر میں کتب خانہ آصفیہ (حیدر آباد) کے دیدار کے وقت اس میں موجود خطی نسخوں اور مطبوعہ کتب کا مشاہدہ کیا تھا۔[8]

اس کتب خانہ میں پانچویں صدی ہجری سے دسویں صدی ہجری تک کی کئی نادر اور نایاب کتابوں کے قدیمی نسخے، مصنفین یا ان کے بیٹوں اور شاگردوں کے قلم سے تحریر شدہ نسخے، اصل نسخوں سے استنساخ کئے گئے نسخے، سلاطین کے خزانوں کی کتب اور دانشمندوں کے کتب خانے مختلف حواشی و تعلیقات کے ساتھ موجود ہیں۔[9]

سنہ 1967 ء میں اس کتب خانہ کی 17 ہزار سے زیادہ نادر خطی کتابیں جن کا تعلق پانچویں اور چھٹی صدی ہجری سے تھا، ریاست آندھرا پردیش کے تحقیقاتی ادارے اور سرکاری کتب خانہ نسخہ شرقی (Oriental Version State Library) میں منتقل کر دی گئیں۔[10]

اس وقت کتب خانہ آصفیہ میں چار لاکھ چھیاسٹھ ہزار (466.000) سے زائد مطبوعہ کتابیں انگریزی، فارسی، عربی، اردو، ہندی، تلگو اور تمل زبانوں میں موجود ہیں۔ سنہ 1960ء سے یہ کتب خانہ عام لوگوں کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ اس لائبریری کو ڈیجیٹل کرنے کا کام امریکہ کی کارنیگی میلن یونیورسٹی (Carnegie Mellon University) کے کتب خانہ کے تعاون سے انجام دیا گیا ہے۔[11]

مدیر و لائبریرین

اس کتب خانہ کے اولین انچارج مولوی سید علی حیدر طباطبائی تھے۔ ان کے انتقال کے بعد علامہ کنتوری کے پوتے مولوی سید تصدیق حسین اس کے رئیس بنے۔[12] 24 ربیع الاول 1314ھ کو انہیں اس کتب خانہ کا سرپرست مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اس عرصہ میں کتاب شناسی، کتاب داری اور تحقیق کے لئے افراد کی تربیت کی۔ سید تصدیق نے ہزاروں کتابوں کے متبادل نسخے حاصل کئے اور ان کی فہرست تیار کی۔ انہوں نے بہت سی کتابیں اپنے بھائی کے توسط سے لکھنو اور دکن سے طبع کی۔[13]

سید تصدیق کے بعد ان کے بیٹے مولوی سید عباس حسین اس کے مدیر بنے۔ اس کتب خانہ کی عربی و فارسی کتب کی فہرست کی تدوین کا کام ان کے اور ان کے بیٹے کے ذریعہ سے انجام پایا۔[14] اس کتب خانہ کی عربی، فارسی اور اردو کتب کی فہرست تدوین ہو چکی ہے۔[15]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. بخش ادبیات دائرة المعارف بزرگ اسلامی، «آصفیہ»، ج1، ص436.
  2. کتابخانہ مرکزی ایالت در هند‎، پایگاه خبری نسخ خطی، شهر حیدرآباد و قدمت 500 سالہ شیعیان ایرانی، پایگاه اطلاع ‌رسانی حوزه.
  3. کتابخانہ مرکزی ایالت در هند‎، پایگاه خبری نسخ خطی.
  4. کتابخانہ مرکزی ایالت در هند‎، پایگاه خبری نسخ خطی.
  5. پایگاه خبری نسخ خطی، کتابخانہ مرکزی ایالت در هند‎.
  6. بخش ادبیات دائرة المعارف بزرگ اسلامی، «آصفیہ»، ج1، ص436.
  7. آقا بزرگ تهرانی، الذریعہ، دار الاضواء، ج16، ص391.
  8. رجایی، الادباء من آل ابی‌ طالب، 1434ق، ج3، ص406.
  9. بخش ادبیات دائرة المعارف بزرگ اسلامی، «آصفیہ»، ج1، ص436.
  10. بخش ادبیات دائرة المعارف بزرگ اسلامی، «آصفیہ»، ج1، ص436؛ شهر حیدرآباد و قدمت 500 ساله شیعیان ایرانی، پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه.
  11. شهر حیدرآباد و قدمت 500 سالہ شیعیان ایرانی، پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه.
  12. بخش ادبیات دائرة المعارف بزرگ اسلامی، «آصفیہ»، ج1، ص436.
  13. آشنایی اجمالی با فرزندان مرحوم مفتی محمد قلی، بنیاد فرهنگی امامت.
  14. بخش ادبیات دائرة المعارف بزرگ اسلامی، «آصفیہ»، ج1، ص436.
  15. کیخا، «فهرست نسخہ ‌های خطی در کتابخانه‌های هند»، ص199.

مآخذ

  • آقا بزرگ تهرانی، محمد محسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، بی‌تا۔
  • رجایی، مهدی، الادباء من آل ابی ‌طالب، قم، کتابخانہ آیت ‌الله مرعشی، 1434ھ۔
  • کیخا، بتول، فهرست نامہ ‌های نسخ خطی فارسی در هند، مطالعات شبہ قاره، سال ششم، شماره20، پاییز 1393شمسی ہجری۔
  • بخش ادبیات دائرةالمعارف بزرگ اسلامی، آصفیہ در دائرة المعارف بزرگ اسلامی، تهران، مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، 1374شمسی ہجری۔
  • شهر حیدر آباد و قدمت 500 سالہ شیعیان ایرانی، پایگاه اطلاع ‌رسانی حوزه، مجلہ اخبار شیعیان فروردین 1387ش، شماره 29.
  • کتابخانہ مرکزی ایالت در هند‎، پایگاه خبری نسخ خطی، تاریخ درج مطلب، 17 تیر 1397ش، تاریخ بازدید، 15 اردیبهشت، 1399شمسی ہجری۔
  • آشنایی اجمالی با فرزندان مرحوم مفتی محمد قلی، بنیاد فرهنگی امامت، تاریخ بازدید، 15 اردیبهشت، 1399شمسی ہجری۔
  • فهرست مشروع بعض کتب نفیسہ قلمیہ مخزونہ کتب خانہ آصفیہ، بنیاد محقق طباطبایی، تاریخ بازدید، 15 اردیبهشت، 1399شمسی ہجری۔