مندرجات کا رخ کریں

"ابراہیم بن ادہم" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 42: سطر 42:


معاصر قلم کار [[محسن قرائتی]] ابراہیم ادہم کے مورد نظر زہد کو [[اسلام]] کے منافی قرار دیتے ہیں<ref> قرائتی، گناہ ‌شناسی، ۱۳۸۶ش، ص۱۹۷۔</ref> اور کہتے ہیں کہ اس طرح کی زہد سے [[پیغمبر اسلامؐ]] نے منع کیا ہے۔<ref> قرائتی، گناہ ‌شناسی، ۱۳۸۶ش، ص۱۹۷۔</ref> ابراہیم ادہم [[شادی]] اور صاحب اولاد ہونے کو زہد کے منافی<ref> عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۹۳؛ کاشانی، مجموعہ رسائل و مصنفات کاشانی، ۱۳۸۰ش، ص۵۴؛ شہید ثانی، منیۃ المرید، ۱۴۰۹ق، ص۲۲۸؛ فقیر اصطہباناتی، خرابات، ۱۳۷۷ش، ص۹۲۔</ref> اور گوشہ نشینی کو ضروری سمجھتے ہیں۔<ref> فقیر اصطہباناتی، خرابات، ۱۳۷۷ش، ص۹۲۔</ref>
معاصر قلم کار [[محسن قرائتی]] ابراہیم ادہم کے مورد نظر زہد کو [[اسلام]] کے منافی قرار دیتے ہیں<ref> قرائتی، گناہ ‌شناسی، ۱۳۸۶ش، ص۱۹۷۔</ref> اور کہتے ہیں کہ اس طرح کی زہد سے [[پیغمبر اسلامؐ]] نے منع کیا ہے۔<ref> قرائتی، گناہ ‌شناسی، ۱۳۸۶ش، ص۱۹۷۔</ref> ابراہیم ادہم [[شادی]] اور صاحب اولاد ہونے کو زہد کے منافی<ref> عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۹۳؛ کاشانی، مجموعہ رسائل و مصنفات کاشانی، ۱۳۸۰ش، ص۵۴؛ شہید ثانی، منیۃ المرید، ۱۴۰۹ق، ص۲۲۸؛ فقیر اصطہباناتی، خرابات، ۱۳۷۷ش، ص۹۲۔</ref> اور گوشہ نشینی کو ضروری سمجھتے ہیں۔<ref> فقیر اصطہباناتی، خرابات، ۱۳۷۷ش، ص۹۲۔</ref>
=== مکہ اور شام کی طرف ہجرت ===
=== مکہ اور شام کی طرف ہجرت ===
ابراہیم ادہم توبہ کرنے کے بعد [[نیشاپور]] چلا گئے اور 9 سلا تک "البثراء" نامی پہاڑ کے کسی غار میں زندگی بسر کی<ref> زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس، ۱۴۱۴ق، ج۶، ص۴۷۔</ref> اور اس کے بعد انہوں نے [[مکہ]] ہجرت کی۔<ref> عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۷۔</ref> [[اہل سنت]] کے مورخ اور [[محدث]] ذہبی کے مطابق انہوں نے [[ابو مسلم خراسانی]] کے خوف سے بلخ سے باہر جانے کا ارادہ کیا تھا۔<ref> ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ق، ج۱۰،ص۴۴۔</ref> ابراہیم ادہم مکہ میں [[سفیان ثوری]] اور [[فضیل بن عیاض]] جیسے عرفاء سے آشنا ہو گئے<ref> سلمی، طبقات الصوفیۃ، ۱۴۲۴ق، ص۱۵؛ فقیر اصطہباناتی، خرابات، ۱۳۷۷ش، ص۱۲۹۔</ref> اس کے بعد انہوں نے شام کا سفر کیا۔<ref> ابن الملقن، طبقات الأولیاء، ۱۴۲۷ق، ص۳۷۔</ref> ابراہیم ادہم کو شام میں [[زہد]] و [[عرفان]] کے رواج کا سبب قرار دیتے ہیں۔<ref> کانون نشر و ترویج فرہنگ اسلامی حسنات اصفہان، سیری در سپہر اخلاق، ۱۳۸۹ش، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۷۔</ref>
ابراہیم ادہم توبہ کرنے کے بعد [[نیشاپور]] چلا گئے اور 9 سلا تک "البثراء" نامی پہاڑ کے کسی غار میں زندگی بسر کی<ref> زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس، ۱۴۱۴ق، ج۶، ص۴۷۔</ref> اور اس کے بعد انہوں نے [[مکہ]] ہجرت کی۔<ref> عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۷۔</ref> [[اہل سنت]] کے مورخ اور [[محدث]] ذہبی کے مطابق انہوں نے [[ابو مسلم خراسانی]] کے خوف سے بلخ سے باہر جانے کا ارادہ کیا تھا۔<ref> ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ق، ج۱۰،ص۴۴۔</ref> ابراہیم ادہم مکہ میں [[سفیان ثوری]] اور [[فضیل بن عیاض]] جیسے عرفاء سے آشنا ہو گئے<ref> سلمی، طبقات الصوفیۃ، ۱۴۲۴ق، ص۱۵؛ فقیر اصطہباناتی، خرابات، ۱۳۷۷ش، ص۱۲۹۔</ref> اس کے بعد انہوں نے شام کا سفر کیا۔<ref> ابن الملقن، طبقات الأولیاء، ۱۴۲۷ق، ص۳۷۔</ref> ابراہیم ادہم کو شام میں [[زہد]] و [[عرفان]] کے رواج کا سبب قرار دیتے ہیں۔<ref> کانون نشر و ترویج فرہنگ اسلامی حسنات اصفہان، سیری در سپہر اخلاق، ۱۳۸۹ش، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۷۔</ref>
سطر 54: سطر 55:
ابراہیم ادہم من جملہ [[محدثین]] میں بھی شمار ہوتے ہیں<ref> دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱، ذیل واژہ ابراہیم ادہم، ص۴۰۵</ref> اور [[اہل سنت]]  کتب رجال میں ان کی بہت زیادہ مدح کی گئی ہے اور انہیں [[ابو حنیفہ]] اور [[سفیان ثوری]] کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں۔<ref> شیروانی، ریاض السیاحۃ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۲۔</ref> مذہب [[حنفی|حنفیہ]] کے امام ابو حنیفہ <ref> عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۶۔</ref> اور [[جنید بغدادی]] انہیں نہایت قابل احترام القاب کے ساتھ یاد کرتے ہیں؛<ref> عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۵۔</ref> یہاں تک کہ یہ یالقاب عرفانی اشعار میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔<ref> اسیری لاہیجی، أسرار الشہود فی معرفہ الحق المعبود، بی‌تا، ص۱۸۲۔</ref> صوفی شاعر اور قلم کار زین العابدین شیروانی (1194-1253 ھ) کے مطابق متقدم [[شیعہ]] کتب رجال میں ابراہیم ادہم کا نام ذکر نہیں ہوا ہے۔<ref> شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۱۔</ref> شیعہ فقیہ سید محسن اعرجی کاظمی (1130-1227 ھ) ابراہیم ادہم کو [[کمیل بن زیاد]]، [[بشر بن حارث مروزی]] اور [[بایزید بسطامی]] کے ساتھ شیعہ [[صوفی|صوفیوں]] میں سے قرار دیتے ہیں۔<ref> اعرجی کاظمی، عدۃ الرجال، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۶۰۔</ref>
ابراہیم ادہم من جملہ [[محدثین]] میں بھی شمار ہوتے ہیں<ref> دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱، ذیل واژہ ابراہیم ادہم، ص۴۰۵</ref> اور [[اہل سنت]]  کتب رجال میں ان کی بہت زیادہ مدح کی گئی ہے اور انہیں [[ابو حنیفہ]] اور [[سفیان ثوری]] کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں۔<ref> شیروانی، ریاض السیاحۃ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۲۔</ref> مذہب [[حنفی|حنفیہ]] کے امام ابو حنیفہ <ref> عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۶۔</ref> اور [[جنید بغدادی]] انہیں نہایت قابل احترام القاب کے ساتھ یاد کرتے ہیں؛<ref> عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۵۔</ref> یہاں تک کہ یہ یالقاب عرفانی اشعار میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔<ref> اسیری لاہیجی، أسرار الشہود فی معرفہ الحق المعبود، بی‌تا، ص۱۸۲۔</ref> صوفی شاعر اور قلم کار زین العابدین شیروانی (1194-1253 ھ) کے مطابق متقدم [[شیعہ]] کتب رجال میں ابراہیم ادہم کا نام ذکر نہیں ہوا ہے۔<ref> شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۱۔</ref> شیعہ فقیہ سید محسن اعرجی کاظمی (1130-1227 ھ) ابراہیم ادہم کو [[کمیل بن زیاد]]، [[بشر بن حارث مروزی]] اور [[بایزید بسطامی]] کے ساتھ شیعہ [[صوفی|صوفیوں]] میں سے قرار دیتے ہیں۔<ref> اعرجی کاظمی، عدۃ الرجال، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۶۰۔</ref>


آپ کو بعض صوفی طریقت کے سربراہ مانے جاتے ہیں؛<ref> شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۷؛ میرزا شیرازی، مناہج أنوار المعرفۃ فی شرح مصباح الشریعۃ، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۶۴۵۔</ref> اس بنا پر طریقت [[ادہمیہ]]<ref> گولپینارلی، مولانا جلال الدین، ۱۳۶۳ش، ص۲۴۶؛ مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، ۱۳۷۲ش، ص۳۰۹۔</ref> اور [[نقشبندیہ]] خود کو ابراہیم ادہم کے توسط سے [[امام سجاد علیہ‌السلام|امام سجادؑ]] سے متصل قرار دیتے ہیں۔<ref> میرزا شیرازی، مناہج أنوار المعرفۃ فی شرح مصباح الشریعۃ، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۶۴۵۔</ref> {{نوٹ|بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ ابراہیم ادہم طریقت میں فضیل عیاض کے توسط سے اور وہ عبد الواحد بن زید کے توسط سے اور وہ کمیل بن زیاد کے توسط سے امیرالمومنینؑ سے متصل ہیں۔(شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۳۸۔) سلسلہ چشتیہ اس سلسلہ کو مانتے ہیں؛(شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۴۰۔) اگرچہ بعض معتقد ہیں کہ ادہمیہ اور چشتیہ ابراہیم ادہم کے توسط سے امام باقرؑ سے متصل ہیں(شیروانی، ریاض السیاحۃ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۳۸؛ شیروانی، بستان السیاحہ، ۱۳۱۵ش، ص۳۴۷۔) اسی طرح سلسلہ حسینیہ بھی ابراہیم ادہم کے توسط سے امام باقرؑ تک پہنچتے ہیں۔( شیروانی، بستان السیاحہ، ۱۳۱۵ش، ص۳۴۶۔)}}
آپ کو بعض صوفی طریقت کے سربراہ مانے جاتے ہیں؛<ref> شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۷؛ میرزا شیرازی، مناہج أنوار المعرفۃ فی شرح مصباح الشریعۃ، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۶۴۵۔</ref> اس بنا پر طریقت [[ادہمیہ]]<ref> گولپینارلی، مولانا جلال الدین، ۱۳۶۳ش، ص۲۴۶؛ مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، ۱۳۷۲ش، ص۳۰۹۔</ref> اور [[نقشبندیہ]] خود کو ابراہیم ادہم کے توسط سے [[امام سجاد علیہ‌السلام|امام سجادؑ]] سے متصل قرار دیتے ہیں۔<ref> میرزا شیرازی، مناہج أنوار المعرفۃ فی شرح مصباح الشریعۃ، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۶۴۵۔</ref> {{نوٹ|بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ ابراہیم ادہم طریقت میں فضیل عیاض کے توسط سے اور وہ عبد الواحد بن زید کے توسط سے اور وہ [[کمیل بن زیاد]] کے توسط سے امیرالمومنینؑ سے متصل ہیں۔ (شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۳۸۔) سلسلہ چشتیہ اس سلسلہ کو مانتے ہیں؛(شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۴۰۔) اگرچہ بعض معتقد ہیں کہ ادہمیہ اور چشتیہ ابراہیم ادہم کے توسط سے امام باقرؑ سے متصل ہیں۔ (شیروانی، ریاض السیاحۃ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۳۸؛ شیروانی، بستان السیاحہ، ۱۳۱۵ش، ص۳۴۷۔) اسی طرح سلسلہ حسینیہ بھی ابراہیم ادہم کے توسط سے امام باقرؑ تک پہنچتے ہیں۔ (شیروانی، بستان السیاحہ، ۱۳۱۵ش، ص۳۴۶۔)}}
 
=== معصومینؑ سے ارتباط ===
=== معصومینؑ سے ارتباط ===
ابراہیم ادہم [[امام سجادؑ]]، [[امام باقرؑ]] اور [[امام صادقؑ]] کے ہم عصر تھے اور ان ہستیوں کے ساتھ ان کے ارتباط کے بارے میں منابع میں آیا ہے۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ آپ امام سجاد کے ملازم تھے۔<ref> شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۹۰۔</ref> ابراہیم ادہم اور امام سجادؑ کی ملاقات اور [[امامت|امام]] کی طرف سے کئے جانے والے نصایح بھی شیعہ منابع میں ذکر ہوئے ہیں۔<ref> نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۱۱۸؛ قمی، سفینۃ البحار، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۲۸۹۔</ref>
ابراہیم ادہم [[امام سجادؑ]]، [[امام باقرؑ]] اور [[امام صادقؑ]] کے ہم عصر تھے اور ان ہستیوں کے ساتھ ان کے ارتباط کے بارے میں منابع میں آیا ہے۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ آپ امام سجاد کے ملازم تھے۔<ref> شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۹۰۔</ref> ابراہیم ادہم اور امام سجادؑ کی ملاقات اور [[امامت|امام]] کی طرف سے کئے جانے والے نصایح بھی شیعہ منابع میں ذکر ہوئے ہیں۔<ref> نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۱۱۸؛ قمی، سفینۃ البحار، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۲۸۹۔</ref>
گمنام صارف