جامع احادیث الشیعہ (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | سید حسین بروجردی |
موضوع | احادیث شیعہ |
زبان | عربی |
تعداد جلد | 31 جلد |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | المہر |
مقام اشاعت | قم |
سنہ اشاعت | 1422 ھ |
جامِعُ أحادیثِ الشّیعَۃ فی احکام الشریعہ، عربی زبان کی ایک کتاب ہے جو شیعہ فقہی احادیث پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب آیت اللہ بروجردی کی تجویز سے ان کے شاگردوں میں سے ایک گروہ خاص کر اسماعیل معزی ملایری نے تالیف کی ہے۔
1370 ھ میں وسایل الشیعہ میں موجود بعض کمی کو دور کرنے کی غرض سے اس کتاب کی تدوین شروع ہوئی اور بعد میں دوسرے حدیثی مصادر بھی اس مین شامل کئے گئے۔ جامعیت، عدم تقطیع احادیث، باب بندی، آیات الاحکام شامل کرنا اور فقہی احادیث کو آداب اور اخلاقی احادیث سے الگ کرنا جامع احادیث شیعہ کی خصوصیات میں شمار ہوتی ہیں۔
اس کتاب کی تدوین 1370 ھ میں شروع ہوئی اور دس سال کے بعد پہلی جلد منظر عام پر آئی۔ جامع احادیث 26 جلدوں اور 31 جلدوں پر مشتمل چھپ گئی اور 31 جلدوں پر مشتمل نسخہ منابع فقہ شیعہ کے نام سے فارسی میں ترجمہ بھی ہوگیا۔
مؤلفین
جامع الاحادیث، مراجع تقلید میں سے آیت اللہ بروجردی (متوفی 1380 ھ) کی سرپرستی میں ان کے بیس شاگردوں کی مدد سے لکھی گئی۔[یادداشت 1] سات سال کے عرصے میں کتاب کے خام مطالب تیار ہوئے۔ اسماعیل معزی ملایری، علی پناہ اشتہاردی اور محمد واعظ زادہ خراسانی نے اس پر نظر ثانی کی۔ کتاب کو اسماعیل معزی ملایری نے مختلف ابواب میں تقسیم کیا۔[1] 1370ھ کو آیت اللہ بروجردی نے کتاب تدوین کرنے کی تجویز پیش کی۔[2]
اہمیت
جامع احادیث الشیعہ میں دوسری صدی ہجری سے چودھویں صدی ہجری تک کی شیعہ احادیث کے سو سے زیادہ مصادر شامل ہیں۔[3] اس لئے اسے کے فارسی ترجمے کو منابع فقہ شیعہ نام دیا گیا۔[4] اس کتاب میں احادیث کی تعداد 48342 تک پہنچتی ہے۔[5]
آیت اللہ بروجردی جامع احادیث الشیعہ کو اپنی عمر کا ماحصل قرار دیتے ہیں۔[6] امام خمینی جیسے بعض مراجع تقلید بھی اس کتاب سے استفادہ کرتے تھے۔[7] مراجع تقلید میں سے آیت اللہ سبحانی اس کتاب کی باب بندی اور نظم اور ترتیب کو سراہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب فقیہ کو شیعہ احادیث کی کسی دوسری کتاب کی طرف رجوع کرنے سے بے نیاز کرتی ہے۔[8]
تألیف کا سبب
اس کتاب کی تدوین کی تجویز دینے کی وجہ وسائل الشیعہ میں موجود کمزوریاں ذکر ہوئی ہیں[9] جو اجتہاد کی رفتار کو سست کرنے کا باعث بنتی ہیں۔[10] جن میں سے ایک تقطیع احادیث (احادیث کے بعض حصے کو بیان کرنا) جو احادیث کو مکرر ذکر کرنے کا باعث بنتی ہے جس سے کتاب کا حجم زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ روایت کی ابتدا اور انتہا کا رابطہ بھی کٹ جانے کا باعث بنتی ہے۔ اور تقطیع روایات کی وجہ سے مؤلف تکرار سے بچتے ہوئے ہر قطعے میں حدیث کی ایک ہی سند ذکر کرتا ہے جبکہ مختلف اسناد ذکر کرنے کے مختلف فوائد ہیں۔ مثال کے طور پر بعض دفعہ روایت مستفیض ہونے پر دلالت کرتی ہے۔[11]
اس کتاب کو لکھنے والوں میں سے ایک محمد واعظ زادہ خراسانی کا کہنا ہے کہ اس کتاب کا آغاز صرف وسائل الشیعہ کو مدنظر رکھ کر کیا گیا تھا۔ اسی لیے شروع میں اس کا نام بھی تہذیب الوسائل رکھا گیا تھا؛[12] لیکن بعد میں تمام شیعہ فقہی احادیث کی کتابیں، کتب اربعہ، مستدرک الوسائل اور دوسری حدیثی مجموعوں کو بھی شامل کرنے کا عزم کیا۔[13] اسی لیے آیت اللہ بروجردی نے اس کا نام جامع احادیث الشیعہ رکھا۔[14]
آیت اللہ بروجردی نے تدوین شروع کرنے کے ایک سال بعد یہ طے کیا کہ ہر باب کے آخر میں اہل سنت کی احادیث بھی ذکر کی جائیں تاکہ اہل سنت کو یہ سمجھایا جا سکے کہ جن فروعات کو تم لوگ قیاس اور استحسان نے حاصل کرتے ہیں انہیں روایات سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔[15] آپ قائل تھے کہ شیعہ فقہ، اہل سنت کی فقہ کے تناظر میں ہے تو اس لیے اہل سنت علما کے فتوے اور ان کی روایات، احادیث کو صحیح سمجھنے میں موثر ہیں۔[16]
یہ کام اسی نہج پر کتاب طہارت کے آخر تک انجام پایا لیکن اس کے بعد آیت اللہ بروجردی اپنے فیصلے سے منصرف ہوئے۔ اس انصراف کی وجہ انکا اپنے بیٹے محمد حسن سے موثر ہونا قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ لوگ کہیں گے کہ شیعہ علماء اہل بیت کی احادیث کو دوسروں کی احادیث سے الگ کرتے تھے لیکن آیت اللہ بروجردی نے انہیں دوبارہ سے مخلوط کردیا۔[17]
مضامین
اس کتاب کا آغاز ایک دیباچہ یا مقدمے سے ہوتا ہے جس میں تدوین کے مراحل کا تذکرہ ہے۔[18] مقدمہ کے دیگر مطالب میں پیغمبر اسلامؐ اور اہل بیتؑ کی سنت کی حجیت،[19] قیاس کا جائز نہ ہونا اور عبادتوں میں نیت واجب ہونے اور بعض دیگر مطالب شامل ہیں۔[20]
اس مقدمہ کی تدوین آیت اللہ بروجردی نے شروع کیا اور ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔[21]
اس کتاب میں ابواب فقہ بالترتیب عبادات سے قصاص اور دیات تک تدوین ہوچکے ہیں۔[22]
خصوصیات
جامع احادیث الشیعہ کے مقدمے میں اس کتاب کی 23 خصوصیات ذکر ہوئی ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
- احادیث تقطیع نہ ہونا: ہر حدیث کا پورا متن اس کے سند کے ساتھ سب سے زیادہ مناسب باب میں ذکر کیا ہے۔
- فقہ کے ایک مسئلہ سے مربوط تمام روایات کو ایک ساتھ ذکر کرنا۔
- احادیث کی سند اور متن کو ملانا: اگر کوئی حدیث سابقہ کسی حدیث سے سند کے اعتبار سے مشترک ہو تو مشرک حصے والی سند کو ذکر کرنے سے گریز کیا ہے اور «بہذا الإسناد» کی عبارت سے اسے مشخص کیا گیا ہے۔
- ہر باب سے مربوط آیات کو قرآنی ترتیب کے مطابق اس باب کے ابتدا میں ذکر کیا ہے۔
- سُنَن، آداب اور ادعیہ سے مربوط احادیث کو فقہی احکام سے مربوط روایت سے الگ کرکے الگ ایک جلد میں درج کرنا۔
- کتب اربعہ سے منقول روایات کو اصلی مآخذ سے لیا گیا ہے اور انہیں قلمی نسخوں کے ساتھ موازنہ بھی کیا گیا ہے۔
- جامعیت: فقہ کے تمام ابواب؛ طہارت سے دیات تک سب کو شامل ہے۔[23]
روش
جامع احادیث کے مولفین نے فقہ کے ہر باب کی ابتدا میں اس سے مربوط آیات کو ذکر کیا ہے۔ اور پھر معارض احادیث پر ان احادیث کو مقدم کیا ہے جن کے مطابق فتوا دیا گیا ہے اسی طرح عام اور مطلق روایات کو خاص اور مقید پر مقدم کیا ہے۔ اسی طرح ہر باب کے کچھ فصل ہیں اور ہر فصل میں فقہی مسائل اور ان مسائل کے ذیل میں ان سے مربوط احادیث ذکر ہوئی ہیں۔[24]اس مجموعے کی تدوین میں آیت اللہ بروجردی کے مبانی؛ جیسے روایات کے جانچ پڑتال اور احادیث کے الفاظ کی شناخت میں قرآن و سنت معصومین کی مرجعیت کو مورد توجہ قرار دیا ہے۔[25]
دیگر کتب حدیث سے موازنہ
اہم حدیثی کتب | مصنف | متوفی | تعداد احادیث | توضیحات |
---|---|---|---|---|
المحاسن | احمد بن محمد برقی | 274 ھ | تقریباً 2604 | مختف عناوین کا مجموعۂ احادیث |
کافی | محمد بن یعقوب کلینی | 329 ھ | تقریباً 16000 | اعتقادی، اخلاقی آداب اور فقہی احادیث |
من لا یحضر الفقیہ | شیخ صدوق | 381 ھ | تقریباً 6000 | فقہی |
تہذیب الاحکام | شیخ طوسی | 460 ھ | تقریباً 13600 | فقہی احادیث |
الاستبصار فیما اختلف من الاخبار | شیخ طوسی | 460 ھ | تقریباً 5500 | احادیث فقہی |
الوافی | فیض کاشانی | 1091 ھ | تقریباً 50000 | حذف مکررات کے ساتھ کتب اربعہ کی احادیث کا مجموعہ اور بعض احادیث کی شرح |
وسائل الشیعہ | شیخ حر عاملی | 1104 ھ | 35850 | کتب اربعہ اور اس کے علاوہ ستر دیگر حدیثی کتب سے احادیث جمع کی گئی ہیں |
بحار الانوار | علامہ مجلسی | 1110 ھ | تقریباً 85000 | مختلف موضوعات سے متعلق اکثر معصومین کی روایات |
مستدرک الوسائل | مرزا حسین نوری | 1320 ھ | 23514 | وسائل الشیعہ کی فقہی احادیث کی تکمیل |
سفینہ البحار | شیخ عباس قمی | 1359ھ | 10 جلد | بحار الانوار کی احادیث کی الف ب کے مطابق موضوعی اعتبار سے احادیث مذکور ہیں |
مستدرک سفینہ البحار | شیخ علی نمازی | 1405 ھ | 10 جلد | سفینۃ البحار کی تکمیل |
جامع احادیث الشیعہ | آیت اللہ بروجردی | 1380 ھ | 48342 | شیعہ فقہ کی تمام روایات |
میزان الحکمت | محمدی ری شہری | معاصر | 23030 | غیر فقہی 564 عناوین |
الحیات | محمد رضا حکیمی | معاصر | 12 جلد | فکری اور عملی موضوعات کی 40 فصل |
اشاعت و ترجمہ
ابواب مقدمات اور طہارت پر مشتمل جامع احادیث الشیعہ کی پہلی جلد کی تدوین آیت اللہ بروجردی کی زندگی میں سنہ1380 ھ کو شروع ہوئی اور آپ کی وفات کے چند دن بعد منظر عام پر آگئی۔[26] سنہ 1385 ھ کو دوسری جلد بھی چھپ گئی جو نماز کے مباحث پر مشتمل تھی۔[27]
سنہ 1396 ھ کو آیت اللہ خویی کی مدد سے پوری کتاب کی طباعت کا کام قم میں شروع ہوا اور 1415 ھ کو 26 جلدوں میں اختتام تک پہنچا۔[28] جامع الاحادیث 31 جلد میں بھی چھپ گئی ہے۔[29] اس نسخے کی طباعت 1413 ھ کو شروع ہوئی اور 1425 ھ کو پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس نسخے میں تقریبا 1000 ایسی احادیث اس کتاب میں اضافہ ہوئیں جو وسائل الشیعہ اور مستدرک الوسائل میں ذکر نہیں ہوئی تھیں۔ اسی طرح بعض احادیث کے الفاظ کے معانی اور توضیح بھی اس میں ذکر ہوئیں۔[30]
کتاب جامع احادیث الشیعہ جو کہ عربی میں لکھی گئی ہے اسے «منابع فقہ شیعہ» کے عنوان سے مہدی حسینیان قمی اور محمد حسین صبوری نے فارسی زبان میں ترجمہ کیا اور 1429 ھ کو تہران سے چھپ کر منظر عام پر آگئی۔[31]
انتقادات
بعض نے کتاب جامع احادیث الشیعہ پر نقد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں تمام آیت الاحکام ذکر نہیں ہوئی ہیں، بعض آیات تقطیع ہوئی ہیں۔ کتاب کافی میں «عدةٌ من اصحابنا» (بعض شیعہ) سے مراد کیا ہے اسے مشخص نہیں کیا ہے، تہذیب الاحکام اور من لا یحضرہ الفقیہ کے اسناد کو معین نہیں کیا ہے، بعض علائم کا مفہوم واضح نہیں ہے اور اصل منبع کی طرف رجوع نہیں کیا گیا ہے۔[32]
نوٹ
- ↑ اس گروہ میں مندرجہ ذیل افراد شامل تھے: اسماعیل معزی ملایری، حسین علی منتظری نجف آبادی، عبد الرحیم ربانی شیرازی، محسن حرم پناہی، سید حسین کرمانی، سید مصطفی کاشفی خوانساری، عبد الرحیم بروجردی، علی پناہ اشتہاردی، جلال طاہر شمس گلپایگانی، حسین نوری ہمدانی، ابراہیم امینی نجف آبادی، علی ثابتی ہمدانی، محمد واعظ زادہ خراسانی، محمد باقر ابطحی اصفہانی، محمد تقی ستودہ اراکی، سید بہشتی بروجردی، حسن نائینی، سید محمد حسین درچہ ای، جواد خندق آبادی تہرانی (تبریزی، «جامع احادیث شیعہ امتیازہا و ضعفہا و روش استفادہ از آن»، ص۱۴۵).
حوالہ جات
- ↑ تبریزی، «جامع احادیث شیعہ امتیازہا و ضعفہا و روش استفادہ از آن»، ص۱۴۶-۱۴۷.
- ↑ تبریزی، «جامع احادیث شیعہ امتیازہا و ضعفہا و روش استفادہ از آن»، ص۱۴۲-۱۴۳.
- ↑ حسینیان قمی و صبوری، منابع فقہ شیعہ، ۱۴۲۹ق، ج۲۲، ص۱۲.
- ↑ حسینیان قمی و صبوری، منابع فقہ شیعہ، ۱۴۲۹ق، ج۲۲، ص۱۲.
- ↑ فرزند وحی و فتاحی، «نگاہی دیگر بہ جامع احادیث الشیعہ»، ص۹۰.
- ↑ طباطبایی بروجردی، جامع احادیث الشیعہ، ۱۳۷۱ش، ج۱، مقدمہ ص۱۱.
- ↑ حوزہ نیوز، «جامع احادیث الشیعہ؛ یادگار ارزشمند آیت اللہ العظمی بروجردی قدس سرہ» ، انتشار ۶ خرداد ۱۳۸۹شمسی، اصلاح ۱۵ آذر ۱۳۷۹شمسی.
- ↑ سبحانی، مصادر الفقہ الاسلامی و منابعہ، ص۳۶۷.
- ↑ طباطبایی بروجردی، جامع احادیث الشیعہ، ۱۳۸۰ش-۱۴۲۲ق، ج۱، مقدمہ سید محمد حسن بروجردی، ص۱۷.
- ↑ تبریزی، «جامع احادیث شیعہ امتیازہا و ضعفہا و روش استفادہ از آن»، ص۱۴۳.
- ↑ تبریزی، «جامع احادیث شیعہ امتیازہا و ضعفہا و روش استفادہ از آن»، ص۱۴۵-۱۴۶.
- ↑ واعظ زادہ، زندگی آیت اللہ العظمی بروجردی، ۱۳۸۵ش، ص۸۶ و ۹۲.
- ↑ تبریزی، «جامع احادیث شیعہ امتیازہا و ضعفہا و روش استفادہ از آن»، ص۱۴۵-۱۴۶.
- ↑ رحمان ستایش، «جامع احادیث الشیعہ»، ج۱، ص۴۳-۵۶.
- ↑ تبریزی، «جامع احادیث شیعہ امتیازہا و ضعفہا و روش استفادہ از آن»، ص۱۴۶-۱۴۷.
- ↑ تبریزی، «جامع احادیث شیعہ امتیازہا و ضعفہا و روش استفادہ از آن»، ص۱۴۶-۱۴۷.
- ↑ واعظ زادہ، زندگی آیت اللہ العظمی بروجردی، ص۹۵.
- ↑ طباطبایی بروجردی، جامع احادیث الشیعہ، ۱۳۸۰ش-۱۴۲۲ق، ج۱، ص۳۴-۹۳.
- ↑ طباطبایی بروجردی، جامع احادیث الشیعہ، ۱۳۸۰ش-۱۴۲۲ق، ج۱، ص۳۴-۹۳.
- ↑ فرزندوحی و فتاحی، «نگاہی دیگر بہ جامع احادیث الشیعہ»، ص۹۰.
- ↑ فرزندوحی و فتاحی، «نگاہی دیگر بہ جامع احادیث الشیعہ»، ص۹۰.
- ↑ فرزندوحی و فتاحی، «نگاہی دیگر بہ جامع احادیث الشیعہ»، ص۹۰.
- ↑ طباطبایی بروجردی، جامع احادیث الشیعہ، ۱۳۸۰ش/۱۴۲۲ق، ج۱، ص۲۱-۳۳.
- ↑ رحمانستایش، «جامع احادیث الشیعہ»، ج۱، ص۴۳-۵۶.
- ↑ فرزندوحی و فتاحی، «نگاہی دیگر بہ جامع احادیث الشیعہ»، ص۱۰۱-۱۱۰.
- ↑ واعظ زادہ، زندگی آیت اللہ العظمی بروجردی، ص۱۳۳.
- ↑ رحمان ستایش، «جامع احادیث الشیعہ»، ج۱، ص۴۳-۵۶.
- ↑ واعظ زادہ، زندگی آیت اللہ العظمی بروجردی، ص۱۳۳.
- ↑ طباطبایی بروجردی، جامع احادیث الشیعہ، ۱۳۸۰شمسی-۱۴۲۲ھ۔
- ↑ رحمان ستایش، «جامع احادیث الشیعہ»، ج۱، ص۴۳-۵۶.
- ↑ حسینیان قمی و صبوری، منابع فقہ شیعہ، ۱۴۲۹ق.
- ↑ فرزند وحی و فتاحی، «نگاہی دیگر بہ جامع احادیث الشیعہ»، ص۹۴-۱۰۱.
مآخذ
- تبریزی، محمد، جامع احادیث شیعہ امتیازہا و ضعفہا و روش استفادہ از آن، کاوشی نو در فقہ، شمارہ ۵۶، تابستان ۱۳۸۷ش.
- حسینیان قمی و صبوری، مہدی و محمد حسین، منابع فقہ شیعہ، تہران، انتشارات فرہنگ سبز، ۱۴۲۹ق.
- رحمان ستایش، محمد کاظم، مدخل «جامع احادیث الشیعہ» در دانشنامہ جہان اسلام.
- فرزند وحی، جمال، و فتاحی، امیر، «نگاہی دیگر بہ جامع احادیث الشیعہ»، سفینہ، شمارہ ۵۶، ۱۳۹۶ش.
- طباطبایی بروجردی، سید حسین، جامع احادیث الشیعہ فی احکام الشریعہ، قم، نشر الصحف، ۱۳۷۱ش/۱۴۱۳ق.
- طباطبایی بروجردی، سید حسین، جامع احادیث الشیعہ فی احکام الشریعہ، قم، المہر، ۱۳۸۰ش-۱۴۲۲ق.
- واعظ زادہ خراسانی، محمد، زندگی آیت اللہ العظمی بروجردی و مکتب فقہی، اصولی، حدیثی و رجالی وی، تہران، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی، ۱۳۷۹ش.