مسجد رد الشَّمس یا مسجد فَضِیْخ جسے مسجد الشمس بھی کہا جاتا ہے، مدینہ، مسجد قبا کے مشرق میں تقریبا ایک کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ احادیث کے مطابق رد الشمس(سورج پلٹانے) کا واقعہ جو پیغمبر اکرم(ص) کے معجزات اور امام علی(ع) کے کرامات میں سے ہے، اسی مسجد میں رونما ہوا ہے۔ آج کل اس مسجد کا صرف کھڈرات باقی ہیں۔ اس مسجد کے دیگر اسامی میں "بنی‌نصیر" ، "فضیخ" اور "شمس" بھی ہے۔ آجکل مدینہ میں اسی مسجد کے نزدیک کسی اور مسجد کیلئے غلطی سے مسجد فضیخ کہا جاتا ہے جو در اصل مسجد بنی‌قریظہ ہے۔

مسجد رد الشمس
مسجد الشمس کے کھنڈرات
مسجد الشمس کے کھنڈرات
ابتدائی معلومات
استعمالمسجد کے عنوان سے
محل وقوعمدینہ
دیگر اسامیبنی‌نصیر • فضیخ • شمس
مشخصات
معماری


اسامی اور وجہ تسمیہ

کہا جاتا ہے کہ رد الشمس(سورج پلٹانے) کا واقعہ اسی مسجد میں رونما ہوا ہے۔ جنگ بنی نضیر میں قلعہ بنی نضیر کے محاصرہ کے دوران ایک دن عصر کے وقت پیغمبر اکرم(ص) کو امام علی(ع) کے زانوں پر سر رکھ نیند آگئی تھی اور سورج غروب ہونے کے نزدیک آپ(ص) بیدار ہوئے اور آپ متوجہ ہوئے کہ حضرت علی(ع) نے ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھی ہے۔ آپ(ص) نے خدا سے درخواست کیا کہ سورج کو پلٹایا جائے تاکہ حضرت علی(ع) عصر کی نماز پڑھ سکیں۔ جس حدیث میں اس واقعے کو ذکر کیا گیا ہے اسے حدیث ردّ شمس کہا جاتا ہے جسے شیعہ اور بعض اہل سنت راویوں نے نقل کیا ہے۔ بعض منابع میں اس مسجد کا نام "شمس" یعنی سورج لکھا گیا ہے اور اس کی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ: مسجد بلندی پر واقع ہے اور سورج طلوع ہوتے وقت سب سے پہلے اسی مسجد پر سورج پڑتی ہے اس لئے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔[1]

اس مسجد کے دیگر اسامی میں "فَضِیْخ" بھی ہے۔ فضیخ کھجور کے شیرہ یا شراب کو کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد چونکہ العوالی کے نخلستان کے درمیان واقع ہے اس لئے اسے یہ نام دیا گیا ہے۔[2] اس نام کے دیگر وجوہات بھی منابع میں مذکور ہے۔[3]

یہ مسجد بنی‌نضیر کے یہودی قبیلہ کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے اسے "مسجد بنی‌نضیر" بھی کہا جاتا ہے۔[4]

محل وقوع

یہ مسجدمدینہ منوّرہ کے جنوب مشرق میں قبا سے تقریبا ایک کیلومیٹر کے فاصلے پر محلہ قربان میں واقع ہے۔ یہ مسجد آجکل خراب ہو کر صرف اس کی چاردیواری باقی رہ گئی ہے۔[5]یہ منطقہ مسلمانوں کے قبضے میں آنے سے پہلے طایفہ بنی نضیر کے قبضے میں تھی۔ تاریخ اسلام کے منابع کے مطابق غزوہ بنی نضیر کے واقعے میں پیغمبر اکرم(ص) نے بنی نضیر کو محاصرہ میں لے کر یہیں پر مستقر ہوئے اور جس جگہ بعد میں "مسجد فضیخ" تعمیر ہوئی اس مقام پر مسلمانوں کے خمیے لگائے گئے تھے۔

امام صادق(ع) سے منقول ایک حدیث میں اس مسجد کی وجہ تسمیہ کے بارے میں آیا ہے کہ چونکہ یہ مسجد نخلستان کے درمیان واقع تھی اور کھجور کے رس یا شراب کو "فضیخ" کہا جاتا ہے، اس مسجد کو بھی اسی نام سے پکارا جانے لگا۔ معصومین کی بعض دوسری احادیث میں اس مسجد میں نماز پڑھنے کی سفارش کی گئی ہے۔[6]

تاریخچہ

بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر پہلی صدی ہجری میں ہوئی تھی؛ منجملہ ایک روایت میں امام صادق(ع) اپنے ماننے والوں سے فرماتے ہیں: "پیغمبر اکرم(ص) کی تمام باقی ماندہ آثار میں رد و بدل کی گئی ہے صرف چند چیزوں کے" اور "مسجد فضیخ" کو منجملہ ان چیزوں میں شمار کیا جاتا ہے۔[7]

تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کی فراز و نشیب کا حامل ہے کبھی ویرانی کی طرف گئی ہے تو کبھی اس یک مرمت ہوئی ہے۔ ظاہرا پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد پہلی مرتبہ عمر بن عبد العزیز نے مسجد قبا کی مرمت کے ساتھ اس مسجد کی بھی مرمت کی ہے۔ ساتویں صدی ہجری کے مشہور مدینہ شناس، "مطری" اس مسجد کے خراب ہونے کی خبر دیتا ہے لیکن اس کے باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے دور میں ابھی مسجد کے قابل توجہ حصے باقی تھے۔ وہ لکھتے ہیں۔ اس مسجد کے سولہ ستون تھے جو ابھی خراب ہو گئی ہے، مسجد کا منارہ گر گیا ہے اور بعض لوگوں نے مسجد کی ایٹوں کو بھی گھر بنانے کیلئے لے گئے ہیں۔ اسی صدی کے ایک اور مدینہ‌شناس، "ابن نجار" نے مسجد کے پتھر سے بنائے جانے کی بات کی ہے۔ "سمہودی"، مدینہ کا مشہور تاریخ نگار لکھتے ہیں کہ انہوں نے خود نویں صدی کے میں اس مسجد کو دیکھا ہے اور اس کے بارے میں تحقیق کی ہے لیکن اس بارے میں کہ اس کی عمارت کس نے بنائی کوئی بات نہیں کی ہے۔[8]

کتاب مدینہ شناسی کے مصنف، محمدباقر نجفی نے سنہ 1390 ہجری قمری میں اس مسجد کے بارے میں اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "موجودہ عمارت تقریبا خراب ہو گئی ہے اور مسلما اس کی تعمیر حجاز میں عثمانیوں کی حکومت کے دوران ہوئی ہے۔ ذی الحجّہ سنہ ۱۳۹۶ ہجری قمری، ۱۴ رجب سنہ ۱۳۹۷ ہجری قمری اور بروز جمعہ 3 شعبان ۱۳۹۸ ہجری قمری کو مجھے اس مسجد کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔

مسجد کی لمبائی ۱۹ مٹر اور چوڑائی ۴ مٹر ہے لیکن مسجد کا صحن کچی مٹی سے بنائی ہوئی ہے۔ مسجد کی عمارت ۵ گنبدوں اور ایک محراب پر مشتمل ہے۔ فرسودہ دیواریں کالے پتھر کی بنی ہوئی ہے اور اس کے اوپر چپسم کے ذریعے سفید کاری کی گئی ہے۔[9]

آجکل اس مسجد کے صرف کھنڈرات باقی ہیں۔ اس مسجد کے مشرق میں واقع ایک اور مسجد جو در اصل "مسجد بنی‌قریظہ" ہے غلطی سے اسے بھی "مسجد فضیخ" کہا جاتا ہے۔[10]

اہمیت

احادیث کے مطابق پیغمبر اکرم(ص) اس مسجد میں بہت زیادہ نماز پڑھا کرتے تھے۔ مدینہ کے تاریخی منابع میں مختلف صدیوں میں اس مسجد کا تذکرہ ملتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کی زیارت اور اسے دیکھنے آنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔[11] امام صادق(ع) سے منقول ایک روایت میں اس مسجد کو ان اماکن میں شمار کیا گیا ہے جن میں نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔[12]

حوالہ جات

  1. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص ۲۶۷.
  2. نجفی، مدینہ شناسی، ج۱، ص۱۴۱.
  3. نجفی، مدینہ شناسی، ج۱، ص۱۴۱ و ۱۴۲.
  4. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ص ۲۶۷.
  5. نجفی، مدینہ شناسی، ج۱، ص۱۴۱.
  6. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۲۶۴ و ۲۶۵.
  7. کلینی، کافی، ج ۴، ص ۵۶۰.
  8. نجفی، مدینہ شناسی، ج۱، ۱۴۶.
  9. نجفی، مدینہ شناسی، ج۱، ص۱۴۷.
  10. جعفریان، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، ۲۶۸.
  11. المساجد الأثریہ، ص ۱۶۸- ۱۶۴؛ جعفریان، ص۲۶۶.
  12. کلینی، کافی، ج ۴، ص ۵۶۰.

مآخذ

  • جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکہ و مدینہ، قم، نشر مشعر، ۱۳۸۴ش.
  • عبد الغنی؛ محمد الیاس، المساجد الاثریۃ فی المدینۃ المنورۃ، مدینہ، ۱۹۹۸م.
  • نجفی، محمد باقر، مدینہ شناسی، شرکت قلم، اول، تہران، ۱۳۶۴ش.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق، چاپ چہارم.