داؤد بن قاسم بن اسحاق

ویکی شیعہ سے
داؤد بن قاسم بن اسحاق
کوائف
نام:داؤد بن قاسم بن اسحاق
لقب:ابو ہاشم
نسبداوود بن قاسم بن اسحاق بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب
پیدائشاحتمالا دوسری صدی ہجری کی آخری دہائی
مقام سکونتبغداد سامرا
وفاتجمادی الاول 261 ھ
اصحابامام رضا، امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکریؑ
تالیفاتاخبار ابو ہاشم، مدح اہلبیتؑ میں شعر کی کتاب
مذہبشیعہ


داؤد بن قاسم بن اسحاق (متوفی 261 ھ)، ابو ہاشم جعفری و داود بن قاسم جعفری کے نام سے مشہور، شیعوں کے چار ائمہ امام علی رضا، امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے شمار ہوتے ہیں۔ وہ موثق اور امامیہ کے معروف راویوں میں ہیں۔

ولادت و نسب

ان کا مکمل نام اور نسب: داوود بن قاسم بن اسحاق بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب ہے۔ ان کے والد قاسم بن اسحاق اصحاب امام صادقؑ [1] اور محمد بن عبداللہ، معروف بنام نفس زکیہ کے طرفداروں میں تھے۔ نقل ہوا ہے کہ وہ نفس زکیہ کی طرف سے امیر یمن مقرر ہوئے اس سے پہلے کہ وہ اپنے فرائض نبھانا شروع کرتے نفس زکیہ قتل ہو گئے۔[2]

ابو ہاشم کی دادی (قاسم بن اسحاق کی ماں)، ام حکیم بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر تھی۔ ان کے فرزند ابو ہاشم امام جعفر صادق ؑ کے خالہ کے بیٹے تھے۔[3]

ان کی زندگی کی تفصیلات معلوم نہیں ہیں لیکن بعض مصادر کی صراحت کے مطابق بغداد نشین تھے۔ [4] اور احتمال ہے کہ وہ دوم ہجری کے آخری سالوں میں پیدا ہوئے کیونکہ مدینہ سے مرو کے سفر امام رضاؑ کے دوران شہر ایذہ (ایذج) میں امام کی ملاقات کیلئے گئے ہیں۔[5]

وکالت

شیعوں اور ائمہ کے درمیان رابطے کا وسیلہ وکالت تھی کہ جس کی خلفای عباسی کی طرف سے کڑی نگرانی ہونے لگی اور غیبت امام زمان (عج) کا زمانہ نزدیک آنے لگا تھا۔ ابو ہاشم جعفری ائمہؑ کے مورد اعتماد صحابی تھے جو غیبت صغرا کے زمانے میں ایک مدت کیلئے وکیل رہے۔[6]

روایت‌ کرنے والے

شیعہ محدثین کی ایک جماعت نے اس سے نقل حدیث کیا جیسے علی بن ابراہیم قمی، یحیی بن ہاشم، اسحاق بن محمد نخعی، سہل بن زیاد آدمی، محمد بن حسان، ابو احمد بن راشد، احمد بن محمد بن عیسی، محمد بن عیسی، محمد بن ولید، محمد بن احمد علوی، احمد بن اسحاق، محمد بن زیاد، احمد بن ابی عبداللہ برقی، فضل بن شاذان نیشابوری، سعد بن عبداللہ اشعری، عبد اللہ بن جعفر حمیری و ... [7]

اقوال علما

ابی جعفر برقی (متوفی 274 یا 280 ھ) [8]، کشی (متوفی 330 ھ[9] مسعودی (متوفی 346 ھ[10] نجاشی (متوفی 450 ھ[11] شیخ طوسی (متوفی 460 ھ) در الفہرست،[12] و رجال،[13] ابن داوود حلی (متوفی 707 ھ[14] علامہ حلی (متوفی 726 ھ) [15] وغیرہ نے ابو ہاشم کو عالم، عابدِ زاہد، عظیم المنزلت، ائمہ کے نزدیک جلیل و شریف القدر جیسی صفات سے یاد کیا ہے۔[16]

تہمت غلو

جہاں ماہرین رجال نے ان کی تعریف بیان کی ہے وہیں کشی نے اپنے رجال میں سوانح ابو ہاشم کے آخر میں بعض روایات ذکر کی ہیں جن میں ان کی طرف غلو کی نسبت دی گئی ہے۔[17] کشی کے علاوہ کسی اور نے غلو کی نسبت نہیں دی ہے۔

ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی طرف سے ائمہ کے معجزات کی کثیر روایات کے نقل کی وجہ سے ان کی طرف غلو کی نسبت دی گئی ہے۔[18] لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ان روایات میں ائمہ کے معجزات بیان کرنے کے در پے تھے کہ جو ائمہ کی نسبت نہایت اخلاص کی علامت تھے۔ صرف کشی نے غلو کی نسبت ذکر کی ہے جبکہ دیگر ماہرین نے ان سے اس نسبت کی نفی کی ہے جیسے:

مامقانی:

امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے ابو ہاشم کیلئے سفارت و وکالت کا مرتبہ ہر قسم کی توثیق و تعدیل سے بالاتر ہے۔ اس شخص کی وثاقت، جلالت اور بزرگی میں کسی قسم کا شک نہیں ہے۔[19]

آیت اللہ خوئی:

کشی کی عبارت میں غلو کی دلالت دو لحاظ سے قابل تحقیق ہے پہلی یہ کہ روایت میں تحریف ہوئی ہے یا اس سے ظاہری معنا کے علاوہ کسی اور معنا کا ارادہ کیا جائے جبکہ یہ دونوں باتیں ابو ہاشم جیسی ممتاز شخصیت کی نسبت منتفی ہیں۔ لہذا کیسے اس شخصیت کی طرف غلو کی نسبت دی جائے۔ ان کی وثاقت میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔[20]

محدث قمی:

امام حسن عسکری کے وہ معجزات کہ جنہیں ابو ہاشم نے مشاہدہ کیا وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں جو یہاں ذکر ہوئے، ابو ہاشم سے مروی ہے:

میں جب بھی امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے ان سے برہان و دلائل کا ہی مشاہدہ کیا ہے۔[21]

تالیفات

ابو ہاشم کی دو کتابیں اخبار ابو ہاشم‌ اور کتاب شعر‌ مدح اہل بیت ؑ میں ذکر ہوئی ہیں۔[22] ابن عیاش نے ان دونوں کی جمع آوری کی ہے۔[23] البتہ اب یہ دونوں کتابیں دسترس میں نہیں ہیں۔

صراحت بیان

ابو ہاشم معصومین ؑ کے سامنے اپنی تمام انکساری کے باوجود ظالم حکام کے سامنے نہایت بے پروائی اور بے باکی کا مظاہرہ کرتے اور خلفائے عباس کے ساتھ نزاع رکھتے تھے۔[24] اسی وجہ سے چند مرتبہ قید ہوئے۔[25]

قیام یحیی بن زید اور ان کی شہادت کے بعد جب یحیی کا سر محمد بن عبداللہ طاہری کے پاس لائے تو کچھ لوگوں نے اسے مبارکباد دی۔ لیکن ابو ہاشم کسی خوف و خطر کے بغیر دربار حکومت میں آئے اور یوں مخاطب ہوئے:

اے امیر! ایسے شخص کے قتل پر مبارکباد کہتے ہیں کہ اگر رسول اللہ زندہ ہوتے تو لوگ انہیں اس مصیبت پر تسلیت کہتے!![26]

نقل ہوا ہے کہ سب اس گفتگو سے متاثر ہوئے اور کسی میں اتنا خم نہیں تھا کہ وہاں بات کر سکے،[27] اور انہوں نے دربار سے نکلتے ہوئے یہ شعر یحیی شہید کے متعلق پڑھے:

[28]
یا بنی طاہر کلوہ وبیاان لحم النبی غیر مری
ان وترا یکون طالبہ اللہلوتر بالفوت غیر حری
اے بنو طاہر! گوشت کھاؤ مگر یہ بیماری ہے گوشت پیغمبر اور اولاد پیامبر کھانے کیلئے نہیں ہے
دیکھو! خدا جس انتقام کا خواہاں ہےوہ بھول جانے والا نہیں ہے

اس کے باوجود حکام کے پاس محترم سمجھے جاتے تھے۔ چنانکہ سنہ 251 ھ کے دوران شورش کوفہ جو چھ سو افراد کے ساتھ حسین بن محمد علوی کی سربراہی میں ہوئی۔ ابو ہاشم جعفری کو اس وقت مزاحم بن خاقان کارگزار عباسی کی طرف سے گروہوں کے درمیان مذاکرات کیلئے بھیجا گیا۔[29]

وفات

وہ جمادی الاول سنہ 261 ھ میں عراق کے شہر سامراء میں فوت ہوئے۔ خطیب بغدادی نے کہا کہ سال 252 ھ میں مدینۃ السلام (بغداد) سے سامراء تبعید ہوئے اور پھر آخر عمر تک وہیں رہے۔[30] بغداد میں ان کی قبر ہونے کی شہرت منقول ہے۔[31]

حوالہ جات

  1. نجاشی، رجال، ج۱، ص۳۶۲؛ ابن عنتبہ، عمدہ الطالب، ص۴۲؛ علامہ حلی، خلاصہ الاقوال، ص۱۴۲
  2. محدث قمی، منتہی الآمال، ج۲، باب دوازدہم، ص۵۵۶؛ اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۲۶۴؛ طبری، تاریخ، ج۷، ص۵۶۱
  3. محدث قمی، الکنی و الالقاب، ج۱، صص۱۷۴ – ۱۷۵؛ ابن عنتبہ، عمدہ الطالب، صص۴۱ - ۴۲
  4. طوسی، الفہرست، ص۶۷؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۸، ص۳۶۹
  5. راوندی، الخرائج و الجرائح، ج۲، ص۶۶۱
  6. تفرشی، نقد الرجال، ج۲، ص۲۱۹؛ حائری، منتہی المقال فی احوال الرجال، ج۳، ص۲۰۸؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ص۴۱۶؛ امین، اعیان الشیعہ، ج۶، ص۳۷۸؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۵۱، ص۳۶۵، ذیل حدیث ۱۳؛ تبریزی، ریحانہ الادب، ج۷، ص۲۹۵
  7. نکـ: اردبیلی، جامع الرواة، ج۱، ص۳۰۷؛ ابن بابویہ، مشیخہ، ص۵۱۷؛ ابن بابویہ، التوحید، صص۸۲-۸۳؛ کشی، رجال، ص۵۴۳-۵۴۴؛ نجاشی، رجال، ص۴۴۷
  8. برقی، رجال، ص۵۶.
  9. کشی، رجال، ص۴۷۸.
  10. مسعودی، مروج الذہب، ج۲، ص۵۵۳.
  11. نجاشی، رجال، ج۱، ص۳۶۲.
  12. طوسی، الفہرست، ص۱۸۱.
  13. طوسی، رجال، ص۴۳۱.
  14. ابن داوود، رجال، ص۱۴۶.
  15. علامہ حلی، خلاصہ الاقوال، ص۱۴۲.
  16. نکـ: محدث قمی، الکنی و الالقاب، ج۱، ص۱۷۴. محدث قمی، منتہی الآمال، ج۲، باب دوازدہم، ص۵۵۶. مدرس تبریزی، ریحانہ الادب، ج۷، ص۲۹۵. صدر، تکملہ امل الآمل، ج۳، ص۳۵.قہپایی، مجمع الرجال، ج۲، ص۲۸۸- ۲۸۹. مجلسی، رجال مجلسی، ص۲۰۹. حائری، منتہی المقال فی احوال الرجال، ج۳، ص۲۰۷- ۲۰۸.امین، اعیان الشیعہ، ج۶، ص۳۷۷- ۳۷۸.مامقانی، تنقیح المقال فی علم الرجال، ج۲۶، ص۲۴۱.خویی، معجم الرجال الحدیث، ج۸، ص۱۲۲ - ۱۲۳.تستری، قاموس الرجال، ج۴، ص۲۵۶. اردبیلی، جامع الرواہ، ج۱، ص۳۰۷.
  17. کشی، رجال، ص۵۷۱.
  18. امین، اعیان الشیعہ، ج۶، ص۳۷۸.
  19. مامقانی، تنقیح المقال، ج۲۶، ص۲۴۷- ۲۴۸.
  20. خویی، معجم رجال الحدیث، ج۸، ص۱۲۴.
  21. محدث قمی، منتہی الآمال، ج۲، باب سیزدہم، ص۵۷۴.
  22. طوسی، الفہرست، ص۱۸۱.
  23. نجاشی، رجال، ج۱، ص۲۲۵ - ۲۲۶.
  24. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد او مدینہ السلام، ج۸، ص۳۶۹.
  25. طبری، تاریخ، ج۹، صص۳۶۹-۳۷۱؛ نیز نکـ: طبرسی، اعلام الوری، صص۳۵۴-۳۵۵.
  26. مسعودی، مروج الذہب، ج۲، ص۵۵۳؛ ابن اثیر، الکامل، ج۱۱، ص۲۹۴- ۲۹۵.
  27. ابوافرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۵۹۴.
  28. تاریخ طبری، ج۱۴، ص۶۱۳۴.
  29. طبری، تاریخ، ج۹، ص۳۲۸. اصفہانی، ص۶۶۵؛ نیز نکـ: طوسی، الفہرست، ص۶۷.
  30. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۸، ص۳۶۹.
  31. مروج الذہب، ج۲، ص۵۵۳.

مآخذ

  • ابن اثیر، عزالدین، الکامل، تاریخ بزرگ اسلام و ایران، ترجمہ عباس خلیلی، تصحیح مہیار خلیلی، تہران: شرکت سہامی چاپ و انتشارات کتب ایران، بی‌تا.
  • ابن بابویہ، محمد بن علی، التوحید، بہ کوشش ہاشم حسینی طہرانی، تہران: ۱۳۸۷ش.
  • ابن بابویہ، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، بہ کوشش علی اکبر غفاری، قم، ۱۴۰۴ق.
  • ابن داوود حلی، برقی، ابی جعفر احمد بن ابی عبداللہ، کتاب الرجال، تہران: انتشارات دانشگاہ تہران، ۱۳۴۲ش.
  • ابن شہر آشوب سروی، رشید الدین ابی جعفر محمد بن علی، معالم العلماء، فی فہرست کتب الشیعہ و اسماء المصنفین منہم قدیما و حدیثا، تہران: مطبعہ فردین، ۱۳۵۳ہ‍.
  • ابن شہر آشوب سروی مازندرانی، رشید الدین محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، تصحیح و تعلیق سید ہاشم رسولی محلاتی، قم: موسسہ انتشارات علامہ کتاب فروشی مصطفوی، بی‌تا.
  • ابن عنتبہ، جمال الدین احمد بن علی الحسینی، عمدہ الطالب فی انساب آل ابی طالب، بہ تحقیق سید مہدی رجایی، قم: کتاب خانہ آیت اللہ العظمی نجفی مرعشی، چاپ اول، ۱۳۸۳ش.
  • ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، سرگذشت کشتہ شدگان از فرزندان ابو طالب، ترجمہ سید ہاشم رسولی محلاتی، مقدمہ و تصحیح علی اکبر غفاری، تہران: کتاب فروشی صدوق، بی‌تا.
  • اردبیلی غروی، محمد بن علی، جامع الرواہ، قم: مکتبہ آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۴۰۳ہ‍.
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ ہ‍.
  • تستری، محمد تقی، قاموس الرجال، قم: مؤسسہ نشر اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین قم، چاپ دوم، ۱۴۱۵ہ‍.
  • حائری، ابوعلی، منتہی المقال فی احوال الرجال، قم: مؤسسہ آل البیتؑ لاحیاء التراث، چاپ اول، ۱۴۱۶ہ‍.
  • خطیب بغدادی، تاریخ بغداد او مدینہ السلام، بیروت: دار الکتب العملیہ، بی‌تا.
  • سید ابو القاسم خوئی، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواہ، قم: مکتبہ آیت اللہ العظمی خویی، چاپ پنجم، ۱۴۱۳ہ‍.
  • راوندی،، قطب الدین، الخرائج و الجرایح، بیروت: مؤسسہ نور للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۴۱۱ہ‍.
  • شیخ طوسی، الفہرست کتب الشیعہ و اصولہم، تحقیق سید عبدالعزیز طباطبایی، قم: مکتبہ محقق طباطبایی، چاپ اول، ۱۴۲۰ہ‍.
  • شیخ طوسی، رجال، تحقیق تقدیم و تعلیق سید محمد صادق آل بحر العلوم، نجف: منشورات المکتبہ و المطبہ الحیدریہ فی النجف، چاپ اول، ۱۳۸۱ہ‍.
  • صدر، سید حسن، تکملہ امل الآمل، تحقیق حسین علی محفوظ، عبد الکریم دباغ، عدنان دباغ، بیروت: دار المؤرخ العربی، ۱۴۲۹ہ‍.
  • طبرسی، ابوعلی فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، تصحیح و تعلیق علی اکبر غفاری، تہران: مکتبہ العلمیہ الاسلامیہ، ۱۳۳۸ہ‍.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، تہران: موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چاپ چہارم، ۱۳۶۹ش.
  • علامہ حلی، خلاصہ الاقوال فی معرفہ الرجال، تحقیق محمد جواد قیومی، مؤسسہ نشر الفقاہہ، چاپ اول، بی‌جا، ۱۴۱۷ہ‍.
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال، قم: مؤسسہ انتشارات ہجرت، چاپ دوم، ۱۳۸۴ش.
  • قہپایی، ملا عنایت اللہ، مجمع الرجال، تصحیح علامہ اصفہانی، قم: موسسہ اسماعیلیان، بی‌تا.
  • کشی، ابی عمرو محمد بن عمر بن عبدالعزیز، معرفة رجال، تقدیم و تعلیق سید احمد حسینی، کربلاء: موسسہ اعلمی للمطبوعات، بی‌تا.
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، تحقیق محیی الدین مامقانی، قم: مؤسسہ آل البیت (علیہ‌السلام) لاحیاء التراث، چاپ اول، ۱۴۲۷ہ‍.
  • مجلسی، محمد باقر، رجال مجلسی، تصحیح و ترتیب عبداللہ سبزالی حاج، مؤسسہ اعلمی للمطبوعات، بیروت ۱۴۱۵ہ‍.
  • مدرس تبریزی، محمدعلی، ریحانہ الادب، تہران: نشر خیام، ۱۳۷۴ ش.
  • مسعودی، ابوالحسن علی بن حسین، مروج الذہب، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، تہران: انتشارات علمی فرہنگی، ۱۳۷۴ش.
  • مسند الامام العسکری، جمع آوری و ترتیب عزیز اللہ عطاردی، بیروت: دارالصفوہ، چاپ دوم، ۱۴۱۳ہ‍.
  • نجاشی اسدی کوفی، ابی العباس احمد بن علی، رجال نجاشی احد الاصول الرجالیہ، تحقیق محمد جواد نائینی، دارالاضواء، بیروت ۱۴۰۸ہ‍.