انگشتر سلیمان

ویکی شیعہ سے

انگشتر سلیمان، جناب سلیمانؑ کی نبوت و قدرت کی علامت و نشانی ہے اور ان کی مواریث نبوت میں سے ایک ہے کہ جس کے سلسلے سے شیعوں کا خیال یہ کہ وہ بعد والے انبیاءؑ میں منتقل ہوئی ہے اور آخر میں شیعوں کے ائمّہؑ کے پاس پہونچی ہے۔ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق یہ انگوٹھی اس وقت امام مہدیؑ کے پاس ہے اور ظہور کے وقت ان کے پاس رہے گی۔ تاریخی کتابوں، قصص انبیاء اور تفاسیر میں جو اس کے بارے میں مطالب آئے ہیں وہ اسرائیلیات میں شمار ہوتے ہیں۔

ظاہری خصوصیات

شیعہ اور سنّی روایات میں انگوٹھی کی شکل و صورت اور اس کا نقش بیان ہوا ہے جیسے کہ وہ چاندی کی ہے[1] اس کا نگینہ آسمان سے آیا ہے،[2] یاقوت[3] ہے اور اس کے آٹھ گوشے ہیں۔[4]

امام رضاؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق حضرت سلیمانؑ کی انگوٹھی کے اوپر اس طرح سے نقش ہے کہ: « پاک ہے اللہ کی ذات جس نے جنّات کو اپنے کلمات سے قابو میں کیا ہوا ہے»[5] اسی طرح کتاب ینابیع المودۃ لذی القربۃ میں آیا ہے کہ جناب سلیمان کی انگوٹھی کا نقش اسم اعظم اور قرآن کے حروف مقطعات ہیں۔[6] ابن عساکر نے انگوٹھی کے نقش کو «لا الہ الا اللّه وحده لا شریک لہ محمد رسول الله» بتایا ہے۔[7]

معنوی خصوصیات

روایات میں اس انگوٹھی کے لئے کچھ خصوصیات بیان کی گئی ہیں جیسے:

  1. امام صادقؑ سے روایت ہے کہ اللہ نے جناب سلیمانؑ کی حکومت اسی انگوٹھی میں قرار دی تھی۔ وہ جب بھی اسے پہنتے تھے تو تمام جنات، انسان، شیاطین، تمام پرندے اور جانور سب ان کے سامنے حاضر ہو جاتے تھے اور ان کی اطاعت کرتے تھے۔[8]۔
  2. حضرت سلیمان کی انگوٹھی ان کی نبوت و حکومت کی علامت تھی جیسے حضرت موسیؑ کا عصا لیکن ان کی نبوت اور حکومت اس سے وابستہ نہیں تھی۔
  3. یہ انگوٹھی مواریث انبیاء کا جزء ہے کہ جو ائمہ معصومینؑ کے پاس ہے اور وہ اس سے اپنی امامت کی حقانیت کو ثابت کرتے ہیں۔ حسین بن موسی بن جعفر کہتے ہیں: ایک دن امام رضاؑ کے ہاتھ میں چاندی کی انگوٹھی دیکھی جو باریک اور نازک تھی میں نے پوچھا: آپ کے جیسا انسان ایسی انگوٹھی پہنتا ہے؟ فرمایا: یہ سلیمان بن داود کی انگوٹھی ہے۔[9]
  4. یہ انگوٹھی اس وقت امام مھدیؑ کے پاس ہے جو ظہور کے وقت نمایاں ہوگی۔[10]۔ اور ائمّہؑ اسی انگوٹھی کے ذریعہ کافروں اور مؤمنین کو پہچانتے اور جدا کرتے تھے۔[حوالہ درکار]


حوالہ جات

  1. مجلسی، بحار الانوار، ۱۳۹۰ھ، ج۲۶، ص۲۲۲
  2. ہیثمی، مجمع الزوائد، ۱۴۰۸ھ، ج۵، ص۱۵۲
  3. بحرانی، مدینۃ المعاجر، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۲۴۵؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۳۹۰ھ، ج۲۷، ص۳۴
  4. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، ۱۳۷۶ھ، ج۳، ص۴۴۴
  5. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۴۰۴ھ، ج۱، ص۶۰.
  6. قندوزی، ینابیع الموده، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ج۳، باب ۹۷، ص۵۴
  7. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۲۲، ص۲۴۵
  8. مجلسی، بحار الانوار، ۱۳۹۰ھ، ج۱۴، ص۹۹
  9. مجلسی، بحار الانوار، ۱۳۹۰ھ، ج۲۶، ص ۲۲۲
  10. مجلسی، بحار الانوار، ۱۳۹۰ھ، ج۵۲، ص۱۹۴؛ ابن ماجۃ، سنن، داراحیاءالتراث العربی، ج۲، ب ۳۱، ص۱۳۵۱، ح۴۰۶۶؛ ترمذی، سنن، ۱۴۰۳ھ، ج۵، ص۲۱

مآخذ

  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی ‌طالب، تحقیق لجنۃ من اساتذۃ النجف الاشرف، نجف، مطبعۃ الحیدریہ، ۱۳۷۶ھ۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق الکبیر، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵ھ۔
  • ابن ماجہ، محمد بن یزید قزوینی، سنن، تحقیق محمد فؤاد عبدالباقی، دار احیاءالتراث العربی، بی‌تا۔
  • بحرانی، سید ہاشم، مدینۃ المعاجز، تحقیق عزت اللہ مولائی ہمدانی، قم، مؤسسۃ معارف اسلامی، ۱۴۱۳ھ۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن، تصحیح عبدالرّحمن محمد عثمان، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۳ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ھ۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات، تہران، مؤسسۃ الأعلمی، ۱۳۶۲۔
  • قندوزی، سلیمان، ینابیع المودہ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، [بی تا]۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الأصول من الکافی، تہران، مکتبۃ الصدوق، ۱۳۸۱ ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحارالأنوار، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۹۰ھ۔
  • ہیثمی، علی بن ابی ‌بکر، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۸ھ۔