امام محمد باقر اور حسن بصری کا مناظرہ
امام محمد باقر علیہ السلام اور حسن بصری کا مناظرہ انسان کے اختیار کے بارے میں ہے۔ امام محمد باقرؑ نے اس مناظرے میں حسن بصری کی رائے کو ردّ کیا ہے اور سورہ سبا، سورہ طلاق اور سورہ یوسف کی آیات کریمہ سے استدلال کرکے اپنی حقانیت کا ثبوت دیا ہے۔
مناظرے کا متن
حسن بصری امام محمد باقرؑ کے پاس گیا اور عرض کیا: میرے کچھ سوالات ہیں جو آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں۔
امامؑ نے فرمایا: کیا تم اہل بصرہ کے فقیہ نہیں ہو؟
کہا: لوگ یہی کہتے ہیں۔
جبر و تفویض
امامؑ نے فرمایا: تم نے بہت بڑا عہدہ سنبھالا ہے۔ سنا ہے کہ لوگوں سے کہا کرتے ہو کہ خداوند متعال نے لوگوں کو ان کے اپنے حوالے کردیا ہے اور ان کے امور ان ہی کو واگذار کئے ہیں!
حسن بصری خاموش ہوئے۔
امامؑ نے فرمایا: اگر خداوند متعال کسی کو امن و امان کا وعدہ دے تو کیا اس کو کسی چیز سے ڈرنا چاہئے؟
کہا: نہیں
اہل بیتؑ قرآن میں
امامؑ نے فرمایا: میں ایک آیت کی تلاوت کرتا ہوں جس کی تم نے غلط تسیر کی ہے! من آیهای میخوانم که تو آن را به اشتباه تفسیر کردهای.
پوچھا: کونسی آیت؟
فرمایا:
- وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ ۖ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّاماً آمِنِينَ (18)۔
ترجمہ: اور ہم نے قرار دیں ان کے درمیان اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت عطا کی مسلسل آبادیاں اور ان میں آمدورفت کا سلسلہ قائم کیا، چلو پھرو ان میں رات دن امن و عافیت سے۔[1]
- وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ ۖ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّاماً آمِنِينَ (18)۔
میں نے سنا ہے کہ تم نے "مقام امن" کو تم مکہ سے تفسیر کیا ہے؟ وائے ہو تم! یہ کونسان امن ہے کہ وہاں کے لوگوں کے اموال کو چرایا جاتا ہے اور ہمیشہ کچھ لوگ مارے جاتے ہیں؟!
بعد ازاں امام باقرؑ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: "وہ مبارک بستیاں ہم ہیں"۔
حسن بصری نے کہا: آپ پر فدا ہوجاؤں! کیا قرآن میں ایسی آیت ہے جس میں انسانوں کو "قریہ" (=بستی) کہا جائے؟
فرمایا: ہاں، سورہ طلاق کی آٹھویں آیت، جہاں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
- وَكَأَيِّن مِّن "قَرْيَةٍ" عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَاباً شَدِيداً وَعَذَّبْنَاهَا عَذَاباً نُّكْراً (8)۔
ترجمہ: اور کتنی ہی بستیاں ہیں "جن لوگوں" نے سرکشی کی اپنے پروردگار کے حکم اور اس کے پیغمبروں سے تو ہم نے ان کا سختی کے ساتھ حساب لیا اور انہیں عجیب غیر معمولی سزا دی۔[2]
- وَكَأَيِّن مِّن "قَرْيَةٍ" عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَاباً شَدِيداً وَعَذَّبْنَاهَا عَذَاباً نُّكْراً (8)۔
بعد ازاں فرمایا: کیا سرکشی کرنے والا در و دیوار ہیں یا انسان؟
کہا: ہاں؛ مراد انسان ہی ہیں۔
فرمایا: سورہ یوسف کی آیت 82 میں قریوں اور دیہاتوں کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے یا انسانوں کے بارے میں؟! جہاں ارشاد ہوتا ہے:
- وَاسْأَلِ "الْقَرْيَةَ" الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيْرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَََ (82) ۔
ترجمہ: اور اس "بستی" سے پوچھ لیجئے جس میں ہم تھے اور اس قافلہ سے کہ جس میں ہم آئے ہیں اور ہم بلاشبہ سچے ہیں۔[3]
- وَاسْأَلِ "الْقَرْيَةَ" الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيْرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَََ (82) ۔
بعدازاں فرمایا: قُریٰ یعنی ہمارے شیعوں کے علماء اور "سیر" سے مراد علم ہے۔ یعنی جو بھی ہماری طرف آیا اور حلال و حرام کی تعلیم ہم سے حاصل کی، وہ شک اور گمراہی سے محفوظ ہے؛ کیونکہ اس نے احکام کو اس مقام سے سیکھ لیا ہے جہاں سے سیکھنا چاہئے؛ کیونکہ اہل بیت علم کے وارث اور برگزیدہ فرزند ہیں اور وہ فرزند ہم ہیں، نہ کہ تم اور تمہاری مانند لوگ۔
اور خبردار! کبھی نہ کہنا کہ خداوند متعال نے بندوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے کیونکہ خداوند متعال سستی اور کمزوری سے دوچار نہیں ہے کہ اپنے امور کو انسانوں کے سپرد کرے۔ وہ انسان کو کسی کام پر مجبور بھی نہیں کرتا کیونکہ اس صورت میں ان پر ظلم ہوگا؛ اللہ تعالی اپنے بندوں سے نہ تو جبر برتتا ہے اور نہ ہی امور کو انہیں تفویض کرتا ہے؛ بلکہ بندوں کے ساتھ اس کا رویہ، ان دو امور کے بیچوں بيچ، ہوتا ہے۔[4]۔[5]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
مآخذ
- طبرسی، ابی منصور احمد بن علی، الاحتجاج، مشهد، نشر المصطفی، 1403هجری قمری.
- مجلسی، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403هجری قمری.