شرعی احکام میں جہاں مجتہد فتویٰ دئے بغیر احتیاط لازمی قرار دے اسے احتیاط واجب یا احتیاط لازم کہا جاتا ہے۔

بعض اوقات فقہاء دلیل شرعی کے ذریعے احکام خمسہ میں سے کسی حکم تک نہیں پہنچ پاتے لیکن ان کی نظر میں اس مسئلے میں احتیاط کرنا لازمی ہوتا ہے تو ایسے مواقع پر فقہاء احتیاط واجب کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ احتیاط واجب میں مکلف اسی احتیاط پر عمل کرنے یا اس مسئلہ میں کسی دوسرے مجتہد کے فتوے کی طرف رجوع کرنے میں مختار ہوتا ہے جو علم و فضل میں اس مجتہد کے بعد سب سے بالاتر ہو۔

تعریف

فقہی احکام میں جہاں مجتہد دلیل کے ذریعے کسی حکم تک نہ پہنچ پانے کی وجہ سے احتیاط لازمی قرار دے تو اس احتیاط کو احتیاط واجب کہا جاتا ہے۔[1]

احتیاط واجب میں مرجع تقلید متعلقہ عمل کی حرمت یا وجوب کا فتویٰ نہیں دیتا، لیکن اس کا نظریہ یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ کام حرام ہو تو کسی صورت انجام نہ پائے اور اگر واجب ہو تو کسی صورت چھوٹنے نہ پائے اس لئے ایسے مقام پر مجتہد احتیاط کو ضروری قرار دیتا ہے۔[2]

اس کے مقابلے میں جہاں احتیاط ضروری نہ ہو بلکہ بہتر ہو وہاں لفظ "احتیاط مستحب"، استعمال ہوتا ہے۔[3]

"احتیاط واجب" اور "فتوائے احتیاط" میں فرق

احتیاط واجب میں فقیہ معتبر شرعی دلیل نہ ملنے کی بنا پر احتیاط کرنے کو واجب قرار دیتا ہے جبکہ فتوائے احتیاط میں فقیہ دلیل کے ذریعے اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ اس مسئلے میں احتیاط کی جائے اور احتیاط کرنے کا فتوا دیتا ہے۔[4]

احتیاط واجب کی اصطلاحات

کبھی کبھی توضیح المسائل اور دوسری فقہی کتابوں میں احتیاط واجب کے بجائے کچھ اور تعبیریں استعمال ہوتی ہیں۔ اردو میں "محل تامل ہے" یا " محل اشکال ہے" یا صرف "اشکال ہے" یا " تامل ہے" استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح فارسی میں «محل تأمل است» اور «محل اشکال است»[5] اور عربی میں «فيه اشكال» اور «فيه تأمّل» استعمال ہوتا ہے۔ یہ ساری تعبیریں احتیاط واجب کو ہی بیان کرتی ہیں۔[6] جب کہا جاتا ہے کہ "احتیاط کو ترک نہ کیجئے" تب بھی احتیاط واجب ہی مراد ہوتی ہے۔[7]

احتیاط واجب میں مکلف کی ذمہ داری

احتیاط واجب میں مکلف کے اوپر واجب ہے کہ یا تو احتیاط کی بنیاد پر عمل کرے یا مسئلہ میں کسی ایسے مرجع تقلید کی تقلید کرے جو اس کے اپنے مرجع تقلید کے بعد علمی لحاظ سے دوسرے مراجع سے بالاتر ہو۔ دوسرے مرجع کی طرف رجوع کرنا بھی اس وجہ سے ہے کیونکہ اس کے مرجع نے اس بارے میں کوئی فتویٰ نہیں دیا ہے۔[8]

احتیاط واجب اور احتیاط مستحب میں فرق

احتیاط واجب اور مستحب میں فرق یہ ہے کہ احتیاط واجب میں مجتہد دلیل نہ ہونے کی بنا پر فتوا نہیں دیتا ایسے موقع پر مقلد یا اسی احتیاط پر عمل کرتا ہے یہ کسی ایسے مجتہد کے فتوے کی طرف رجوع کرتا ہے جو علم میں اس مجتہد کے بعد دوسروں سے اعلم ہو؛ لیکن احتیاط مستحب میں چونکہ فتوا بھی ساتھ ہوتا ہے اس صورت میں مقلد یا اسی مجتہد کے فتوے پر عمل کرتا ہے یا احتیاط پر عمل کرتا ہے اور اس مسئلے میں مقلد کسی دوسرے مجتہد کی طرف رجوع نہیں کر سکتا۔[9]

حوالہ جات

  1. جمعی از مؤلفان، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۲۷۲.
  2. مکارم شیرازی، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، ۱۴۲۷ھ، ج۱، ص۴۵۳۔
  3. جمعی از مؤلفان، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۲۷۲.
  4. جمعی از مؤلفان، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۲۷۲.
  5. بہجت، رسالہ توضیح المسائل، ۱۳۸۰ش، ص۵.
  6. جمعی از مؤلفان، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۲۷۲.
  7. بنائی، رسالہ مصور، ۱۳۹۲ش، ص۳۲۷.
  8. مکارم شیرازی، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، ۱۴۲۷ھ، ج۱، ص۴۵۴.
  9. فلاح‌زادہ، درسنامہ فقہ، ۱۳۹۵ش، ص۵۵-۵۶۔

مآخذ

  • بنائی کاشی، ابوالفضل، رسالہ مصور، قم، اطلس تاریخ شیعہ، ۱۳۹۲شمسی ہجری۔
  • بہجت، محمدتقی، رسالہ توضیح المسائل، قم، شفق، چاپ بیست و ششم، ۱۳۸۰شمسی ہجری۔
  • جمعی از مؤلفان، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بيت، قم، مؤسہ دایرۃالمعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت، ۱۳۸۵شمسی ہجری۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، قم، مدرسہ الامام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ اول، ۱۴۲۷ھ.