اَبَواء نام کا ایک بہت بڑا دیہات ہے جو مکہ اور مدینہ کے راستے کے درمیان ودّان کے پاس واقع ہے ۔ رسول اللہ کی والدۂ ماجدہ آمنہ بنت وہب اس جگہ دفن ہیں ۔اسی طرح غزوۂ ابواء کے نام سے ایک غزوہ اسی جگہ ہوا ۔
محل وقوع
ودّان کے قریب مکہ اور مدینہ کے راستے پر مدینہ کے جنوب غرب میں (۱۷۰ کیلومتر) اور مکہ سے شمال غرب (۲۰۰ کیلومتر) کے فاصلے پر اَبْواء نام کا ایک بہت بڑا دیہات موجود ہے ۔جہاں پینے کا پانی کنوؤں سے حاصل کیا جاتا ہے ۔[1]
ابواء کے نام سے ایک پہاڑ اس کے قریب واقع ہے ۔بعض نے اس کلمے کا معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیلابوں کے آنے کی جگہ یا مختلف لوگوں کے اکٹھے ہونے کی جگہ کو ابوا کہتے ہیں ۔[2]
یہاں سے مکہ جانے کے دو راستے نکلتے ہیں ایک راستہ ودان، جحفہ، مكہ اور دوسرا راستہ جحفہ سے مكہ کو جاتا ہے ۔اب قدیم ابواء متروک اور خرابے کی صورت میں موجود ہے اور اسے خریبہ کہتے ہیں جو باغات اور کھیتوں پر مشتمل ہے ۔نیا آباد ہونے والا ابواء شمال میں واقع ہے .آخری دہائیوں میں اس دیہات کے اکثر لوگ بڑے شہروں میں ہجرت کر گئے ہیں۔نئے امکانات کی بدولت اس علاقے میں دوبارہ بحال ہو گئی ہے ۔اب یہاں کی آبادی تقریبا ۷۰۰۰ نفوس پر مشتمل ہے ۔جن میں اکثر قبیلۂ حرب سے تعلق رکھتے ہیں [۱۸]نیز یہاں پرائمری،مڈل اور ہائی سکول پر مشتمل نو(9) سکولوں کے علاوہ مرکز بہداشت موجود ہیں ۔ سال ۲۰۱۰ م میں اس علاقے کے پانی کی قلت کا شکار ہو گئے ۔لہذا شہر کے لوگوں نے پانی کے ٹینکروں کے ذریعے پانی کی فراہمی کیا۔[3]
تاریخی مقامات
آمنہ بنت وہب
یہاں آمنہ بنت وہب والدۂ حضرت محمد(ص) کی قبر ہے جو ہجرت سے پہلے مدینہ سے واپسی کے وقت سال ۴۶ میں اسی جگہ فقت ہو گئیں ۔[4] بنابر قول مشہور اسی مقام پر ہے [5]
قریش نے جب بدر کے شہدا کی خونخواہی کا ارادہ کیا تو اس جگہ پر پہنچ کر انہوں نے آمنہ بنت وہب کی قبر کے نبش کا قصد کیا لیکن ابوسفیان قریش کے بزرگوں سے مشورت کے بعد اس سے رک گئے [6]
حدیبیہ کے موقع پر پیامبر(ص) آمنہ کی قبر پر تشریف لے گئے وہاں گریہ کیا اور اس قبر کی مرمت کروائی ۔[7] پس حجۃالوداع کے بعد بھی رسول خدا یہاں آئے اور گریہ کیا ۔[8]
غزوه ابواء
در صفر سال دوم ہجری پیامبر(ص) قریش اور بنی ضَمره کے قصد سے مدینہ سے باہر تشریف لائے لیکن قریش کو نہ پایا تو ابواء میں قبیلۂ ضمره کے سردار مَخْشی بن عمرو سے ملاقات کی اور اس سے صلح کی ۔ [9] نیز مسلمانوں اور بنی ضمره کے درمیان عہد نامہ لکھا گیا ۔ [10] یہ رسول اللہ کی پہلی غزوہ تھی ۔ [11]
آیت تیمم
رسول خدا کے سفروں میں سے ایک سفر کے دوران اس مقام پر قرآن کی آیت تیمم ابوا میں نازل ہوئی ۔[12] [13]
ابوسفیان کا مسلمان ہونا
اسی مقام پر ابوسفیان [[فتح مکہ]] سے پہلے پیامبر(ص) کی خدمت میں آیا اور مسلمان ہوا .[14]
مسلم بن عقبہ
مسلم بن عقبہ کہ جسے ۶۳ق کے اواخر کی جنایات کی وجہ سے مُسرف بن عقبہ کہتے ہیں ،اسی مقام پر فوت ہوا اور اسے یہیں دفن کیا گیا ۔[15]
مدفن عبدالله بن جعفر
بعض عبدالله بن جعفر کی ۹۰ سال کی عمر میں ابوا کے مقام پر وفات اور دفن کے قائل ہیں ۔[16]
لیکن قول مشہور کی بنا پر عبداللہ بن جعفر [[مدینہ]] میں فوت ہوا ۔ ظاهراً عبداللہ نام کا عبدالمطلب کی اولاد میں ایک اور شخص ہے جو سلیمان بن عبدالملک کے ہمراہ سال ۹۹ ہجری قمری میں ابواء میں فوت ہوا ۔[17]
ولادت امام کاظم(ع)
امام موسی بن جعفر(ع) کی ولادت ساتویں صفر سال ۱۲۸ق. کو ابواء کے مقام پر ہوئی ۔ امام صادق(ع) نے اس مناسبت سے اپنے اصحاب کو ولیمہ دیا اور انہوں نے آپکو مباکباد دی ۔ [18]
نفس زکیہ کی بیعت
امویوں کی حکومت کے آخری ایام میں بنی هاشم میں سے عبدالله محض اور اسکے بیٹے اسی طرح سفاح اور منصور ابواء میں اکٹھے ہوئے تا حاضرین میں سے کسی ایک کی بیعت کریں . ان میں محمد موجود تھا اسکی مہدی کے عنوان سے بیعت کی گئی۔ امام صادق(ع) جب اس سے آگاہ ہوئے تو فرمایا : ایسا مت کرو ابھی اسکا (ظہور مہدی) کا وقت نہیں آیا ہے ۔ نیز عبد الله سے کہا: اگر یہ گمان کرتے ہو کہ تمہارا بیٹا مہدی ہے تو وہ مہدی نہیں ہے نیز ابھی اسکے ظہور کا وقت نہیں ہے ۔ اگر خدا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بنا پر قیام کیا ہے تو با خدا ! تم ہمارے بزرگ ہو ہم اجازت نہیں دیتے کہ ہم تمہارے بیٹے کی بیعت کریں ۔[19]
حوالہ جات
- ↑ ابن رستہ، ج۷، ص۱۷۸
- ↑ یاقوت حموی، معجم البلدان،ج۱، ص۱۰۰
- ↑ روزنامہ ریاض، تاریخ ۹/۹/۲۰۱۰ و ۷ آب ۲۰۱۰ و ۱۴ حزیران ۲۰۱۰م.؛ نك: سائٹ انٹرنیٹ روزنامہ الریاض
- ↑ ابن هشام، ج۱، ص۱۷۷
- ↑ مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ ق، ج۱، ص ۱۳؛ ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص ۵۰.
- ↑ واقدی، ج۱، ص۲۰۶
- ↑ ابن سعد، ج۱، ص۱۱۶
- ↑ قمی، ج۱، ص۴۴
- ↑ ابن ہشام، ج ۱، ص۵۹۱
- ↑ ابن سعد، ج۲، ص۸
- ↑ ابن ہشام، ج ۱، ص۵۹۱؛ بخاری، ج۱، ص۵
- ↑ نساء ۴۳
- ↑ ابن سعد، ج۸، ص۷۵؛ ابن حنبل، ج۱، ص۲۲۰
- ↑ واقدی، ج۲، ص۸۰۷
- ↑ بلاذری، ج۴، ص۴۵
- ↑ ابن قتیبہ، ص۲۰۶
- ↑ بلاذری، ج۳، ص۲۹۹؛ ذہبی، ج۱، ص۲۰۱-۲۰۲
- ↑ . المحاسن، ج۲، ص۳۱۴؛ بصائر الدرجات، ص۴۶۰
- ↑ اصفہانی،مقاتل الطالبیین، ص۱۸۵-۱۸۶
مآخذ
- احمد ابن حنبل، مسند، استنبول، ۱۴۰۲ق/۱۹۸۲م.
- ابن رستہ، احمد، الاعلاق النفیسہ، لیدن، ۱۸۹۱م.
- ابن سعد، محمداحمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارصادر.
- ابن قتیبہ، عبدالله، المعارف، کوشش: ثروت عکاشہ، قاہرہ، ۱۹۶۰م.
- ابن ہشام، عبدالملک، السیره النبویہ، کوشش: مصطفی السقّا و دیگران، بیروت،دار احیاء التراث العربی.
- ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، شرح و تحقیق: احمد صقر، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۹۸۷م/۱۴۰۸ق.
- اصطخری، ابراہیم، مسالک الممالک، کوشش: دخویہ، لیدن، ۱۹۲۷م.
- بخاری، محمد، صحیح، استنبول، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م.
- بلاذری، احمد، انساب الاشراف، کوشش: عبدالعزیز الدوری، بیروت، ۱۳۹۸ق/۱۹۷۸.
- مستوفی، حمدالله، نزہۃ القلوب، کوشش: گلسترنج، لیدن، ۱۳۳۱ق/۱۹۱۳م.
- ذہبی، محمد، سیر اعلام النبلاء، کوشش: شعیب ارنؤوط و حسین اسد، بیروت، ۱۴۰۵ق/۱۹۸۵م.
- قمی، عباس، سفینۃ البحار، نجف.
- واقدی، محمد، المغازی، کوشش: مارسدن جونز، لندن، ۱۹۶۶م.
- ہمدانی، حسن، صفہ جزیره العرب، کوشش: محمد بن علی الاکوع، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳م.
- یاقوت حموی، معجم البلدان، دارصادر، بیروت
بیرونی روابط
- مقالے کا مآخذ: دائره المعارف بزرگ اسلامی