ابن ادریس حلی

ویکی شیعہ سے
(ابن ادریس مولف سرائر سے رجوع مکرر)
ابن ادریس حلی
کوائف
مکمل ناممحمد بن منصور بن احمد بن ادریس حلی عجلی
لقب/کنیتفخر الدین اور شمس‌ الدین، ابن ادریس، ابو عبداللّہ
تاریخ ولادت543 ھ
تاریخ وفات598 ھ
مدفنحلہ (عراق)
علمی معلومات
اساتذہابو المکارم ابن زہرہ حلبی صاحب غنیۃ‌النزوع، ابن شہر آشوب
شاگردنجیب‌ الدین محمد بن جعفر بن نما، حسن‌ بن یحیی حلّی
تالیفاتالسرائر، المختصر فی المضایقہ
خدمات


محمد بن منصور بن احمد بن ادریس حلی عجلی، ابن ادریس کے نام سے مشہور، چھٹی صدی ہجری کے مؤثر امامیہ فقہا میں سے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ والدہ کی طرف سے ان کا نسب تین واسطوں سے شیخ طوسی تک پہنچتا ہے۔

وہ فقہ، اصول، تفسیر اور لغت میں تبحر رکھتے تھے۔ ابن ادریس استنباط احکام میں کثیر عقلی دلائل، نادر فتاوا دینے اور شیخ طوسی کی ہیبت علمی کو توڑنے میں مشہور ہیں۔ انہوں نے فقہ کو ایک نئے مرحلے میں داخل کیا اور شیخ طوسی کے نظریات کو رد کرنے میں دوسرے علما کی نسبت پہل کی۔ کہا گیا ہے کہ وہ بہت شدید لہجے میں دوسروں پر تنقید کرتے، اسی وجہ سے بعض علما ان پر معترض ہوئے ہیں۔ ابوالمکارم بن زہرہ اور ابن شہر آشوب ان کے مشہور اساتذہ میں سے ہیں اور ابن نما اور ان کے والد محقق حلی جیسے برجستہ علما ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔ ابن ادریس کی کتاب سرائر کو ان کے مؤثر ترین اثر میں گنا جاتا ہے۔

ولادت و نسب

ان کا نام محمد، مشہور کنیت ابو عبداللّہ اور لقب فخر الدین و شمس‌ الدین ہے۔[1] ابن ادریس کو عِجلی و رَبَعی (بنی‌ عجل سے منسوب ہے جو بکر بن وائل قبیلے سے ربیعہ کی ایک شاخ ہے)[2] بھی پڑھا گیا ہے۔[3]

ابن ادریس نے اپنے بلوغ کا زمانہ ۵۵۸ ھ ق ذکر کیا ہے۔[4] اس بنا پر اندازہ لگایا کہ ان کا سن ولادت ۵۴۳ ھ ہونا چاہئے۔[5]

ابن‌ ادریس نے شیخ طوسی کے نسخہ کتاب مصباح المتہجد میں اپنا نسب مکمل طور پر ذکر کیا ہے اور اپنے باپ کا نام منصور بن احمد بن ادریس لکھا ہے۔ اس لحاظ سےان کی شہرت انکے جد سے لی گئی ہے۔[6]

ان کی والدہ کے نسب میں اختلاف موجود ہے۔ بعض مصادر ابن ادریس کو شیخ طوسی کی نواسی سے کہتے ہیں اور کہا گیا کہ ابن ادریس اپنے ماموں ابو علی طوسی کے واسطے سے شیخ طوسی سے روایت نقل کرتے ہیں۔[7] لیکن محققین ابن ادریس کے سن ولادت اور شیخ طوسی کے سن وفات (۴۶۰ ھ) کے درمیان زیادہ فاصلے اور دیگر دلائل کی وجہ سے اسے درست تسلیم نہیں کرتے ہیں۔[8] بعض مصادر ابن ادریس کو شیخ مسعود ورّام کی نواسی سے سمجھتے ہیں۔[9] لیکن اگر اس سے مراد ورّام بن ابو فراس (متوفا ۶۰۵) ہو تو اس کی تردید کرنا چاہے مگر یہ کہا جائے کہ وہ کوئی اور شخصیت ہے۔

اساتذہ

اہم اساتذہ اور شیوخ:

عماد الدین طبری اور الیاس بن ابراہیم حائری ابن ادریس کے واسطے سے صحیفہ سجادیہ کے روات میں سے ہیں جو ابو علی طوسی کے ذریعے روایت نقل کرتے ہیں۔[11]

شاگرد

ابن ادریس کے شاگرد اور حدیث کے روات:

فقہ میں تاثیر

ابن ادریس سے پہلے تمام فقہا شیخ طوسی کی اتباع کر رہے تھے اور کسی میں ان کی مخالفت کرنے کی جرات نہیں تھی اور سب شیخ طوسی کے استنباط کے طریقے پر کاربند تھے لیکن ابن ادریس نے اس ہیبت کو ختم کیا اور فقہ کو ایک نئے مرحلے میں وارد کیا۔ محققین کی نظر میں اکثر فقہا شیخ طوسی کے بعد شیخ پر اعتماد اور حسن اعتقاد کی بدولت شیخ کے فقہی اور غیر فقہی نظریات میں ان کی پیروکار تھے۔ اس وجہ سے شیعی فقہ میں اجتہاد اور استنباط کا گراف نیچے آ گیا۔

فکری استقلال کی ضرورت کے پابند ابن ادریس جیسے گنے چنے چند فقہا نے شیخ طوسی سمیت گذشتہ فقہا کے آرا و نظریات پر اعتراض کرنے کا باب کھولا۔ اس روش نے مستقبل کے فقہا پر اپنا اثر چھوڑا اور اس روش کی بدولت شیعہ اجتہاد میں دوبارہ جان پیدا کی۔[15]

ابن ادریس کی فقہی نظریات جدید فقہا کیلئے قابل توجہ رہیں۔[16] اور کبھی کبھار ان کی آرا کو فقہائے حلہ کے ہمراہ (حِلّیون) کہہ کر ذکر کیا جاتا ہے۔[17]

اقوال علما

اہل سنت اور شیعہ کے فقہا اور سوانح نگاروں نے ابن ادریس کی بزرگی، علمی مقام اور فہم و فراست کی تعریف کی اور اسے فقہ میں بے نظیر، اپنے زمانے کا یگانۂ روزگار، محقق اور رئیس مذہب جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے۔[18] ان کی بعض اہل سنت فقہا کے ساتھ خط و خطابت بھی رہی۔[19]

ماہرین علم رجال السرائر میں موجود ایک عبارت سے استناد کی بنا پر قائل ہیں کہ انہوں نے شیخ طوسی کی بے احترامی کی ہے بلکہ وہ ابن ادریس کی کم عمری کا سبب اسی امر کو قرار دیتے ہیں۔[20]

لیکن کسی بھی طرح کی اہانت سرائر میں موجود نہیں ہے اس نظر کو جھٹلایا گیا ہے۔[21] بلکہ ابن ادریس کئی مرتبہ شیخ طوسی کو بہت احترام سے یاد کیا ہے اور شیخ کے نام کے بعد «رضی‌اللّہ عنہ» اور «رَحِمَہ‌اللّہ» جیسی عبارتوں کو ذکر کیا ہے نیز انہوں نے شیخ طوسی کی تفسیر التبیان کو عظمت سے یاد کیا ہے۔[22] شیخ کے آرا کو رد کرتے وقت کسی جگہ بے احترامی ہی نہیں کی بلکہ بعض اوقات شیخ کی نظر کی توجیہ اور اس کے ظاہری تعارض کو ایک طرح سے جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔[23] [24]

محقق حلّی[25] نے بعض اوقات ابن ادریس کے نظریات کو رد کرتے ہوئے ایک تعبیر استعمال کی ہے۔ خوانساری[26] کے مطابق علامہ حلّی نے ان کا تذکرہ طعن آمیز لفظ (الشّاب المترف) کے ساتھ کیا ہے لیکن اس کا مستند معلوم نہیں ہے۔ اس کے علاوہ علامہ نے کئی مقامات پر ابن ادریس کے نظریات کو قبول کیا ہے۔[27] اور کئی مرتبہ ان کا نام نہایت احترام سے لیا ہے۔

ابن داؤد حلی[28] کے بقول ابن ادریس کلی طور پر احادیث اہل بیت (ع) سے اعراض کیا لہذا اسی وجہ سے ابن ادریس کا نام ضعفا کے حصے میں ذکر کیا ہے۔ بحرانی[29] نے اس نظریے کو قبول نہیں کیا اور وہ ابن ادیس کے نا قابل انکار بلند مقام و منزلت کا معتقد ہے نیز قائل ہے کہ بعض مسائل میں اشتباہ قدح و طعن کا موجب نہیں بنتا ہے۔ بحرانی نے ابن ادریس کے بارے میں ابن داؤد حلی کی شیخ فقہا اور علوم میں نہایت ماہر جیسی صفات کے استعمال کو دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ بہتر تھا وہ اس کا نام ممدوحین میں ذکر کرتا۔

ابن ادریس و حجیت خبر واحد

علما ابن ادریس کی نسبت تمام روایات کے چھوڑنے کے نظریہ کو قبول نہیں کرتے ہیں کیونکہ وہ خبر متواتر قرائن قطعی پر مشتمل خبر واحد کو حجت سمجھتے تھے اور صرف خبر واحد پر عمل کے مخالف تھے۔[30] ابن ادریس سے پہلے کے علما جیسے سید مرتضی علم الہدی [31] اور چھٹی صدی کے بعض علما جیسے ابن شہر آشوب[32]، طَبْرِسی[33] اور ابن زہرہ[34] بھی اس نظریے کے قائل تھے اور اس نظریے کو قبول کرنا کسی بھی لحاظ سے قابل طعن نہیں ہے اور نہ ہی ان کے ضعف کا سبب بن سکتا ہے۔[35]

ہر چند ابن ادریس نے اکثر مقامات پر خبر واحد سے استناد نہیں کیا[36] اور اسے یقین آور نہیں سمجھا ہے۔[37] لیکن اس کے باوجود ان کے آثار استناد کے ہمراہ احادیث سے مملو ہیں۔[38] کیونکہ ابن ادریس کے نزدیک اخبار متواتر کے علاوہ اگر خبر واحد دیگر ادلہ مثلا کتاب،سنت اور اجماع کی تائید کے ہمراہ ہوں تو اس سے استناد کو جائز سمجھتے ہیں۔[39]

ابن ادریس کی طرف سے ظواہر قرآن و سنت، اتفاق فقہا اور اصول عملیہ پر توجہ کرنا انکار حجیت خبر واحد کے نتائج میں سے ہے۔[40]

منتجب الدین رازی[41] کے مطابق ابن ادریس کے معاصرین میں سے شیخ سدید الدین محمود حِمِّصی معتقد تھا کہ ابن ادریس خلط سے دوچار رہتا تھا لہذا اس کی تصانیف قابل اعتبار نہیں ہیں۔

اس رائے کو کسی حد تک بعض محققین درست سمجھتے ہیں کیونکہ مثلا ابن ادریس مُستَطْرَفات سرائر میں اَبان بن تَغْلِب سے ایسے شخص سے روایت نقل کرتے ہیں جو ابان سے دو واسطے متاخر تھے،[42] یا سیاری (احمد بن محمد بن سیار) کو اصحاب امام کاظم اور امام رضا (ع) میں ذکر کیا ہے[43]، حالانکہ وہ اصحاب امام علی نقی (ع) اور امام حسن عسکری (ع) میں سے تھے۔ لیکن اس کے باوجود کہتے ہیں کہ ان کے آثار قابل اعتبار ہیں کیونکہ جن موارد میں خلاف ثابت ہو جائے ان کے علاوہ بزرگ علما کی تالیفات پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔[44]

وفات

بعض مؤلفین کے نزدیک ابن ادریس تقریباً 597 ھ میں[45] جبکہ ان کے بیٹے صالح[46] کے مطابق تقریباً 598 ھ میں فوت ہوئے۔ اس بنا پر وفات کے وقت ان کی عمر ۲۵ یا ۳۵ سال نہیں تھی جیسا کہ بعض مصادر میں آیا ہے۔[47] بعض محققین کے بقول تصحیف کی وجہ سے لفظ تسعین سبعین میں تبدیل ہوا ہے۔[48] یہ مطلب خود سال تألیف سرائر کے متعلق ابن ادریس کے بقول [49] اور نیز اسکے شاگرد فخار کی تصریح کے مطابق نہیں ہے کہ جس نے ۵۹۳ میں اس سے حدیث نقل کی ہے، کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ ابن ادریس حلّہ میں فوت ہوئے۔ ان کی قبر حلہ کے «جامعین» نامی محلہ میں موجود ہے اور ۱۳۴۰ شمسی میں اسکی مرمت کی گئی۔[50]

آثار

سرائر

حلہ میں ابن ادریس کی قبر

ابن ادریس کی کتاب السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، معروف بنام السرائر[51] اہم ترین اور مؤثر ترین کتاب ہے جو تمام ابواب فقہ (عبادات، عقود، ایقاعات و احکام) پر مشتمل ہے کہ جسے ۵۸۷ اور ۵۸۸ میں تالیف کیا۔ ابواب اور فصول کے لحاظ سے یہ کتاب ابن ادریس کے دور حیات تک ایک جامع ترین کتاب کی حیثیت سے لکھی گئی۔[52]

اس کتاب کے آخر میں ایک فصل مُستَطرَفات السرائر کے نام سے ہے جس میں اضافی مطالب بیان ہوئے ہیں اور اس میں متقدمین کی کتب سے جالب احادیث منتخب کرکے ذکر کی گئیں ہیں۔ ان میں نادر اور ایسی احادیث بھی ہی جو صرف اس کتاب میں ذکر ہوئی ہیں۔[53] نیز مستطرفات کے مصادر کیلئے رجوع کریں:[54] مستطرفات السرائر جو ۱۴۰۸ قم ایران سے علیحدہ کتابی صورت طبع ہوئی ہے۔

ابن‌ ادریس حلّی[55] نے اس سرائر کے لکھنے کا ہدف مستند دلائل، صحیح براہین، دوسروں کی تقلید سے دوری اور اخبار احاد سے گریز ذکر کیا ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اپنی آرا کے بیان کے ساتھ ساتھ اپنے معاصرین کی آرا بھی ذکر کیں اور بعض اوقات انہیں رد بھی کیا[56]

ہر چند ابن ادریس نے سرائر میں اکثر فقہا کے اقوال نقل کئے اور کبھی انہیں رد بھی کیا لیکن عمدہ حصہ شیخ‌ طوسی کی فقہی آرا پر بحث و تنقید اور کبھی اصولی آرا کے ذکر پر مشتمل ہے جس میں مستندات کے ساتھ انہیں ذکر کیا اور کہیں کہیں انہیں قبول کیا[57] اور دیگر آرا کو قبول نہیں کیا[58] لہذا اس بنا پر اس اثر کو آرائے شیخ طوسی کے نقد کی کتاب شمار کیا جائے۔[59]

دیگر آثار

دیگر آثار درج ذیل ہیں:

  1. خلاصۃ الاستدلال فی المُواسَعَۃ و المُضایقَۃ[60]
  2. المختصر فی المضایقۃ کہ ابن ادریس کے شاگرد جعفر بن احمد قمرویہ حائری، نے اس کے نسخے کی ۵۸۸ ھ میں کی۔[61]اگرچہ بعض فقہی مصادر میں ابن ادریس کی آرا اس کے حوالے سے منقول ہیں[62] لیکن اس کتاب کا نسخہ دسترس میں نہیں ہے۔
  3. رسالۃ فی معنی الناصب کہ محقق کرکی نے اسے ابن ادریس سے منسوب کیا ہے۔[63]
  4. المسائل کہ جس میں بعض فقہی مسائل کا جواب دیا گیا اور جعفر بن احمد قمرویہ حائری نے اسے ۵۸۸ ھ میں ابن ادریس کے املا کروانے پر لکھا۔[64]
  5. مناسک الحج[65]

حوالہ جات

  1. ابن‌ فُوَطی، ج۴، قسم۳، ص۳۰۸؛ قمی، ۱۳۲۷ش، ج۱، ص۳۸۵؛ امین، ج۹، ص۱۲۰.
  2. سمعانی، ج۴، ص۱۶۰.
  3. مامقانی، جزء۲، بخش۲، ص۷۷؛ امین، ج۳، ص۱۳۸.
  4. مجلسی، بحار الانوار، ج۱۰۴، ص۱۹.
  5. محمد بن اسماعیل مازندرانی حائری، منتہی‌ المقال فی احوال الرجال، ج۵، ص۳۴۸.
  6. افندی‌ اصفہانی، ۱۴۰۱، ج۵، ص۳۵.
  7. حرّ عاملی، قسم ۲، ص ۲۴۳؛ بحرانی، ص ۲۳۷، ۲۷۸؛ خوانساری، ج ۶، ص ۲۷۴.
  8. نوری، ج ۳، ص ۴۳-۴۵؛ قمی، ۱۳۲۷ش، ج ۱، ص ۳۸۶.
  9. علی بن عبداللّہ علیاری تبریزی، بہجۃ‌ الآمال فی شرح زبدۃ‌المقال، ج۶، ص۲۷۱.
  10. حرّ عاملی، قسم ۲، ص۸۰، ۱۰۶؛ ذہبی، ۱۴۰۱-۱۴۰۹، ج۲۰، ص ۱۷۵، ج ۲۱، ص ۳۳۲؛ مجلسی، ج ۱۰۶، ص ۶۹
  11. افندی‌ اصفہانی، ۱۴۰۱، ج ۵، ص ۳۲؛ افندی‌ اصفہانی، ۱۴۱۰، ص ۲۴۵
  12. بحرانی، ص۲۷۹؛ خوانساری، ج ۶، ص۲۷۷.
  13. حرّعاملی، قسم۲، ص۲۱۰؛ حسینی اشکوری، ج۱، ص۳۹۱
  14. حسینی‌اشکوری، ج۲، ص۸۵۷؛ قمی، ۱۳۶۳ش، ص ۲۷۲؛ افندی اصفہانی، ۱۴۰۱، ج ۱، ص ۳۵۱.
  15. ابن‌ طاووس، ص۱۸۵؛ شہید ثانی، ص۹۳؛ شوشتری، ج۹، ص۹۴؛ محمد باقر صدر، ص۴۳.
  16. حسینی‌ عاملی، ج۱، ص۵۱۴، ج۹، ص۹، ج۱۰، ص۵۷، ۱۷۷، ۳۳۶؛ نجفی، ج۱۳، ص۷۷-۷۸.
  17. شہید اول، ج۱، ص۴۲۰، ۳۱۵، ج۲، ص۱۴۴، ۲۰۶، ج۳، ص۲۳۲، ۲۳۷؛ حسینی‌ عاملی، ج۶، ص۱۵۳؛ نجفی، ج۲۵، ص۳۲۱.
  18. ذہبی، ۱۴۱۷، حوادث و وفیات ۵۹۱-۶۰۰ہ، ص ۳۱۴؛ ابن‌ حجر عسقلانی، ج۵، ص۶۹۳؛ بحرانی، ص۲۷۶؛ قمی، ۱۳۵۲-۱۳۵۵، ج۱، ص۴۴۴.
  19. ابن‌ادریس حلّی، ۱۴۱۰-۱۴۱۱، ج۲، ص۶۷۸.
  20. مامقانی، جزء۲، بخش۲، ص۷۷؛ مازندرانی‌ حائری، ج۵، ص۳۴۷.
  21. خویی، ج۱۵، ص۶۴۶۵.
  22. بحر العلوم، ج۳، ص۲۲۹.
  23. مہدوی‌ راد، ص۲۴.
  24. ر ک: ابن ادریس حلّی، ۱۴۱۰-۱۴۱۱، ج۱، ص۱۱۴، ج۲، ص۵۴، ۳۶۳، ج۳، ص۴۳۰.
  25. محقق حلی، ج۱، ص۳۵۱، ۳۴۲، ج۲، ص۷۰۲.
  26. خوانساری ج۶، ص۲۷۷.
  27. برای نمونہ رجوع کنید بہ محقق حلی، ۱۴۱۲-۱۴۲۰، ج۸، ص۱۵۳، ۱۶۸-۱۶۹، ۱۷۰، ج۹، ص۷۶، ۲۹۹-۳۰۰.
  28. ابن داوود ص۲۶۹.
  29. بحرانی، ص۲۷۹.
  30. ابن‌ادریس حلّی، ۱۴۱۰-۱۴۱۱، ج۱، ص۴۷.
  31. ج۱، ص۵۰۵۱.
  32. (ذیل إسراء: ۳۶).
  33. (ذیل حجرات: ۶)
  34. ص۳۲۹.
  35. مازندرانی‌ حائری، ج۵، ص۳۴۶؛ تفرشی، ج۴، ص۱۳۲؛ بناری، ص۲۶۳.
  36. ر ک: ۱۴۱۰-۱۴۱۱، ج۱، ص۱۲۷، ۴۹۵.
  37. ہمان، ج۱، ص۱۲۷، ۳۳۰.
  38. خویی، ج۱۵، ص۶۴.
  39. برای نمونہ رجوع کنید بہ ۱۴۱۰-۱۴۱۱، ج۱، ص۳۴۲، ج۲، ص۳۷۵، ج۳، ص۷۸، ۳۷۵.
  40. بناری، ص۲۷۳-۲۷۵.
  41. منتجب‌ الدین، ص۱۱۳.
  42. ابن ادریس، ج۳، ص۵۶۳.
  43. ابن ادریس، ج۳، ص۵۶۸.
  44. خویی، ج۱۵، ص۶۳؛ شوشتری، ج۴، ص۳۸۱، ج۹، ص۹۳.
  45. منتجب‌ الدین رازی، ص۳۹۸؛ ابن‌ حجر عسقلانی، ج۵، ص۶۹۳.
  46. آقا بزرگ طہرانی، ۱۴۰۳، ج۱۲، ص۱۵۵.
  47. مازندرانی‌ حائری، ج۵، ص۳۴۸؛ مجلسی، ج۱۰۴، ص۱۹.
  48. نوری، ج۳، ص۴۲؛ مجلسی، ج صفر، مقدمہ عبد الرحیم ربانی شیرازی، ص۱۹۸.
  49. (۱۴۱۰-۱۴۱۱، ج۱، ص۵۷۷، ج۳، ص۲۵۸.
  50. بحرانی، ص ۲۷۷-۲۷۸.
  51. صفدی، ج۲، ص۱۸۳.
  52. بناری، ص۱۳۵، ۳۱۸.
  53. مجلسی، ج۱، ص۱۶.
  54. بناری، ص۹۴-۹۵.
  55. ج۱، ص ۵۱.
  56. محمد باقر صدر، ص۴۲؛ برای مناظرہ ابن ادریس با حمصی و ابن‌ زہرہ رجوع کریں: ابن ادریس حلّی، ۱۴۱۰-۱۴۱۱، ج۲، ص۱۹۰-۱۹۱، ۴۴۳.
  57. مثلا رجوع کریں: ج۱، ص۳۲۳، ۳۳۴-۳۳۵.
  58. مثلا رجوع کریں: ج۱، ص۶۶، ۱۰۰، ۲۲۶.
  59. نیز رجوع کریں ج۱، ص۴۶۰، ج۲، ص۲۵۲، ۵۲۳، ۵۶۳.
  60. ابن‌ادریس حلّی، ۱۴۱۰-۱۴۱۱، ج۱، ص۲۷۳؛ آقا بزرگ طہرانی، ۱۴۰۳، ج۷، ص۲۱۱.
  61. آقا بزرگ طہرانی، ۱۴۰۳، ج۲۰، ص ۱۷۵.
  62. حسینی عاملی، ج ۹، ص ۶۲۶، ۶۳۲؛ نجفی، ج۱۳، ص۷۷-۷۸؛ انصاری، ج۱، ص۳۳۷.
  63. افندی‌ اصفہانی، ۱۴۰۱، ج۵، ص۳۳.
  64. بحرانی، ص۲۷۹-۲۸۰؛ آقا بزرگ طہرانی، ۱۴۰۳، ج۲۰، ص۳۳۰-۳۳۱.
  65. ذہبی، ۱۴۰۱-۱۴۰۹، ج۲۱، ص۳۳۲.

مآخذ

  • محمد محسن آقا بزرگ طہرانی، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، چاپ علی‌ نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء.
  • محمد محسن آقا بزرگ طہرانی، طبقات اعلام الشیعۃ: الثقات العیون فی سادس القرون، چاپ علی‌ نقی منزوی، بیروت ۱۳۹۲ق/۱۹۷۲ء.
  • ابن‌ ادریس حلّی، حاشیۃ ابن ادریس علی‌الصحیفۃ السجادیۃ، چاپ حسن موسوی خرسان، قم، ۱۳۸۷ش.
  • ابن‌ ادریس حلّی، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، ۱۴۱۰-۱۴۱۱ق.
  • ابن‌ حجر عسقلانی، لسان‌المیزان، چاپ محمد عبد الرحمان مرعشلی، بیروت ۱۴۱۵-۱۴۱۷ق/ ۱۹۹۵-۱۹۹۶ء.
  • ابن‌ داوود حلّی، کتاب الرجال، چاپ محمد صادق آل بحر العلوم، نجف ۱۳۹۲ق/۱۹۷۲م، چاپ افست قم (بی‌ تا.).
  • ابن‌ زہرہ، غنیۃ‌النزوع الی علمی الاصول و الفروع، چاپ ابراہیم بہادری، قم، ۱۴۱۷ق.
  • ابن‌ شہر آشوب، متشابہ القرآن و مختلفہ، تہران ۱۳۲۸ش، چاپ افست قم، ۱۴۱۰ق.
  • ابن‌ طاووس، کشف المَحَجَّۃ لثمرۃ‌المُہْجَۃ، چاپ محمد حسون، قم، ۱۳۷۵ش.
  • ابن‌ فُوَطی، تلخیص مجمع‌الآداب فی معجم الالقاب، ج ۴، قسم ۳، چاپ مصطفی جواد، (دمشق ۱۹۶۵ء).
  • عبداللّہ‌ بن عیسی افندی اصفہانی، تعلیقۃ امل‌ الآمل، چاپ احمد حسینی، قم ۱۴۱۰؛ہمو، ریاض‌ العلماء و حیاض الفضلاء، چاپ احمد حسینی، قم، ۱۴۰۱ق.
  • مرتضی‌ بن محمد امین انصاری، فرائدالاصول، قم، ۱۴۲۷ق.
  • محمدمہدی‌ بن مرتضی بحر العلوم، رجال السید بحر العلوم، المعروف بالفوائد الرجالیۃ، چاپ محمد صادق بحر العلوم و حسین بحر العلوم، تہران، ۱۳۶۳ش.
  • یوسف‌ بن احمد بحرانی، لؤلؤۃ‌ البحرین، چاپ محمد صادق بحر العلوم، قم (بی‌تا.).
  • علی‌ ہمت بناری، زندگی و اندیشہ‌ہای ابن ادریس، قم ۱۳۸۱ش.
  • مصطفی‌ بن حسین تفرشی، نقدالرجال، قم ۱۴۱۸ق.
  • محمد بن حسن حرّ عاملی، امل‌الآمل، چاپ احمد حسینی، بغداد ?( ۱۳۸۵)، چاپ افست قم، ۱۳۶۲ش.
  • احمد حسینی‌ اشکوری، تراجم الرجال، قم، ۱۴۱۴ق.
  • محمد جواد بن محمد حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ فی شرح قواعد العلامۃ، چاپ محمد باقر خالصی، قم، ۱۴۱۹-۱۴۲۳ق.
  • محمد بن احمد ذہبی، تاریخ‌الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، چاپ عمر عبد السلام تدمری، حوادث و وفیات ۵۹۱-۶۰۰ہ، بیروت، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.
  • محمد بن احمد ذہبی، سیراعلام‌ النبلاء، چاپ شعیب ارنؤوط و دیگران، بیروت، ۱۴۰۱-۱۴۰۹ق/ ۱۹۸۱ـ ۱۹۸۸ء.
  • حمد بن مکی شہید اول، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ، قم، ۱۴۱۲-۱۴۱۴ق.
  • زین‌الدین‌ بن علی شہید ثانی، الرعایۃ فی علم الدرایۃ، چاپ عبد الحسین محمد علی بقال، قم، ۱۴۰۸ق.
  • حسن صدر، تأسیس الشیعۃ لعلوم الاسلام، (بغداد ۱۳۷۰)، چاپ افست تہران (بی‌ تا.).
  • محمد باقر صدر، «پیدایش و تطور علم اصول»، حوزہ، ش۹، (فروردین ۱۳۶۴).
  • حسن‌ بن یوسف علامہ حلّی، تحریر الاحکام الشرعیۃ علی مذہب الامامیۃ، چاپ ابراہیم بہادری، قم ۱۴۲۰-۱۴۲۲ق.
  • حسن‌ بن یوسف علامہ حلّی، مختلف الشیعۃ فی احکام الشریعۃ، قم، ۱۴۱۲-۱۴۲۰ق.
  • علی‌ بن حسین علم‌ الہدی، رسائل‌ الشریف المرتضی، چاپ مہدی رجائی، قم، ۱۴۰۵-۱۴۱۰ق.
  • علی‌ بن عبداللّہ علیاری تبریزی، بہجۃ‌ الآمال فی شرح زبدۃ‌المقال، ج ۶، چاپ جعفر حائری، تہران، ۱۳۶۶ش.
  • عباس قمی، سفینۃ البحار و مدینۃ الحکم و الآثار، چاپ سنگی نجف ۱۳۵۲-۱۳۵۵ق، چاپ افست بیروت (بی‌تا.).
  • عباس قمی، فوائدالرضویۃ: زندگانی علمای مذہب شیعہ، تہران ?( ۱۳۲۷ش).
  • عباس قمی، ہدیۃ‌ الاحباب فی ذکر المعروف بالکنی و الالقاب و الانساب، تہران، ۱۳۶۳ش.
  • اعجاز حسین‌ بن محمد قلی کنتوری، کشف‌الحجب و الاستار عن اسماءالکتب و الاسفار، قم، ۱۴۰۹ق.
  • محمد بن اسماعیل مازندرانی حائری، منتہی‌المقال فی احوال الرجال، قم ۱۴۱۶ق.
  • عبداللّہ مامقانی، تنقیح المقال فی علم الرجال، چاپ سنگی نجف ۱۳۴۹-۱۳۵۲ق.
  • جعفر بن حسن محقق حلّی، المعتبر فی شرح المختصر، ج۱ و ۲، قم، ۱۳۶۴ش.
  • خان بابا مشار، مؤلّفین کتب چاپی فارسی و عربی، تہران، ۱۳۴۰-۱۳۴۴ش.
  • علی‌ بن عبیداللّہ منتجب‌ الدین رازی، الفہرست، چاپ جلال‌ الدین محدث ارموی، قم، ۱۳۶۶ش؛
  • محمد علی مہدوی‌ راد، «تطور فقہ شیعہ و جایگاہ سرائر در آن»، آینہ پژوہش، سال۱، ش ۴، (آذر و دی ۱۳۶۹ش).
  • محمد حسن‌ بن باقر نجفی، جواہرالکلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، ۱۹۸۱م.
  • حسین‌ بن محمد تقی نوری، خاتمۃ مستدرک الوسائل، قم، ۱۴۱۵-۱۴۲۰ق.
  • علی رضا ہدائی، «ابن‌ادریس حلّی و کتاب السرائر»، مقالات و بررسی‌ہا، دفتر ۵۹-۶۰، (زمستان ۱۳۷۵ش).