ابن داود حلی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | حسن بن علی بن داود حلی |
لقب/کنیت | تقی الدین۔ ابو محمد |
تاریخ ولادت | 5 جمادی الثانی 647 ھ |
آبائی شہر | حلہ |
تاریخ وفات | سن 707 ھ کے بعد |
علمی معلومات | |
اساتذہ | محقق حلی، احمد بن طاووس، عبد الکریم حلی، ابن جہیم۔ |
شاگرد | یحیی بن سعید حلی، خواجہ نصیر الدین طوسی، یوسف بن مطہر حلی۔ |
تالیفات | رجال، اُرجوزَة فی الکلام، عقدالجواہر، المنہج القویم۔ |
خدمات |
ابو محمد تقی الدین حسن بن علی بن داود حلی (647- بعد از 707 ھ) ، ابن داود حلی کے نام سے معروف، ساتویں صدی ہجری کے شیعہ امامیہ ماہر رجال، عالم، فقیہ، ادیب اور شاعر ہیں۔ وہ علامہ حلی کے معاصر ہیں اور ان کی مشہور ترین کتاب الرجال ہے۔ ان کے برجستہ اساتید میں محقق حلی، سید جمال الدین احمد بن طاووس، سید عبد الکریم بن سید احمد بن طاووس قابل ذکر ہیں۔
سوانح حیات
ابن داود حلی کی ولادت 5 جمادی الثانی 647 ھ میں ہوئی۔[1]
سیرت کی کتابوں میں ان کے محل ولادت کا تذکرہ نہیں ہوا ہے۔ لیکن چونکہ انہوں نے حلہ کے مشہور اساتید سے کسب فیض کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے احتمالا اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ شہر حلہ میں بسر کیا اور اسی شہر میں ان کی نشو و نما ہوئی اور اس بات کے قرینہ سے کہ انہوں نے اپنے استاد ابن طاووس سے بغداد میں کسب علم کیا اور دوسرے مقام پر ان کے سخن کے مطابق: وہ ان کی رحلت تک ان کے ساتھ رہے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ گویا کچھ عرصہ بغداد میں بھی تھے۔ اسی طرح سے عقد الجواہر کے فخریہ اشعار کے مطابق وہ ذی القعدہ 700 ھ میں کاظمین میں تھے اور نیز مثنوی منہج التقویم میں مقام فخر میں نجف میں ان کے ساتھ مجاورت و معاشرت کا ذکر ہوا ہے۔[2]
ان کی وفات سن 707 ھ کے بعد نقل ہوئی ہے۔[3]
اساتید و مشایخ
ابن داود حلی نے اجازات و معاجم میں سلطان العلماء و البلغاء اور تاج المحدثین و الفقہاء کی شہرت حاصل کی ہے۔[4] شہید ثانی کا قول ان کے بارے میں نقل ہوا ہے: ابن داود نے علم رجال میں جو راستہ طے کیا ہے، بزرگان شیعہ میں سے کسی نے بھی وہ طے نہیں کیا ہے۔[5]
ان کے اساتید و مشایخ میں مندرجہ ذیل نام لئے جا سکتے ہیں:
- نجم الدین جعفر بن سعید بن حلی، معروف بہ محقق حلی، شرائع الاسلام کے مولف۔
- سید جمال الدین احمد بن طاووس۔
- سید عبد الکریم بن سید احمد بن طاووس۔
- شیخ مفید الدین محمد بن علی بن محمد بن جہیم اسدی۔[6]
تلامذہ و روات
- رضی الدین ابو الحسن علی بن احمد بن یحیی مزیدی حلی۔
- زین الدین علی بن احمد بن طراد مطار آبادی۔
- تاج الدین محمد بن قاصم بن مُعَیہ۔
- نجیب الدین یحیی بن سعید حلی۔
- خواجہ نصیر الدین طوسی۔
- یوسف بن مطہر حلی پدر علامہ حلی۔[7]
تالیفات
مطبوعہ آثار
1. کتاب الرجال؛ ان کی مشہور ترین کتاب ہے جو رجال ابن داود کے نام سے شہرت رکھتی ہے۔
2. اُرجوزَہ فی الکلام؛ خوبصورت منظوم کلام ہے جس میں شیعہ عقاید کو مختصر الفاظ میں 145 ابیات میں بیان کیا گیا ہے۔
3. عقد الجواہر فی الاشباه و النظائر؛ مطبوعہ نسخہ میں اس کتاب کا نام جواہر الکلام فی الاشباه و النظائر رکھا گیا ہے۔ اس مجموعہ شعری میں 1309 اشعار ہیں جنہیں 10 ذی القعدہ 700 ہجری میں کاظمین میں نظم کیا گیا ہے۔
4. المنہج القویم فی تسلیم التقدیم؛ اشعار کا مجموعہ ہے جس میں 201 اشعار ہیں۔ اس میں پیغمبر اکرم (ص) کے بعد ان کے لائق ترین جانشین کے سلسلہ میں ہونے والی بحثوں کی داستان ہے جو شہر بغداد میں مختلف مذاہب کے علماء کی بزم میں انجام پائیں۔
مخطوطات
1. التحفہ السعدیہ؛ اس کتاب کا ایک نسخہ بغداد کے میوزیم کتب خانہ میں موجود ہے۔
2. تحصیل المنافع: اس کا ایک نسخہ کتب خانہ سید محمدعلی روضاتی اصفہان میں موجود ہے۔
3. الجوہرة فی نظم التبصرة؛ اس کے دو نسخے کتب خانہ آیت الله مرعشی نجفی میں موجود ہیں۔
4. المقتصر من المختصر؛ اس کا ایک نسخہ کتب خانہ مجلس شورای اسلامی میں موجود ہے۔
حوالہ جات
مآخذ
- ابن داود حلی، حسن، رجال ابن داود، نجف، مطبعہ الحیدریہ، ۱۳۹۲ق
- امینی، عبد الحسین، الغدیر، بیروت، دار الکتاب العربی، ۱۳۹۷ق
- حر عاملی، محمد بن حسن، امل الآمل، بغداد، مکتبہ الاندلس
- دایره المعارف بزرگ اسلامی، مرکز دایره المعارف بزرگ اسلامی، تہران، ۱۳۶۹ش