سید شہاب الدین مرعشی نجفی

ویکی شیعہ سے
(آیت اللہ مرعشی سے رجوع مکرر)
سید شہاب الدین مرعشی نجفی
آیت اللہ مرعشی نجفی
سید شہاب الدین بن سید محمود مرعشی
کوائف
لقب/کنیتمرعشی
نسبسادات مرعشی
تاریخ ولادت20 صفر 1315 ھ۔
تاریخ وفات7 صفر 1411 ھ۔
مدفنکتاب خانہ آیت اللہ مرعشی نجفی قم۔
نامور اقرباءشمس اشرف بیگم • سید محمود مرعشی • عباس علی عمید زنجانی • علی فاضل لنکرانی • سید عباس موسوی حرمی •
علمی معلومات
مادر علمینجفریمشہد • اصفہان • قم
اساتذہعلی اکبر حکمی • آقا ضیاء عراقی • شیخ عبد الکریم حائری • میرزا مہدی آشتیانی • سید علی قاضی • محمد جواد بلاغی • محمد حسین تهرانی • میرزا جواد ملکی تبریزی • سید احمد کربلایی و ....
شاگردسید مصطفی خمینیمرتضی مطہری • محمد مفتح • سید محمد حسینی بہشتی • محمد صدوقی • سید محمد علی قاضی • سید محمود طالقانی • حسین نوری ہمدانی • امام موسی صدر • سید مرتضی عسکری و ...
تالیفات150 سے زیادہ کتاب و رسالے۔
خدمات
سیاسیامام خمینی کی حمایت • کیپچولائزیشن پر رد عمل • انقلاب اسلامی ایران کی حمایت •
سماجیمرجع تقلید، مختلف مذاہب اسلامی کے علماء کے ساتھ مکاتبات و مناظرات، حرم حضرت معصومہ (ع) میں 60 سال تک اقامہ نماز جماعت، تأسیس کتبخانہ • تأسیس مدارس مرعشیہ، شہابیہ، مہدیہ و مؤمنیہ • تاسیس مراکز عام المنفعہ جیسے مسجد، امام بارگاہ، اسپتال و ... (ایران و دیگر اسلامی ممالک) • بازسازی و تعمیر مرقد علامہ محمد باقر مجلسی • قم میں طلاب کے لئے رہائشی مکانات کی تعمیر •


سید شہاب الدین مرعشی نجفی، آیت اللہ بروجردی کے بعد شیعہ مراجع تقلید میں سے ہیں۔ وہ 27 سال کی عمر میں درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ مرعشی شیخ عبد الکریم حائری اور آقا ضیاء الدین عراقی کے شاگردوں میں سے تھے اور سیدعلی قاضی، سید احمد کربلائی اور میرزا جواد ملکی تبریزی سے فیض حاصل کیا۔ سیاسی فکر کے لحاظ سے امام خمینی کے حامی تھے اور یہی فکر ان کے نمایاں ترین شاگردوں میں دکھائی دیتی ہے۔

مرعشی نجفی نے ایک کتب خانے کی بنیاد رکھی جو آج کتب کی تعداد اور قدیم اسلامی کتب کے قلمی نسخوں کے لحاظ سے، ایران کا پہلا بڑا اور دنیائے اسلام کا تیسری بڑی لائبریری سمجھی جاتی ہے۔ وہ کبھی بھی سفر حج کے لئے مستطیع نہیں ہوئے۔ انھوں نے مرعشیہ، شہابیہ، مہدیہ اور مؤمنیہ نامی مدارس کی بنیاد رکھی۔

ان کی اہم ترین تالیفات میں تعلیقات احقاق الحق، مشجرات آل الرسول، طبقات النسابین اور حاشیہ بر عمدۃ الطالب شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی کتابیں لکھنے کے لئے بعض ممالک کے دورے کئے اور مختلف ادیان و مذاہب کے علماء کے ساتھ مباحثے کئے۔ آیت اللہ مرعشی کو ان کی وصیت کے مطابق قم کے خیابان ارم میں ان کے کتاب خانے میں سپرد خاک کیا گیا۔

سوانح حیات

خاندان

آیت اللہ مرعشی کا نسب 33 واسطوں سے امام زین العابدین علیہ السلام تک جا پہنچتا ہے۔ مرعشی سادات حسینی ہیں اور ان کے جد اعلی کا نام سید علی مرعشی ہے جو شام اور ترکی کی سرحدوں کے قریب واقع شہر مرعش میں رہتے تھے؛ یہ شہر ترکی میں واقع ہوا ہے۔ انھوں نے تیسری صدی ہجری میں ایران کی طرف ہجرت کی اور بظاہر مازندران میں شادی کی۔ ایران کے مرعشیوں کا مرکز طبرستان تھا اور شمالی خطے کے عوام کا تشیع کی طرف رجحان اس خاندان کی زحمتوں کے مرہوں منت ہے۔

آیت اللہ مرعشی کے پندرہویں جد امجد، سید قوام الدین المعروف بہ میر بزرگ ایک حکیم (فلسفی) اور فرمانروا تھے جو ساتویں صدی ہجری میں شہر آمل میں حکومت کرتے تھے اور اس وقت ان کا مزار اور صحن و سرا آمل کے سبزہ میدان میں واقع ہے۔ صفویہ کے دور کے بعد سے مرعشیوں کو ایک بار پھر فعال ہوئے اور اس خاندان کے حکام کے ساتھ رشتے کئے۔ شاہ عباس اول کی والدہ اسی خاندان کی ایک خاتون تھیں۔

سید الحکما شرف الدین مرعشی (متوفی سنہ 1316ہجری قمری) آیت اللہ مرعشی کے دادا ہیں۔ ان کی عمر 114 برس تھی اور 80 سال تک طبابت کی۔ کیمیاوی اصولوں سے مصنوعی دانت اور شہد کی مکھی کی ساخت کے بارے میں ان کو عجیب تخلیقی افکار و اقدامات کی نسبت دی گئی ہے۔[1]

ان کی دادی المعروف بہ شمس الشرف خانم تبریز کے طباطبائی سادات اور اپنے زمانے کی باکمال خواتین میں شمار ہوتی تھیں۔ امیر عبدالغفار طباطبائی، ان کے فرزند آق قویونلو سلسلۂ حکومت کے قاضی القضات عبدالوہاب اور صفوی دور کی نمایاں شخصیات اور دیگر مشہور افراد کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔

آپ کے والد سید محمود مرعشی (ولادت 1270 ہجری قمری)، نے ایک بار سنہ 1311 ہجری قمری یے دوران تہران میں علویہ فاطمہ سبزواری بنت سید حسین حسینی کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے جن سے وہ "علی" نامی فرزند کے باپ بنے لیکن یہ رشتہ جاری نہ رہ سکا اور دوسری مرتبہ سنہ 1314 ہجری قمری میں آیت اللہ سید مہدی حسینی کی پوتی علویہ صاحبہ خانم کے ساتھ شادی کی۔ اس پیوند کے نتیجے میں انہیں خداوند متعال نے چار فرزند عطا کئے: شہاب الدین، ضیاء الدین، فاطمہ اور مرضیہ۔[2]

پیدائش

سید شہاب الدین، پنج شنبہ 20 صفر سنہ 1315ہجری قمری سید شهاب الدین، در بین الطلوعین پنج شنبه 20 صفر 1315 ہجری قمری (بمطابق سنہ 1276ہجری شمسی) کو نجف میں پیدا ہوئے۔ تمام علماء نے ان کے کانوں میں اذان و اقامت پڑھتے وقت ان کے لئے ایک نام منتخب کیا تھا؛ محدث نوری نے محمد حسین، میرزا حسین بن میرزا خلیل نے لقب "آقا نجفی" سید مرتضی کشمیری نے کنیت "ابوالمعالی" اور سید اسمعیل صدر نے لقب "شہاب الدین" کو ان کے لئے پسند کیا تھا۔[3]

تعلیم و تربیت

آیت اللہ مرعشی کی نوجوانی

سید شہاب الدین شیرخوار تھے تو ان کی والدہ ماہواری عادت کے وقت انہیں دودھ دینے سے اجتناب کرتی تھیں اور ان ایام کے لئے انھوں نے ایک علویہ کو اجرت پر رکھا تھا۔ سب سے پہلا جملہ جو انھوں نے سیکھا وہ هو الفتاح العلیم تھا جو انہیں شیخ علی رُفَیش نجفی نے سکھایا۔ انھیں اپنے والد نے حرم امیرالمؤمنین میں اہل علم کا لباس پہنایا اور اپنی دادی "شمس اشرف بیگم" سے قرآن مجید، مغنی اللبیب تک عربی ادب سیکھا۔[4]

انھوں نے بعض علوم کے مقدمات اپنے والد سے سیکھے۔ بعد ازاں، والد نے انہیں ریاضیات، ہندسہ (Geometery)، جغرافیہ اور دوسرے مضامین سیکھنے کے لئے جدید مدارس میں داخل کیا۔ شہاب الدین 5 سال کے بعد اس زمانے کی اعلی سند رتبہ اول حاصل کرکے حاصل کیا۔ بعد ازاں بعض جدید علوم کو خصوصی اساتذہ سے حاصل کیا اور علم طب کے مشتاق ہوئے اور علم طب کی بعض کتب اپنے والد کے پاس اور بعض دوسری کتب میرزا محمد علی المعروف بہ مؤید الاطباء کے پاس پڑھ لیں۔ 16 سال کی عمر میں تفسیر قرآن کی طرف مائل ہوئے اور علوم دینیہ کے حصول کا اہتمام کیا۔[5] وہ نجف میں مختلف علوم حاصل کرنے کے بعد ایران آئے اور ری، مشہد، اصفہان اور قم میں یہاں کے اساتذہ سے فیض حاصل کیا اور ان کی کوششیں 27 سال کی عمر میں بارآور ثابت ہوئیں۔ وہ آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد سطح اول کے مراجع تقلید میں شمار ہوئے اور ان کا پہلا رسالہ عملیہ سنہ 1366 ہجری قمری میں شائع ہوا۔[6]

سفر اور مناظرے

وہ سنہ 1326 ہجری قمری میں 21 سال کی عمر میں سامرا گئے اور تقریبا تین سال تک وہیں مقیم رہے اور وہاں شیخ عبد السلام کردستانی اور شیخ نور الدین شافعی ملاقات اور بحث کی۔ سنہ 1340 ہجری قمری میں کاظمین اور بغداد کے سفر پر گئے اور سید ابراہیم رفاعی بغدادی سے ملاقات کی نیز کربلا گئے اور شیخ عبد الہادی مازندرانی سے بالمشافہ [اجتہاد و نقل حدیث کی] اجازت حاصل کی اور حاج میرزا موسی اسکوئی تبریزی، میرزا محمد ثقۃ الاسلام تبریزی اور اس کے بھائی سے ـ جو شیخیہ کے سربراہان تھے ـ ملے اور مناظرے کئے۔[7]

انھوں نے عراق کے مختلف شہروں منجملہ حلہ، موصل، العمارہ، کوت، بصرہ، کوفہ، مسیب، دجیل، زبیر وغیرہ کے دورے کئے۔ شہاب الدین کے سفر پر گئے تو بمبئی میں بدھ مت کے مشاہیر سے ملاقاتیں کیں۔[8]

انھوں نے مصر کی جمعیت اخوت اسلامی کے سربراہ علامہ شیخ طنطاوی جوہری مصری کے ساتھ متعدد بار مکاتبہ کیا اور اپنی صحیفہ سجادیہ پر اپنی شرح ریاض السالکین بطور ہدیہ ان کو بھجوادی۔[9]

ایران کا سفر

آیت اللہ مرعشی 21 محرم سنہ 1342 ہجری قمری کو نجف سے ایران کی طرف ہجرت کی اور اسی سال 6 صفر کو کرمانشاہ پہنچے اور وہاں سے ہمدان، زنجان اور تبریز گئے اور اپنے اعزاء و اقارب سے ملاقاتیں کیں۔ انھوں نے کرمانشاہ میں شیخ عبدالکریم کرمانشاہی کے فرزند شیخ ہادی کرمانشاہی سے روایت کا اجازہ وصول کیا۔ ہمدان میں سید فاضل لاری کے فرزند سید عبدالحسین لاری سے ملاقات کی اور ان سے روایت کا اجازہ حاصل کیا اور ایک نایاب قلمی نسخہ ان سے خرید لیا اور بعدازاں امام رضا علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے مشہد مقدس روانہ ہوئے۔ وہ 21 جمادی الثانی سنہ 1343 ہجری قمری کو تہران گئے اور کئی مہینوں تک ری کے بزرگ اساتذہ سے استفادہ کیا۔ وہ سات شعبان المعظم سنہ 1343 میں قم آئے اور شیخ عبدالکریم حائری کی درخواست پر اسی شہر میں سکونت پذیر ہوکر تدریس میں مصروف ہوئے۔ وہ سنہ 1345 ہجری قمری میں آیت اللہ حائری کی ہدایت پر ہندوستانی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کے استقبال کو گئے اور ان سے بحث و مباحثہ کیا۔ آیت اللہ مرعشی تین مراجع تقلید سید صدر الدین صدر، سید محمد حجت کوہ کمرہ ای اور سید محمد تقی خوانساری کی وفات کے بعد مراجع تقلید میں شمار ہونے لگے، ان کے ابتدائی رسالہ ہائے عملیہ سنہ 1366 تا 1373 ہجری قمری تک شائع ہوئے۔ اور آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد آیت اللہ سید شہاب الدین مرعشی نجفی درجہ اول کے مراجع تقلید کے زمرے میں قرار پائے۔[10]

حج کے لئے عدم استطاعت

آیت اللہ مرعشی پر کبھی بھی حج واجب نہیں ہوا اور انھوں نے حج کی استطاعت نہیں پائی۔ تاجروں کی ایک جماعت نے حج کے اخراجات برداشت کرنے کا وعدہ دیتے ہوئے انہیں مکہ مکرمہ کا سفر اختیار کرنے کی دعوت دی تو انھوں نے انکار کیا۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ کے پاس شرعی اموال موجود ہیں اور آپ انہیں طلاب اور غرباء میں تقسیم کرتے ہیں اس کے باوجود یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ حج کے مستطیع نہ ہوں؟ تو انھوں نے جواب دیا: "یہ اموال میرے نہیں ہیں یہ سہم امام(ع)، سہم سادات اور روزوں کا کفارہ وغیرہ ہے اور انہیں اپنے مقام پر خرچ ہونا چاہئے۔ میں صرف اس وقت حج بجا لانے کے لئے جاؤں گا جب میری اپنی محنت سے مجھے کوئی دولت حاصل ہوگی"۔ البتہ ان کی وفات کے بعد 100 سے زائد افراد نے ان کی نیابت میں فریضۂ حج بجا لایا۔[11]

گھرانے کی تشکیل

آیت اللہ مرعشی 8 جمادی الاول سنہ 1345 ہجری قمری میں اپنے چچا کی بیٹی "گوہر تاج" سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے اور اس شادی سے ایک بیٹی کی ولادت ہوئی تاہم یہ رشتہ جاری نہ رہ سکا اور جدائی پر منتج ہوا۔ ان کی دوسری زوجہ آیت اللہ سید عباس فقیہ مبرقعی رضوی قمی (متوفی سنہ 1335 ہجری قمری) کی بیٹی تھیں۔[12]

آیت اللہ مرعشی نجفی گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہوئے

ان کی زوجہ محترمہ کا کہنا ہے: "میں نے ساٹھ سال آیت اللہ مرعشی کے ساتھ گذارے، اس عرصے میں انھوں نے کبھی بھی مجھ سے تحکم آمیز لہجے مخاطب نہیں ہوئے اور کبھی بھی تشدد آمیز رویہ نہیں اپنایا اور غصے کی حالت میں مجھ سے گفتگو نہیں کی۔ جب تک کسی کام پر قادر تھے افراد خاندان کو اپنا کوئی کام انجام دینے کی اجازت نہیں دیتے تھے، حتی جب انہیں پیاس لگتی خود اٹھ کر باورچی خانے چلے جاتے اور پانی پیتے تھے؛ وہ حتی مجھ سے پانی نہیں مانگتے تھے؛ وہ ایک طرف سے نہایت مہربان اور پر خلوص شوہر تھے اور دوسری طرف سے میرے ساتھ مخلص مونس و ہمدم کی مانند ہمدردانہ تعاون کرتے تھے اور گھر کے کاموں میں میری مدد کرتے تھے؛ بیشتر اوقات میں میرے ساتھ کھانا پکانے، سبزیاں صاف کرنے، برتنوں اور دوسرے اشیاء کی دھلائی نیز پھل دھونے میں میرا ہاتھ بٹاتے تھے۔[13]

[اولاد کے لئے] ان کا تربیتی شیوہ یہ تھا کہ ہر شب کوئی داستان، اپنی زندگی کا کوئی یادگار واقعہ یا اکابرین کی زندگی کی کوئی داستان سناتے تھے اور آخر میں ایک حدیث سنا کر انہیں سونے کے لئے تیار کردیتے تھے۔[14]

آیت اللہ مرعشی نجفی کے چار بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں؛ سید محمود (ولادت سنہ 1320 ہجری شمسی)، سید محمد کاظم (ولادت سنہ 1322 شمسی) ، سید محمد جواد (ولادت سنہ 1326 ہجری شمسی) اور سید امیرحسین، ان کے بیٹے اور عباس علی عمید زنجانی، (آیت اللہ محمد فاضل لنکرانی کے بڑے بھائی) علی فاضل لنکرانی، سید عباس موسوی حرمی اور سید خلیل میری تہرانی ان کے داماد ہیں۔[15]

اساتذہ

  • ریاضیات:
  1. عبدالکریم بوشہری المعروف بہ سعادت (متوفی سنہ 1327 ہجری قمری)
  2. عباس بن شیخ اسداللہ خلیلی معروف بہ اقدام
  3. عندلیب زادہ تہرانی
  4. آقا محمد محلاتی
  5. عبدالرحیم بادکوبہ ای (متوفی سنہ 1365 ہجری قمری)
  6. سید ابو القاسم موسوی خوانساری (متوفی سنہ 1380 ہجری قمری)
  7. محمود اہری
  8. باقر ایروانی
  9. سید ہبة الدین شہرستانی
  10. میرزا حیدرعلی نائینی (تہران میں)
  • علوم غریبہ اور عرفانی سلوک:
  1. ابو الحسن ہندی حائری (متوفی سنہ 1345 ہجری قمری)
  2. محمد حسین بن محمد خلیل شیرازی (متوفی سنہ 1339 ہجری قمری)
  3. ضیاء الدین سرابی
  4. علی اکبر حکمی یزدی
  5. محمد حرز الدّین
  • ادبیات:
  1. ان کی دادی: شمس اشرف بیگم
  2. والد: سید محمود مرعشی
  3. مرتضی طالقانی
  4. سید محمد کاظم خرم آبادی موسوی نجفی
  5. محمود حسینی مرعشی شوشتری
  • تفسیر:
  1. محمد حسین شیرازی
  2. شمس الدین شکوئی
  3. ابوالحسن مشکینی نجفی
  4. سید آقا شوشتری جزایری
  5. محمد جواد بلاغی
  6. فرج اللہ تبریزی
  • فقہ و اصول:
  1. سید آقا شوشتری، شرح لمعہ
  2. ابو الحسن مشکینی اردبیلی، کفایۃ الاصول
  3. نعمت اللہ لاریجانی، قوانین الاصول
  4. محمد حسین بن محمد خلیل شیرازی، من لایحضرہ الفقیہ
  5. شیخ احمد آل کاشف الغطاء (متوفی سنہ 1344 ہجری قمری)
  6. سید محمد رضا مرعشی رفسنجانی
  7. غلام علی قمی
  8. حبیب اللہ اشتہاردی
  9. میرزا حسن رشتی
  10. میرزا آقا اصطہباناتی
  11. سید علی طباطبائی
  12. عبد الحسین مرندی
  13. سید احمد بن محمد باقر بہبہانی حائری
  14. علی اصغر تبریزی نجفی
  15. محمد حسین بن علی شیخ العراقین
  16. شیخ علی نجفی (جو صاحب جواہر کے پوتے تھے)
  17. آقا ضیاء عراقی (متوفی سنہ 1361 ہجری قمری)، اصول کے آغاز سے بحث مطلق و مقید کی بحث تک
  18. محمد حسین تہرانی (متوفی سنہ 1340)
  19. شیخ عبدالکریم حائری یزدی (متوفی سنہ 1355 ہجری قمری)
  20. محمد رضا مسجد شاہی (متوفی سنہ 1362 ہجری قمری)
  • رجال:
  1. سید حسن صدر
  2. عبداللہ مامقانی نجفی
  3. ابو الہدی کرباسی
  4. شیخ موسی کرمانشاہی
  • کلام:
  1. محمد اسمعیل محلاتی نجفی
  2. محمد جواد بلاغی
  3. ہبة الدین شہرستانی
  4. حکمت و منطق
  5. شمس الدین شکوئی قفقازی (منطق)
  6. علی محمد نجف آبادی (متوفی سنہ 1332 ہجری قمری)
  7. فاضل مشہدی (متوفی سنہ 1343 ہجری قمری)
  8. محمد طاہر تنکابنی (متوفی سنہ 1360 ہجری قمری)
  9. میرزا مہدی آشتیانی (متوفی سنہ 1372 ہجری قمری)
  • اخلاق و عرفان:
  1. سید علی قاضی طباطبائی
  2. سید احمد کربلائی
  3. میرزا جواد ملکی تبریزی
  4. میرزا علی اکبر حکمی یزدی
  5. محمد حسین قمشہ ای
  • أنساب:
  1. والد سید محمد مرعشی (جنہوں نے انہیں "مشجرات سادات" کی تعلیم دی)
  2. سید محمد رضا بن سید علی المعروف بہ صائغ بحرانی غُرَیفی (متوفی سنہ 1339 ہجری قمری)
  3. سید مہدی موسوی بحرانی (متوفی سنہ 1343 ہجری قمری) [16]

تدریس اور شاگرد

آیت اللہ مرعشی نجفی کا مجلس درس

آیت اللہ عشی نے ابتداء میں سطوح کی تدریس شروع کردی اور معالم الاصول، شرح لمعہ، قوانین الاصول، فرائد الاصول، متاجر اور کفایۃ الاصول پڑھائیں۔ فقہ اور الفقہ کے علاوہ منطق، کلام، تفسیر، فلسفہ، رجال، درایہ اور علم الانساب جیسے علوم میں بھی تدریس کرتے تھے۔ ان کی مجلس تدریس مدرسہ فیضیہ میں آستانہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے چھوٹے صحن میں پانی کے خزینے کے اوپر تعمیر شدہ بقعے کے نیچے واقع تھی ـ جو اس وقت مذکورہ صحن اور مسجد اعظم کے اس شبستان کی جانب راہرو میں بدل گئی ہے جو ایوان آئینہ کے بالمقابل ہے۔ وہ اواخر عمر میں حرم کی مسجد بالاسر، اپنی رہائشگاہ اور رہائشگاہ کے قریب واقع حسینیہ نجفی تدریس کیا کرتے تھے۔ ان کی تدریس کا یہ سلسلہ سنہ 1343ہجری قمری سے ان کی عمر کے آخری ایام تک جاری رہا۔[17]

آیت اللہ مرعشی کا درس فقہ محقق حلی کی شرائع الاسلام کی بنیاد پر تھا۔ تدریس کے آخری ایام میں ان کے شاگردوں کی تعداد 1000 افراد تک پہنچتی تھی اور اسی بنا پر لاؤڈ اسپیکر سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ ان کی تدریس کی روش یہ تھی کہ مسئلے کا عنوان اور بعدازاں اس کے مآخذ بیان کرتے تھے اور اس کے بعد فقہاء اور اصولیوں کے اقوال کا حوالہ دیتے تھے اور ان کا تنقیدی جائزہ لیتے تھے۔ وہ مسئلے کی فروعات بیان کرتے تھےاور آخر میں مسئلے سے متعلق ضروری تنبیہات ذکر کرتے تھے۔[18] شاگرد:

قم میں آیت اللہ مرعشی نجفی کا مجلس درس، جو اس وقت مسجد اعظم اور حرم مطہر کا درمیانی راہرو ہے

آثار

آیت اللہ مرعشی نے اپنی حیات میں 150 سے زائد کتب اور رسائل کی تصنیف و تالیف کا اہتمام کیا۔[20] ان کی تالیفات یا تو زیور طبع سے آراستہ ہوکر عام لوگوں کے لئے دستیاب ہیں، بعض دیگر قلمی صورت میں ہیں، بعض تلف ہوئی ہیں اور بعض تالیفات جو منتشر اوراق کی صورت میں ہیں اس وقت تدوین کے مرحلے سے گذر رہی ہیں۔ ان کی بعض تالیفات حسب ذیل ہیں:

  • قرآنی علوم:
  1. التجوید
  2. الرد علی مدعی التحریف
  3. حاشیۂ علی انوار التنزیل بیضاوی
  4. سند القراء والحفاظ
  5. مقدمۂ تفسیر الدر المنثور سیوطی
  • ادبیات:
  1. قطف الخزامی من روضۃ الجامی (جامی کی شرح کافیہ پر حاشیہ)
  2. المعول فی امر المطول (شرح تلخیص تفتازانی پر حاشیہ)
  3. الفروق
  • حدیث، ادعیہ و زیارات:
  1. مفتاح احادیث الشیعہ
  2. شیخ حر عاملی کی کتاب الفصول المہمہ پر حاشیہ
  3. کتاب من لا یحضرہ الفقیہ پر مختصر حاشیہ
  4. ادعیہ اور زیارات کا ایک مجموعہ
  5. شرح دعائے سمات
  6. شرح زیارت جامعۂ کبیرہ
  7. مفاتیح الجنان پر مقدمہ]]
  8. شمس الامکنہ و البقاع فی خیرة ذات الرقاع
  9. [[صحیفہ سجادیہ|صحیفہ کاملہ سجادیہ| کے بارے میں بعض فوائد
  • اصول فقہ و فقہ:
  1. شیخ انصاری کی کتاب فرائد الاصول پر حاشیہ
  2. حذف الفضول عن المسالک
  3. توضیح المسائل
  4. راہنمائے سفر مکہ و مدینہ
  5. الغایۃ القصوی (عروۃ الوثقی پر استدلالی حاشیہ)
  6. مسارح الافکار فی توضیح مطارح الانظار (شیخ انصاری کی تقریرات پر حاشیہ)
  7. مصباح الناسکین (مناسک حج) وغیرہ
  • رجال، شرح حال و أنساب:
  1. التبصرۃ فی ترجمۃ مؤلف التکملۃ (میرزا محمد مہدی کشمیری کے حالات زندگی سے متعلق)
  2. تراجم اعیان السادة المرعشیین
  3. سادات العلماء الذین کانوا بعد الالف من الہجرة
  4. امامزادہ سلطان علی فرزند امام باقر(ع) کے حالات زندگی
  5. رسالہ طریفہ، شیخ محمد جعفر کمرہ ای کے حالات زندگی کے بارے میں
  6. نصر بن مزاحم منقری کے حالات پر ایک رسالہ
  7. الفوائد الرجالیہ
  8. وسیلة المعاد فی مناقب شیخنا الاستاذ
  9. وفیات الاعلام
  10. مشجرات آل رسول الاکرم یا مشجرات الہاشمیین (انساب میں ان کی مفصل ترین کتاب)
  11. مدینہ منورہ کے سادات کے بارے میں ایک رسالہ
  12. سادات حسینی کاشانی کا شجرہ نامہ
  13. مزارات العلویین
  14. سید عمید الدین نجفی کی کتاب "بحر الانساب" پر ایک حاشیہ
  15. غیر سادات کے انساب اور نسل شناسی کے بارے میں ایک کتاب
  • کلام، منطق و علوم غریبہ:
  1. کتاب احقاق الحق کے ملحقات
  2. رفع الغاشیہ عن وجہ الحاشیہ ملا عبداللہ یزدی بر تہذیب المنطق تفتازانی
  3. رمل میں کتاب "سرخاب" پر حاشیہ
  4. کتاب "سرالمکنون" پر حاشیہ
  5. نسمات الصبا در فواید علم رمل، حروف، اوراد و اذکار۔[21]

آیت اللہ مرعشی کی دیگر کتب "سفرناموں"، "اجازات" اور "اجوبۃ المسائل" اور "مکاتبات" کی صورت میں موجود ہیں۔

ثقافتی، سماجی اور سیاسی اقدامات

آیت اللہ مرعشی نجفی کی خدمات کے بعض نمونے حسب ذیل ہیں:

  • آیت اللہ مرعشی کا اہم ترین اقدام کتب خانے کی تاسیس اور قلمی نسخے جمع کرنے سے عبارت ہے۔
  • سنہ 1339 ہجری قمری میں اپنے گھر کے قریب حسینیہ آیت اللہ مرعشی کی تاسیس؛
  • بحار الانوار کے مؤلف علامہ محمد باقر مجلسی کے مرقد کی تعمیر نو؛
  • قم کے ریلوے اسٹیشن کی مسجد کی تعمیر نو ـ جس کو دوسری عالمی جنگ کے دوران ـ جرمن مخالف اتحادی ممالک کی افواج نے گرجاگھر میں تبدیل کیا تھا؛
  • لرستان میں] ازنا ریلوے اسٹیشن کی مسجد کی تعمیر؛
  • قم کے "کامکار ہسپتال" کے اخراجات شرعی وجوہات سے ادا کرنا؛
  • نِکوئی اسپتال میں علیحدہ ڈسپنسری کی تاسیس؛
  • نِکوئی اسپتال میں امراض قلب کے شعبے کی عمارت کی تعمیر؛
  • قم کے میدان امام میں دارالشفائے آل محمد(ص) کے نام سے بہبود و بحالی مرکز کا قیام؛
  • قم کے خیابان طالقانی کے آخر [اور کوئے نجفی] میں طلاب کے لئے 140 مکانات کی تعمیر؛
  • مشہد اردہال کاشان میں امام زادہ سلطان علی کے لئے برقی ضروریات پوری کرنے کے لئے موٹر خانے کی تعمیر؛
  • مختلف ممالک میں متعدد مساجد اور حسینیات کی تاسیس و تعمیر؛
  • سیلاب زدگان، مسلط کردہ جنگ کے پناہ گزینوں اور مقروضین کی امداد وغیرہ۔۔۔

آیت اللہ مرعشی نے متعدد مدارس علمیہ کی بنیاد رکھی ہے جن میں ذیل کے مدارس شامل ہیں:

  • خیابان 19 دے (باجک) میں مدرسہ مہدیہ؛
  • خیابان انقلاب (چہار مردان) میں مدرسہ مؤمنیہ؛
  • خیابان امام میں مدرسہ شہابیہ ـ جہاں پہلوی دور میں سینما کی عمارت تھی اور انقلاب اسلامی کے بعد آیت اللہ مرعشی کے حکم پر خریدی گئی اور مدرسے میں تبدیل کی گئی۔
  • خیابان ارم میں واقع مدرسہ مرعشیہ۔[22]
کشف اللغات و الاصطلاحات

تألیف علامہ عبدالرحیم بن احمد ہندی بهاری حنفی المعروف بہ "سور"، جو انھوں نے سنہ 1160 ہجری قمری میں اپنے بیٹے شیخ شہاب الدین بہاری تالیف کی ہے اور تالیف کے مکمل ہونے کے کچھ دن بعد دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ یہ کتاب میں نے مرحوم میرزا محمد بزاز تہرانی کی نیابت میں دو سال کی قضاء نمازیں ادا کرکے 20 برطانوی روپے کے عوض خرید لی۔ خداوند کام سرانجام دینے کی توفیق عطا کرے۔ نماز کے آغاز کی تاریخ 21 ذوالقعدہ سنہ 1322ہجری قمری ہے۔ میں دل شکستہ ـ ان حروف کا راقم ـ شدید بھوک کی حالت سے گذر رہا ہوں اور 20 گھنٹوں سے کچھ کھانے کے لئے حاصل نہیں کرسکا ہوں جس سے اپنی بھوک مٹا دوں، خداوند مسائل سے دوچار افراد کے مسائل حال کرے؛ شہاب الدین حسینی مرعشی نجفی سنہ 1342ہجری قمری، مدرسہ قوام، جو میرے جد امجد امیرالمؤمنین ـ روحی فداہ ـ کے مشہد کا ایک مدرسہ ہے۔[26]

ایران ہجرت کرکے آئے تو ان کی کتابوں کا مجموعہ بھی ایران منتقل ہوا اور وہ اپنے گھر میں ان کی حفاظت کرنے لگے۔ انھوں نے دوسرے نسخے بھی جمع کئے۔ انھوں نے سنہ 1385ہجری قمری میں مدرسہ علمیہ مرعشیہ کی بنیاد رکھنے کے بعد اس مدرسے کے دو کمروں پر مشتمل ایک چھوٹا کتب خانہ بنایا۔ سنہ 1344ہجری شمسی اس مدرسے کی تیسری منزل میں نئے کتب خانے کا افتتاح کیا گیا۔ اس کتب خانے کا وسیع سطح پر خیرمقدم کیا اور اس کی فضا رجوع کرنے والوں کے لئے کم پڑ گئی اور آخر کار ایک ہزار مربع میٹر زمین میں کتب خانہ تعمیر کیا گیا اور 15 شعبان سنہ 1394 ہجری قمری/ بمطابق 12 شہریور سنہ 1353 ہجری شمسی / 3 ستمبر سنہ 1976 عیسوی کو عمومی کتب خانے کا افتتاح ہوا جس میں ابتدائی طور پر قلمی اور مطبوعہ کتب کے 16000 نسخے رکھے گئے تھے۔ اس مرکز نے زیادہ وسیع فضا اور جدید وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے خدمات فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور آج یہ کتب خانہ قدیم اور قلمی نسخوں کی تعداد اور کیفیت کے لحاظ سے ایران کا پہلا بڑا اور اہم کتب خانہ اور عالم اسلام کا تیسرا بڑا کتب خانہ ہے جس میں اسی ہزار (80000) سے زائد قلمی نسخے اور دس لاکھ (1000000) سے زائد مطبوعہ نسخے موجود ہیں۔[27]۔[28]

شہریار سے ملاقات

انھوں نے مشہور شاعر شہریار سے اپنی پہلی ملاقات میں ان سے ان کی کہی ہوئی ایک غزل کے بارے میں سوال کیا جس کا مطلع تھا:

علی ای ہمای رحمت تو چہ آیتی خدا را
که بہ ماسوا فکندی ہمہ سایہ ہما را

اے علی، اے ہمائے رحمت، تو خدا کی کیسی نشانی ہے کہ تو نے اپنے ہما کے سائے سے پوری کائنات کو ڈھکا ہوا ہے۔

شہریار نے مطلع سنا تو بہت حیرت زدہ ہوا اور کہا: یہ غزل میں نے تقریبا آدھی رات کو تین بجے کے قریب کہی ہے اور ابھی تک کسی کو نہیں سنائی چنانچہ آپ وضاحت کریں۔

آیت اللہ مرعشی نے کہا:

اس رات میں دیر تک جاگ رہا تھا، نوافل شب اور توسلات میں مصروف تھا۔ میں نے اللہ سے التجا کی کہ اپنے کسی ولی کو مجھے خواب میں دکھائے [میری دعا مستجاب ہوئی اور میں نے] خواب میں دیکھا کہ مسجد کوفہ کے گوشے میں بیٹھا ہوں اور حضرت علی(ع) بھی تشریف فرما ہیں اور بعض اصحاب آپ(ع) کے ارد گرد موجود ہیں۔ تھوڑی دیر بعد بعض عرب اور فارسی گو شعراء داخل ہوئے۔
امیرالمؤمنین(ع) نے ان میں سے ہر فرد پر لطف و محبت بھری نگاہ دوڑائی؛ گویا آپ(ع) ان کے درمیان کسی خاص شخص کو تلاش کررہے تھے لیکن وہ شخص نظر نہيں آرہا تھا چنانچہ آپ(ع) نے دربان سے فرمایا: "شہریار کو لے آؤ"۔ بعد ازاں آپ داخل ہوئے اور آپ(ع) کے روبرو کھڑے ہوئے اور اسی مطلع سے ایک غزل پڑھ کر سنائی جس کا حوالہ میں نے دیا۔[29]

وفات

آیت الله مرعشی نجفی کا جلوس جنازہ
آیت اللہ مرعشی نجفی کی تدفین

آیت اللہ مرعشی نجفی مورخہ 7 صفر سنہ 1411 ہجری قمری / 29 اگست سنہ 1990 کو 96 سال کی عمر میں وفات پاگئے اور اپنی وصیت کے مطابق، قم کے خیابان ارم میں واقع اپنے کتب خانے میں سپرد خاک کئے گئے۔[30]

نیز ان کی وصیت کے مطابق وہ مصلٰی جس پر انھوں نے ستر سال عبادت کی تھی اور وہ لباس جو وہ عزائے امام حسین(ع) کے لئے زیب تن کیا کرتے تھے نیز کچھ مٹی جو انھوں نے ائمۂ معصومین علیہم السلام اور امام زادگان کے مراقد سے جمع کر رکھی تھی، کو ان کے ساتھ قبر میں رکھا گیا۔

نگار خانہ

حوالہ جات

  1. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص17-18۔
  2. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص18۔
  3. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص19۔
  4. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص120۔
  5. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص21-22۔
  6. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص58۔
  7. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص86-88۔
  8. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص86-88۔
  9. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص85-86۔
  10. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص23-24 و 88۔
  11. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص 110-111۔
  12. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص24۔
  13. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص25۔
  14. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص26۔
  15. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص27۔
  16. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص54-58۔
  17. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص59۔
  18. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص 59-60۔
  19. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص 60۔
  20. گلی زوارہ، جامع فضل و فضیلت، ص78۔
  21. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص 62-64۔
  22. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص 67-68۔
  23. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص83۔
  24. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص85۔
  25. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص69-70۔
  26. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص 146۔
  27. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص 66-67۔
  28. تاہم بعض مآخذ میں کہا گیا ہے کہ یہ کتب خانہ کتب خانۂ آستان قدس رضوی اور کتب خانۂ مجلس شورائے اسلامی، کے بعد ایران کا تیسرا بڑا کتب خانہ نیز عالم اسلام کا بھی تیسرا بڑا کتب خانہ ہے۔[1] کتابخانه بزرگ نسخ خطی آیت‌الله مرعشی؛ سومین کتابخانه بزرگ جهان اسلام۔
  29. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص117-118۔
  30. گلی زواره، جامع فضل و فضیلت، ص 74۔

مآخذ

  • گلی زواراه، غلام رضا، جامع فضل و فضیلت: مقالات و مقولاتی درباره کارنامہ علمی و عملی حضرت آیت الله مرعشی نجفی، کتابخانہ آیت الله مرعشی نجفی، قم، 1389 ہجری شمسی۔