آغا سید علی موسوی

ویکی شیعہ سے
(آغا سید علی الموسوی سے رجوع مکرر)
آغا سید علی موسوی
کوائف
مکمل نامسید علی
لقب/کنیتموسوی
نسبسادات موسوی
تاریخ ولادتسنہ 1928ء
آبائی شہربلتستان
رہائشلاہور، بلتستان
تاریخ وفات30 جولائی سنہ 2012ء
مدفنحسین آباد، بلتستان، پاکستان
اولادچھے بیٹے اور ۸ بیٹیاں
جانشینسید حیدر موسوی
علمی معلومات
مادر علمینجف اشرف و حوزہ علمیہ قم
اساتذہسید ابوالحسن اصفہانی • سید حسین بروجردی • سید محسن الحکیم
خدمات
سیاسیرکن سپریم کونسل تحریک جعفریہ پاکستان،
سماجیتنظیم علمائے امامیہ بلتستان، خمینی کمیٹی، انجمن آل عمران، حسینیہ مشن حسین آباد


آغا سید علی موسوی پاکستان کے مشہور علما میں سے تھے۔ آپ نے نجف اشرف میں سید ابو الحسن اصفہانی، سید حسین بروجردی اور سید محسن الحکیم جیسے اساتذہ کی شاگردی اختیار کی۔ سنہ 1952ء میں پاکستان واپس آئے۔ لاہور اور بلتستان میں دینی خدمات انجام دیں۔ آپ شہید سید عارف حسین الحسینی کے نزدیکی ساتھی تھے۔ آپ نے پاکستان کے مختلف مقامات پر دینی مدارس اور فلاحی اداروں کی بنیاد رکھی۔ طلبا تنظیم آئی ایس او کی تاسیس میں آپ نے مرکزی کردار ادا کیا۔ سنہ 1967ء میں آپ کی سماجی خدمات کی بنیاد پر حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ خدمت دیا گیا۔

ولادت اور نسب

آغا سید علی موسوی سنہ 1928ء کو وادی بلتستان کے موضع ڈورو میں پیدا ہوئے۔[1] آپ کے والد نے آپ کا نام سید علی رکھا بعد میں آپ آغا علی موسوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کے والد اور دادا اپنے دور کے مشہور علما میں شمار ہوتے تھے۔[2] خاندانی لحاظ سے آپ کا تعلق بلتستان کے موضع کریس کے موسوی سادات سے تھا[3]، آپ کا سلسلہ نسب سر زمین بلتستان کے پہلے مبلغ اسلام میر شمس الدین عراقی سے ہوتے ہوئے[4] کئی پشتوں کے بعد امام موسی کاظمؑ سے جاملتا ہے۔[5]

اولاد

آغا سید علی موسوی نے چار شادیاں کیں جس کے نتیجے میں 6 بیٹے اور 8 بیٹیاں ہوئیں۔ آپ کے پانچ بیٹے دینی علوم سے منسلک ہوئے۔[6]

وفات

آغا سید علی موسوی 30جولائی سنہ2012ء بمطابق 10 رمضان المبارک سنہ 1433ھ کو 84 سال کی عمر میں لاہور میں وفات پاگئے۔[7] آپ کی نماز جنازہ لاہور میں سید حافظ ریاض حسین نجفی کی اقتدا میں ادا کی گی۔[8] بعد از آں اسلام آباد میں دوسری بار نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس موقع پر مختلف سماجی و مذہبی شخصیات، مذہبی تنظیموں کے عہدہ داران، مدارس کے منتظمین اور ملت تشیع کے ہزاروں افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ سمیت دیگر راہنماؤں نے آپ کی خدمات کو سراہا۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے آپ کے انتقال پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا۔ [9] آپ کا جسد خاکی بلتستان منتقل کرنے کے بعد ایک بار پھر نماز جنازہ ادا کی گئی اور اپنی وصیت کے مطابق اپنی والدہ کی قبر کی پائینی جانب سپرد خاک کیاگیا۔ [10]

علمی زندگی

آغا سید علی موسوی کے بچپنے کے دوران آپ کے والد حصول علم کی خاطر بلتستان سے کرگل اور کرگل سے کشمیر اور وہاں سے ہوتے ہوئے ایران چلے گئے[11]جہاں آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ [12] ایران میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد سنہ 1938ء میں اپنے والدین کے ہمراہ نجف اشرف چلے گئے۔ جہاں آپ نے 14 سال جید علما سے کسب فیض کیا۔[13]

اساتذہ

آغا علی موسوی نے حوزہ علمیہ نجف میں اس دور کے پایے کے مجتہدین سید ابوالحسن اصفہانی، سید حسین بروجردی، سید محسن الحکیم، آیت اللہ اشراقی اور دیگر اساتذہ سے کسب فیض کیا جبکہ [14] ایران میں آیت اللہ میلانی، آیت اللہ سید علی خامنہ ای اور نواب صفوی جیسی شخصیات سے رابطے میں رہے۔ [15]

پاکستان واپسی

آپ سنہ 1952ء میں اپنے والد کے ہمراہ پاکستان واپس آئے۔[16] واپسی کے دوران لاہور میں مومنین کی خواہش پر یہاں دینی خدمات انجام دینے کا ارادہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ بلتستان میں بھی تبلیغی خدمات انجام دینے پر کمربستہ ہوگئے۔ [17]

اجازت نامہ

آغا سید علی موسوی پاکستان میں وجوہات شرعیہ کے سلسلے میں سید محسن الحکیم، امام خمینی[18] اور سید علی خامنہ ای کے وکیل تھے۔ [19]

صدارتی تمغہ حسن کارکردگی

سنہ 1967ء میں آپ کی گوناگوں خدمات کی بنیاد پر حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ خدمت دیا گیا۔[20]

خصوصیات

  • داعی اتحاد بین المسلمین

آغا سید علی موسوی اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔ اہل سنت علما کے درمیان آپ کو نہایت عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ اہل سنت کے پایے کے علما، ابو الاعلیٰ مودودی، عبد الستار خان نیازی اور قاضی حسین احمد کے ساتھ آپ کے قریبی تعلقات تھے۔[21]

  • دلکش اور سلیس خطابت

کہا جاتا ہے کہ آغا سید علی موسوی کی خطابت دلکش اور سلیس ہوا کرتی تھی۔ آپ فصیح پیرایے میں تعلیمات اہلبیت کو بیان کرتے تھے۔ آپ جہاں بھی خطاب کرتے کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوتے تھے۔ [22]

  • تواضع و انکساری

آپ متواضع اور منکسر المزاج انسان تھے۔ ۔نام ونمود کے جذبہ سے عاری ہوکر تبلیغ دین اور خدمت خلق کرتے تھے۔ [23]

سماجی اور علمی مراکز کا قیام

آغا سید علی موسوی نے مختلف علمی، سماجی اور فلاحی مراکز قائم کیے جن کی فہرست مندرجہ ذیل ہے:

  • آپ نے شیخ غلام محمد غروی کے تعاون سے پہلی بار بلتستان میں محکمہ شرعیہ کی بنیاد رکھی۔ [24]
  • بلتستان میں دینی درسگاہ کے فقدان کے باعث سکردو شہر میں ایک وسیع رقبے پر مدرسہ حیدریہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ تعمیر کی۔[25]
  • شیعہ قدیمی دینی درسگاہ جامعۃ المنتظر لاہور کی تعمیر میں آپ نے سید صفدر حسین نجفی کے ساتھ بنیادی کردار ادا کیا۔ [26] اس درسگاہ کی بنیاد پہلے آپ ہی کے ذریعے حسینیہ ہال اندرون موچی دروازہ لاہور میں رکھی گئی۔[27]
  • سیالکوٹ کے شہر احمد آباد میں مدرسہ قرآن و عترت کی تعمیر میں آپ نے مرکزی کردار ادا کیا۔[28]>
  • فیصل آباد میں آپ نے درسگاہ علوم اسلامی کی بنیاد رکھی۔ [29]
  • لاہور میں مسجد کشمیریاں سے ملحق درسگاہ علوم اسلامی کی تعمیر بھی آغا سید علی موسوی کی محنت کا نتیجہ ہے۔[30]
  • اپنے آبائی گاؤں حسین آباد میں امام بارگاہوں کی تعمیر و توسیع اور ہر گھر کے دہلیز پر سڑک کی سہولت فراہم کرنے میں نہایت بنیادی کردار ادا کیا۔[31]
  • جامع مسجد حسین آباد کی تعمیر نو اور اسے آباد کرنے میں آپ کا نمایاں کردار رہا ہے۔[32]
  • مسجد شیعہ کشمیریاں موچی دروازہ لاہور بھی آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔[33]
  • بلتستان میں جشن مولود کعبہ، یوم الحسینؑ، ولادت امام زمان اور عید غدیر جیسی تقریبات کو جدید طرز پر جلسے کی صورت میں انعقاد کرنے کی بنیاد آپ نے رکھی۔ [34]
  • آپ نے پاکستان میں پہلی بار سنہ 1960ء میں شیعہ حجاج بیت اللہ کی رہنمائی کے لیے کاروان حج حیدری کے نام سے ایک کاروان تشکیل دیا۔ [35]
  • پہلی بار پاکستان میں یوم القدس کے موقع پر ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو سڑکوں پر جلوس نکالنے کا سلسلہ آپ نے شروع کیا۔[36]

مذہبی، قومی اور فلاحی تنظیموں کی تاسیس

اہم مذہبی قومی اور فلاحی تنظیموں میں آغا سید علی موسوی کا بنیادی کردار رہا ہے:

  • مفتی جعفر حسین کے دور سے ہی آپ تحریک جعفریہ پاکستان کی سپریم کونسل کے رکن رہے۔ شہید عارف حسین الحسینی کے قریبی رفقاء میں سے تھے۔ سید عارف حسین الحسینی کی شہادت کے بعد آپ سید ساجد علی نقوی کے ساتھ بھی قومی اور مذہبی امور میں تعاون کرتے رہے۔ [37]
  • سنہ 1972ء میں لاہور میں آپ کی کوششوں سے دیگر چند علما کے ذریعے آئی ایس او پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔[38]
  • مجلس وحدت المسلمین کی تاسیس کے بعد آپ اپنی عمر کے آخری لمحات تک اس کی سرپرستی کرتے رہے۔[39]
  • سنہ1974ء میں آغا سید علی موسوی نے بلتستان کے علما کو ایک ہی مرکز میں جمع کرنے اور آپس میں ہماہنگی پیدا کرنے کے غرض سے "علمائے امامیہ بلتستان" کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔[40]
  • آپ نے افکار خمینی کی ترویج کے لیے سید صفدر حسین نجفی اور مرتضی حسین صدر الافاضل کی معاونت سے خمینی کمیٹی تشکیل دی۔ [41]
  • حسین آباد میں حسینیہ مشن حسین آباد تشکیل دی۔[42]
  • آپ نے لاہور میں درس و عمل فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔[43]
  • سنہ 1974ء میں آپ نے بلتستان میں پہلی بار ایک ادبی مجلہ "حبل المتین" کا اجراء کیا۔[44]
  • لاہور میں انجمن آل عمران فلاحی ادارے کی بنیاد رکھی اور تا حیات اس کی سرپرستی کرتےرہے۔[45]

حوالہ جات

  1. تسلیم رضا خان، سفیر نور، 1998ء ص77
  2. سید علی مصطفیٰ کشمیری، الکوثر موسی، 2022ء ص498
  3. سید علی مصطفیٰ کشمیری، الکوثر موسی، 2022ء ص498
  4. تسلیم رضا خان، سفیر نور، 1998ء ص77
  5. سید علی مصطفیٰ کشمیری، الکوثر موسی، 2022ء ص498
  6. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء، ص50
  7. آغا علی کی نماز جنازه، اسلام ٹائمز
  8. ۔بزرگ عالم دین آغا علی الموسوی انتقال کر گئے، نماز جنازہ ادا کردی گئی، شیعہ نیوز
  9. رفیق شہید حسینی آغا علی موسوی کی نماز جناہ اسلام آباد میں بھی اداکی گئی اسلام ٹائمز
  10. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء ص8
  11. سید علی مصطفیٰ کشمیری، الکوثر موسی، 2022ء ص498
  12. علی رضا، علمای شیعہ بلتستان در صد سال اخیر(تحقیق پایانی)،2016ء ص68
  13. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء ص8
  14. سید علی مصطفیٰ کشمیری، الکوثر موسی، 2022ء ص498
  15. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء ص80
  16. سید مبشر عباس موسوی، جایگاہ و فعالیت سید علی موسوی در شیعیان پاکستان(تحقیق پایانی)، 2017ء، ص24
  17. اے ارض شمال تیرا خمینی چلا گیا، شیعہ نیوز
  18. سید قمر عباس حسینی، تاريخ ورود اسلام در بلتستان از آغاز تا دوره معاصر، 1397ہجری شمسی، ص117
  19. آغا علی الموسوی کی وفات، آئی ایس او کی یتیمی،اسلام ٹائمز ویب سائٹ
  20. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء، ص75
  21. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء، ص105
  22. جائیں کس سے پوچھنے ہم آگہی کی بات hussainabadi.blogfa.com
  23. جائیں کس سے پوچھنے ہم آگہی کی بات hussainabadi.blogfa.com
  24. محمد یوسف حسین آبادی، تاریخ بلتستان، 2003ء ص150
  25. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء، ص76
  26. اے ارض شمال تیرا خمینی چلا گیا، شیعہ نیوز
  27. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء، ص218،
  28. اے ارض شمال تیرا خمینی چلا گیا، شیعہ نیوز
  29. علامہ آغا علی الموسوی مرحوم کےحالات زندگی پر ایک نظر، اسلام ٹائمز
  30. علامہ آغا علی الموسوی مرحوم کےحالات زندگی پر ایک نظر، اسلام ٹائمز
  31. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء، ص105
  32. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء، ص115
  33. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء، ص95،
  34. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء، ص193
  35. علی رضا، علمای شیعہ بلتستان در صد سال اخیر(تحقیق پایانی)،2016ء ص68
  36. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء، ص187
  37. پاکستان کے بزرگ عالم دین آغا علی الموسوی انتقال کرگئےتقریب نیوز
  38. علامہ آغا علی الموسوی مرحوم کےحالات زندگی پر ایک نظر، اسلام ٹائمز
  39. پاکستان کے بزرگ عالم دین آغا علی الموسوی انتقال کرگئےتقریب نیوز
  40. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء، ص167
  41. فدا محمد ناشاد، سفیر ولایت، 2013ء، ص167
  42. سید علی مصطفیٰ کشمیری، الکوثر موسی، 2022ء ص501
  43. سید علی مصطفیٰ کشمیری، الکوثر موسی، 2022ء ص501
  44. سید علی مصطفیٰ کشمیری، الکوثر موسی، 2022ء ص501
  45. اے ارض شمال تیرا خمینی چلا گیا، شیعہ نیوز

مآخذ

  • تسلیم رضا خان، سفیر نور، لاہور، العارف اکیڈمی، 1998ء۔
  • سید علی مصطفیٰ کشمیری، الکوثر موسی، بی جا، ناشر: سید غلام اکبر، 2022ء۔
  • سید قمر عباس حسینی، تاريخ ورود اسلام در بلتستان از آغاز تا دوره معاصر، قم، جامعه المصطفي العالمیہ، 1397ہجری شمسی۔
  • علی رضا، علماي شيعہ بلتستان در صد سال آخر، قم، جامعه المصطفي العالمیہ، 1395 ہجری شمسی۔
  • فدا محمد ناشاد، سفير ولايت، اسلام آباد، مجلس وحدت المسلمين پاکستان، 2013ءء۔
  • مبشر عباس موسوی، جایگاہ و فعالیت سید علی موسوی در شیعیان پاکستان، قم، جامعہ المصطفیٰ العالمیہ، 1396ہجری شمسی۔
  • محمد یوسف حسین آبادی، تاريخ بلتستان، سکردو، بلتستان بك ڈپو سکردو، 2003ء۔
  • شیعہ نیوز تاریخ درج؛ 31 جولائی 2012ء، تاریخ اخذ؛ 4 فروری2023ء۔
  • تقریب نیوز تاریخ درج؛ 31 جولائی 2012ء، تاریخ اخذ 5 فروری2023ء۔
  • اسلام ٹائمز تاریخ درج 9 اگست2012؛ تاریخ اخذ2 فروری2023ء۔
  • وبلاگ، علمی،اجتماعی اور سیاسی کالمز اور مقالات تاریخ درج؛ 30 مارچ 2016ء، تاریخ اخذ8 فروری2023ء۔