اعجاز قرآن

ویکی شیعہ سے
(قرآن کا اعجاز سے رجوع مکرر)

اعجاز قرآن کے معنی یہ ہیں کہ کوئی بشر قرآن مجید کی مثل نہیں لاسکتا۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ تمام علمائے اسلام قرآن کو حضرت محمدؐ کا معجزہ اور آپؐ کی نبوت کی دلیل مانتے ہیں۔ اعجاز قرآن، علوم قرآن اور علم کلام سے مربوط ایک بحث ہے۔

مسلمان قرآن کو کئی پہلؤوں سے معجزہ مانتے ہیں؛ لہذا قرآن علم و معرفت، غیبی خبریں دینے اور اس کے جملات و کلمات میں تناقض کے فقدان کے لحاظ سے معجزہ ہے۔ خود قرآن نے بھی اپنے معجزہ ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور مجموعی طور پر چھے آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے تحدی کی ہے اور قرآن کے حریفوں سے اس کی مثل لانے کے سلسلے میں مقابلے کی دعوت دی ہے۔

علمائے اسلام نے اعجاز قرآن کے بارے میں بہت سے کتابیں تالیف کی ہیں؛ ان میں سے کچھ کتابیں یہ ہیں: اعجازالقرآن، مولف: ابوبکر باقلانی (متوفیٰ: 403ھ)، اعجاز القرآن و الکلام فی وجوہہ، مولف: شیخ مفید (متوفیٰ: 413ھ)، الصَّرفه فی اعجاز القرآن، مولف: سید مرتضی (متوفیٰ: 437ھ)، دلائل‌الاعجاز، مولف: عبدالقاہر جرجانی (متوفیٰ: 471ھ).

اعجاز قرآن کے معنی اور اہمیت

سارے مسلمان، قرآن کو [[حضرت محمد مصطفی(ص)|محمد مصطفی(ص) کا معجزہ مانتے ہیں۔[1] قرآن کے معجزہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان اس کی مثل لانے کی قدرت نہیں رکھتا، یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔[2] شیخ طوسی نے اپنی تفسیر التّبیان میں قرآن کو پیغمبر اکرمؐ کا سب سے بڑا معجزہ قرار دیا ہے۔[3]

اہل سنت عالم دین، ابوبکر باقِلانی (متوفیٰ: 403ھ) بھی اعجاز قرآن کی اہمیت کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ اگرچہ پیغمبر خداؐ کے پاس بہت سے معجزات تھے لیکن آپؐ کی نبوت قرآن کے معجزہ ہونے پر مبتنی ہے؛ کیونکہ دوسرے معجزات ایک خاص زمانہ، خاص حالات اور چند مخصوص لوگوں کے لیے تھے جبکہ قرآن سب کے لیے اور ہمیشہ کے لیے معجزہ ہے کیونکہ قرآن بلااستثناء سب کے سامنے تھا اور کوئی ایک بھی اس کا انکار نہیں کر سکتا تھا۔[4]

قرآن کی تَحَدّی

تَحَدّی، علوم قرآن[5] اور علم کلام[6] کی ایک اصطلاح ہے جس کے معنی انبیاء طرف سے منکریں نبوت کو انبیاء کے معجزات کی طرح کوئی معجزہ پیش کرنے کی دعوت دینا ہے۔[7] قرآن نے چھے آیتوں میں تحدی کی ہے؛ یعنی انبایء کے معجزات کے منکرین کو معجزات کی مثل لانے کی دعوت دی ہے۔[8] ان آیات کو آیات تحدی کہتے ہیں۔[9]

اعجاز قرآن کے بارے میں نظریات

قرآن مجید جس لحاظ سے معجزہ ہے، اس کے بارے میں علمائے اسلام نے مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ علوم قرآن میں اہل سنت کی مشہور شخصیت جلال الدین سیوطی(متوفیٰ: 911ھ) نے اپنی کتاب "الاتقان" میں جتنے نظریات بیان کیے ہیں ان کی اکثریت کا تعلق قرآن کے ادبی اعجاز سے ہیں۔ البتہ ان میں سے ہر نظریے کا زاویہ نگاہ الگ الگ ہے۔[10] علمائے اسلام کا عقیدہ ہے کہ قرآن مجید مختلف لحاظ سے معجزہ ہے۔ مثلا شیعہ مفسر علامہ طباطبایی کے مطابق قرآن مجید فصاحت و بلاغت میں معجزہ ہونے کے ساتھ ساتھ علم ومعرفت، پیغمبر خداؐ کے اُمّی ہونے، غیب کی خبریں دینے اور ہر قسم کے اختلاف سے مبرا ہونے کے لحاظ سے بھی معجزہ ہے۔[11]

ابوبکر باقلانی نے بھی ادبی لحاظ سے معجزہ ہونے کے علاوہ غیب کی خبریں دینے اور پیغمبر اکرمؐ کے امی ہونے کو قرآن کے معجزات میں سے قرار دیا ہے۔ علوم قرآن کے محقق محمد ہادی معرفت(متوفیٰ: 1385ہجری شمسی) نے قرآن کے ادبی لحاظ سے معجزہ ہونے کے ساتھ علمی اور تشریعی لحاظ سے بھی معجزہ ہونے کو بیان کیا ہے۔[12]

نظریہ صَرفہ

اعجاز قرآن کے بارے میں نظریہ صرفہ کے نام سے ایک اور نظریہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق قرآن کے معجزہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اس کی مخالفت کے لیے اٹھ کھڑا ہوجائے تو اللہ اس کی راہ میں رکاوٹ ڈال دیتا ہے اور اس کی مثل لانے سے روک دیتا ہے۔ اس نظریے کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگ قرآن کی مثل لاسکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اس صورت میں ان سے طاقت سلب کردیتا ہے۔[13]

سیوطی کے مطابق اس نظریے کو سب سے پہلے دوسری اور تیسری صدی میں بقید حیات اہل سنت عالم دین ابراہیم نظام نے پیش کیا ہے۔[14] شیعہ علما میں سے سید مرتضی اور شیخ مفید نے بھی اس نظریے کو قبول کیا ہے۔[15] محمد ہادی معرفت کے مطابق اس نظریے کو علمائے سابق اور متاخر دونوں نے رد کیا ہے۔[16]

اعجاز قرآن کے مختلف پہلو

مسلم علما کی نظر میں اعجاز قرآن کے چند پہلو یہ ہیں:

ادبی لحاظ سے اعجاز

قرآن مجید کا ادبی لحاظ سے معجزہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ متن قرآن ایسی خصوصیات کا حامل ہے کہ اس کی مثل لانا کسی بشر سے ممکن نہیں۔[17] متن قرآن کی چند خصوصیات یہ ہیں: الفاظ کو نہایت دقیق اور بجا استعمال کیا گیا ہے، ایک عجیب، منفرد اور جدید طرز بیان جو کہ نہ معمول کے مطابق شعر ہے اور نہ ہی رائج نثر، الفاظ میں خوبصورتی پائی جاتی ہے اور اس کا نغمہ اور صوت دلنشین ہے۔[18]

غیب کی خبریں دینے کے لحاظ سے اعجاز

علمائے اسلام کے مطابق قرآن مجید نے گذشتہ اور آئندہ کی ایسی خبریں دی ہیں جن کے بارے میں کسی کو ذرا برابر علم نہیں۔[19] مثلا حضرت مریم(س)، حضرت نوح اور طوفان نوح اور حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کی داستانوں میں بیان شدہ مطالب سے کوئی آگاہ نہیں تھا جبکہ قرآن نے ان کی تفصیلات بتا دی ہیں۔[20]

نیز سنہ 615ء میں ایران کے ہاتھوں روم کی شکست کے بعد قرآن نے یقین کے ساتھ خبر دی کہ روم دس سال سے کم عرصے میں ایران کو شکست دے گا اور ایسا ہی ہوا۔ [21] اسی طرح بعض لوگوں کی سرنوشت اور عاقبت کے بارے میں پیشین گوئیاں کیں؛ جیسے ابو لہب، ابو جہل اور فتح مکہ میں قرآن نے بہت ساری پیشین گوئیاں کیں۔ قرآن کی یہ وہ پیشین گوئیاں ہیں جو سب سچ نکلیں۔[22]

علمی لحاظ سے اعجاز

قرآن کے علمی لحاظ سے معجزہ ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کتاب میں بہت سے سائنسی حقائق مذکور ہیں جو زمان نزول قرآن میں دریافت نہیں ہوئے تھے اور نہ کبھی قرآن کے بتائے ہوئے فارمولوں میں نقض پایا گیا ہے۔[23] مفسرین قرآن نے درج ذیل مطالب کو قرآن کا علمی معجزہ قرار دیا ہے: زمین کی عرضی اور انتقالی حرکت، زمین کی کشش ثقل، جانوروں سمیت پودوں میں بھی جوڑوں کا تصور، اور اجرام فلکی کی گردش وغیرہ۔[24]

قرآنی علوم کے محقق محمد ہادی معرفت نے اس بات کو مد نظررکھتے ہوئے کہ سائنسی علوم سے ثابت ہوچکی ہے کہ پانی سے ہی ہر چیز میں زندگی پائی جاتی ہے، قرآن کی اس آیت: "ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا کیا"[25] کا حوالہ دیتے ہوئے مذکورہ مطلب کو قرآن کا معجزہ قرار دیا ہے۔[26]

قرآن کے معجزہ ہونے کے دیگرپہلو

اعجاز تشریعی[27] اور اعجاز عددی قرآن[28] کو مسلم دانشوروں نے قرآن کے علمی لحاظ سے معجزہ ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کیے ہیں۔

پہلے نظریہ کے مطابق اسلام نے انسان کے لیے جو اصول و قوانین وضع کیے ہیں، بشری قوانین کے برعکس ان میں انسانی وجود کی تمام جہتیں شامل ہیں اور یہ انسان کی مادی اور روحانی دونوں جہتوں سے ہم آہنگ ہیں۔ یہ قوانین انسان کی دنیاوی اور اخروی دونوں کی سعادت کے حصول کا ضامن ہیں اور اس کی فطرت سے بھی ہم آہنگ ہیں۔ چونکہ کوئی بھی انسان ایسے ہمہ گیر قوانین بنانے سے قاصر ہے لہذا قرآن کو اس سلسلے میں خدا کی طرف سے نازل کردہ اور معجزہ سمجھا جانا چاہیے۔[29]

قرآن مجید کے عددی اعجاز کے مطابق قرآن کے حروف اور الفاظ کی تعداد میں دقیق نظم و ضبط پایا جاتا ہے کہ کوئی مصنف اس کی طرح کے نظم سے چیزوں کو بیان نہیں کرسکتا۔ اور یہی اس کے معجزے کی علامت ہے[30]عددی اعجاز کے چند نمونے: قرآن میں لفظ "ساعت"(گھنٹہ) 24 مرتبہ استعمال ہوا ہے جوکہ دن کے 24 گھنٹوں کی طرف اشارہ ہے، لفظ "شہر"(مہینہ) سال کے مہینوں کی تعداد کے مطابق 12 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ لفظ "سجدہ" قرآن میں 34 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو کہ فرض نمازوں میں سجدوں کی تعداد کے برابر ہے۔[31]البتہ اس نظریہ کے بہت سے دانشور مخالف بھی ہیں۔[32]

کتابیات اعجاز القرآن

اعجاز قرآن کی مباحث ماضی سے لے کر آج تک کے مسلم علماء کی تحریروں میں صدیوں سے چلتی آرہی ہیں۔[33] مثلا علم کلام کی کتابوں میں پیغمبر اسلامؐ کی نبوت کو ثابت کرنے کے لیے اس سے استناد کیا جاتا رہا ہے۔ [34]نیز قرآنی علوم کی کتابوں کا ایک حصہ اسی موضوع سے متعلق ہے۔[35] اس اس سلسلے میں کچھ مستقل کتابیں بھی تحریر کی گئی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  1. اعجاز القرآن فی نظمِهِ و تألیفِه، مولف: ابوعبدالله محمد بن زید واسطی (متوفیٰ: 307 یا 307ھ)، ان کا تعلق بغداد کے مشہور متکلمین میں سے تھا؛[36]
  2. اعجازالقرآن، مولف: علی بن عیسی رُمّانی (متوفیٰ: 384ھ)، بغداد کے مکتب معتزلہ سے ان کا تعلق تھا؛[37]
  3. بیان اعجاز القرآن، مولف: ابوسلیمان حمد بن محمد خطابی (متوفیٰ: 388ھ)، خراسان کے اصحاب حدیث میں سے تھے، یہ کتاب اور موخر الذکر کتاب مجموعهٔ ثَلاثُ رسائلَ فی اعجازِ القرآن" کے عنوان سے سنہ 1377ھ کو مصر میں شائع ہوئیں؛[38]
  4. اعجازالقرآن، مولف: قاضی ابوبکر باقلانی (متوفیٰ: 403ھ) اس کتاب کی مختلف اشاعتیں ہوئی ہیں اور بعض نظریہ پردازوں کی تحقیق کا موضوع بھی ہے؛[39]
  5. اعجاز القرآن و الکلام فی وجوهه، مولف: شیخ مفید (متوفیٰ: 413ھ)، آپ شیعہ قدآور مجتہد، متکلم اور محدث تھے؛[40]
  6. الصَّرفه فی اعجاز القرآن، مولف: سید مرتضی (متوفیٰ: 437ھ) شیعہ ممتاز متکلم، فقیہ اور اصولی تھے۔ اس کتاب کا دوسرا نام "الموضح عن وجه اعجاز قرآن" ہے؛[41]
  7. دلائل‌الاعجاز، مولف: عبدالقاهر جرجانی (متوفیٰ: 471ھ). انہوں نے سب سے پہلے علم بلاغت عربی کی کتاب تالیف کی۔ یہ کتاب کی متعدد بار اشاعت ہوئی ہے اور اس پر کثرت سے تحقیقات بھی انجام پائی ہیں۔؛[42]
  8. الرسالةُ الشّافیة فی اعجازِ القرآن، مولف: عبدالقاهر جرجانی۔ یہ کتاب "ثلاثُ رسائلَ فی اِعجاز القرآن" کے عنوان سے شائع ہوئی ہے؛[43]
  9. نهایةُ الایجاز فی درایةِ الاِعجاز، مولف: فخرالدین رازی (متوفیٰ: 707ھ).[44]
  10. اعجاز قرآن، مولف: سید محمد حسین طباطبائی۔ یہ کتاب علامہ طباطبائی کے قلمی آثار مخصوصا تفسیر المیزان سے اعجاز قرآن سے متعلق مطالب کو جمع کر کے تالیف کی گئی ہے۔[45]

ان کے علاوہ اور بہت سی کتابیں، تحقیقات اور مقالات اعجاز قرآن کے موضوع پر لکھے جاچکے ہیں۔ ایک مقالہ میں اعجاز قرآن سے متعلق 348 قلمی آثار کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔[46]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: مطهری، مجموعه‌آثار، 1384ہجری شمسی، ج2، ص211؛ باقلانی، اعجازالقرآن، 1421ھ، ص9.
  2. مطهری، مجموعه‌آثار، 1384ہجری شمسی، ج2، ص211.
  3. طوسی، التبیان، دار الاحیاء التراث العربی، ج1، ص3.
  4. باقلانی، اعجازالقرآن، 1421ھ، ص9.
  5. جواهری، «واکاوی ملاک تحدی در قرآن و نقد منطق تنزّلی»، ص112.
  6. جمعی از نویسندگان، شرح المصطلحات الکلامیه، 1415ھ، ص74.
  7. مؤدب، اعجاز قرآن در نظر اهل بیت، 1379ہجری شمسی، ص17.
  8. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن‌پژوهی، 1377ہجری شمسی، ج1، ص481.
  9. خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن‌پژوهی، 1377ہجری شمسی، ج1، ص481.
  10. سیوطی، الاتقان، ‍1421ھ، ج2، ص242.
  11. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج1، ص72-78.
  12. معرفت، التمهید، 1388ہجری شمسی، ج7، ص34.
  13. سیوطی، الاتقان، ‍1421ھ، ج2، ص241؛ معرفت، التمهید فی علوم القرآن، 1388ہجری شمسی، ج4، ص137.
  14. سیوطی، الاتقان، ‍1421ھ، ج2، ص241.
  15. ملاحظہ کریں: سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، 1405ھ، ج2، ص323-327؛ شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص73.
  16. معرفت، التمهید فی علوم القرآن، 1388ہجری شمسی، ج4، ص180.
  17. معرفت، التهمید، 1387ہجری شمسی، ج5، ص15؛ سبحانی، الالهیات، 1413ھ، ج3، ص243.
  18. معرفت، التهمید، 1388ہجری شمسی، ج5، ص17-17.
  19. ملاحظہ کریں: نک مطهری، مجموعه‌آثار، 1384ہجری شمسی، ج2، ص223؛ معرفت، التهمید، 1387ہجری شمسی، ج7، ص187.
  20. معرفت، التهمید، 1387ہجری شمسی، ج7، ص187.
  21. مطهری، مجموعه‌آثار، 1384ہجری شمسی، ج2، ص223.
  22. معرفت، التهمید، 1387ہجری شمسی، ج7، ص202.
  23. برومند، «بررسی و نقد توجیه علمی اعجاز قرآن»، ص77-77.
  24. معارف، «جایگاه اعجاز علمی قرآن در تفسیر نوین»، ص87.
  25. سوره انبیاء، آیه 30
  26. معرفت، التمهید، 1387ہجری شمسی، ج7، ص35-39.
  27. معرفت، التمهید، 1387ہجری شمسی، ج7، ص217.
  28. رضایی اصفهانی، پژوهشی در اعجاز علمی قرآن، 1388ہجری شمسی، ص220؛ نوروزی، «کتابشناسی اعجاز عددی و ریاضی قرآن»، ص84.
  29. معرفت، التمهید، 1388ہجری شمسی، ج7، ص217-217.
  30. یزدانی، «اعجاز عددی و نظم ریاضی قرآن»، ص72؛ علوی مقدم، «اعجاز قرآن (2)»، ص27.
  31. یزدانی، «اعجاز عددی و نظم ریاضی قرآن»، ص75؛ نوروزی، «کتابشناسی اعجاز عددی و ریاضی قرآن»، ص84؛ علوی مقدم، «اعجاز قرآن (2)»، ص27.
  32. نوروزی، «کتابشناسی اعجاز عددی و ریاضی قرآن»، ص83.
  33. معرفت، «اعجاز قرآن»، ص375.
  34. ملاحظہ کریں: مطهری، مجموعه‌آثار، 1384ہجری شمسی، ج2، ص212-223؛ سبحانی، الالهیات، 1413ھ، ج3، ص233- 437.
  35. ملاحظہ کریں: معرفت، التهمید، 1388ہجری شمسی، ج5و7.
  36. معرفت، «اعجاز قرآن»، ص375.
  37. میرزامحمد، «مقدمه ویراستار»، ص19-20.
  38. معرفت، «اعجاز قرآن»، ص375.
  39. معرفت، «اعجاز قرآن»، ص375.
  40. میرزامحمد، «مقدمه ویراستار»، ص22-23.
  41. میرزامحمد، «مقدمه ویراستار»، ص25.
  42. معرفت، «اعجاز قرآن»، ص375.
  43. معرفت، «اعجاز قرآن»، ص375.
  44. معرفت، «اعجاز قرآن»، ص375.
  45. میرزامحمد، «مقدمه ویراستار»، ص18.
  46. رضایی، «منبع‌شناسی اعجاز علمی قرآن» ص198-218.

مآخذ

  • باقلانی، محمد بن طیب، اعجازالقرآن، تصحیح صلاح محمد عویضه، بیروت، دار الکتب العلمیه، 1421ھ.
  • برومند، محمدحسین، «بررسی و نقد توجیه علمی اعجاز قرآن»، در مقالات و بررسی‌ها، ش71، 1381ہجری شمسی.
  • جمعی از نویسندگان، شرح المصطلحات الکلامیه، به کوشش مجمع البحوث الاسلامیة، مشهد، آستانه رضویه، 1415ھ.
  • جواهری، سید محمدحسن، «واکاوی ملاک تحدی در قرآن و نقد منطق تنزّلی»، پژوهش‌های قرآنی، ہجری شمسی2، 1395ہجری شمسی.
  • خرمشاهی، بهاءالدین، دانشنامه قرآن و قرآن‌پژوهی، تهران، نشر ناهید-دوستان، 1377ہجری شمسی.
  • رضایی اصفهانی، محمدعلی، پژوهشی در اعجاز علمی قرآن، رشت، کتاب مبین، چاپ پنجم، 1388ہجری شمسی.
  • رضایی، حسن‌رضا، «منبع‌شناسی اعجاز علمی قرآن»، در دوفصلنامه تخصصی قرآن و علم، س7، 1389ہجری شمسی.
  • سبحانی، جعفر، الالهیات علی هدی الکتاب و السنة و العقل، قم، مرکز العالمی للدراسات الاسلامیة، 1412ھ.
  • سید مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، تحقیق سید مهدی رجائی، قم، دار القرآن الکریم، 1405ھ.
  • سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، تحقیق فواز احمد زمرلی، بیروت، دار الکتب العربی، ‍1421ھ.
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ.
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق احمد قصیر عاملی، بیروت، دار احیاء التراث العربی.
  • علوی مقدم، سید محمد، «اعجاز قرآن (2)»، پیام قرآن، ش4، 1373ہجری شمسی.
  • مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، تهران، انتشارات صدرا، 1384ہجری شمسی.
  • معارف، مجید، «جایگاه اعجاز علمی قرآن در تفسیر نوین»، در صحیفه مبین، ش37، 1385ہجری شمسی.
  • معرفت، محمدهادی، «اعجازالقرآن»، در دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، ج9، تهران، مرکز دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، 1379ہجری شمسی.
  • معرفت، محمدهادی، التمهید فی علوم القرآن، قم، مؤسسه اسلامی التمهید، 1388ہجری شمسی.
  • مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات فی المذاهب و المختارات‏، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، 1413ھ.
  • مؤدب، سیدرضا، اعجاز قرآن در نظر اهل بیت عصمت و بیست نفر از علمای بزرگ اسلام، قم، احسن الحدیث، 1379ہجری شمسی.
  • میرزامحمد، علیرضا، «مقدمه ویراستار»، در طباطبایی، سید محمدحسین، اعجاز قرآن، تهران، مرکز نشر فرهنگی رجا، 1372ہجری شمسی.
  • نوروزی، مجتبی، «کتابشناسی اعجاز عددی و ریاضی قرآن»، در آیینه پژوهش، ش27، 1390ہجری شمسی.
  • یزدانی، عباس، «اعجاز عددی و نظم ریاضی قرآن»، در کیهان اندیشه، ش77، 1375ہجری شمسی.