روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین (کتاب)

ویکی شیعہ سے
روضۃ الواعظین
مشخصات
مصنففتال نیشابوری (متوفی: 508ھ)
موضوعپیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ کی حالات زندگی
زبانعربی
مذہبشیعہ
ترجمہفارسی؛ محمود مهدوی دامغانی
طباعت اور اشاعت
ناشردلیل ما
مقام اشاعتقم
سنہ اشاعت1423ھ
اردو ترجمہ
ای بکhttp://lib.eshia.ir/11012


رَوضَۃُ الْواعِظین وَ بَصیرَۃُ الْمُتَّعِظین، پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے شیعہ عالم دین فتال نیشابوری (متوفی: 508ھ) کی کتاب ہے جسے پیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ کی حالات زندگی کے بارے میں تحریر کی گئی ہے۔ یہ کتاب 96 مجالس پر مشتمل ہے جو ہمیشہ علماء اور بزرگوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔

کتاب روضۃ الواعظین بحارالانوار کے منابع اور مآخذ میں شمار ہوتی ہے۔ بعض منابع میں روضۃ الواعظین کو غلطی سے شیخ مفید کی طرف نسبت دی گئی ہے۔

مصنف

محمّد بن حسن بن علی بن احمد بن علی فَتّال نیشابوری، ابن فتال اور ابن فارسی کے نام سے مشہور پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے فقیہ اور عالم دین ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر اور بعض کتابوں میں ابو علی ذکر کی گئی ہے۔ آپ ابن شہر آشوب کے استاد ہیں۔ شیخ طوسی اور سید مرتضی سے آپ نے روایت نقل کی ہے۔ آپ کی دو تصانیف روضۃ الواعظین اور التنویر فی معانی التفسیر میں تو کوئی شک و تردید نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بعض نے کتاب مونس الحزین کو بھی آپ کی طرف نسبت دی ہے۔ فتال نیشابوری سنہ 508 ہجری کو شہاب الاسلام کے ہاتھوں قتل ہوا۔ آپ کو شہید کے لقب سے بھی یاد کیا گیا ہے۔

کتاب کا نام اور موضوع

اس کتاب کا نام جیسا کہ خود کتاب کی ابتداء میں آیا ہے «روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین» ہے لیکن بعض منابع میں «روضۃ الواعظین و تبصرۃ المتعظین» کے نام سے بھی یاد کی گئی ہے۔[1]

یہ کتاب چودہ معصومینؑ کی تاریخ اور مناقب میں لکھی گئی ہے اسی طرح اس میں واعظ و نصیحت اور اخلاقیات پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ خود مؤلف کے بقول اصول دین اور فروع دین نیز زہد اور مواعظ حسنہ اس کتاب کا موضوع ہے۔

مضامین

یہ کتاب امالی کی طرز پر تحریر کی گئی ہے جو 96 مجالس پر مشتمل ہے۔

  • تین مجالس عقل کی حقیقت اور اس کی افضلیت نیز خدا کی معفرت اور خدا کی کبرائی پر دلالت کرنے والی حیرت انگیزیوں کے بارے میں ہے۔
  • چوتھی مجلس سے چھٹی مجلس تک نبوت کے بارے میں ہے۔
  • ساتویں مجلس سے گیارہویں مجلس تک امیرالمؤمنینؑ حضرت علیؑ کے بارے میں ہے۔
  • بارہویں مجلس ایمان ابو طالب اور فاطمہ بنت اسد کی حالات زندگی کے بارے میں ہے۔
  • تیرہویں مجلس سے سولہویں مجلس تک حضرت زہرا(س) کے بارے میں ہے۔
  • سترہویں مجلس سے اکتیسویں مجلس تک ائمہ اطہارؑ کی حالات زندگی اور ان کے مناقب کے بارے میں ہے جس کے بعد فروع دین اور اخلاقی مباحث ہیں۔

یہ مجالس موضوع کے اعتبار سے کبھی مفصل ہیں (جیسے دوسری مجلس) اور کبھی مختصر (جیسے انیسویں مجلس)۔ مصنف نے مجالس‌ کی تدوین میں تاریخی ترتیب کی رعایت نہیں کی ہے، مثلا پیغمبر اکرمؐ کی ولادت کو بعثت کے بعد ذکر کیا ہے اور اسی طرح بعض مباحث جیسے پیغمبر اکرمؐ کی جنگوں اور غزوات کا ذکر نہیں کیا ہے۔[2]

اس کتاب کی پہلی مجلس میں سب سے پہلے عقل کی حقیقت اور اس کی فضیلت کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ اس فصل کو قرآن کریم کی تین آیتوں سے شروع کیا ہے جو یہ ہیں: سورہ آل‌عمران آیت نمبر 190 إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّہَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ مسلماً بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کی ادل بدل میں صاحبانِ عقل کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ سورہ طہ آیت نمبر 54 كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِأُولِي النُّہَىٰ «خود بھی کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو بھی چراؤ۔ بےشک اس (نظام قدرت) میں صاحبانِ عقل کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں۔» اور سورہ فجر آیت نمبر 5 ہَلْ فِي ذَٰلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍکیا اس میں صاحبِ عقل کیلئے کوئی قسم ہے؟ (یعنی یقیناً ہے)؟ [3] اس کتاب کی آخری فصل جہنم اور اس کی کیفیت کے بارے میں ہے جس کا آغاز قرآن کی بعض آیتوں سے ہوتا ہے اور اس میں آخری حدیث ابن عباس کی حدیث ہے جو جہنم اور اس کے عذاب‌ کے بارے میں ہے۔ کتاب کے آخری اختتامی حصے میں روز قیامت اور اس دن خدا کے سامنے گناہ گار لوگوں کی حالات کے بارے میں موجود اشعار پیش کی گئی ہیں۔ ان اشعار کے بعض حصے یوں ہیں:

إلہي كأنّی في القيامۃ واقف‌و قد فاض دمعي حين أقرأ كتابيا
يقول لي الجبّار اقرأ فإنني‌أثيبك يا عبدي بما كنت ساعيا
فيا سوأتي من موقفي و صحيفتي‌تخبرہ تحصي عليَّ الدواہي[4] [یادداشت 1]

ہدف نگارش

مصنف اس کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:

جوانی کے ایام میں لوگوں کے لئے مجالس پڑھتا تھا اور اصول دین اور فروع دین کے بارے میں ان کے سوالات کا جواب دیتا تھا۔ پھر مجھ سے تقاضا کیا گیا کہ ان کے لئے وعظ و نصیحت اور گناہوں سے محفوظ رہنے کا طریقہ انہیں بتایا جائے، لیکن مجھے یہ ساری چیزیں کسی ایک کتاب میں نہیں ملتی لھذا میں نے خود اس کام کو شروع کیا اور معصومینؑ کے کلام اور ان کی احادیث کو جمع کرنا شروع کیا جو خود ایک کافی مشقت طلب کام تھا۔ ان احادیث کے اسناد کو حذف کیا کیونکہ رائج او مشہور احادیث کے لئے اسناد ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔[5]

کتاب کی اہمیت اور اعتبار

کتاب روضۃ الواعظین تألیف کے وقت سے ہی مورد توجہ اور استناد قرار پائی ہے۔ یہ کتاب بحارالانوار کے منابع اور مآخذ میں شمار ہوتی ہے۔ مؤلف تأکید کرتا ہے کہ اس کتاب میں کوئی ایسی حدیث ذکر نہیں کی گئی مگر یہ کہ اس کا مفہوم صحیح اور واضح شیعہ اعتقادات کے ساتھ ہماہنگ نہ ہو۔[6]

کتاب کے ترجمے کی تصویر جس کا ترجمہمحمود مہدوی دامغانی نے کیا ہے

منابع

اس کتاب کے منابع یہ ہیں: محمد بن یعقوب کلینی کی کتاب کافی، شیخ صدوق کی متعدد کتابیں جیسے امالی، خصال، عیون اخبار الرضا، کمال الدین اور معانی الاخبار، شیخ مفید کی کتابیں خاص کر امالی اور ارشاد، شیخ طوسی کی کتابیں کہ اکثر موارد میں ان کی عبارات اور بعض موارد میں ان کا خلاصہ یا بعض اوقات دونوں چیزیں آئی ہیں۔[7]

چہ بسا اس کتاب کو غلطی سے شیخ مفید کی طرف نسبت دی گئی ہے جو کہ صحیح نہیں ہے۔ ظاہرا یہاں شیخ مفید سے مراد ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن نعمان متوفی 413ھ نہیں ہے۔ بلکہ مراد محمد بن حسین نیشابوری جو مفید کے لقب سے ملقب ہے ہیں جو ابو الفتوح رازی کے جد امجد اور شیخ عبدالرحمن مفید نیشابوری کے بھائی ہیں۔[8]

ترجمہ اور نسخہ جات

اس کتاب کا سنہ 1366ھ میں محمود مہدوی دامغانی نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کی بعض اشاعتیں درج ذیل ہیں:

  • سنہ 1303ھ سنگی نسخہ، تبریز کتابخانہ حاج ملا عباس علی۔
  • سنہ 1377ھ قم، کتابخانہ مصطفوی۔
  • سنہ 1406ھ بیروت، مؤسسہ اعلمی۔
  • سنہ 1386ھ نجف، چاپخانہ الحیدریۃ۔

حوالہ جات

  1. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج104، ص83۔
  2. فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ترجمہ مہدوی دامغانی، 1366ہجری شمسی، ص15۔
  3. فتّال نیشابوری، روضۃ الواعظين و بصيرۃ المتعظين، 1375ہجری شمسی، ج1، ص2۔
  4. فتّال نیشابوری، روضۃ الواعظين و بصيرۃ المتعظين، 1375ہجری شمسی، ج2، ص509۔
  5. فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، 1403ھ، ص15۔
  6. روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، کتابخانہ دیجیتال نور۔
  7. روضۃ الواعظین، ترجمہ مہدوی دامغانی، 1366ہجری شمسی، ص15۔
  8. فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ترجمہ مہدوی دامغانی، 1366ہجری شمسی، ص15 و 16۔

نوٹ

  1. خدایا گویا میں قیامت کے دن کھڑا ہوں اور میرا نامہ اعمال پڑھا جا رہا ہے اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور خدائے جبار مجھ سے مخاطب ہے اور فرما رہا ہے کہ اپنے نامہ اعمال کو پڑھو، جس چیز کے بارے میں تم نے کوشش کی ہے اس کا صلہ دیا جائے گا۔ پس وای ہو میرے اوپر اور اس دن میری حالات پر اور میرے نامہ اعمال پر کہ جس کی وجہ سے میرے اوپر یہ تمام مشکلات اور بلائیں نازل ہو رہی ہے۔

مآخذ

  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ھ۔
  • فتال نیشابوری، محمد بن حسن، روضۃ الواعظین، قم، دلیل ما، 1423ھ۔
  • فتال نیشابوری، محمد بن حسن، روضۃ الواعظین، ترجمہ مہدوی دامغانی، تہران، نشر نی، 1366ہجری شمسی۔
  • روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین، کتابخانہ دیجیتال نور، تاریخ بازدید: 12 اسفند 1398ہجری شمسی۔